Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۲ھ -جولائی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

5 - 11
اسرارقبلہ !
اسرارقبلہ (آخری قسط)

خلاصہ یہ کہ عرشِ عظیم اس ربِ عظیم کی شانِ احکم الحاکمینی کی ایک تجلّی گاہ اور نمائش گاہ ہے۔ معاذ اللہ خدائے بے چون وچگون کی جائے قرار اور محلِ استقرار نہیں۔ غرض یہ کہ عرشِ عظیم اللہ تعالیٰ کی اوّل مخلوق ہے۔
عرش کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے زمین کو پیدا فرمایا اور اس کے بعد آسمان کو پیدا کیا، جیسا کہ سورہٴ بقرہ میں ہے: ”ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِیْ الأرضِ جَمِیْعاً ثُمَّ اسْتَوٰی إلٰی السَّمَآءِ فَسَوّٰاہُنَّ سَبعَ سَمٰوَاتٍ وَہُوَ بِکُلّ شَئٍ عَلِیمٌ“ (بقرہ:۲۹)اور سورہٴ حم السجدہ میں مصرّح ہے: ” ثُمَّ اسْتَوٰی إِلیٰ السَّمآءِ وَہِیَ دُخَانٌ“(حم سجدہ:۱۱) سورہ بقرہ اور سورہ ٴ حم سجدہ کی ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا اور پھر آسمان کو اور قیاس وعقل بھی اسی کو مقتضی ہے کہ پہلے زمین پیدا ہو اور آسمان بعد میں، اس لئے کہ حق تعالیٰ نے زمین کو فرش اور آسمان کو سقف (چھت) فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ تعمیر چھت کی جانب سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ فرش کی جانب سے ہوتی ہے۔
اور زمین میں سب سے اوّل جائے کعبہ کو پیدا کیا
حق جل شانہ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کی جگہ کو پیدا فرمایا اور پھر باقی زمین اسی جگہ سے بچھائی گئی اور پھیلائی گئی۔ زمینِ کعبہ کا ٹکڑا کرہٴ ارض کا مرکزی نقطہ ہے، جو ٹھیک وسط ِارض میں واقع ہے، جیساکہ : ”إنَّ أوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبَارَکاً“ اس پر دال ہے، وکما یدل علیہ قولہ تعالیٰ:” وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أمَّةً وَسَطاً“ اور ایک روایت میں ہے کہ اول پانی تھا اور اس پانی پر عرشِ کبریائی تھا، پھر اس پانی میں سے جہاں اس جگہ خانہ کعبہ ہے، ایک بلبلا سا اٹھااور جھاگ نمودار ہوئی، اس سے زمین کی بنا شروع ہوئی۔
یہ روایت بھی خانہ کعبہ کی اوّلیت پر دلالت کرتی ہے اور اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اس جگہ کا عرش اور عرش کے پانی سے خاص تعلق ہے۔اور جس طرح خانہ کعبہ آبادی میں اول ہے، اسی طرح ویرانی میں بھی اول ہے کہ قیامت کے وقت یہی ٹکڑا سب سے پہلے ویران ہوگا، جیساکہ یہ آیت:”جَعَلَ اللهُ الْکَعبَةَ البَیْتَ الحَرَامَ قِیَاماً لِلنَّاسِ“ اس پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ” قِیَاماً لِلنَّاسِ “کا مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ گھر قائم ہے، جبھی تک بنی آدم کا بھی اس عالم میں قیام ہے اور جس دن یہ ویران ہوگا تو تمام کارخانہٴ عالم بھی ویران ہوجائے گا، کیونکہ بدلالتِ آیت ”خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِیْ الأرْضِ جَمِیْعًا“ یہ بات عیاں ہے کہ زمین وآسمان سب بنی آدم کے لئے ہیں، جب بنی آدم ہی نہ ہوں گے تو زمین وآسمان ہی کس کے لئے رہیں گے؟ گھانس دانہ گھوڑوں تک رہتا ہے، جب وہ نہیں رہتے تو اسے ہی کون رکھتا ہے؟ جب دارالخلافہ آباد کیا جاتا ہے تو اوّل مکاناتِ شاہی کے لئے کوئی جگہ تجویز ہوتی ہے اور اس کی بناڈالی جاتی ہے، اس کے بعد امراء اور وزراء اور رعایا کے مکانات بنتے ہیں اور جب دارالخلافہ بحکمِ شاہی کسی مصلحت سے ویران کیا جاتا ہے تو اول بادشاہ اپنے مکانات کو چھوڑتا ہے اور اس کی اتباع میں پھر خواص اور عوام اپنے اپنے مکانات چھوڑ کر اس کے پیچھے ہوتے ہیں ۔معلوم ہوا کہ محل سرائے جس طرح تعمیر میں اول ہے، اسی طرح تخریب میں بھی اول ہے۔
