Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۲ھ -جولائی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

4 - 11
درس گاہ یا شہادت گاہ !
درس گاہ یا شہادت گاہ

وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ دہشت گردی کی یہ لہروقت کے ساتھ ساتھ مختلف رنگ و روپ میں رونما ہوتی رہتی ہے، کراچی میں دہشت گردی کے واقعات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، آئے دن کوئی نہ کوئی قاتلانہ واردات ہوتی رہتی ہے، حتیٰ کہ بعض ایسے ادارے اور اشخاص دہشت گردی کا مستقل اور مسلسل شکار بنائے جار ہے ہیں جن کی عملی زندگی خالص دینی تعلیم و تعلم اور دین کی نشر و اشاعت میں گوشہ نشینی کے ساتھ گزر رہی ہوتی ہے، گوشہ نشین اہل اللہ اور امت کے محسنین کے قتل ِناحق کا تسلسل ،یہ وہی طریقہ اور وطیرہ معلوم ہوتا ہے جو سابقہ امتوں کی طرف سے وقت کے نبیوں کے خلاف اختیار کیا جاتا رہاہے، جس کی پاداش میں وہ قومیں تباہ و برباد ہوئیں ، اسلامی تاریخ میں ایسے بد ترین واقعات جہاں جہاں ہوئے آج تک وہ خطے اور طبقے اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
اس سیاہ تاریخ کاایک تاریک باب ہمارے ملک میں مستقل طور پر بروز اتوار یکم رجب ۱۴۱۸ھ بمطابق ۲/ نومبر ۱۹۹۷ء میں کھلا، جب سفاک قاتلوں نے ایک گوشہ نشین عالم دین، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے شیخ الحدیث و مہتمم حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار اور ان کے رفیق کار جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے ہر دل عزیز استاذ حضرت مولانا مفتی عبد السمیع کوان کے ڈائیور محمد طاہر کے ہمراہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا ۔
دہشت گردی کا یہ واقعہ کتنا عظیم اور سنگین تھا؟ اس وقت اس کا اندازہ عوام و خواص کے علاوہ حاکمان وقت کو بھی ٹھیک ٹھیک ہوا اور انہوں نے اس قسم کے واقعات اور ان کے فطری رد عمل سے حفاظت کے لیے ہر قسم کی کوششوں کا یقین دلایا اور عوامی جذبات کو کنڑول میں لانے کے لیے طرح طرح کی تسلیاں دیں،اور یقین دہانیاں کرائیں اور علماء نے عوام کو صبروتحمل کی تلقین کے ذریعہ ٹھنڈا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا، جس پر حکومت وقت نے زبانی وتحریری طور پر شکریہ ادا کیا،خاص کوششوں کے بعدان علماء کے قاتلوں کو گرفتار کیا گیا ،عینی شاہدین نے انہیں شناخت بھی کیا اور قاتلوں نے اعتراف بھی کیا مگر انصاف کے قاضی نے ان قاتلوں کو معصوم اور بری قرار دے دیا اورمزید قتل ناحق کے لیے وہ قاتل رہا ہوگئے۔ اس نوعیت کے اقدامات سے قاتلوں کے حوصلے مزیدبلندہوئے ، قاتلوں کے ہاتھ آزاد رہے ۔ علماء اور عوام کو مقتول و مقہور بننے کے لیے نہتے کرکے چھوڑدیاگیا ۔تاکہ جو درندہ جب چاہے انہیں اپنا شکار بناسکے۔
چنانچہ اسی واقعہ کے کچھ سال بعدبروز جمعرات ۱۳/صفر ۱۴۲۱ھ بمطابق ۱۸/مئی ۲۰۰۰ ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے ایک اور معمر بزرگ استاذ حدیث ، ماہنامہ بینات کے مدیر، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کو شہید کیا گیا۔ جن کی شہادت پر اس وقت کے زبردستی صدرپاکستان نے خود آکر قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کی یقین دہائی کرائی مگر اب تک کچھ نہیں ہوا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس درجہ کے جلیل القدر علماء امت کے قاتل پہلے تو گرفتار ہی نہیں ہوتے، اگر ہوبھی جاتے ہیں توان کی گرفتاری سے اگرچہ قتل کی تلافی تو یقینا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہوتا کہ لا قانونیت اور درندگی کے واقعات کم از کم اس قدر پیش نہ آتے مگر ایسی کوئی رسمی کاروائی بھی نہ ہوسکی۔اسی لاقانونیت کانتیجہ تھاکہ بروز اتوار ۱۰/ ربیع الثانی۱۴۲۵ھ بمطابق۳۰/مئی ۲۰۰۴ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ کو درس حدیث کے لیے آتے ہوئے ان کی رہائش گاہ اور درسگاہ کے درمیان شہید کر دیا گیا ، اس موقع پر بھی انتظامیہ کے چھوٹے بڑے کئی حضرات آئے اور محض تسلیاں اور یقین دہانیاں کراکے چلے گئے، لیکن بعد میں حضرت مفتی شامزئی شہید کے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کے حوالے سے کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے گئے۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی کے ساتھ اسی نوعیت کے واقعات کی آئندہ پیش بندی کے لیے بڑے بڑے سیکورٹی پلانز کے وعدے کئے گئے، جو اب تک ایفاء نہیں ہوسکے۔
