Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۲ھ -جولائی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

3 - 11
اسلامی احکام کے بارہ میں چند سوالات کاجواب !
اسلامی احکام کے بارہ میں چند سوالات کاجواب
(۱)
امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ فرحان وشادمان ہوں گے۔ آپ سے ٹیلی فون پر میری عرضداشت کی منظوری کے پیش نظر یہ سوالنامہ حاضرِ خدمت ہے۔ اس کے جوابات تحریری طور پر اور آپ کے ادارہ میں چھپے ہوئے لٹریچر کے ذریعے دیئے جاسکتے ہیں۔ سوالنامہ: برائے پی، ایچ، ڈی تھیسز۔
سوال نمبر۱ (الف)… جناب کی رائے میں اسلام کی صنفی تھیوری (Gender Theory) کیا ہے؟ کیا اسلام تخلیقی، دنیاوی وآخرت کے حوالے سے عورت کو مرد سے کمتر مخلوق گردانتا ہے؟ اس ضمن میں قرآنی آیات کیا بیان کرتی ہیں؟
(ب)…برائے مہربانی مغربی تصورِ صنفی انصاف (Gender Justice)اور اسلامی تصور صنفی انصاف جو عدل، قسط اور احسان پر مبنی ہے، کا تقابلی جائزہ لے کر واضح کیجئے کہ صنفی انصاف کو ہم اسلامی تصور مساوات میں کیسے دیکھتے ہیں؟ سوال نمبر۲…یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں تعدادِ ازواج (Polygamy)قانونِ وراثت (مرد:عورت=۱:۲کا تصور) عورت کی آدھی گواہی ، بیوی کو مارنے کی اجازت (آیات نشوز) اور حجاب کے متعلق آیات نسوانی کمتری اور جنسی امتیاز کا نظام قائم کرتے ہیں؟اس کا جواب ہم کیا دے سکتے ہیں؟
سوال نمبر ۳ (الف)…کیا موجودہ دور کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی فقہ (حنفی، حنبلی، مالکی، شافعی، جعفریہ) اور اسلامی روایتی لٹریچر (حدیث، تفسیر، تصورِ تقلید، وغیرہ) کا اصولِ شریعت وقرآنی اصول مساوات ، عدل، احسان، میزان کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور قرآن میں احکام کا بتدریج ۲۳/برس کے عرصے میں ارتقاء (Gradualism reform)کی روشنی میں، اصول زمان ومکان اورآج کی ضروریات کے پیش نظر کیا اس کا پھر سے جائزہ (Re-visit)لیا جاسکتا ہے؟۔
ب… کیا اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے؟۔ کیا دورِ حاضر کی ضروریات کے مد نظر اسلامی اصولوں کے اندر نئی قانون سازی ہوسکتی ہے؟ جسے علامہ اقبال نے Spirit of Movement in Islamکہا ہے۔
سوال نمبر ۴(الف)…مرد اور عورت کے اندر معاہدہٴ نکاح کے مطابق کیا حقوق اور ذمہ داریاں ہیں؟ بیوی کے معاشی حقوق کیا ہیں؟ کیا عورت کو شادی میں حق انتخاب حاصل ہے؟ شادی میں بلوغت کے تصور میں کیا ذہنی اور جسمانی بلوغت دونوں شامل ہیں؟ ایک اسلامی مفکر کے مطابق قرآن وہ واحد صحیفہٴ آسمانی ہے، جو ایک شادی (Monogamy)کی سفارش کرتا ہے اور عدل کے پیمانے کی سختی، اسی طرف اشارہ ہے۔اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
(ب)…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی روشنی میں کیا گھریلو کام کاج صرف عورتوں کی ذمہ داری ہے؟ اسلام گھریلو کام کو کیا قدر وقیمت دیتا ہے؟
