واقعتا ناقدری کی ہو۔ حضرت علی میاں تو ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے ۔ ہوتا یہ ہے کہ آدمی کرتا کچھ ہے اور دیکھنے والے سمجھتے کچھ ہیں ، اور ہر موقع وضاحت کرنے کا ہوتا نہیں ، بس بات گنجلک رہ جاتی ہے ۔ بھلا علی میاں ؒ کیوں دروازہ پھٹ سے بند کرنے لگیں …خیر… مگر استاذ نے یہی سمجھا اور اپنی ناقدری محسوس کی۔
ذکر یہ چل رہا تھا کہ مولانا خلیل عرب صاحب نے حضرت علی میاں کو اچھی طرح پیٹا ۔ بعد میں خود انہیں بھی خیال ہوا کہ شایدمیں نے زیادہ مار دیا ہے۔ اتنا نہیں مارنا چاہیے تھا ۔ علی میاں کو بلایا اور معذرت بھی کرلی ۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔
ہوتے ہوتے یہ خبر حضرت علی میاں ندوی کی والدہ کو بھی پہنچی کہ مولانا خلیل عرب صاحب نے ان کے بچے کو بہت مارا پیٹا ہے ۔ انہوں نے بیٹے کو بلایا اور پورا ماجرہ سنانے کے لیے کہا ۔ حضرت علی میاں ندوی ؒ نے والدہ کے حضور قصہ یوں سنایا کہ امی جان ، غلطی میری ہی تھی، میں نے یہ کیا تھا اور یہ کیا تھا اور یہ غلطی مجھ سے ہوگئی تھی ، اس لیے استاذ نے بس ذرا سی تنبیہ کی ہے اور کوئی بات نہیں ۔ بس اتنی سی بات ہے ۔
بیٹے کی زبانی یہ سب سن کر والدہ صاحبہ جو خود بھی بہت نیک خاتون تھیں ، مطمئن ہوگئیںکہ اتنی سی تو بات ہے ، لوگ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں ۔
سوچنے کی بات ہے، ہم اور آپ اس جگہ ہوتے تواپنی والدہ سے کیا کہتے ؟