Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۲ھ -جولائی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

10 - 11
شیخ الحدیث مولانا محمد مراد ہالیجوی !
شیخ الحدیث مولانا محمد مراد ہالیجوی

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سینئر نائب امیر، ملک کے نامور عالم دین، استاذ العلماء، شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد مراد ہالیجوی مہتمم جامعہ حمادیہ منزل گاہ سکھر ۱۶/مئی ۲۰۱۱ء بروز پیر کو انتقال فرماگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
مولانا محمد مراد انڈھڑ قوم کے عیسانی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جو راجپوت قوم کا حصہ ہیں۔ راجپوت بیکانیر کے حاکموں میں سے تھے۔ مولانا کے خاندان کے مورث اعلیٰ جے رام اپنے چچا زاد حکمرانوں سے اختلافات کے باعث نقل مکانی کر کے رحیم یارخان سنجر پور میں آکر آباد ہوئے۔ اس زمانہ میں حضرت بہاء الحق زکریا ملتانی کے بھانجے اور خلیفہ مجاز نواب موسیٰ  اس علاقہ سنجرپور کے حکمران تھے۔ مولانا محمد مراد کے مورث اعلیٰ جے رام بیکانیر کے حکمران خاندان کے فرد تھے۔ اس لئے نواب موسیٰ  نے آپ کو صادق آباد پسگردائی میں جاگیر عطا کی۔ جہاں پر وہ جھگیاں ڈال کر آباد ہوئے۔ ان جھگیوں کو مقامی زبان میں بھونگی کہا جاتا ہے۔ جسے بعد میں بھونگ سے نام شہرہ حاصل ہوا۔
مولانا محمد مراد کے مورث اعلیٰ جے رام سنجرپور کے حکمران نواب موسیٰ  کے اخلاق عالیہ سے اتنے متأثر وممنون احسان ہوئے کہ اپنا بیٹا اندرسنگھ کو ان کی تحویل میں دے دیا۔ جو نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ نواب موسیٰ  کے خلیفہ مجاز اور سہروردی سلسلہ کے شیخ وقت ہوئے۔ اسی اندر سنگھ کی اولاد راجپوتانہ بیکانیر کے حکمرانوں سے علیحدہ متشخص ہوکر انڈھڑ کہلائی۔ انڈھڑ قوم دینی اعلیٰ روایات پر عمل پیرا تھی۔ اس میں بڑے علماء ہوئے۔ انڈھڑ قوم کی روایات میں تقسیم ترکہ یوں ہوتی تھی کہ بڑے بیٹے کو ولی عہد یعنی قوم کا سردار اور غیر منقولہ جائیداد ملتی اور چھوٹے بیٹوں کو منقولہ جائیداد گائے، بھینس، جانور وغیرہ ملتے تھے۔ چنانچہ یہ نسل سکھر، شکارپور، جیکب آباد وسندھ کے دیگر اضلاع میں آباد ہے۔ مولانا کے جداعلیٰ بھی ہالیجی شریف میں آکر آباد ہوئے۔ بڑے بیٹے کو جو غیرمنقولہ جائیداد ملی وہ جیلانی اسٹیٹ کے نام سے آباد ہے۔
انڈھڑ قوم تقریباً ۲۸قبیلوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ انہیں میں سے ایک عیسانی قبیلہ ہے۔ جس کے فرد فرید مولانا محمد مراد بھی تھے۔ مولانا کا یہ قبیلہ اپنے علم وفضل کے باعث پوری قوم انڈھڑ کا استاذ قبیلہ شمار ہوتا ہے۔ مولانا محمد مراد کے والد گرامی کا نام ابوالخیر عبدالسمیع تھا۔ دارالہدیٰ ٹھیڑی میں کسی زمانہ میں حضرت ہالیجوی پڑھاتے رہے۔ ان کے بعد مولانا حبیب الله، مولانا عزیزالله یہاں پر ان کے علمی جانشین ہوئے۔ مولانا محمد مراد کے والد گرامی نے ان تینوں حضرات سے تحصیل علم، موقوف علیہ تک کیا۔ بعد میں اپنے خاندان کی معاشی کفالت کے باعث فارغ التحصیل کی سند حاصل نہ کر پائے۔