سوال نمبر۵…طلاق میں شوہر وبیوی (مطلقہ) کے کیا حقوق وذمہ داریاں ہیں اور اس ضمن میں اسلام نے طلاق کی اقسام کے پیش نظر کیا اصول مساوات وضع کیے ہیں؟ کیا قرآن مرد کو یہ حکم دیتا ہے کہ اپنی مطلقہ بیوی کو متاعِ حیات دو؟ خاندان اسلامی معاشرے کا ستوت ہے، جبکہ مرد اس کو طلاق بدعت کے ذریعے چشم زدن میں توڑ سکتا ہے۔ جبکہ عورت کو ظالم شوہر سے خلع حاصل کرنے کے لئے حق مہر ومال سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور عدالتوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر کیا مرد کے حق طلاق کو بھی اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے کسی قانونی دائرہ کار میں لانا چاہئے؟
سوال نمبر۶(الف)…کیا اگر کوئی مسلمان چاہے تو بیٹی کے حالات کی تنگی کو دیکھتے ہوئے اپنی زندگی میں اسے بیٹے کے برابر حصہ دے سکتا ہے؟ (وراثت موت کے بعد لاگوہوتی ہے)
(ب)…آج پاکستان میں خواتین کو خاص طور پر دیہات میں یہ کہہ کر ان کی اسلامی وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے کہ انہیں جہیز دیاگیا تھا؟ اس سلسلے میں علماء کرام خاص طور پر دیہاتی مساجد کے مولوی کیا رول ادا کرسکتے ہیں؟۔ کیا اسلام میں وٹہ سٹہ (شغار شادی) اور قرآن سے شادی کی اجازت ہے؟
سوال نمبر۷ (الف)…اسلام صنفی تشدد (غیرت کے نام پر قتل، کاروکاری، ونی سورہ (دیت میں عورت کو مقتول کے خاندان کے حوالے کرنا) عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا، تیزاب پھینکنا، ناک کان کاٹنا، چھیڑنا اور آوازیں کسنا) کے متعلق کیا سخت رویہ اختیار کرتا ہے؟
ب…کیا اسلام گھریلو تشدد کی اجازت دیتا ہے؟ یعنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر مارپیٹ، گالم گلوچ کرکے بیوی پر ذہنی، جسمانی وجذباتی تشدد کرنا، اس بارے میں اسلام کیا سخت تنبیہ کرتا ہے؟
سوال نمبر۸…آپ کی محترم رائے میں پاکستان میں عورتوں کی خاص طور پر اور غریبوں (مرد وعورت دونوں) کی زبوں حالی میں،(الف)جاگیردارانہ نظام، (ب)سرداری نظام، (ج)ہندوانہ رسم ورواج، (د)انگریزی استمراری نظام (Colonization)کا کیا حصہ ہے؟ (جسے آج اسلام کے نام پر ہمارے معاشرے کا حصہ بنادیا گیاہے)
سوال نمبر۹…اسلام کا Socio-Humanitarian Ethical Framework(تمدنی انسانی حق وانصاف کا دائرہ کار) کیا ہے؟ اسلام کے تمدنی انصاف (Social Justice)کے پیش نظر پاکستان میں موجودہ رائج صنفی ناانصافی، جیسے کہ: لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح، بیٹی کی پیدائش پر غم وغصہ، خواتین کی زائد شرح اموات(بوجہ Negligence) خواتین کی بنیادی انسانی حقوق وضروریات میں پسماندگی جیسے کہ: تعلیمی ، سیاسی، معاشی، مذہبی پسماندگی (پاکستان میں کوئی نامور خاتون مذہبی عالمہ یا مفسرہ نہیں ہے) کو دور کرنے میں علماء کرام کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ اور اسلام کا اس سلسلے میں کیا لائحہ عمل ہے؟
سوال نمبر ۱۰… درج ذیل قوانین پر آپ کے ادارے کا اور آپ کا کیا نقطہٴ نظر ہے؟( ۱)… عائلی قوانین ۱۹۶۱ء، (۲)…حدود قوانین ۱۹۷۹ء، (۳)…قانون قصاص ودیت (عورت کی آدھی دیت)، (۴)…قانون شہادت ۱۹۸۴ء(عورت کی آدھی گواہی),
(۵)…حقوقِ نسواں بل ۲۰۰۶ء (Women Protection Bill 2006۶…تحفظِ نسواں بل (Anti, Harassment Bill) سوال نمبر۱۱… پاکستان UNکا ممبر ہے اور اس کے تحت تمام معاہدوں کا پابند CEDAW یعنی Convention for Elimination of All Forms of Discrimination Against Women کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟.

