Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۲ھ -جولائی ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

8 - 11
مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید  !
مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید کے سانحہٴ شہادت کے چار دن بعد مؤرخہ ۲۸/جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ مطابق ۲/مئی ۲۰۱۱ء بروز پیر صبح گیارہ بجے جامعہ کے طلباء اور اساتذہ کا جامع مسجد بنوری ٹاؤن میں تعزیتی اجتماع ہوا، جس میں جامعہ کے اساتذہ، طلباء اور دیگر حضرات کے علاوہ حضرت مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید کے عزیز رشتہ دار بھی شریک ہوئے، اس اجتماع میں حضرت مولانا شہید کے لئے قرآن خوانی وایصال ثواب کیا گیا، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم نے تعزیتی خطاب فرمایا، جسے جامعہ میں زیر تعلیم دورہٴ حدیث کے طالب علم سید زین العابدین نے ضبط کیا۔ افادہٴ عام کے لئے ہدیہٴ قارئین ہے۔

محترم علماء کرام اور عزیز طلباء!جس مقصد کے لئے آپ حضرات یہاں جمع ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت کی ہے، وہ مقصد آپ سب جانتے ہیں۔ ہمارے نہایت ہی محبوب عزیز القدراستاذ اور ساتھی مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید جن کی شہادت سے ہماری جامعہ میں پھر ایک خلاء پیدا ہوا ہے اور جن کی یاد میں آج ہمارے دل مغموم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی جب کوئی شخص خدمت کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اسے بہت ہی اونچا بدلہ دیتے ہیں، لیکن ہم کمزور ہیں اور ہم آزمائش میں پڑجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی توفیق عطاء فرمائے۔
علمائے کرام اور طلباء حدیث جانتے ہیں کہ ایک مسلمان کا ناحق قتل اللہ کے ہاں اتنا عظیم ہے کہ پوری دنیا تباہ ہوجائے، اللہ کو اس کی فکر نہیں ہے اوراگرایک عالم اور وارث انبیاء کو قتل کیا جاتا ہے تو اللہ کے یہاں اس کی کیا کیفیت ہوگی؟! ۔
یاد رکھئے! علماء حضرات جانتے ہیں کہ اپنے محسنین کو قتل کرنا یہود کا طریقہ ہے۔ انسانیت کے سب سے بڑے محسن اور ہمدرد انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے نائبین ہوتے ہیں۔ اور قرآن کہتا ہے کہ یہودیوں نے بے شمار انبیاء کرام علیہم السلام کو قتل کیا ہے، ان کے مزاج میں یہ چیز شامل ہے اور انبیاء کرام کے وارثین جو ان کو نیک اعمال کی ترغیب دیتے تھے، ان کو قتل کیا ہے۔ قرآن کریم نے ان کے اس جرم کو ذکر کیا ہے۔ جو قومیں اپنے محسنین کو قتل کرتی ہیں تو گویا یہود کی صفات ان میں پائی جاتی ہیں، اس لئے کہ علماء سے بڑھ کر اس دنیا کے لئے کوئی محسن نہیں ہے ”العلماء ورثة الانبیاء“ علماء کرام حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ“ تھے، اسی صفت کا پرتو علماء کرام میں بھی پایا جاتا ہے۔
