مذہب پر عمل کرنے ، بلکہ اسے پھیلانے کی بھی آزادی دی گئی۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ملک کی یوپی سرکار کی طرف سے تمام اسکولوں میں یہ ضروری قرار دیا جانے لگا کہ اسکول کے سب بچے تعلیم شروع ہونے سے پہلے وندے ماترم کا ترانہ گائیں۔ وندے ماترم کا ترانہ ایک بنگالی ہندو شاعر نے لکھا تھا ۔ اس ترانے کا مطلب کچھ ایسا بنتا ہے کہ یہ بھارت کی زمین ہمارا خدا ہے اور ہم زمین کی عبادت کرتے ہیں ۔ ہندو شاعر کے عقیدے میں شاید یہ بات درست ہو مگر ہم مسلمان تو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ۔ ہم بھارتی زمین کی عبادت کیوں کریں گے ۔ زمین تو خود ہی اللہ کی عبادت کررہی ہے ۔
حکومت کو جانے کیا سوجھی کہ وندے ماترم کو اسکولوں میں لازم کردیا گیا، جب کہ شاعرِمشرق علامہ اقبال کا قومی ترانہ ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ وندے ماترم کے بالمقابل بہت ہی سلیس اور عمدہ ہے اور سب لوگ اسے سمجھتے بھی ہیں لیکن جب حکومت کی طرف سے زبردستی وندے ماترم اسکولوں میں تھوپا گیا تو مسلمانوں کو فکر ہونے لگی ؛ اس بات کا بھی امکان تھا کہ اسکولوں کے بعد مدرسوں میں بھی اس ترانے کو لازم کردیا جاتا۔
مسلمانوں کی بہت ساری تنظیموں اور جماعتوں نے حکومت کے اس حکم کے خلاف جلسے جلوس کیے ۔ تقریریں ہوئیں ، تجویزیں پاس ہوئیں مگر