والسلام

آپ کے تعاون کی خواہشمند،سیدہ میمونہ اسد رضا

الجواب باسم ملہم الصواب
۱…الف: عورت کی صنف قدیم زمانہ سے ظلم وستم کا شکاررہی ہے، یونانی اخلاقیات، ہندوسماجیات، بازنطینی روایات، یہودی مذہبیات، عیسائی رہبانیات کسی نے کبھی اس صنف کو اس کے قدرتی حقوق سے بہرہ ور نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ مختلف نظریات اور مختلف فلسفوں کو آڑ بناکر اس کے عظیم مرتبہ کو پست کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابلیسی مظہر، گندگی کا سامان، تبادلہٴ اشیاء کا آلہٴ کار بناکر مختلف ناموں سے اس کے استحصال کی کوشش کی گئی ہے۔ عورت کے تحسینی حقوق تو کجا، ضروری حقوق سے بھی عورت کو محروم کرکے بالکل بے جان شئ کی طرح معاشرہ کے لئے ایک ذلت اور رسوائی کا نشان بناکر پیش کیا جارہا تھا۔ فارسی، کسروی ورومی اور قیصری سوسائٹی سے متأثرہ عرب روایات میں بھی عورت کو اس درجہ منحوس سمجھاجاتا تھا کہ اس کو خدا کی زمین پر بسنے کی اجازت بھی دینا ان پر بار تھا، یہاں پیدا ہوتی اور وہاں مہد مادر کے بجائے شکم قبر کی نذر ہوجاتی۔ معاشرہ کی تنگی اور سوسائٹی کے اس قدر پر فساد ماحول میں جب سر زمین عرب کو نسل اسماعیل سے ایک کامل ومکمل رہبر، آخری پیغمبر، سورج کی مانند تابناک اور چاند کی مانند ٹھنڈی روشنی سے فیضیاب ملا تو فضائے عرب کی اس بے چین وبے سکون کیف میں، حوا کی بیٹی کو ظلم وستم کی زنجیروں سے آزاد کرنے کے لئے علمی وعملی خدائی ہدایات عرب کے پتھر دلوں کو پگھلانے کے لئے نازل ہونا شروع ہوئیں اور مختلف ترغیبات وتہدیدات کے ذریعے صنف نازک کی عصمت کا بے مثال تحفظ کیا گیا۔
حضرت ابن عمر  سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: نزولِ قرآن کے زمانہ میں ہم نے ڈر کے مارے عورتوں سے زیادہ بے تکلفی تک چھوڑ رکھی تھی کہ مبادا ان کے حق میں کوتاہی ہوجائے اور ہم پر خدا کی قابل گرفت آیات نازل ہوجائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہمیں عورتوں سے کچھ کھل کربات کرنے کی ہمت ہوئی (یعنی یہ رویہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمدیکھ چکے ہیں اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اعتراض نہ تھا تو اب اس طرح ہم بات کرنے میں فراخی محسوس کرنے لگے) (۱)
ایک موقع پر حضرت عمر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عرض کرنا کہ ”مکہ میں ہم تھے تو ہم عورتوں پر غالب تھے، مدینہ میں یہ ہم پر غالب ہوگئیں“۔ (۲) بعید نہیں اسی حقیقت کی عکاسی ہو کہ اسلام نے ”عورت“ کے حقوق میں اس قدر آزادی مرحمت کردی تھی کہ ان کو اپنی بات کہنے کی جرأت ہوگئی تھی، ورنہ جاہلیت میں عورت کے میراث میں تقسیم ہونے پر اعتراض کو بھی خاندانی غیرت کے خلاف سمجھاجاتا تھا اور خاندان کا بڑا جس طرح چاہتا مرحوم کی عورت کو تقسیم کردیتا یا پھر اس طرح قید رکھتا کہ نہ اس کو شادی کی اجازت دیتا، نہ خود اس سے شادی کرکے اس کے حقوق ادا کرتا، یتیم بچی اگر خوبرو پیدا ہوتی تو سب کو چھوڑ کر اس کا والی وسرپرست ہی اس سے شادی کرلیتا اور اس کے مہر میں حق تلفی کرتا۔ (۳)
مراجع ومصادر
۱-مسند احمد بن حنبل، مسند ابن عمر  رقم الحدیث ۵۲۸۴-۵/۹ دار الحدیث القاہرة ۱۴۱۶ھ=۱۹۹۵ء
۲-صحیح البخاری، ابواب المظالم، باب الغرفة والعلیة المشرفة وغیر المشرفة فی السطوح وغیرہا ۱/۳۳۴ ط: المیزان، لاہور۔
۳-تفسیر ابن کثیر، سورہٴ نساء ۲/۲۱۵،ط:مکتبہ فاروقیہ
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۲ھ -جولائی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter