Deobandi Books

طلبہ کے علی میاں ندوی

12 - 24
 ایک عجیب خوشی اور مسرت کا ماحول بنا رہتا۔ 
خیر ، تو ایک دفعہ پڑھاتے پڑھاتے مولانا خلیل عرب صاحب کو چاے کی طلب محسوس ہوی۔ انہوں نے چاے کی فرمائش کی تو گھر کے اندر سے جواب ملا کہ شکر ختم ہوگئی ہے ۔ عرب صاحب نے اسی وقت ایک روپیہ نکال کر حسین کو دیا کہ دوڑ کر شکر لے آؤ۔ وہ سیر بھر شکر لے آے جو غالباً اس وقت دو ڈھائی آنے کی ملتی تھی۔ شکر لے کر آے، گھر میں شکر دی اور اِدھر ریزگاری واپس کی ، پھر سبق میں بیٹھ گئے ۔ عربی کتاب ’’کلیلۃ ٌودِمنہ‘‘ کا سبق چلتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اچانک عرب صاحب نے حسین سے کہا:’’ ایک روپیہ دیا تھا، بقیہ پیسے کیا ہوے؟‘‘ ۔ حسین تو ’’کلیلۃ ودِمنہ‘‘ کی باغ وبہار عبارت میں گم تھے ، اب انہیں کہاں یاد تھا کہ بقیہ پیسے انہوں نے کسے دیے ہیں ۔ یہ تو یاد تھا کہ پیسے لوٹا دیے ہیں ، مگر کب، کہاں ، کیسے ،کچھ یاد نہ آتاتھا ۔ عرب صاحب بہت ناراض ہوے ، کہا :
’’ یہاں تھا کون؟ یا تو میں تھا ، یا علی ، یا تم؟ آخر ریزگاری گئی کہاں؟ معلوم ہوتا ہے تیری عادت خراب ہوگئی ہے‘‘۔ 
حسین کا عجب حال ہوگیا، بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ وہ کہتے ہی رہے کہ میں نے ریزگاری واپس کی تھی ، لیکن خیر… اب ریزگاری کا کہیں پتہ نہ تھا۔ پھر سبق شروع ہوگیا۔ وقت ختم ہوا ، سبق بھی ختم ۔ سب اٹھ کر چلے گئے اور

Flag Counter