پس اسی طرح خانہ کعبہ کو بمنزلہ قصر شاہی یاخیمہٴ شاہی خیال فرمایئے اور کیوں نہ ہو وہ تجلی گاہ ربانی اور آئینہ ٴ جمال یزدانی ہے، اس لئے اس کو بنانے میں بھی اول رکھا اور ویرانی عالم کے وقت بھی اس کو اول رکھیں گے، چنانچہ آیت: ”إِنَّ أوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبَارَکًا“ اس کی اوّلیت تعمیر پر دلالت کرتی ہے اور آیت: ”جَعَلَ اللهُ الکَعبَةَ البَیتَ الحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاسِ“ جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ گھر لوگوں کے قیام اور بقاء کا باعث ہے) اس کی اولیتِ ویرانی پر دلالت کرتی ہے، اس لئے کہ حاصل اشارہ ٴ قرآنی یہ ہوا کہ جب تک یہ گھر قائم ہے، لوگ بھی اس عالم میں قائم ہیں اور جس روز یہ گھر ویران ہوگا، اس روز عالَم کو خراب اور ویران سمجھو۔
خانہ کعبہ عرش کی محاذات میں ہے
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ عرشِ عظیم کی محاذات میں ہے:
” ذکر عبد الرزاق عن ابن جریج عن عطاء وابن المسیب وغیرہما أن الله عز وجل أوحی إلی آدم اذا تہبطت ابن لی بیتا ثم احفف بہ کما رَأیتُ الملائکة تحف بعرشی الذی فی السماء“۔ (تفسیر قرطبی ص:۱۲،ج:۲)
ترجمہ:۔”امام عبد الرزاق نے ابن جریج اور عطاء اور سعید بن المسیب وغیرہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اے آدم! جب تم زمین پر اترو تو میرے لئے ایک گھر بناؤ اور پھر اس کا طواف کرو، جیساکہ تم نے فرشتوں کو میرے عرش کا طواف کرتے دیکھا ہے“۔
”وفی روایة عن ابن عباس قال لما اہبط آدم من الجنة إلی الارض قال لہ یا آدم اذہب وابن لی بیتا فطف بہ واذکرنی عندہ کمارأیت الملائکة تصنع بعرشی“۔ ( تفسیر قرطبی ص:۱۲۱،ج:۲)
ترجمہ:۔”اور ابن عباس سے مروی ہے کہ جب آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر اتارے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ فرمایا: اے آدم! تم جاؤ اور زمین پر میرے لئے ایک گھر بناؤ اوراس کا طواف کرو اور اس کے سامنے میرا ذکر کرو، جیساکہ تم نے فرشتوں کو میرے عرش کا طواف کرتے دیکھا ہے “۔
پس جبکہ خانہ کعبہ عرشِ عظیم کی محاذات میں ہے تو عرشِ عظیم کے انوار اور تجلّیات خانہ کعبہ میں منعکس ہوں گے اور اگر یہ کہا جائے کہ عرشِ عظیم اور خانہ کعبہ کے درمیان بیت المعمور واقع ہے (جو ساتویں آسمان پر فرشتوں کا قبلہ ہے) وہ درمیان میں حائل ہے۔تو جواب یہ ہے کہ اس کی حیلولت خانہ کعبہ پر عرشِ عظیم کی تجلی سے مانع نہیں، اس لئے کہ بیت المعمور ایک صاف وشفاف آئینہ کی طرح ہے اور ٹھیک عرشِ عظیم کی محاذات میں واقع ہے، تو تقابل میں کوئی فرق نہ آئے گا اور نہ تعاکسِ انوار میں کوئی خلل آئے گا۔ اگر آفتاب کے سامنے یکے بعد دیگرے دو صاف وشفاف آئینے بالکل ایک دوسرے کی محاذات میں ہوں تو انعکاس میں کوئی فرق نہ آئے گا۔
مساجد خانہ کعبہ کی محاذات میں ہیں
