Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۲ھ -جولائی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

7 - 11
شعر وشاعری اور محفل سماع کی حقیقت !
شعر وشاعری اور محفل سماع کی حقیقت
(۲)

موسیقی کی حرمت پر دلائل
قرآن عظیم کی تین آیات جو اس مضمون کی پہلی قسط میں ذکر ہوئیں ہیں، ان سے مفسرین نے حرمتِ غنا (گانے کی حرمت) پر استدلال کیا ہے۔ قرآن کریم کی آیات کے مطالب بیان کرنے میں مفسرین کو بنیادی اور معیاری حیثیت حاصل ہے،چنانچہ ان تین آیات میں سے سورہٴ لقمان کی آیت میں ”لَہْوَالْحَدِیْثِ“ کا لفظ آیا ہے، یہ لفظ اگرچہ بیہودہ کلام اور داستانوں پربھی بولاجاتا ہے، لیکن فتاویٰ حمادیہ اور عوارف المعارف میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود دونوں صحابہ کرام نے قسم کھا کر فرمایا کہ ”لَہْوَالْحَدِیْثِ“ سے غنا (گانا)اور باجے مراد ہیں۔ اسی طرح سورہٴ نجم کے آخر میں ”وَأَنْتُمْ سَامِدُوْنَ“ کی تفسیر ”وَأَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ“ سے کی گئی ہے ، یعنی تم بیہودہ گاتے رہتے ہو۔
ان تین آیات کے علاوہ بے شمار احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیقی کی حرمت سے متعلق واضح فرامین ارشاد فرمائے ہیں، مثلاً: مشکوٰة شریف،ص:۴۰۹ پر حضرت ابوہریرہ کی حدیث اورص:۴۱۰ پر حضرت ابوامامہ کی حدیث کو ملاحظہ فرمائیں، پھر ص:۴۱۱ پر حضرت ابوسعید خدری ، حضرت جابر اور حضرت ابن عمر کی روایات دیکھیں۔ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
”نہیت عن صوتین أحمقین فاجرین صوتٍ عند مصیبة…وصوت مزامیر“۔ (ترمذی،ج:۱،ص:۱۹۶)
ترجمہ:۔”میں نے تم کو دو احمق اور فاسق آوازوں سے منع کیا ہے :۱:- میت پر بین کرنے کی آواز۲:-باجوں کی (یعنی غنا کی) آواز“ ۔
ایک حدیث میں ہے کہ:” ابلیس ہی وہ پہلا شخص ہے، جس نے گانا گایا اور بین کیا“۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”استماع الملاہی معصیة والجلوس علیہا فسق والتلذّذ بہا کفر“۔
(نیل الأوطار،ج:۸،ص:۱۰۰ بحوالہ اسلام اور موسیقی)
ترجمہ۔” گانا سننا حرام ہے اور اس سے لذت حاصل کرنا کفر (یعنی کفران نعمت) ہے اور اس کے لئے جمع ہونا گناہ اور فتنہ ہے“۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
”مارفع احد صوتہ بغناء الا بعث الله علیہ شیطانین یجلسان علی منکبیہ یضربان بأعقابہما علی صدرہ حتی یمسک“۔ (مجمع الزوائد،ج:۲،ص:۱۲۰)
ترجمہ۔” جب کوئی شخص گانا گاتا ہے اور اس کی آواز بلند ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوشیطانوں کو بھیجتا ہے ، ایک شیطان اس کے ایک کندھے اور دوسرا دوسرے کندھے پر بیٹھ جاتا ہے اور مسلسل اپنے پیروں سے اس کے سینہ پر مارتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ شخص گانے سے خود رک جائے“۔
ایک حدیث میں ہے کہ ”الغناء حرام فی الادیان کلہا“ یعنی تمام ادیان میں باجے گاجے حرام ہیں ۔ (کف الرعاع)
قاعدہ یہ ہے کہ جب نصوص میں بظاہراختلاف ہوتا ہے تو صحابہ کرام کے اقوال کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، صحابہ کرام بھی غنا اور سرود کو حرام قرار دیتے ہیں، چنانچہ حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں:
”ما غنَّیتُ ولاتمنیت ولامسست ذکری بیمینی منذ بایعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم“۔
(ابن ماجہ ص:۲۷)
ترجمہ۔” میں نے نہ گانا گایا، نہ اس کی تمنا کی اور جب سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، اپنے دائیں ہاتھ سے شرم گاہ کو نہیں چھوا“۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا:
”الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل“۔
(بیہقی ج:۱۰،ص:۲۲۳ بحوالہ اسلام اور موسیقی)
ترجمہ۔” گانا دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے، جس طرح پانی گھاس کو اگاتا ہے“۔
تابعین اور تبع تابعین بھی غناء کو حرام قرار دیتے ہیں، چنانچہ فضیل بن عیاض فرماتے ہیں: ”الغناء رقیة الزنا“․․․ گانا بجانا زنا کا منتر ہے۔
علامہ ضحاک فرماتے ہیں
”الغناء منفدة للمال مسخطة للرب مفسدة للقلب“۔ (تلبیس ابلیس ص:۳۰۳)
ترجمہ:۔” گانا بجانا مال کو برباد کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے اور دل کو خراب کرتا ہے“۔
یزید بن ولید ناقص تابعی کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا:
”ایاکم والغناء فانہ ینقص الحیاء و یزید الشہوة ویہدم المرؤة“۔
(روح المعانی،ج:۲۱،ص:۶۸)
ترجمہ:۔” تم گانے بجانے سے بچو، کیونکہ یہ حیاء کو کم کرتا ہے، شہوت کو بڑھاتا ہے اور انسانیت کو گراتاہے“۔
امام مالک فرماتے ہیں کہ: اگر کسی نے لونڈی خریدی اور وہ مغنّیہ نکلی تو یہ اس سودے میں عیب ہے، یہ شخص سودے کو فسخ کرسکتا ہے۔
امام ابوحنیفہ بھی غنا کی حرمت کے قائل ہیں، فرمایا: ”میں ایک دفعہ اِس مصیبت میں مبتلا ہوگیا تھا تو میں نے صبر کیا، لیکن جب میں مقتدیٰ بنا اور پھر مبتلا ہوگیا تو مجلس سے اٹھ کر چلا گیا“۔ واضح ہو کہ ابتلاء حرام کی وجہ سے ہوتا ہے، لہذا اس کلام میں غناء کی حرمت کی طرف اشارہ ہے۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ ”جو آدمی زیادہ گاتا ہے، وہ احمق، بے وقوف اور مردود الشہادة ہے“۔
بہرحال یہ تمام دلائل غناء کی حرمت پر موجود ہیں، لہذا اس کی حرمت میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ہے، ہاں خواہش پرستی الگ چیز ہے۔
غناء کے جواز پر اہل باطل کا باطل استدلال
غناء کی حرمت اتفاقی مسئلہ ہے، اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے اور نہ اس اختلاف کی کوئی شرعی حیثیت ہے۔ کچھ لوگوں کو کچھ نصوص میں شبہ ہوگیا ہے یا فساد باطن کی وجہ سے دانستہ طور پر انہوں نے نصوص کا غلط مطلب بیان کیا ہے۔ اس کو میں اس لئے یہاں ذکر کرتا ہوں کہ کوئی خواہش پرست آدمی عام لوگوں کو دھوکہ نہ دے سکے، ورنہ نہ یہاں کوئی دلیل ہے، نہ کوئی استدلال ہے، چنانچہ باطل پرست سورہٴ مائدہ کی آیت:
”وَإِذَا سَمِعُوْا مَآ أُنْزِلَ إِلٰی الرَّسُوْلِ تَرَیٰ أَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ“۔ (مائدہ:۸۳)
ترجمہ:۔”اور جب سنتے ہیں وہ کچھ جو رسول پر اتارا گیا ہے، تو تم دیکھوگے ان کی آنکھوں کو جو آنسوں بہاتی ہوں گی، اس وجہ سے کہ انہوں نے حق بات کو پہچان لیا“۔
اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ دیکھو! جب سنا تو روئے، غناء (گانا) کے سننے میں بھی رونا آتا ہے۔ اہلِ سماع نے بھی اس آیت سے سماع کی اباحت پر استدلال کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ غناء کے اثبات کے لئے اس آیت سے استدلال تحریف فی القرآن ہے، جو حرام ہے۔ یہاں گانا سننے کی بات نہیں ہے، بلکہ حق سننے کی بات ہے، باقی سماع کی بات آئندہ آرہی ہے۔اسی طرح اہل باطل نے آیت:
”تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ“۔ (زمر:۲۳)
ترجمہ:۔”بال کھڑے ہوتے ہیں اس سے ان لوگوں کی کھال پر جو اللہ سے ڈرتے ہیں، پھر نرم ہوتی ہیں ان کی کھالیں“۔
اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے، یہ بھی تحریف قرآن ہے اور یہ ان لوگوں کی کھلی گمراہی ہے،کیونکہ یہاں گانا سننے کا اثر نہیں بتایا ہے، یہاں تو قرآن سننے کا اثر بتایا گیا ہے، البتہ سماع والے اس سے استدلال کرتے ہیں، جس کی بحث آرہی ہے۔اہل باطل اس آیت سے بھی غناء پر استدلال کرتے ہیں:
”قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللهِ الَّتِیْ أَخْرَجَ لِعِبَادَہ “۔ (اعراف:۳۲)
ترجمہ:۔”تو کہہ دے: کس نے حرام کیا اللہ کی زینت کو؟ جو اس نے پیدا کی اپنے بندوں کے واسطے“۔
ان کا یہ استدلال بھی غلط ہے، کیونکہ زینت سے باجے اور طبلے مراد نہیں ہیں، نہ کسی مفسر نے اس طرح تفسیر کی ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں یہ بات آئی ہے۔اہل باطل ایک حدیث سے بھی غناء کے جواز پر استدلال کرتے ہیں کہ:” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت عائشہ کے گھر میں دو بچیاں گارہی تھیں، حضرت ابوبکر صدیق نے منع کیا، حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دعہما یا ابا بکر! فانہا ایام عید“․․․ اے ابوبکر !ان کو چھوڑ دو، کیونکہ یہ عید کا دن ہے۔اس حدیث سے استدلال کرنا بھی غلط ہے، کیونکہ یہاں سادہ اشعار پڑھنے کی بات ہے، چھوٹی بچیاں ہیں۔ اس پر طبلے اور سارنگی والے گانوں کو قیاس کرنا اور بالغ عورتوں کے ڈانس کے لئے استدلال کرنا حماقت ہے۔
چنانچہ یہ حماقت اس وقت سامنے آئی جب ۱۹۷۴ء میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک والوں نے بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں رقص وسرود کے خلاف تحریک التوا پیش کی اور گانے بجانے کو حرام قرار دیا، تو کوثر نیازی صاحب اور اس وقت کے وزیر قانون پیرزادہ صاحب نے زور وشور سے اس کی مخالفت کی اور گانے بجانے کے جواز پر مذکورہ روایت پیش کی اور رقص وسرود کی زبردست حمایت کی، اس پر جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے بانی شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب نے کہا کہ: دیکھو بھائی! گانے بجانے ،طبلوں اور باجوں کا یہ اثر ہے کہ آج کل ایک کی بیوی دوسرے کی گود میں پڑی ہے۔ ان جملوں پر عبد الحفیظ پیرزادہ نے سخت احتجاج کیا اور ایک ہنگامہ کھڑا کردیا کہ یہ غیر پارلیمانی الفاظ ہیں، ان کو واپس لینا ہوگا۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے کہا کہ: مولانا نے کسی کا نام نہیں لیا، بلکہ اخبار میں چھپنے والے بیان کی بات کی ہے، مگر پیرزادہ بضد تھا کہ یہ الفاظ واپس لے لو، مولانا نے اپنے الفاظ واپس لے لئے۔ اس کے بعد وزیر قانون پیرزادہ نے کہا کہ سندھ کا جھومرناچ، پنجاب کا بھنگڑا ناچ، سرحد کا خٹک ناچ اور بلوچستان کا لیوا ناچ پاکستان کا ثقافتی ورثہ ہے۔ پیرزادہ کے بعد حکومتی ممبر کرنل حبیب نے کہا کہ: یہ لوگ باربار طوائفوں کا ذکر کرتے ہیں، جبکہ سارے آداب طوائفوں کی کوٹھیوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جاکر طوائفوں کی کوٹھیوں سے ادب سیکھ کر آئیں، میں خود بیس سال تک میوزک ڈانس کے ساتھ رہاہوں، جو آدمی میوزک نہیں جانتا، وہ پاک آدمی بن نہیں سکتا۔
اس کے جواب میں اپوزیشن ممبر قومی اسمبلی محمود علی قصوری نے کہا کہ ہمیں بتایاجائے کہ قائد ایوان جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کتنے عرصہ تک میوزک کے ساتھ وابستہ رہے ہیں، جس سے وہ پاک آدمی بن گئے ہیں؟۔
خلاصہ یہ کہ جو لوگ موسیقی کو قرآن وحدیث سے ثابت کرتے ہیں، یہ ان کی مزید بدبختی ہے کہ قرآن وحدیث میں تحریف کے مرتکب اور مجرم بن گئے، ورنہ ان کوموسیقی کے جواز کو ثابت کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ وہ بغیر جواز کے اس کو جائز کہہ سکتے ہیں اوررقص کرسکتے ہیں۔
