حضرت علی میاں ندوی انگریزی سیکھا کرتے تھے۔
مولانا خلیل عرب صاحب ، علی میاں ندویؒ کے عربی ادب کے استاذ تھے اور ایک معنی میں اتالیق بھی ۔ انہوں نے پہلے تو علی میاں کے بڑے بھائی جناب سید عبدالعلی صاحب ؒ ، جو علی میاں کے سرپرست بھی تھے ، سے کہہ سن کر اجازت لے لی کہ آج علی میاں کی خوب خبر لوں گا ، استاذوں کی ناقدری کرتا ہے ۔ پھر علی میاںؒ کو بلا کر خوب سخت سست کہا اوربہت مارا پیٹا۔
علم کے راستے میں کبھی کبھار بہت سخت مقام آتے ہیں ، حقیقی طالب علم ہی ان مقامات سے صحیح سالم گذر سکتا ہے … اور پھر یہ بھی تو ہے کہ دینی علم نہ صرف دنیا میں سرفراز ی بلکہ آخرت میں بھی نجات کا ضامن ہے ، بھلا اتنا قیمتی علم بے قدری سے کیسے حاصل ہوسکتا ہے ۔ جن ذریعوں سے علم حاصل ہوتا ہے ان تمام ذریعوں کی قدر کرنی چاہیے ، کتابوں کی قدر، کاپیوں کی قدر، کاغذ اور قلم کی قدر ، درس گاہ کی قدر ، اور سب سے بڑھ کر استاذ کی قدر۔ استاذ کی ذرا سی ناقدری کی جاے تو علم ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا۔
پانی کی ٹنکی لبالب بھری ہومگر غسل خانے کی ٹونٹی ہی بند ہو تو کیا پانی مل سکتا ہے؟ کیسے ملے گا، ہر گز نہیں مل سکتا۔ بس اسی طرح استاذ کا دل بند ہوتو علم کا نور استاذ کے دل سے شاگرد کے دل میں ہرگز منتقل نہیں ہوسکتا۔
بات یہ نہیں تھی کہ حضرت علی میاں ندویؒ نے انگریزی کے استاذ کی