اب آپ بتایئے کہ اگر یہ مدارس نہ ہوتے، یہ مساجد آباد نہ ہوتیں، اس میں علماء ، ائمہ اور خطباء نہ ہوتے تو آج عوام الناس کا کیا حال ہوتا؟آج معاشرہ کے اندر جو ایمان ہے، اچھے اعمال ہیں اور حلال وحرام کی تمیز ہے، یہ انہی علماء کی برکت ہے۔ علماء اسی جذبے کو لے کر مدارس چلا رہے ہیں، مسجدوں میں امامت کررہے ہیں اور وعظ ونصیحت اور مختلف طریقوں سے لوگوں کو راہ راست پر لارہے ہیں، تاکہ یہ لوگ جہنم کی آگ سے بچ جائیں اور دین پر چلنے لگ جائیں۔ ایسے مفیداور معاشرے کے اعلیٰ ترین عنصر کو ضائع کردینا یہود کا کام ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر امت کو جو بنیادی درس دیا، اس میں یہ ہے کہ ایک مسلمان حکمران اور ایک مسلمان حکومت کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنی رعیت کی جان ومال اور عزت کی حفاظت کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھوں صحابہ کرام کے اس مجمع میں (جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت سے رخصت ہورہے ہیں) فرمایا: ہاں بھائی بتاؤ! یہ کونسا دن ہے؟ صحابہ کرام کے ہاں ادب یہ تھا کہ باوجود اس کے کہ جانتے تھے، عرض کیا: ”الله ورسولہ اعلم“ فرمایا کہ یہ امن والادن نہیں ہے؟ یعنی عرفہ، صحابہ نے عرض کیا: بے شک، پھر فرمایا کہ یہ کونسا شہر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا:”الله ورسولہ اعلم“ فرمایا: یہ امن والا اور حرم والا شہر نہیں ہے؟ یعنی مکہ، صحابہ نے عرض کیا: بے شک، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ”الله ورسولہ اعلم“ فرمایا کہ: کیا یہ حرمت والا مہینہ نہیں ہے؟ صحابہ نے عرض کیا :بے شک۔ اتنی تمہید کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان فرمارہے ہیں، سن لو! غور سے سن لو!
”الا ان دماء کم واموالکم واعراضکم حرام علیکم کحرمة یومکم ہذا فی بلدکم ہذا فی شہرکم ہذا“
ترجمہ:۔” تمہاری جان ومال اور عزت تم پر ایسے ہی قابل احترام ہے، جس طرح کے آج کا دن، آج کا مہینہ اور یہ امن والا اور حرمت والا شہر مکہ“۔
ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک مسلمان حکومت کا پہلا فرض یہ ہے کہ اپنی رعیت کی جان ومال اور عزت کا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے حدوداس لئے نازل فرمائی ہیں کہ معاشرے کے اندر اکثریت تو وہ ہوتی ہے جو وعظ ونصیحت سے بات سمجھ جاتی ہے اور سیدھے راستے پر چل پڑتی ہے، لیکن چند نفوس ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی فطرت ٹیڑھی ہوتی ہے، ایسے لوگ بغیر سزا کے باز نہیں آتے، کہتے ہیں ناکہ” لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“ تو اللہ تعالیٰ نے حدود اتاری ہیں معاشرے کو با امن رکھنے کے لئے ،قتل کا بدلہ قتل، چور کے ہاتھ کاٹے جائیں گے، محصن زانی کو رجم کیا جائے گا، غیر محصن کو کوڑے لگائے جائیں گے ،وہلم جرًا۔ اور آپ کے معاشرے میں جن کی فطرت ٹیڑھی ہے، وہ ان سزاؤں کے خوف سے اپنے ان جرائم سے باز آجائیں گے۔
لیکن آج جو لوگ ہم پر مسلط ہیں، کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے ذہنوں میں شاید یہ تصور بھی نہیں ہے کہ عوام کی عزت، مال اور جان کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ اور یہ اسلام نے صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بتلایا، بلکہ ایک غیر مسلم جوکہ مسلمان حکومت میں رہتا ہے، اس کی بھی جان، مال اور عزت اسی طرح قابل احترام ہے، جیساکہ ایک مسلمان کی۔ اسلام نے آکر انسانیت کی قدر سکھائی ہے ۔ آج اعدائے اسلام، اسلام اور مسلمانوں کو خوا مخواہ بدنام کرتے ہیں، حالانکہ اسلام تو وہ مذہب ہے، جس نے انسانیت سکھائی ہے اور انسانیت کی قدر سکھائی ہے۔ انسان تو انسان، جانوروں کے بھی حقوق سکھائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماہیں، بیٹھے ہوئے ہیں، صحابہ بھی ہیں، ایک میت وہاں سے گزری، آپ صلی اللہ علیہ وسلمکھڑے ہوگئے ۔یہ ایک عجیب منظر ہوتا ہے، موت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ وہ میت گزر گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے۔ کسی نے کہا: کہ حضرت! یہ تو یہودی کی میت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے جواب میں فرمایا:”الیست نفساً“ کیا یہ انسان نہیں ہے؟
میرے بزرگو اور بھائیو! اسلام نے ہر شخص کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد کی اور جو شخص اس منصب پر بیٹھتا ہے، اس پر یہ ذمہ داری آتی ہے، وہ سمجھ لے کہ کل اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھیں گے۔ حدیث میں آتا ہے ”کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ“ اور سب سے پہلے جو مثال دی ہے ”الامام راع ومسئول عن رعیتہ“ حاکم وقت کی حیثیت عوام کے لئے محافظ کی سی ہے۔ تعبیر حاکم کی نہیں کی ہے، محافظ کی کی ہے اور پوچھا جائے گا ”ان الله سائل کل راع عن رعیتہ احفظہا ام ضیعہا“ ان کو ضائع کیا ،تم نے بھیڑیوں کے لئے چھوڑ دیا؟ جوچاہے کریں، جس کو چاہے ماریں، قتل وغارت، چوری، ڈاکے ؟ یا ان کی حفاظت کی ہے؟ اسی لئے ہماری اسلامی تاریخ اور جو سب سے سنہری تاریخ ہے خلفائے راشدین  کی، اس میں راتوں کو خلیفہ وقت چکر لگارہے ہیں، یہ فکر ہے کہ رعیت کیسی ہے؟ کوئی مظلوم تو نہیں؟ کسی کو تکلیف تو نہیں ہے؟ حضرت عمر رات کو گشت کررہے ہیں، ایک جگہ آگ جلتی ہوئی دیکھی۔ شہر سے باہر جھونپڑی لگی ہوئی تھی، یعنی خیمہ تو وہاں پہنچ گئے۔ السلام علیکم ،وعلیکم السلام۔ دیکھا کہ ایک بڑھیا بیٹھی ہوئی ہے اور ہنڈیا چولہے پر رکھی ہوئی ہے اور چولہا جل رہا ہے اور اندر بچے رورہے ہیں۔ پوچھا کہ امّاں جان! یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ کہنے لگیں کہ بھوک کی وجہ سے۔ آپ یہ کیا پکار ہی ہیں؟ کہنے لگیں کچھ بھی نہیں، پانی رکھا ہے ان کو بہلانے کے لئے، تاکہ سوجائیں۔ یا اللہ! کیا گزری ہوگی اس خلیفہ راشد پر؟ وہ ساتھ کہہ رہی ہیں کہ اللہ کل پوچھے گااس امیر المؤمنین سے کہ تیری رعیت میں یہ بچے بھوکے تھے اور توسویا ہوا تھا؟ اور اس کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں کس سے باتیں کررہی ہوں۔ حضرت عمر  نے فرمایا کہ: اماں جان! اس بے چارے کو کیا معلوم کہ آپ کے بچے اس طرح ہیں؟ کہنے لگیں کہ اس کو معلوم نہیں تو خلیفہ کیوں بنتا ہے؟ امیر کیوں بنتا ہے؟ چپکے سے وہیں سے واپس ہوگئے۔ جلدی جلدی آئے، بیت المال سے کھانے پینے کی چیزیں لیں، جو ضرورت تھی ایک تھیلی میں ڈالی اور اپنے کندھے پر رکھیں، جبکہ ان کے ساتھ ان کا خادم اسلم تھا، کہنے لگا کہ حضرت! میں اٹھاؤں؟ فرمانے لگے کہ نہیں، نہیں، قیامت کے دن کون اٹھائے گا میرا بوجھ؟ تو بہرحال ان کی ضروریات فوری طور پر پوری فرمائیں۔ اس عورت اور اس کے بچوں سے دعائیں لیں۔ یہ حکمران تھے، جن کے زمانے میں انصاف کا دور دورہ تھا اور ایک آج کل کے ہمارے حکمران ہیں، جن کی حرکتیں سب کے سامنے ہیں اور جن کے دور میں لگاتار پے درپے علماء قتل کئے جارہے ہیں اور کام کے لوگ ختم ہورہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لوگوں کی مثال سو اونٹ کی ہے، جیسے سو اونٹ دیکھے ہیں؟ قد میں برابر، رنگ میں برابر، شکل میں برابر، لیکن فرمایا کہ سو میں بمشکل آپ کو ایک اونٹ ملے گاجو سواری کے قابل ہوگا۔ تو بھائی! انسان بڑی دیر سے بنتا ہے، بڑی محنت کے بعد بنتا ہے، اس کو اس طرح سے ضائع کردینا بغیر کسی وجہ کے، یہ یہودی ذہن ہے۔ بہرحال ہم میتوں کی سیاست نہیں کیا کرتے اور نہ ہی کرنا جانتے ہیں، لیکن احتجاج ہمارا حق ہے۔ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کل چھوٹیں گے نہیں، اگر آپ کو کل زندہ ہونے اور اللہ کے سامنے کھڑا ہونے پہ یقین ہے تو یاد رکھو! کل یہی مقتول اپنے قاتل کو لے کر اللہ کے دربار میں آئے گا۔ اللہ کی عدالت میں وہاں نہ کوئی بھاگ سکے گا اور نہ ہی کوئی سفارش ہوگی۔ حدیث میں آتا ہے: مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے آئے گا، اسی حالت میں اس کا خون بہہ رہا ہوگا اور کہے گا یا اللہ ! ذرا اس سے پوچھئے کہ اس نے کیوں مجھے قتل کیا؟ اب قاتل کوشش کرے گا کہ اپنے جرم کو دوسرے پر ڈالے، تو کہے گا کہ اس وقت فلاں کی حکومت تھی، اس کی حکومت میں میں نے یہ کام کیا، کیونکہ پوچھنے والا کوئی تھا ہی نہیں، اس لئے میں نے یہ حرکت کی۔ وہ قاتل چھوٹے گا تو نہیں، ہاں البتہ پھر اس حاکم کو بھی مجرم کی حیثیت سے وہاں لایاجائے گا۔ حکمرانو! اس منظر کو یاد کرو، کل اللہ کے سامنے کیا جواب دوگے؟اور یہاں اگر کوئی گورنر، وزیر اعظم، صدر ان میں دائیں بائیں نکلتا ہے تو ساری سڑکیں بند کردی جاتی ہیں، کیا ہوگیا ہے؟ بھائی! فلاں صاحب گزررہے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے سامنے تم اور ایک عام مزدور برابر ہو، تمہیں فکر ہونی چاہیے، تمہاری تو نیند اڑ جانی چاہیے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ روزانہ خون بہہ رہا ہے، لاشیں پڑی ہوئی ہیں ،یہ ہورہا ہے، وہ ہورہا ہے۔ کوئی نظم وضبط ہی نہیں ہے۔ اگر قتل کہیں کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہے تو یہاں غریبوں کی بسیں جلائی جارہی ہیں،یہ کونسا انصاف ہے؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا بس کے ڈرائیور نے اس کو مارا ہے؟ یہ امت کے خلاف بہت بڑی سازش ہے، یہ یہودی ذہن ہے۔ جو بھی یہ حرکت کرتا ہے، اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ کل اللہ کے ہاں جانا ہے، وہاں پورا پورا انصاف ہوگا۔ تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ معاشرے کا سب سے مفید ترین انسان ایک عالم ہوتا ہے جو امت کی راہنمائی کرتا ہے: ادھر تدریس ہورہی ہے، علماء تیار ہورہے ہیں اور ادھر مسجد ہے، لوگوں کی عبادت صحیح کرارہا ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ انسان جب دنیا سے جاتا ہے تو سارے اعمال اس کے منقطع ہوجاتے ہیں، سوائے تین کے اور ہمارے مولانا ارشاد اللہ عباسی شہیدکو تو اللہ نے ایسا بنایا تھا کہ وہ تینوں ان کے لئے دنیا میں بھی موجود تھے۔
