Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۲ھ -جولائی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

6 - 11
غلاموں سے متعلق اسلام کے رہنما احکام !
غلاموں سے متعلق اسلام کے رہنما احکام
(آخری قسط)

اسلام نے غلاموں کے حق کو بھی تسلیم کیا ہے
اسلام نے غلامی کی رسم کو ختم کرنے کے لئے غلاموں کے حق کو بھی تسلیم کیا ہے کہ اگر وہ استطاعت رکھتا ہو کہ خود سے آزادی حاصل کرسکے تو اسے آزاد کرنے میں کوئی بندش یا قید نہ لگائی جائے، البتہ غلاموں پر یہ شرط عائد کی جس بات پر آقا کی رضامندی ہوجائے اسے پورا کیا جائے اور آقا کو بھی چاہئے کہ اس کی آزادی کے تعلق سے جو بات طے پاجائے، اس پر ثابت قدم رہے، اس کی مختلف شکلیں تھیں، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
مکاتب
غلام کو آزادی حاصل کرنے کے لئے اسلام نے ایک طریقہ ”مکاتبت“ کا تجویز کیا ہے، یعنی ایک معاہدہ کے تحت غلام اپنے آقا سے کہے کہ میں اتنی رقم ادا کردوں گا، اس کے عوض مجھے آزاد کردیا جائے یا اس کی آزادی کے بارے میں ایسی ہی بات آقااپنے غلام سے کہے، اگر بات طے پاجاتی ہے اور غلام متعینہ رقم ادا کردیتا ہے تو غلام آزاد ہوجائے گا، رقم کی ادائیگی میں زیادہ سختی بھی نہ ہونی چاہئے، اسی غلام کی بات کو بھی آقا ماننے سے انکار نہیں کرسکتا، غلام طے شدہ رقم اپنے قوتِ بازو سے حاصل کرے یا اس کے لئے کسی کا تعاون حاصل کرے، اس سے مالک کوکوئی مطلب نہیں، قرآن کریم میں غلام کے اس حق کو بڑے ہی واضح انداز میں تسلیم کیا گیا، ارشاد باری تعالی ہے:
”وَالَّذِینَ یَبْتَغُونَ الْکِتَابَ مِمَّا مَلَکَتْ أَیمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْہُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْراًوَآتُوْہُمْ مّن مَّالِ اللهِ الَّذِیْ آتَاکُمْ“۔ (النور:۳۳)
ترجمہ:۔”اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں، ان سے مکاتبت کرلو، اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے“۔
مکاتبت کے بارے میں فقہائے اسلام کا اختلاف ہے کہ آقا کا مکاتبت پر راضی ہونا واجب ہے یا مستحب، فقہاء کے ایک طبقہ نے آیت کے الفاظ ”کَاتِبُوْہُمْ“ سے دلیل اخذ کی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اس لئے یہ واجب ہے۔ دوسرے فقہاء کہتے ہیں آیت میں ”فَکَاتِبُوْہُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْرًا“ کہا گیا ہے، یہ بھلائی پانے کی شرط ایسی ہے، جس کا انحصار مالک کی رائے پر ہے، جو استحباب پر دلالت کرتا ہے۔ (۴۱) چونکہ اسلام نے غلاموں کی آزادی پر مختلف پیرائے سے زور دیا ہے، اس لئے اسے واجب کے درجے میں رکھنا درست معلوم ہوتا ہے۔
اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے اور اسلام نے حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ جب تم کسی غلام کے اندر بھلائی دیکھو اور اس کی آزادی پر اطمینان ہو اور غلام اس لائق نہ ہو کہ وہ لدلِ کتابن ادا کرسکے تو ضروری ہے کہ اس کی الگ سے مدد کی جائے اور زکوٰة وصدقات کی رقم بھی اسے دی جائے، تاکہ وہ مکاتبت کی رقم ادا کرکے آزادی حاصل کرسکے، ارشاد باری تعالی ہے:
”إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ“۔ (التوبہ:۶۰)