میوزک اور سماع کو ثابت کرنے کے لئے ایک من گھڑت قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت جبریل امین علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا کہ یارسول اللہ! آپ کی امت کے فقراء اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا: کوئی گانے والا ہے؟ ایک بدوی نے کہا: میں گاتا ہوں، اس نے یہ شعر پڑھے:
قد لسعت حیة الہویٰ کبدی
فلاطبیب لہ ولا راقی
ترجمہ:۔”محبت کے سانپ نے میرے جگر پر ڈنگ مارا ہے، اب علاج کے لئے نہ ڈاکٹر ہے اور نہ دَم کرنے والا ہے“۔
الا الحبیب الذی شغفت بہ
فعندہ رقیتی وتریاقی
ترجمہ:۔”ہاں صرف معشوق ہے، جس پر میں عاشق ہوں، اسی کے پاس میرا دَم بھی ہے اور تریاق بھی“۔
اس شعر پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام وجد میں آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کندھوں سے اتر گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کو پھاڑ کر چار سو ٹکڑے کردیئے اور صحابہ کرام پر تقسیم کر دئے۔ یہ قصہ اتنا مکروہ لگتا ہے کہ اس کے لکھنے سے بھی مجھے شرم آتی ہے۔
”کف الرعاع عن مسئلة اللہو والسماع “میں ابن حجر ہیثمی نے اور عوراف المعارف میں اس کے مؤلف نے یہ قصہ لکھا ہے اور پھر اس پر رد کیا ہے۔ اس قصہ سے غنا ء ثابت کرنا فضول ہے، البتہ سماع والے اس کو بڑا اچھالتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔
اب سماع سے متعلق کچھ ملاحظہ فرمایئے۔ یہاں سماع سے مراد سماع موتیٰ نہیں ہے، بلکہ زندہ، مدہوش اور پُرجوش مست قلندروں کی محفلِ سماع مراد ہے، جو قدیم زمانہ میں زیادہ تھی اور آج بھی اس کا وجود اہل بدعت کے ہاں ہے، جس پر قوالی کا اطلاق زیادہ مشہور ومعروف ہے۔
قدیم زمانہ کی محفل سماع میں علماء کا ختلاف رہا ہے۔ جمہور علماء اور فقہاء اور صلحاءِ امت مطلقاً سماع کا انکار کرتے ہیں اور اس پر نکیر کرتے ہیں، البتہ اہل تصوف کا ایک مختصر طبقہ چند شرائط کے ساتھ سماع کا قائل ہے، وہ شرائط یہ ہیں:
۱…جب صرف وجد اور جوش پیدا کرنے والے اشعار ہوں۔
۲…جب بے ریش لڑکوں سے اختلاط نہ ہو اور نہ ان سے اشعار پڑھوائے جارہے ہوں۔
۳… اس محفل میں عورت ذات کا بالکل وجود نہ ہو۔
۴…کسی قسم کا طبلہ باجا ساتھ نہ ہو۔
۵…یادِ آخرت اور تذکرہٴ حبیب صلی اللہ علیہ وسلمکے لئے ہو، اس میں قبیح اشعار نہ ہوں۔
۶…سننے والے ریاکار نہ ہوں، نہ دنیوی اغراض ہوں اور نہ نیت خراب ہو۔
۷…نہ اجرت پر محفل سماع منعقد ہواور نہ پڑھنے والا اجرت لیتا ہو۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ: اگر کوئی شخص تنہائی میں وحشت دور کرنے کے لئے اشعار پڑھتا ہو تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ اس کے ساتھ طبلے اور مزامیر نہ ہوں۔
سوچنے والے کو سوچنا چاہئے کہ مندرجہ بالا شرائط کا وجود کسی محفل سماع میں تقریباً ناممکن ہے تو سماع کو کس طرح جائز کہا جاسکتا ہے؟ آج کل تو ذکر اللہ کے ساتھ میوزک شامل ہے ، ہرقوالی میں ڈھول کی تھاپ سے مجلس کو گرمایاجاتا ہے۔
کہاں وہ صالح سماع اور کہاں آج کل کے خرافات؟ ہاں آج کل جو نظمیں جلسوں وغیرہ میں پڑھی جاتی ہیں، شاید ان میں سے بعض مجالس ان شرائط پر پوری اترتی ہوں اور جائز ہوں۔
سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی کا قول ہے، فرمایا:”سماع کی ناقص کو اجازت نہیں، کامل کو ضرورت نہیں“ ۔یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ کبھی نفسِ امّارہ وجد میں آتا ہے اور خوش ہوتا ہے اور کبھی روح وجد میں آتی ہے۔ لوگ روح اور نفس کے وجد میں فرق نہیں کرسکتے ہیں، مزہ تو آرہا ہے نفس امّارہ کو جو شہوانیت ہے اور آدمی سمجھ رہا ہے کہ یہ روحانیت ہے۔
حکایت
حکیم الامت حضرت تھانوینے اپنے ملفوظات میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ہندوستان میں ایک محفل سماع میں دو انگریز آکر بیٹھ گئے، سماع کے دوران ان کو بڑا وجد آگیا، لوگوں نے کہاکہ واہ واہ! سماع کا کیا کہنا ؟انگریز پر بھی اثر کرگیا۔ جب حضرت تھانوی کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ ان کے نفس کو وجد آرہا تھا، روح کو نہیں۔ یہ شہوانیت تھی، نہ کہ روحانیت۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دیکھو سانپ کے سامنے جب بین بجائی جاتی ہے تو وہ کس قدر خوش ہوکر اچھلتا ہے! یہ اس کی روحانیت نہیں، بلکہ نفسانیت ہے۔
ایک ریا کار پیر کا قصہ
محفل سماع میں ریاکاری اور ٹھگ پیروں کی بھی کمی نہیں ہوتی ہے، چنانچہ محفل سماع سے متعلق علماء سے ایک قصہ سنا ہے کہ : ایک ریاکار پیر صاحب نے محفل سماع سجائی اور مصنوعی وجد میں اچھلنے لگا، لوگ بھی اچھلنے لگے۔ پیر صاحب کی پگڑی میں چار آنے بندھے ہوئے تھے کہ اچانک گرہ کھل گئی اور چار آنے گر گئے، اب اگر پیر صاحب سنجیدہ ہوکر اس کو ڈھونڈتا ہے تو لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ وجد میں نہیں ہے، جھوٹا ہے اور اگر چار آنے زمین پر گرے پڑے رہنے دیتا ہے تو اس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، چنانچہ وہ ریاکار سر دھنتا ہوا زبان سے اپنے چیلے کو کہتا ہے:آنچہ برسرداشتم بگذاشتم بگذاشتم ۔یعنی پگڑی میں جو چار آنے تھے وہ گر گئے ہیں، گرگئے ہیں۔ اس کے جواب میں اس کاٹھگ مرید بھی آدھا شعر پڑھتا رہا، سردھنتا رہا اور جواب دیتا رہا: غم مخور صوفی! کہ من برداشتم برداشتم ۔یعنی غم نہ کر صوفی! میں نے اٹھا لئے ہیں،اٹھا لئے ہیں۔ پورا شعر اس طرح بنا:
آنچہ برسرداشتم بگذاشتم بگذاشتم
غم مخور صوفی! کہ من برداشتم برداشتم
اس قسم کے ٹھگ لوگوں کا سماع کیا اور اس کی محفل کیا؟ اور اس میں وجد آنا کیا؟ سب دھوکہ ہے۔
بابا سعدی کا عجیب قصہ
سماع کے سننے کے بارے میں بابا سعدی نے اپنی کتاب گلستان میں اپنا قصہ لکھا ہے، فرماتے ہیں کہ: میں سماع کی محفلوں میں شریک ہوجایا کرتا تھا، میرے استاد ابو الفرج ابن جوزی نے مجھے باربار منع کیا، لیکن میں باز نہیں آیا۔ ایک دفعہ رات کے وقت میں ایک محفل میں شریک ہونے کے لئے گیا، چنانچہ رات بھر ایک مکروہ آواز والاشخص محفل میں اشعار سناتارہا، لوگ پریشان تھے، میں بھی پریشان تھا، ہم صبح آنے کی تمنا کررہے تھے، تاکہ اس کرب ومصیبت سے جان چھوٹ جائے۔ صبح آنے پر میں نے اپنی پگڑی اس گویّے کے سر پر رکھدی اور اس کو بوسہ دیا اور چلا آیا۔ میرے دوستوں نے مجھے ملامت کی کہ اتنے بڑے آدمی ہوکر یہ کیا حرکت کی؟ اپنی پگڑی ایک گویّے کو پہنادی؟۔ میں نے کہا خاموش ہوجاؤ! اس شخص نے مجھے بڑا فائدہ پہنچایا ہے، میں اپنے استاد کے منع کرنے پر محفل سماع سے باز نہ آیا، لیکن اس گویّے کی شکل وصورت اور اس کی قبیح آواز نے مجھے ہمیشہ کے لئے سماع سے متنفر کردیا، یہ میرا بڑا استاد بن گیا، اس لئے اس کو پگڑی پہنادی۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۲ھ -جولائی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: غلاموں سے متعلق اسلام کے رہنما احکام !
Flag Counter