۱… نیک اولاد: نیک اولاد خواہ صلبی ہو یا روحانی، جس جس نے ان سے پڑھا ہے، وہ سب ان کی اولاد ہیں۔ اور پھر ہمارے اسلامی مدارس میں یہ نہیں ہوتا کہ جن سے پڑھا ہے، بس وہی استاد ہوگا، مدرسہ کا ہراستاد چاہے وہ صرف پڑھانے والا ہو، ہرطالب علم اس کو اپنا استاد سمجھتا ہے۔ ہمارے یہاں طلباء کے دلوں میں استاد کی عظمت ہے، محبت ہے۔ آپ نے جنازہ میں دیکھا ہوگا کہ چیخیں مارمار کر رو رہے تھے۔ یہ تمہارے اسکول، کالج یہ چیزیں پیدا نہیں کرتے۔ان کی صلبی وروحانی اولادیں ان کے عزیز واقارب، رشتہ دار، دوست و ساتھی، سب ان کے لئے دعائیں کریں۔
۲…علم: ظاہر بات ہے کہ جتنے ان کے شاگرد ہیں، یہ سلسلہ جب تک چلتا رہے گا، ان کے لئے صدقہٴ جاریہ ہے۔
۳…صدقہٴ جاریہ: یہ بھی اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے، ہرآدمی کے اندر اتنی جامعیت نہیں ہوتی۔ بنات کا مدرسہ وہ چلا رہے تھے، یہ ان کے لئے صدقہٴ جاریہ ہے۔ تو بہرحال ان ظالموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تم نے ان کی دنیا تو خراب کردی ہے، وہ شارٹ راستے سے جنت میں پہنچ گئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
”وَلاَتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاءٌ وَّلٰکِنْ لاَّتَشْعُرُوْنَ“۔
ترجمہ:۔”اور نہ کہو ان کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں کہ مردے ہیں، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم کو خبر نہیں“۔
شہید زندہ ہے، اس لئے ہم زندوں کا ماتم نہیں کرتے اور مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید انشاء اللہ اس وقت جنت میں مزے کررہے ہوں گے اور ہمارے اس ادارہ میں تو ایک سلسلہ ہے،سب جانتے ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی حضرات ہیں، جو قافلہ شہداء سے جاملے ہیں (مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید، مولانا مفتی عبد السمیع شہید، صاحبزادہ مولانا سید محمد بنوری، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید، مولانا مفتی ڈاکٹر نظام الدین شامزئی شہید، مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید، مولانا سعید احمد جلالپوری شہید، مولانا محمد امین اورکزئی شہید، مولانا مفتی سید سعید احمد اخوندزادہ شہید (استاذ مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر، شاخ جامعہ) مولانا خلیل اللہ شہید (استاذ مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر، شاخ جامعہ) مولانا انعام اللہ شہید (استاذمدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمر، سہراب گوٹھ، شاخ جامعہ) اور اب مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید) تو بہرحال مجھے ایک واقعہ یاد آیا، جب مولانا مفتی محمد جمیل خان  کو شہید کیا گیا، ان کو تو اللہ نے اقرأ روضة الاطفال کی صورت میں ایک بہترین ادارہ دیا تھا، جس کی سینکڑوں شاخیں چل رہی ہیں، تو ایک شاخ کی معلمہ نے خواب دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت باغ ہے، جس میں مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید چل پھر رہے ہیں اور مزے کر رہے ہیں اور مجھے بھی ایک گلاس دودھ کا بھر کردیا کہ لو تم بھی پیو۔ بھائی! اللہ دکھاتا ہے، تو بہرحال ہم شہیدوں کا ماتم نہیں کرتے ۔ہمیں حکم دیا گیا ہے :”وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ“ تو مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید کے جتنے متعلقین ہیں ،سب علماء ہیں اور سب جانتے ہیں کہ شہید کے کیا کیا فضائل ہیں۔
مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک شیعہ عالم ڈاکٹر موسیٰ موسوی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ بغداد میں یا کربلا میں ۱۰/ محرم کا جلوس نکل رہا تھا اور اس میں ماتم، مارپیٹ ہو رہا تھا، خون بہہ رہا تھا، بہرحال جو ہوا کرتا ہے، وہ ہو رہا تھا۔ تو میں اپنے والد کے ساتھ تھا، میرے والد نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ میں نے کہا آپ دیکھ رہے ہیں۔ تو اس کے والد کہنے لگے کہ یہ بتاؤ کہ حضرت حسین شہید ہیں یا نہیں؟ میں نے کہا: بے شک۔ پھر کہنے لگے کہ حضرت حسین  اس وقت جنت میں اور جنت کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یا نہیں ؟میں نے کہا :بے شک۔ تو کہنے لگے کہ پھر یہ کیا ہورہا ہے ان کے نام پر؟ تو بہرحال شہید زندہ ہوتا ہے اور ہم زندوں کے ماتم نہیں کیا کرتے ۔
بہرحال اگر قاتل نہیں پکڑے جاتے تو انشاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ یہ قاتل کہیں بھاگ نہیں سکیں گے، لیکن ہماری انتظامیہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تمہارا آخرت پر ایمان ہے، وہاں اللہ کے سامنے تمہیں بھی آنا پڑے گا۔ ابھی سے سوچ لو اور اگر تمہارے اندر یہ طاقت نہیں ہے، یہ صلاحیت نہیں ہے کہ تم قاتلوں کو گرفتار کرسکو تو پھر چھوڑدو بھائی ان کرسیوں کو، کوئی اللہ کے بندے نیک لوگ آئیں جو امت کو سنبھالیں اور ان کی عزت ، جان اور مال کی حفاظت کریں ۔انشاء اللہ مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید تو کامیاب ہیں، لیکن ہمارے لئے بہرحال آزمائش ہے اور ہم دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے، بلکہ میں تو سوچتا ہوں کہ وہ ابھی اپنے سابق بزرگوں کے ساتھ مل رہے ہوں گے۔
حضر ت بلال  بیمار تھے، اب ان کے گھر والوں کے منہ سے نکل گیا کہ ہمارا کیا ہوگا؟ بھائی گھر کا سب سے بڑا تو وہی ہوتا ہے، گھر والا چلا گیا تو یتیم بچے، بیوہ یہ سب سوگوار ہوتے ہیں۔حضرت بلال جواب میں فرماتے ہیں کہ بھائی خوشی کی بات ہے کہ کل دوستوں سے ملاقات ہوگی۔ دوست کون ہیں؟ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ۔ تو مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید اپنے مشائخ سے مل رہے ہوں گے اور وہاں مجلس ہورہی ہوگی اور وہ تو پوچھ رہے ہوں گے کہ فلاں کا کیا حال ہے؟ فلاں کا کیا حال ہے؟ فلاں کا کیا حال ہے؟ لیکن بہرحال ہمارے لئے صبر کا وقت ہے۔
میں اپنے ساتھیوں سے عرض کروں گا، وہ دعا فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید کا بدل ہمیں عطاء فرمائے۔ اور میں اپنے طلباء سے بھی عرض کروں گا کہ یہ نہیں ہے کہ بس تعزیتی اجتماع ہوگیا اور اس میں ان کے لئے ایصال ثواب اور دعائیں ہوگئیں، بس ختم۔ نہیں، بلکہ اپنی دعاؤں میں مستقل ان کا حصہ بناؤ۔