اب اسی دہشت گردی کی لہر میں سالوں کی بجائے صرف مہینوں کا فاصلہ رکھا جانے لگا ، چنانچہ حضرت مفتی شامزئی شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے چار ماہ بعد بروز ہفتہ ۲۳/ شعبان ۱۴۲۵ھ بمطابق ۹/ اکتوبر ۲۰۰۴ء کوجامعہ کے فاضل ، جامعہ کے مخلص، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما، خادم العلماء حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان صاحب اور ان کے ہمراہ حضرت مولانا نذیر احمد تونسوی صاحب رحمہ اللہ کو شہید کیاگیا ۔اس کے کچھ عرصہ بعد بروز پیر ۷/ ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ بمطابق ۱۴/ اپریل ۲۰۰۸ء کوجامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کی شاخ مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر کے استاذ حضرت مولانا سعید احمد اخوند صاحب کو شہید کیا گیا۔فانا لله وانا الیہ راجعون۔
اس کے علاوہ بروز منگل ۲۷/ رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ بمطابق ۸/ ستمبر۲۰۱۰ء میں جامعہ کی شاخ مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمر  کے استاذ حضرت مولانا انعام اللہ صاحب کو شہید کیا گیا، مولانا انعام اللہ کو جہاں شہید کیا گیا، وہاں سے کچھ ہی فاصلے پرعوام اور مذہبی رہنما وٴں کی حفاظت پر مامور حفاظتی اہل کاربھی موجود تھے ۔اس کے بعد ۱۱مارچ ۲۰۱۰ء کوجامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے ترجمان ماہنامہ بینات کے مدیر اورعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے امیر حضرت مولاناسعید احمد جلال پوری کوشہیدکردیا گیا۔اسی پر بس نہیں، حال ہی میں ۲۴/۵/۱۴۳۲ھ بروز جمعہ مطابق ۲۹/۴/۲۰۱۱ء کو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے ایک اور استاذ حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی صاحب کو اپنے گھر سے فجر کی نماز پڑھانے کے لیے داعی مسجد گارڈن آتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔
مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید رحمہ اللہ ایسے معصوم ، بے ضرر اور گمنام آدمی تھے کہ انہیں ان کے محلہ والوں اور آپ کے شاگردوں کے علاوہ شاید کوئی نہ جانتا ہو، ایسے بے ضرر انسان کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ وہ کس کے قاتل تھے؟ وہ کس حد کے مستو جب تھے؟ان کا کیا قصورتھا؟
ان سوالوں کا جواب جہاں قاتلوں کو خدا کے سامنے دینا ہوگا ، وہاں حاکمان وقت بھی جواب دہ ہوں گے۔اگر ہمارا آخرت پر ایمان ہو تو ہمیں یہ معلوم ہو نا چاہیے کہ قیامت میں مقتول اپنے قاتل کو لیکر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں آئے گا اور اس سے پوچھا جائے گاکہ تم نے کیوں قتل کیا؟ تو وہ یہی جواب دے گا کہ اے اللہ! میں نے فلاں حاکم وقت کے زمانہ حکومت میں قتل کیا تھا، اس قتل کا اس وقت کے حاکم سے پوچھا جائے ، کیوں کہ اس حاکم کے دور میں کوئی قاتلوں کی گرفت کرنے والا نہیں تھا اور مقتولوں کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
اگر ہمارے ہاں حکومت نام کا کوئی ادارہ موجود ہوتا تو یہ سوچتا کہ ایک ادارے کے نابغہ روزگار افراد کو لگاتار دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے ، ایک دینی تعلیمی درسگاہ کو شہادت گاہ بنانے کا ایجنڈا کس کا ہے؟ اور اس کے آلہ کار کون بن رہے ہیں؟ واقعات کے تسلسل سے دہشت گردوں کی دیدہ دلیری سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کی سر پرستی یا کم از کم چشم پوشی کے نتیجہ میں ہو رہا ہے ورنہ ایک ہی ادارے کے علماء کے ساتھ ایک جیسی واردات کا تسلسل نہ ہوتا اورآج تک اس کا کچھ نہ کچھ سد باب ہو چکا ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ظالم اور مظلوم اور حاکم اور محکوم کے درمیان بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۲ھ -جولائی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: اسلامی احکام کے بارہ میں چند سوالات کاجواب !
Flag Counter