جب یہ معلوم ہوگیا کہ خانہ کعبہ عرشِ عظیم کی محاذات میں ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ روئے زمین کی تمام مسجدیں خانہ کعبہ کی سمت پر واقع ہیں تو اس محاذات اور مسامتت کی وجہ سے خانہ کعبہ اور مساجد کے درمیان میں ایک معنوی تعلق اور ربط قائم ہوجائے گا، جیسے بجلی کے تاروں کا کسی مرکز سے تعلق ہوتا ہے، پس اس معنوی تعلق کی بنا پر خانہ کعبہ اور مساجد کے انوار وتجلیات میں توارد اور تعاکس ہوگا، اِدھر کے انوار اُدھر جائیں گے اور اُدھر کے انواراِدھر آئیں گے اور انعکاس کے معنی لغت میں لوٹ کر آنے کے ہیں، پس خانہ کعبہ بمنزلہ مرکزی نقطہ کے ہوگا اور اقطارِ عالم میں مساجد کی صفوف بمنزلہ دوائرِ محیط یا بمنزلہ خطوطِ دائرہ ہوں گی، جن کا منتہی وہی مرکزی نقطہ ہوگا جس کو خانہ کعبہ کہتے ہیں، جیسے بجلی کے تارکسی مرکز سے متعلق ہوتے ہیں تو بیک وقت تمام قمقمے روشن ہوجاتے ہیں، اس طرح عرش سے فرش تک اور فرش سے عرش تک آسمانوں اور روئے زمین کی تمام مسجدوں کے انوار وتجلیات میں عجیب قسم کا تجاذب اور تعاکس ہوگا۔
تعمیرِ بیت المقدس
حدیث میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بحکمِ خداوندی اوّل خانہ کعبہ کو تعمیر کیا اور پھر بحکمِ خداوندی چالیس سال بعد بیت المقدس کو تعمیر کیا۔
جس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ اور بیت المقدس میں چالیس سال کا تفاوت ہے۔ بظاہر اس تفاوت کی وجہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ بمنزلہ ایوانِ شاہی کے ہے اور خداوند ذو الجلال کی شانِ احکم الحاکمینی اور شانِ ارحم الراحمینی اور شانِ محبوبی کا مظہر اور تجلی گاہ ہے۔
اور بیت المقدس بمنزلہ ایوانِ وزراء اور دیوانِ حکّام اور بمنزلہ عدالت کے ہے کہ جو اس کی شانِ عدل اور قہر کا مظہر اور تجلی گاہ ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ عدالت اور ایوانِ وزراء محل شاہی سے کچھ فاصلہ پر ہوتا ہے، اس لئے قبلہ ٴ ثانی (بیت المقدس) کی عمارت خانہ کعبہ کی عمارت سے کچھ فاصلہ پر رکھی گئی۔ اہل نظر کا خیال ہے کہ شانِ عدل ،شانِ ارحم الراحمینی سے چالیس درجہ فروتر ہے، اس لئے خانہ کعبہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر ہوئی اور بیت المقدس خانہ کعبہ سے چالیس منزل کے فاصلہ پر شمال کی جانب میں واقع ہے، پس عجب نہیں کہ اس حدیث میں اسی تفاوت کی طرف اشارہ ہو اور غالبًا یہی وجہ ہے کہ انبیاء سابقین کے دور میں بیت المقدس نماز کا تو قبلہ رہا، مگر انبیاء سابقین حج خانہ کعبہ ہی کا کرتے رہے، کیونکہ خانہ کعبہ شانِ محبوبی کا مظہر اور تجلّی گاہ ہے اور حج کے تمام افعال سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا عاشقانہ عمل کسی محبوب کی رضا جوئی کے لئے ہے اور ہرسال حج میں جو اجتماع ہوتا ہے، اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کسی جمالِ بے مثال کا دیوانہ اور پروانہ بناہوا ہے۔ نہ سر پر عمامہ اور ٹوپی ہے اور نہ پیر میں کوئی موزہ اور جراب ہے اور نہ بدن پر قمیص اور پاجامہ ہے اور نہ کوئی سلاہوا کپڑا ہے۔ بدن پر صرف ایک ازار اور ایک چادر ہے، نہ کوئی خوشبو اور عطر ہے۔ دم بدم خدا کو پکار رہا ہے۔ نہ مرد کو عورت سے مطلب اور نہ عورت کو مرد سے مطلب۔ بہرحال خانہ کعبہ خانہٴ محبوبیت ہے اور بمنزلہ محلِ سرائے شاہی کے ہے اور بیت المقدس بمنزلہ عدالت اور کچہری کے ہے، جو فقط مظلومین کی داد رسی اور ظالمین کی سزاء کے لئے ہوتی ہے۔