میں تحدیث بالنعمة کے طور پر بتاتا ہوں، دکھاوے کے لئے نہیں اور اگر میں قسم کھاؤں تو انشاء اللہ حانث نہیں ہوں گا کہ جس دن سے ہمارے شیخ محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی وفات ہوئی ہے، اس دن سے لے کر آج تک ہرنماز کے بعد سفر میں حضر میں، ہرحالت میں ایک مرتبہ سورة الفاتحہ پڑھ کر ایصال ثواب کرتا ہوں اور میرے ذہن میں ایک فہرست ہے، جن میں میرے والدین بھی ہیں، اساتذہ بھی ہیں، ساتھی بھی ہیں، اعزہ و اقرباء بھی ہیں، مخلصین بھی ہیں، ان کے لئے ایصال ثواب کرتا ہوں۔ تو میرے بھائیو! وفاء کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح انسان اپنے والدین کو یاد کرتا ہے، اسی طرح اپنے روحانی والد کو بھی یاد کرے، اسی طرح مغرب کے بعد جو سورہٴ یٰسین کا ختم ہوتا ہے، اس میں بھی آپ دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ مدرسہ کی حفاظت فرمائیں، علماء کی، طلباء کی حفاظت فرمائیں۔اور ساتھ ساتھ آخری بات کہتا ہوں: وہ لوگ جو اس دین کے دشمن ہیں، علماء کے دشمن ہیں اور یہ یہودیوں والی حرکتیں کررہے ہیں، میں ان سے صاف کہتا ہوں کہ یہ اللہ کا دین ہے۔ یہ اللہ کا دین ہے، یہ اللہ کا دین ہے، اس کو تم مٹا نہیں سکتے، خود تم مٹ جاؤگے، اس کو نہیں مٹا سکتے، اللہ نے خود اس کی ذمہ داری لی ہے اور اگر تم نے ایک مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید کردیا ہے تو انشاء اللہ! بیسیوں مولانا ارشاد اللہ عباسی شہید پیدا ہوں گے۔
ابرہہ مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کے لئے آیا، پورا قصہ آپ کو معلوم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب نے اپنے اونٹوں کے چھڑانے کے لئے اس سے بات کی تووہ کہنے لگا کہ میں تو حیران ہوں کہ آپ چھوٹی سی چیز کا مطالبہ کرنے آئے ہیں، میں تو سمجھا تھا کہ مکہ مکرمہ کے بارے میں کوئی بات کریں گے تو حضرت عبد المطلب نے اس کو جو جواب دیا، وہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ فرمایا کہ: اونٹوں کا مالک میں ہوں اور مکہ مکرمہ کا ایک رب موجود ہے، وہ خود ہی اس کی حفاظت کرے گا۔ پھر دنیانے دیکھا کہ اس کا کیا حشر ہوا۔ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو اللہ نے بھیجا، ان کے منہ میں اور پنجوں میں کنکریاں تھیں اور ان کنکریوں نے میزائل کا کام کیا، اور وہ تباہ ہوگیا ”فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّأْکُوْْلٍ“۔
تو بھائی! یہ اللہ کا دین ہے، یہ باقی رہے گا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور یہ دین خاتم الادیان ہے اور یہ قیامت تک رہے گا، تمہاری ان حرکتوں اور غلط اعمال اور پروپیگنڈوں سے اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا، ہاں تمہاری آخرت خراب ہوجائے گی۔ اس لئے ہم حکمرانوں سے یہی کہتے ہیں کہ چونکہ ہم آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اسلام کا قاعدہ یہ ہے کہ ”الدین النصیحة“ دین خیرخواہی کا نام ہے اور خیر خواہی کے اسی جذبے سے آپ کو کہتے ہیں کہ بھائی! اپنے اس فرض کو پورا کرو اور نہیں کرسکتے تو آخرت کی پکڑ سے بچنے کے لئے کسی اور کے سپرد کردو۔ بھائی! یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ بہرحال میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں۔ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۲ھ -جولائی: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: شعر وشاعری اور محفل سماع کی حقیقت !
Flag Counter