ترجمہ:۔”یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور ان کے لئے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو، نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لئے ہیں“۔
ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:
”وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبّہ ذَوِیْ القُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالْسَّائِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ“۔ (البقرہ:۱۷۷)
ترجمہ:۔”اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے“۔
مدبّر
اگر کوئی اپنے غلام سے کہے کہ میرے مرنے کے بعد تو آداز ہے، یا اسی مفہوم کو ادا کرنے والا اس نے کوئی دوسرا جملہ کہا تو اس کے انتقال کے بعد فوراً ہی غلام آزاد ہوجائے گا۔ آقا اسے نہ تو فروخت کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ہبہ کرسکتا ہے، درمیان میں يقا اپنی بات سے پھرنا چاہے تو اس کی بات قابل قبول نہ ہوگی، اگر کوئی اس میں رخنہ ڈالتا ہے تو غلام عدالت سے رجوع کرے گا اور عدالت اسے آزادی دلوائے گی، اسی طرح آقا نے غلام کے کسی ایک حصہ کو ”مدبر“ کیا تور بھی وہ کل شمار کیا جائے اور اس کے مرنے کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا، اسی طرح ایک غلام جو مختلف لوگوں میں مشترک ہے، اگر اس میں سے کسی نے اپنا حصہ معاف کردیا تو اب کل غلام آزاد سمجھا جائے گا۔(۴۲) اب وہ اس آدمی کی مذہ داری ہے کہ بقیہ لوگوں کے حصے کا معاوضہ ادا کرے۔ (۴۳)
ام ولد
اگر باندی سے آقا نے مجامعت کی اور اسے حمل ٹھہر گیا، یہاں تک کہ اس نے صحیح سالم تندرست یا کم زور بچہ جنا یا اس کا اسقاط ہوگیا یا اس نے مردہ بچہ کو جنا تو وہ آقا کے انتقال کے بعد آزاد ہوجائے گی اور بچہ آقا کا ہی شمار کیا جائے گا اور اگر بچہ زندہ رہا تو اپنے والد کا وارث ہوگا، اب مالک نہ تو باندی کو فروخت کرسکتا ہع اور نہ ہبہ، خلفائے اربعہ کے عہد میں بھی اس پر بہ کثرت عمل ہوتا تھا، چنانچہ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں:
”امہاتِ ولد کی بیع نہیں کی جائے گی، نہ انہیں فروخت کیا جائے گا اور نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ وراثت میں بانٹا جائے گا۔ آقا جب تک زندہ رہے، ام ولد سے تمتع کرتا رہے اور جب مر جائے تو وہ آزاد ہے“۔(۴۴)
باندی سے اس کے بچہ کو بھڈ الگ کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے:
”جوماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی کرائے گا، قیامت کے دن اللہ اس کے اور اس کے محبوب کے درمیان جدائی ڈال دے گا“۔ (۴۵)
کچھ لوگ اپنی باندی سے مجامعت تو کرتے تھے، مگر اس خوف سے عزل کرلیتے تھے کہ اگر اسے حمل ٹھہرگیا اور اس سے بچہ پیدا ہوگیا تو وہ آزاد ہوجائے گی، ایسا کرنے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا۔ (۴۶) کیونکہ اس سے اس کا حق آزادی سلب ہوتا ہے۔
غلاموں کے قتل پر قصاص
اگر کسی نے کسی غلام کا ناحق قتل کردیا تو اسلام کی نگاہ میں ایسا شخص بھی مجرم ہے، اس جرم کی پاداش میں اس سے قصاص لیا جائے گا۔ جس نے جیسا ظلم اپنے غلاموں کے ساتھ کیا ہے، اسی کے مطابق اس کو سزا دی جائے گی، قرآن کریم میں قصاص سے متعلق آیتوں میں حکم عام ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آزاد کے قتل پر قصاص کے طور پر قاتل کو قتل کیا جائے گا، اسی طرح غلام کے قتل پر بھی قاتل کو قتل کیا جائے گا، ارشاد باری تعالی ہے:
”وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالأنْفَ بِالأنْفِ وَالأُذْنَ بِالأُذْنِ وَالسِّنَّ بِالسّنِّ وَالجُرُوْحَ قِصَاص“۔ (المائدہ:۴۵)
ترجمہ:۔”توراة میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، ص۔
بغیر تحدید کے آقا باندی سے استمتاع کرسکتا ہے
اسلام نے بیویوں کی تعداد میں تحدید کردی ہے کہ کوئی بھی مسلمان بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا، اس کے برعکس باندیوں کے رکھنے اور اس سے استمتاع کرنے کے سلسلے میں کوئی تحدید نہیں رکھی ہے، یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے، جس کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے، یہ آزادی اسلام کی مصلحت پر مبنی ہے، ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ قیدیوں کی تعداد ایک دو نہیں سینکڑوں اور ہزاروں میک ہوتی ہے، ان میں لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد بھی خاصی ہوتی ہے، اسلام انہیں یک لخت قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا، بہ شکل مجبوری اسلام انہیں لوگوں میں بانٹ دیتا ہے، تاکہ ان کی پرورش وپرداخت بھی ہوتی رہے اور دشمن کا غرور بھی ٹوٹے، اب غور کیا جائے کہ لونڈیوں کے رکھنے یا اس سے تمتع حاصل کرنے کی تحدید کردی جاتی تو باقی لونڈیوں کا حال کیا ہوتا، وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی جذبات وخواہشات ہیں، ان کی تکمیل کے لئے وہ ادھر ادھر تاک جھانک کرتیں، اس سے معاشرہ میں مزید برائی پھیلتی، اس لئے اسلام نے معاشرہ کو پاک وصاف رکھنے کے لئے صرف ان کے مالکوں کو ہی حکم دیا کہ ان سے چاہو تو تمتع کرو، یا انہیں آزاد کرکے اپنے نکاح میں رکھ لو یا پھر ان کی شادی کسی دوسری جگہ کردو، اس طرح ان کی اچھے طریقے سے کفالت بھی ہوجائے گی اور برائی پھیلنے کا جز خدشہ ہے اس کا بھی انسداد ہوجائے گا۔
مالکہ اپنے غلام سے تمتع نہیں کرسکتی ہے
معاندینِ اسلام غلامی کے تعلق سے ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ آقا اپنی باندی سے تمتع کا حق رکھتا ہے تو پھر مالکہ اپنے غلام سے تمتع کیوں نہیں کرسکتی، یہ سراسر ناانصافی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ مرد کی بہ نسبت عورتوں میں عزتِ نفس کا مادہ زیادہ ہوتا ہے، اس لئے مردوں کی بہ نسبت عورتیں کم برائی میں ملوث پائی جاتی ہیں اور پھر اس سے کوئی لغزش یا برائی ہوجاتی ہے تو اس کوبہت زیادہ ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے، اس کے منفی اثرات آگے چل کر اور بھی بھیانک ہوتے ہیں، گویا کہ وہ اپنے گھر اور خان دان والوں کے لئے ناسور بن جاتی ہے، ایسی صورت میں اسلام عورتوں کو اپنے غلام سے تعلق قائم کرنے کی اجازت دے دیتا تو معاشرہ میں عورتوں کا مقام گھٹ جاتا اور اگر بالفرض اسے نکاح کی ضرورت پڑتی تو یہ ایک اہم مسئلہ بن کرسامنے آتا، کیونکہ کفو کا فرق ہوجاتا اور خود اس کے اقدام کو اس گھر والے اور قریبی رشتہ دار قبول نہیں کرسکتے تھے، اس کے برعکس غلام کی آزادی کے بعد ایسا کرنے میک کوئی حرج نہیں ہے، اس کے علاوہ ایک دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اگر اس کی اجازت دے دی جاتی تو خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا، کیونکہ مرد کو عورتوں پر ایک گونہ فضیلت حاصل ہے، بہ قول سید ابو الاعلیٰ مودودی اپنے غلام سے کسی عورت کا تعلق شہوت رانی کی غرض تو پوری کرسکتا ہے، مگر اسلامی نظام تمدن کے اندر ان دوسری اغراض کو پورا نہیں کر سکتا جن کو شریعت نے عورت اور مرد کے ازدواجی تعلق میں ملحوظ رکھنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ اس صورت میں مرد غلام ہونے کی حیثیت سے عورت کا تابع فرمان ہوگا اور اسے گھر میں وہ اقتدار حاصل نہ ہوسکے گا جو اخلاق ومعاملات کی نگرانی کے لئے اور خاندانی نظام کو درست رکھنے کے لئے مرد ہونے کی حیثیت سے اسے حاصل ہونا چاہئے۔ (۵۰)
اسلام نے غلامی پر اصرار نہیں کیا ہے
اسلام کی شان دار تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے غلامی پر کبھی اصرار نہیں کیا ہے اور جنگی قیدیوں کو ”دائم الحبس“ (ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قید) کرنے یا ان کا سر قلم کرنے سے بھی منع کیا ہے، بلکہ حتی الامکان اس کی آزادی اور رہائی پر ہی زور دیا ہے، وہ کسی طرح سے بھی آزادی حاصل کرنے میں ناکام ہو تب ہی اسے غلام بنایا جائے، قید کے دنوں میں یا غلام بنانے کی صورت میں اس کے ساتھ اچھ برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ان سے کسی قسم کی بدسلوکی نہیں کی گئی اور نہ انہیں کسی طرح کی اذیت اور تحقیر وتذلیل کا نشانہ بنایا گیا، بلکہ اس کے بجائے ان کی کھوئی ہوئی آزادی بہ حال کرنے کی راہ نکالی گئی اور اس کے لئے شرط یہ رکھی کہ وہ آزادی کے بعد اس کے تقاضوں سے عہدہ برآہونے کی قابلیت رکھتے ہوں، چنانچہ ان میں سے بعض لوگ ایسے تھے جو مسلمانوں کی قید میں آنے سے قبل کئی نسلوں سے غلام در غلام چلے آرہے تھے، یہ لوگ غلاموں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے، جن کو ایرانی اور رومی سلطنیں دوسرے ملکوں سے پکڑلاتی تھیں اور پھر انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے محاذِ جنگ پر بھیج دیتی تھی۔ (۵۱)
اسلام نے غلامی کو بالکل ختم کیوں نہیں کیا؟
اسلام نے جاہلیت کے مذموم عناصر کو کالعدم کردیا اور اس کی جگہ نیا اور آفاقی ضابطہٴ حیات نافذ کردیا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے جاہلیت کی اس غیر منصفانہ روش کو اولِ وہلہ میک ہی کویں نہ ختم کردیا اور ایک نیا ضابطہ ”آج کے بعد سے کوئی غلام نہیں بنایا جائے گا اور اس وقت جو غلام کسی کی ملکیت میک ہیں سب آزاد ہیں“ کیوں نہیں نافذ کردیا، اگر بہ غور دیکھا جائے تو یہ بات بہ خوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اسلام نے بالکل ابتدائی دنوں میں ہی لعنت کو ختم کردیا، مگر چونکہ حالات ایسے تھے کہ اس کا نفاذ اتنی جلد ممکن نہ تھا، دراصل غلامی انسانیت کے جسم پر ایک پھوڑا تھا۔ اس کو دور کرنے کے دوہی طریقے ہوسکتے تھے یا تو ایک جراح کی طرح چاقو سے اسے کاٹ کر پھینک دیا جائے یا اندرونی تنقیہ سے تحلیل کرکے اسے ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے، اسلام نے دونوں ہی طریقے استعمال کئے، لیکن دوسرے طریقے کی طرف زیادہ توجہ دی، یعنی لوگوں کے دل میک غلامی کے خلاف جذبہ پیدا کیا، غلامی کا رواج اس زمانے کی معاشیات سے بھی اس طرح وابستہ تھا کہ کسی فوری حکم سے ایک دم اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا تھا، اگر ایسا ہوتا تو وہ لاکھوں انسان جو اپنے آقاؤں کے رحم وکرم پر پل رہے تھے قوم کی حیاتِ اجتماعی پر ایک ہولناک بوجھ بن کررہ جاتے اور معاشی نظام کا شیرازہ درہم برہم ہونے لگتا، اس لئے اگر ایک بے صبرے طبیب کی طرح جلد بازی کے ساتھ اس پھوڑے کو کاٹ کرپھیک دینے کی کوشش کی جاتی تو بیمار انسانیت کی جان کے لالے پڑجاتے، اس کے علاوہ فی الفور ایسا کرنے میں خود اسلام کو جو خطرہ در پیش ہوسکتا تھا وہ اس پھوڑے کے کاٹنے سے بھی زیادہ بھیانک ہوتا۔ (۵۲) چنانچہ اسلام نے اس کے وجود کو اس وقت تک برداشت کیا جب تک حالات مکمل خاتمے کے لئے سازگار نہ ہوگئے اور ساری دنیا کے لوگ جنگی قیدیوں کے متعلق ایک مشترکہ لائحہ عمل پر متفق نہ ہوگئے۔ (۵۳)
اسلام نے غلاموں کے جو حقوق متعین کئے، اس کے نتیجے میں سماج کے اس مظلوم طبقہ نے اپنی استعداد اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اور اپنے آقا کی شفقت وتوجہ سے سماج میں بڑا اونچا مقام حاصل کیا، اس کی صلاحیتوں اور خدمات کو لوگوں نے نہ صرف سراہا، بلکہ ان سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، ان کے سامنے علم وہنر کے حصول کے لئے زانوئے تلمذتہ کیا، ان کی امامت میں نمازیں ادا کیں، شرعی معاملات میں ان کے فیصلے کو تسلیم کیا، جنگوں میں ان کے جھنڈے تلے ملکوں کو فتح کیا، یہاں تک کہ انہوں نے حکومت وسیادت بھی کی، انسانی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جو غلاموں کی خدمات اور ان کے فیوض سے محروم رہاہو، ایسے ہنر مند اور باصلاحیت غلاموں کی بڑی تعداد ہے، ان میں بہت سے صحابہ بھی ہیں تو بڑی تعداد میں تابعی اور تبع تابعی بھی، بہت سے محدث ہیں تو اچھے خاصے مفسرین بھی ہیں، اسی طرح علماء وفقہاء کی فہرست میں یہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔(۵۴) گویا کہ اسلام نے آزاد اور غلام میں کوئی فرق ہی نہ رہنے دیا۔
سماج کا یہ مظلوم اور مقہوم طبقہ شروع میں بقیناً احساسِ کمتری کا شکار رہا، مگر جیسے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ رحمت وشفقت پڑی تو یہ ذلت بھری زندگی سے بہ تدریج نکلتے چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے غلام زید بن حارثہ کے ہاتھوں میں بعض جنگوں کی قیادت سونپی، ان کے بیٹے اسامہ بن زید کو اپنی گود میں کھلایا اور ان کی پرورش وپرداخت میں حد درجہ تعاون کیا، بلال حبشی کو موذنِ رسول کا خطاب ملا، سلمان فارس، صہیب رومی، عالم مولی اور دورے بہت سے غلام صحابہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حوصلہ افزائی کی دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، یاندیوں کے ساتھ آپ نے حد درجہ لطف ومہربانی کا معاملہ فرمایا، ان کی عزت وعصمت کو سماج میں محفوظ کیا، اب کوئی اسے روپے کمانے کی مشین نہیں بناسکتا اور نہ کوئی ان پر نگاہِ بد ڈال سکتا ہے، قرآن ، حدیث اور فقہ کی کتابوں کا بہ غائر مطالعہ کرنے سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے، اسلام نے کتنی دیانت داری اور انصاف کو ملحوظ رکھ کر ان کے حقوق کو متعین کیا ہے، بہ قول سید امیر علی:
”اسلام میں آج کا غلام کل کا وزیرِ اعظم ہوتا ہے، وہ کسی چہ می گوئیوں کے بغیر اپنے آقا کی بیٹی سے شادی کرسکتا ہے اور خاندان کا سربراہ بن سکتا ہے، غلاموں نے سلطنتوں پر حکومت کی ہے اور شاہی خاندانوں کی بنا ڈالی ہین محمود غزنوی غلام زادہ تھا… قطب الدین ایبک دہلی کا پہلا مسلمان بادشاہ اور اس اعتبار سے ہندوستان میں اسلامی حکومت کا اصلی بانی ایک غلام تھا، اسلام میں جس غلامی کی اجازت تھی، وہ اس غلامی سے کوئی مشابہت نہ رکھتی تھی جو کل تک دنیائے عیسائیت میں رائج تھی یا امریکہ میں ۱۹۶۵ء تک رائج تھی، جب کہ ایک مذہبی جنگ نے اس لعنت کا خاتمہ کردیا“۔ (۵۵)
بعض دانش ورانِ مغرب کا اعتراف
اسلام میں غلامی کوئی دائمی چیز نہیں،بلکہ عارضی اور مصلحت پر مبنی تھی، لیکن اس کے باجود اس نے غلامی میں جو غیر معمولی اصلاحات کی ہیں وہ قابل تعریف اور سراہنے کے لائق ہیں۔ مغرب چاہے جتنا بھی اسے برا کہے اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اپنی ساری توانائی صرف کردے، وہ کہیں نہ کہیں جاکر اسلام کے نظریہٴ غلامی کا اعتراف کرے گا، یہی وجہ ہے ہم جب مغرب کے مفکرین کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حد درجہ بغض رکھنے کے باوجود اسلام کی اس خصوصیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے، ان میں چند مفکرین کے نظریات یہاں قلم بند کئے جاتے ہیں، ”جان ڈنبرگ“ لکھتا ہے:
”اسلام میں غلاموں کے لئے بہترے قواعد رکھے گئے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیرو کس قدر شریفانہ انسانی شعور واحساس رکھتے تھے، ان قواعد کا مطالعہ کرنے کے بعد تم دیکھوں گے اسلام کی خوبیاں ان تمام طریقوں کے مناقض ہیں جن کو ہمارے زمانہ تک بڑی بڑی مدعیانِ تہذیب وتمدن قومیں اختیار کرتی رہی ہیں، ہاں اسلام نے غلامی کے اس رواج کو فنا نہیں کیا جو دنیا میں پھیلاہوا تھا، لیکن اس نے غلام کی حالت بہتر بنانے کی بڑی کوشش کی ہے“۔ (۵۶) اسلامی غلامی میں کتنا حسن اور کتنا فبح ہے، اس کا مختلف الجہات سے جائزہ لینے کے بعد ”ڈاکٹر مارکس ڈاؤس“ جس نتیجہ پر پہنچا، اس کا وہ برملا اظہار اس طرح کرتا ہے:
”محمدصلی اللہ علیہ وسلم بہت شفیق اور رحم دل شخص تھے اور بلاشبہ آپ کا یہ منشا تھا کہ غلاموں کی حالت میں اصلاح کریں، اگر آپ فی الفور غلامی کی آزادی کا خیال کرتے تب بھی اس کو عمل میں لانا غالباً نا ممکن پاتے، لیکن آپ نے ”انما المؤمنون اخوة“ کا اعلان کرکے بہ تدریج اس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے ایک ایسا یقینی ذریعہ سوچا، جو آپ کے اختیار کے مطابق سب سے بہتر ذریعہ تھا، اس کے ساتھ ہی آپ نے موجودہ غلاموں سے نیک برتاؤ کی ہدایت فرمائی، اس بارہ میں آپ کی آخری نصیحت ایسی اہم اور وقیع ہے کہ اس سے قطع نظر نہیں کی جاسکتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اب رہے تمہارے غلام تو دیکھو جو تم کھاتے ہو وہی ان کو کھلاؤ، جیسا کپڑا تم پہنتے ہو ویسا ہی ان کو پہناؤ، اگر وہ کوئی ایسا قصور کریں جو تم معاف نہیں کرسکتے تو انہیں فروخت کردو، کیونکہ وہ خدا کے بندے ہیں اور انہیں ایذاء نہیں دینی چاہیئے، لوگو! میری بات سنو! اور اسے خوب سمجھ لو کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں، تم سب مساوی ہو اور تم سب ایک برادری ہو، اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی تلقین کردہ انسانی مساوات کی عملی مثالیں تو بعض ممالک میں نظر آتی ہیں، لیکن افسوس ہے کہ عیسائی ملکوں میں اس پر عمل نظر نہیں آتا، حضرت عمر اپنے اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے نکلتے ہیں اور ان کا غلام اونٹ پر سوار ہے، پیغمبرِ اسلام کی جگر گوشہ حضرت فاطمہ اپنی باندی کے ساتھ چکی پیستی نظر آتی ہیں، یہ وہ نمونے ہیں جن میں آپ کی تعلیم کی مکمل مثال ملتی ہے“۔(۵۷)
غلامی کے متعلق مغرب میں ایک عام منفی رجحان پایاجاتا ہے، جو اسلامی غلامی سے بالکل مختلف ہے، اس کے برعکس اسلام غلام کو کس نظر سے دیکھتا ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ”موسیولیبان“ لکھتا ہے:
”غلامی کا لفظ جب اس یورپین شخص کے سامنے بولاجاتا ہے جو امریکن ناولوں اور روایتوں کے پڑھنے کے عادی ہیں، جن کا سلسلہ تیس سال سے جاری ہے تو اس کے ذہن میں فوراً تصور پیدا ہوتا ہے ان غریبوں کا جو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہوں اور ان کو کوڑے برسائے جارہے ہوں اور پھر ان بے چاروں کوبقائے حیات کے لئے کافی غذا نہ ملتی ہو اور رہنے کے لئے انہیں تیرہ وتارکوٹھریاں نصیب ہوئی ہیں، مجھ کو اس بحث نہیں کہ یورپ میں جو غلام ہیں ان پر یہ تمام باتیں صادق آتی ہیں یا نہیں، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام میں غلاموں کا جو تصور ہے، وہ عیسائیوں کے غلاموں کے تصور سے بالکل مختلف ہے“۔ (۵۸)
خلاصہٴ بحث
اسلام نے دنیا کے رائج نظام سے ہٹ کر غلاموں کے متعلق اپنی ایک الگ راہ نکالی اور اس میں اتنی لچک اور وسعت پیدا کردی کہ نام کی تو غلامی رہ گئی، مگر ان کے سارے حقوق آزاد انسانوں کے برابر ہوگئے، وہ اپنے آقا کی ماتحتی میں بغیر کسی فکر اور خوف کے زندگی کے شب وروزگزارتے تھے اور اپنی خدمات سے معاشرہ کے لئے کار گر ثابت ہوتے۔ مالک بھی غلام کی ضرورت اور ان کی اہمیت کو سمجھ کر ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے اور غلام بھی انہیں اپنا محسن سمجھ کر ان کی عزت کرتے، اب نہ تو انہیں تاریک کمروں میں بند کیا جاتا اور نہ ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالی جاتی تھیں، وہ جب اور جہاں چاہتے آمد ورفت کرسکتے تھے، اگر ان سے کوئی غلطی ہوجاتی تو تیز اور کڑکتی دھوپ میں پتھروں پر لٹت کرزدوکوب نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ان کی اولاد کو غلام بنایا جاتا تھا اور نہ کوئی ان کی عورتوں پر نگاہ بدڈال سکتا تھا، غلام بھی مال وجائداد رکھنے اور اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرنے کے مجاز تھے، کوئی دوسرا اس پر اپنا حق ہرگز نہیں جتا سکتا تھا، وہ عرب کے معزز گھرانوں میں شادی کرسکتے تھے، وہ بھی کسی دعوت اور تقریب میں شریک ہوسکتے تھے اور نہ بھی اپنے یہاں کسی کو مدعو کرسکتے تھے، تعلیم وتربیت کے مراحل وہ طے کرنا چاہتے تو اس سے محروم رکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی، اگر کسی نے ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی کی تو وہ اسلامی عدالت سے رجوع کرسکتے تھے اور انصاف حاصل کرسکتے تھے، اگر کوئی غلام بیماری میں مبتلا ہوجاتا تو مالک اور دوسرے لوگ بھی اس کی عیادت کرنے میں ذلت محسوس نہیں کرتے تھے اور تو اور خود قرآن کریم میں غلاموں کا تذکرہ ملتا ہے، یہاں تک کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن سے ایک آزاد غلام کی شادی کرائی، کوئی بھی دین اور مذہب اس سے زیادہ اپنے غلام کو اور کیا دے سکتا، بہ حیثیت ایک انسان وہ جن چیزوں کا مستحق تھا اسے مل گیا۔ باوجود اس کے معاندینِ اسلام اسلامی غلامی پر اعتراضات کرتے اور اس کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں، کتنی بددیانتی کی بات ہے؟ جب کہ خود ان کا رویہ غلاموں کے حق میں بڑا ہی اذیت ناک رہا ہے، آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی انہیں سکون سے رہنے نہیں دیا گیا اور ان پر طرح طرح کی بندشیں عائد کرکے انہیں اسی مقام پر پہنچادیاگیا، جس سے نجات حاصل کرنے کے لئے انہوں نے آزادی حاصل کی تھی، جیتے جی تو وہ انسانوں کی انسانیت سوزی کے مورد بنتے ہی تھے، مرکر بھی ان کے نصیبوں میں ابدی عذاب ہوتا تھا، کیونکہ جس شخص نے خود کسی کی ہو وہ ملعون ترین گناہوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اسے گز بھر زمین کا حق بھی نہ پہنچتا تھا، اتنا بھی بہت تھا کہ آدھی رات کے اندھیرے میں اس کی لاش چوری چھپے کسی ناپاک زمین میں داب دی جاتی تھی اور اس کے سینے میں ایک کھنٹا گاردیاجاتا، تاکہ دوسروں کو تنبیہ ہو۔(۵۹)
مآخذو مراجع
۴۱-حافظ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت، دیوبند، ۲۰۰۲ء، ج:۳،ص:۳۸۱
۴۲- صحیح البخاری، کتاب الشرکة، باب تقویم الأشیاء بین الشرکا بصحة عدل۔ کتاب العتق، باب بیع المدبر۔
۴۳-ایضا ۔۴۴- موطا امام مالک، کتاب العتق والولاء، باب امہات الأولاد وجامع القضافی العتاقة
۴۵- مسند احمد بن حنبل، ج:۵،ص:۴۱۳-۴۱۴ جامع الترمذی، کتاب السیر، باب ماجاء فی کراہة التفریق بین السبی ۔ ۴۶- جامع الترمذی، کتاب النکاح، باب ماجاء فی العزل
۴۷-سنن ابوداؤد، کتاب الدیات، باب من قتل عبدہ او مثل بہ اقادمنہ۔ جامع الترمذی، کتاب الدیات، باب ماجاء فی الرجل یقتل عبدہ
۴۸-سنن ابوداؤد، کتاب الدیات، باب من قتل عبدہ او مثل بہ ایقاد منہ۔ سنن نسائی، کتاب القسامة والقودة والدیات، باب القصاص فی السن
۴۹-ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاص، احکام القرآن، مطبعة البہیة، مصر، ۱۳۴۷ھ، ج:۱،ص:۱۵۷
۵۰-سید ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیمات، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی، ج:۲،ص:۳۷۸
۵۱- اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، ص:۹۶
۵۲-ابوسعید بزمی،تاریخ انقلاب عالم، کتاب منزل، لاہور، ۱۹۴۹ء، ص:۱۱۵
۵۳-اسلام اور جدید ذہن کے شبہات، ص:۸۸-۸۹
۵۴-تفصیلی مطالعہ کے لئے ملاحظہ کریں:مولانا سعید احمد اکبر آبادی، غلامانِ اسلام، ندوة المصنفین، دہلی،۱۹۴۰ء
۵۵-روحِ اسلام، ص:۵۶۴۱۳-مولانا سعید احمد اکبر آبادی، اسلام میں غلامی کی حقیقت، ندوة المصنفین، دہلی، ص:۲۰۷َ
۵۷-ایضاً، ص:۲۱۳-۲۱۴ ۵۸-ایضاً،ص:۲۰۲ ۵۹-روحِ اسلام، ص:۴۲۱
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۲ھ -جولائی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: اسرارقبلہ !
Flag Counter