مولانا ابوالخیر عبدالسمیع کے ہاں مولانا محمد مراد کی ۱۹۴۳ء میں پیدائش ہوئی۔ عیسانی قبیلہ میں حصرت مولانا حماد الله ہالیجوی شیخ وقت بزرگ گزرے ہیں جن کے نام پر آج خانقاہ ہالیجی آباد ہے۔ مولانا محمد مراد نے میٹرک تک سکول کی ریگولر تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان دے کر گھر ہالیجی شریف تشریف لائے تو حضرت ہالیجوی کی عارفانہ وناصحانہ گفتگو سے متاثر ہوکر بجائے کالج کے داخلہ کے، دینی مدرسہ مدینة العلوم پنوں عاقل میں داخل ہوگئے۔
ہدایة النحو، ارشاد الصرف، قرآن مجید کے پانچ پاروں کا ترجمہ یہاں پڑھا۔ پھر حضرت سائیں حماد الله ہالیجوی  نے اپنے مرید مولانا عبدالغنی جاحبروی کے ہاں بدلی میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لئے بھیج دیا۔ شوال میں حضرت اعلیٰ ہالیجوی کے حکم پر حضرت مولانا مظہرالدین انڈھٹر کے پاس قاسم العلوم گھوٹکی میں داخلہ لیا۔ مولانا مظہر الدین انڈھڑ، مولانا غلام مصطفےٰ قاسمی کے ہمدرس تھے۔ مولانا غلام مصطفی قاسمی کے نامور شاگرد حضرت مولانا عبدالکریم  سائیں بیر شریف تھے۔اور مولانا مظہرالدین انڈھڑ کے شاگرد رشید حضرت مولانا محمد مراد تھے۔ حضرت مولانا محمد مراد کے ہم درس ساتھیوں کی کلاس اپنے زمانہ کے سب نامور علماء ثابت ہوئے۔ مدرسہ قاسم العلوم گھوٹکی سے مولانا مظہرالدین صاحب ہالیجی شریف آگئے۔ مولانا محمد مراد نے یہاں پر آپ سے ہدایہ آخرین، و متنبی تک کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد مولانا محمد مراد جامعہ مخزن العلوم عیدگاہ خانپور میں داخل ہوگئے۔ اس زمانہ میں یہاں حضرت مولانا واحد بخش کوٹ مٹھن والے پڑھاتے تھے۔ آپ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری کے شاگرد تھے۔ علوم عقلیہ کے ماہر ترین استاذ تھے۔ قدرت نے ان کو پڑھانے کے لئے پیدا کیا تھا۔ فجر کی نماز سے عصر تک سوائے نماز ظہر اور کھانا کے وقفہ کے، پورا دن اسباق پڑھاتے تھے۔ ان کو کتابیں ازبر تھیں۔ سبق کی تقریر اوّلاً زبانی کر کے طلباء کے ذہنوں میں خلاصہ اتار دیتے تھے۔ اس کے بعد کتاب کھول کر ترجمہ کر دیتے تھے۔ افہام وتفہیم کا آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ (فقیر راقم نے ۱۹۶۶ء، ۱۹۶۷ء میں آپ سے ابوداوٴد شریف پڑھی ہے) مولانا واحد بخش سے مولانا محمد مراد نے فلسفہ، منطق اور علم الکلام کی تکمیل کی۔ ۱۹۶۵ء، ۱۹۶۶ء میں مولانا محمد مراد نے ہالیجی شریف میں مولانا مظہرالدین انڈھڑ کے ہاں دورہ حدیث شریف پڑھا۔ پھر ایک سال اپنے استاذ گرامی قدر کے زیرسایہ ہالیجی شریف اپنی مادر علمی میں پڑھایا۔
۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفہ احمد دین صاحب کے مشورہ سے منزل گاہ جامعہ حمادیہ میں تشریف لائے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ یہاں سے جنازہ اٹھا۔ جب آپ منزل گاہ تشریف لائے تو مدرسہ کے تین کچے کمرے تھے۔ جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ یہاں پر مولانا محمد مراد کے مجاہدہ کا آغاز ہوا۔ معاملہ فاقوں تک پہنچا۔ مگر آپ نے الاستقامة فوق الکرامة پر عمل جاری رکھا۔ آپ کے انہیں مجاہدات وریاضات کا صدقہ ہے کہ آج جامعہ حمادیہ بلڈنگ کے اعتبار سے دیوقامت کا حامل ہے اور تعلیم کے اعتبار سے اندرون سندھ کے کسی جامعہ سے کم نہیں ہے۔ چارصد کے قریب آپ سے علماء نے دورہ حدیث شریف تک کی تعلیم حاصل کی۔ نامکمل تعلیم کے شاگردوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہوگی۔ آپ کو الله تعالیٰ نے محبوبیت کا مقام نصیب فرمایا تھا۔ طلباء آپ کے علم کے سامنے بچھے جاتے تھے۔ آپ کی نیکی، شاگردوں کے دلوں کو موہ لیتی تھی۔ مولانا محمد مراد عالم ربانی تھے۔ علم حدیث کے علاوہ فقہ میں بھی آپ کو خاص دسترس حاصل تھی۔ آپ کی فقہی جزئیات پر گہری نظر کے مفکر اسلام مولانا مفتی محمود بھی ناصرف قائل تھے۔ بلکہ آپ کی رائے پر مکمل اعتماد فرماتے تھے۔ جمعیت علماء اسلام میں آپ شامل ہوئے۔ مقامی ذمہ داری سے لے کر مرکزی سینئر نائب امیر کے عہدوں نے آپ سے انتساب کا شرف حاصل کیا۔ مولانا محمد مراد جمعیت علماء اسلام کی فقہی مجلس کے رئیس بھی رہے۔صوبہ سندھ میں آپ کا وجود جمعیت علماء اسلام کی شناخت تھا۔ آپ خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ حق تعالیٰ نے آپ کو سراپا خیر بنایا تھا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بہی خواہوں میں سے تھے۔ اندرون سندھ ہی نہیں بلکہ عالمی مجلس کی مرکزی ختم نبوت کانفرنس چناب نگر میں ہر سال بڑے اہتمام سے شرکت فرماتے تھے۔ آپ کا زیادہ تر خطاب ”قادیانی ارتداد اور اس کی شرعی سزا“ کے عنوان پر ہوتا تھا۔ آپ کی عالمانہ گفتگو بہت ہی وقیع ہوتی تھی۔ ۱۹۸۵ء میں آپ کی مسجد منزل گاہ سکھر میں یکے بعد دیگرے تین بم دھماکے ہوئے۔ آپ کی جان تو بچ گئی۔ زخم بھی مندمل ہوگئے۔ لیکن اس حادثہ میں آپ کی سماعت ختم ہوگئی۔ آپ کے شاگرد حضرت مولانا شفیع محمد صاحب اس زمانہ میں آپ کے حاضر باش ساتھی تھے۔ آپ تحریری طور پر سائل کی گفتگو مولانا کو لکھ کر دیتے۔ مولانا کے جواب باجواب سے عام وخاص فائدہ حاصل کرتے۔ آپ علم وعمل، تقویٰ وللہیت کے مقام رفیع پر فائز تھے۔ آپ کے وجود سے علم کی بہاریں قائم تھیں۔ آپ نے جمعیت علماء اسلام کے اسٹیج سے ہر تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کر کے تحریک ختم نبوت کے جرنیل قرار پائے۔ آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت سندھ کے عہدیدار بھی رہے۔ آپ نے قومی اتحاد اور ایم۔آر۔ڈی کی تحریکوں میں حصہ لیا۔ آپ کے فتاویٰ جات سندھی زبان میں کتابی شکل میں ”فتاویٰ محمد مراد ہالیجوی“ کے نام سے شائع شدہ ہیں۔ آپ کے ”مقالات محمد مراد ہالیجوی“ کے نام سے اردو میں شائع شدہ ہیں۔ جو آپ کے علم وفضل پر کامل دسترس کے شاہد عدل ہیں۔ آپ اپنے علاقہ میں اکابر علماء کی روایات کے امین تھے۔ دراز قد، مضبوط قویٰ، اور اعلیٰ نقوش کے حامل خوبصورت عالم دین تھے۔ رنگ پکا، علم اس سے زیادہ گہرا اور پکا، چلنے میں علماء کی شان، چہرہ پر علم کی نورانیت کی صدا بہار کیفیت کو دیکھ کر اسلاف کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ آپ کا وجود اس دور میں الله رب العزت کی رحمتوں کا مورد تھا۔ الله تعالیٰ آخرت کے پیش آمدہ سفر میں بھی اپنی خصوصی رحمتوں کا آپ کو حامل بنائیں۔ اگلے دن مورخہ ۱۷/مئی۲۰۱۱ء کو جامعہ حمادیہ منزل گاہ میں جنازہ ہوا۔ ہالیجی شریف کے عام قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ اب مدتوں آپ کے تذکرے رہیں گے۔ دنیا انہیں ڈھونڈے گی۔ مگر پانہ سکے گی۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۲ھ -جولائی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: آزادی اور اس کا مقصد !
Flag Counter