اور چونکہ خانہ کعبہ عرشِ عظیم کی محاذات میں ہے، اس لئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کی برکات اور تجلیات کبھی اس سے جدا نہیں ہوتیں، اس لئے کہ خانہ کعبہ کی نسبت قرآن کریم میں لفظ ”مُبَارَکًا“ آیا ہے کہ برکت خانہ کعبہ کی صفتِ ذاتیہ ہے اور بیت المقدس کے بارہ میں ”بَارَکْنَا حَوْلَہ“ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس کی برکات عوارض کی طرح ممکن الانفصال ہیں، خانہ کعبہ کی طرح لازم الاتصال نہیں، یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس چند بار مخالفوں اور بے دینوں کے ہاتھوں سے خراب اور برباد ہوا اور خانہ کعبہ پر باوجود مخالفین کی کثرت اور شوکت کے آج تک اس کی نوبت نہیں آئی کہ اس کا ایک پتھر بھی مسمار کرنے کی نیت سے اکھاڑ سکے، جیساکہ اصحاب فیل کا قصہ اس کا شاہد ہے، اس لئے کہ اس کی برکات ذاتی ہیں اور وہ بمنزلہ محل سرائے اور دیوانِ خاص کے ہے، اس لئے اس کی نگہبانی ہمیشہ کے لئے ضروری ہے۔
خلاصہ
یہ کہ خانہ کعبہ جس طرح آبادی میں اول ہے، اسی طرح ویرانی اور بربادی میں بھی اس کا اول ہونا ضروری ہے کہ سارے عالم کی ویرانی اور بربادی کی ابتداء اسی سے ہو اور ایسی ہی جگہ قبلہ بنانے کے لئے لائق ہے کہ جو ہر اعتبار سے اول ہو اور انوار وتجلّیات کا مبدأ بھی وہی ہو اور منتہی بھی وہی ہو۔ اور ایسے قبلہ کے لئے اول ہی درجہ کا نبی اور اول ہی درجہ کی امت چاہئے کہ جو کمالاتِ یزدانی اور عنایاتِ ربانی کا مبدأ اور منتہیٰ ہو اور ایسا نبی سوائے خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ایسی امت سوائے امت محمدیہ کے اور کوئی نہیں جو کمالاتِ علمیہ یعنی علوم ومعارف میں اور کمالات ِ عملیہ یعنی عبدیّت اور عبودیّت میں سب سے اوّل ہے اور کمالاتِ عبودیت اس پر ختم ہیں، لہذا ایسے نبی اور ایسی امت کا قبلہ بھی وہی جگہ ہونی چاہئے کہ جو انوارِ ربانی اور تجلیاتِ یزدانی کا مبدأ اور منتہیٰ اور مرکزی نقطہ ہو۔
بیت اللہ شریف
اس خاص بیت اللہ کا نام اس وقت تک ہے کہ جب تک وہ اس خاص مکان اور خاص جوّ (خلاء)کے ساتھ مقید رہے، چنانچہ اگر اس کے پتھروں کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیں تو وہ بیت اللہ نہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ خیال کرے کہ بیت اللہ ایک کوٹھا ہے، جب ا سکو منہدم کردیا جائے تو بس حج نہ ہوگا، بلکہ اس زمین کا نام بھی نہیں، چنانچہ اگر تحت الثریٰ تک وہاں کی مٹی اٹھاکر دوسری جگہ ڈالدی جائے تب بھی بیت اللہ موجود ہے، پس بیت اللہ درحقیقت اس بُعدِ مجرّد کا نام ہے جو تحت الثریٰ سے عنان سماء تک ہے، نہ وہ کوٹھا بیت اللہ ہے اور نہ وہ زمین بیت اللہ ہے، چنانچہ اگر کوئی بیت اللہ شریف کے اوپر یا کسی مکان کے اوپر نماز پڑھے جو بیت اللہ سے بلند ہو تو اس کی نماز بلاشبہ درست ہے ۔ یہاں سے اس اعتراض کا جواب بھی ہوگیا جو بعض غیر قوموں نے کیا ہے کہ مسلمان بھی بت پرستی کرتے ہیں، یعنی کعبہ کی طرف سجدہ کرتے ہیں۔
تقریر جواب
تقریر جواب یہ ہے کہ ہم خانہ کعبہ کی عبادت اور پرستش نہیں کرتے اور نہ ہم خانہ کعبہ کو معبود اور مسجود سمجھتے ہیں۔ ہم عبادت صرف خدا کی کرتے ہیں، البتہ منہ قبلہ کی طرف کرتے ہیں، چنانچہ لفظ استقبال ِ کعبہ اور لفظ بت پرستی خود اس پر شاہد ہے۔ استقبال کے معنی صرف اس کی طرف منہ کرنے کے ہیں اور بت پرستی کے معنی یہ ہیں کہ بت معبود ہیں۔ ہاں اگر اہل اسلام کعبہ پرستی کے قائل ہوتے تو اعتراض بجا تھا۔ دوم :یہ کہ اہل اسلام کے نزدیک نماز کے صحیح ہونے کے لئے فقط کعبہ کی طرف منہ ہوجانا کافی ہے، استقبال کی نیت کی بھی ضرورت نہیں۔ مقصود معبود ہے، اس کی نیت ضروری ہے، جہتِ قبلہ اس کا وسیلہ ہے اورسوم:یہ کہ شروع سے لے کر اخیر تک کوئی لفظ بھی ایسا نہیں کہ جو خانہ کعبہ کی تعظیم پر دلالت کرے۔ شروع سے اخیر تک ہر لفظ اور ہر فعل حق تعالیٰ کی تعظیم اور کبریائی اور اس کی حمد وثناء اور تسبیح وتقدیس ہی پر دلالت کرتا ہے۔ اول سے اخیر تک خانہ کعبہ کا نام تک نہیں آتا اور بت پرستی میں ان پتھروں اور مورتوں کی تعظیم ہوتی ہے، جن کو آپ مہادیو اور شب وغیرہ بتاتے ہیں۔ غرض یہ کہ بت پرستی کو نماز سے کیا نسبت؟ببین تفاوت راہ از کجاست تابکجا
چہارم: یہ کہ خانہ کعبہ ان اینٹوں اور پتھروں کا نام نہیں اور نہ انہدامِ کعبہ کے بعد نماز موقوف ہوجاتی، یہی وجہ ہے کہ جس زمانہ میں خانہ کعبہ اور اس کی دیواریں منہدم ہوئیں، نماز بدستور قدیم جاری رہی، اگر دیوار کعبہ مسجود ومعبود یا مقصود ہوتی تو اس زمانہ میں نماز موقوف رہتی، بہت ہوتا تو یہ کہ بعد تعمیر ایامِ گذشتہ کی عبادت قضا کی جاتی۔ اور بت پرستی ظاہر ہے کہ بت ہی معبود اور مسجود اور مقصود ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کسی شوالے یا مندر سے بتوں کو اٹھاکر کہیں اور رکھ دیں تو پھر سارے فرائض وہیں ادا ہوتے ہیں، مکان اول کو کوئی نہیں پوجتا:ببین تفاوت راہ از کجا است تا بکجا اور یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے، اگر کعبہ مسلمانوں کا معبود ہوتا تو اس کے اوپر چڑھ کر نماز درست نہ ہوتی، اس لئے کہ خانہ کعبہ اب اس کے سامنے نہیں، نیز معبود پر چڑھنا گستاخی ہے۔ معترضین نے اپنے اوپر قیاس کیا ہوگا کہ وہ گائے اور بیل کو دیوتا اور معبود بھی سمجھتے ہیں، پھر ان پر سوار بھی ہوتے ہیں اور سامان بھی لادتے ہیں اور اگردیوتا جلدی جلدی نہیں چلتا تو پیچھے سے اس کے ڈنڈے بھی مارتے ہیں:بریں عقل ودانش بباید گریست
پنجم: خانہ کعبہ کو اہل اسلام بیت اللہ کہتے ہیں، اللہ یا خدا نہیں کہتے اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مکان کی طرف جاتا ہے تو مکین مقصود ہوتا ہے اور وہاں جاکر جو آداب ونیاز بجالاتا ہے، تو ہر شخص اس آداب ونیاز کو صاحبِ خانہ کے لئے سمجھتا ہے، جیسے تخت کی طرف جھک کر سلام کرنا تو وہ سلام صاحبِ تخت کو ہوتا ہے خود تخت کو نہیں ہوتا اور بت پرست اپنے بتوں کو خانہٴ خدا یا تختِ خدا نہیں سمجھتے، بلکہ وہ بت خود مقصود اور معبود ہوتے ہیں اور ان کو مہادیو یاگنیش وغیرہ سمجھ کر ان کی عبادت کرتے ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب قدس اللہ سرہ کی تحریر کا خلاصہ ختم ہوا۔ تفصیل کے لئے حضراتِ اہلِ علم قبلہ نما کی مراجعت فرمائیں ۔ والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم وعلمہ أتم وأحکم۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۲ھ -جولائی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: درس گاہ یا شہادت گاہ !
Flag Counter