Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی سلامتی

ن مضامی

18 - 40
افغانستان کی صورتحال اور پاکستان کی خارجہ پالیسی
افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے، اس کے بارے میں ہم اپنے خیالات آئندہ شمارے میں ان شاء اللہ تعالیٰ تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے۔ سردست موقر قومی روزنامہ نوائے وقت کا ۲۹ نومبر ۲۰۰۱ء کا اداریہ اور ادارتی شذرات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں جن میں موجودہ صورتِ حال اور مستقبل کے خدشات وتوقعات کی بہت بہتر انداز میں عکاسی کی گئی ہے اور ہمیں بھی ’’نوائے وقت‘‘ کے اس حقیقت پسندانہ تجزیے سے اتفاق ہے۔
افغان بحران میں حکومت پاکستان نے امریکہ سے جو توقعات وابستہ کی تھیں، وہ نقش بر آب ثابت ہو رہی ہیں اور آہستہ آہستہ حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں، وہ نہ صرف کشمیری عوام کی جدوجہد کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں بلکہ ہمارے ایٹمی سائنس دانوں کے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے علاوہ ایران سے رابطوں کا ہوّا کھڑا کر کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان نے امریکہ سے تعاون کا فیصلہ کرتے وقت واضح کیا تھا کہ وہ نہ تو شمالی اتحاد کا کابل پر قبضہ برداشت کرے گا اور نہ جنگ کی طوالت کے حق میں ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی اور جہاد میں فرق ملحوظ رکھنے کی بات بھی کی اور سٹرٹیجک اثاثوں کے تحفظ کے لیے قوم کو امریکی حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی مگر کابل پر شمالی اتحاد کے قبضے، جنگ کو مقاصد کے حصول تک جاری رکھنے بلکہ اس کا دائرہ دوسرے ممالک تک وسیع کرنے کے اعلانات سے واضح ہو گیا ہے کہ ہماری کوئی بات نہیں مانی گئی اور ۱۱ ستمبر سے پہلے کی طرح ہم امریکہ پر اعتماد نہیں کر سکتے۔
اپنے ہی دوست طالبان کے خلاف جنگ میں ثبوت حاصل کیے بغیر امریکہ کا ساتھ دے کر ہم نہ صرف اقتصادی اور معاشی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں بلکہ سیاسی، عسکری اور معاشرتی مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری خارجہ پالیسی کسی واضح جہت سے محروم ہو گئی ہے اور ہم دوستوں کے حلقے سے نکل کر دشمنوں کے محاصرے میں آ گئے ہیں۔ ہماری مشرقی سرحدیں ہمیشہ سے غیر محفوظ چلی آ رہی ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں ایک بڑی، طاقتور، جدید ہتھیاروں سے مسلح اور تربیت یافتہ فوج کی ضرورت لاحق ہے۔ اس کے علاوہ وسائل کا بڑا حصہ اپنے دفاع اور سلامتی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے۔ امریکی دباؤ اور اپنی نااہلی کی وجہ سے اب ہم نے شمال مشرقی سرحد بھی غیر محفوظ کر لی ہے اور فوج کا اچھا خاصا حصہ حکومت کو افغان سرحد پر متعین کرنا پڑ رہا ہے۔ جغرافیائی گہرائی کا جو تصور قوم کو دیا گیا تھا، وہ پاش پاش ہو گیا ہے اور امریکہ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ نہ صرف افغانستان میں اڈے قائم کرے گا بلکہ علاقے میں طویل عرصے تک موجود رہ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا، علاقائی صورت حال میں بھی تبدیلی آ رہی ہے جو ہمارے قومی مفادات سے سراسر متصادم ہے۔
امریکہ کی ترجیح اول بھارت ہے جو ایک بڑی تجارتی منڈی، دفاعی پارٹنر اور مادر پدر آزاد مغربی تہذیب سے ہم آہنگی کی بنا پر امریکہ ومغرب کے لیے زیادہ قابل قبول ہے۔ بھارت کے مشورے پر امریکہ نے شمالی اتحاد کی سرپرستی کی اور انہیں آگے بڑھنے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی۔ بھارت اسرائیل گہرے روابط بھی امریکہ کے جھکاؤ میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں اور اب شمالی اتحاد کے سرپرست کے طور پر بھارت کابل میں اپنی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ ہمارا ایٹمی پروگرام اور عالم اسلام سے تعلقات بھی امریکہ کی نظروں میں کھٹکتے ہیں اور وہ یہ کبھی نہیں بھول سکتا کہ ۱۱ ستمبر تک ہم طالبان کے قریبی ساتھی اور سرپرست تھے۔ چینی وزیر اعظم کی پاکستان آمد کے موقع پر دونوں ممالک میں گوادر کی بندرگاہ اور مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کا جو معاہدہ ہوا، وہ ہر لحاظ سے سنگ میل تھا اور یہ امریکہ وروس کی دیرینہ خواہشوں کے علی الرغم تھا جو گوادر اور بلوچستان کے وسیع ساحل تک رسائی کے لیے ایک عرصہ سے خواہاں تھے۔ ہم نے اسی وقت لکھا تھا کہ امریکہ کو یہ معاہدہ مشکل سے ہی ہضم ہوگا۔
اس سمجھوتے سے ہم نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ امریکہ پر مزید انحصار نہیں کیا جا سکتا اسی لیے ہم نے چین سے تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا ہے لیکن ۱۱ ستمبر کے بعد اچانک یوٹرن لے کر ہم ایک بار پھر امریکہ کے کیمپ میں چلے گئے ہیں اور اگر ہماری اس حماقت کی وجہ سے امریکہ علاقے میں مستقل اڈے قائم کر لیتا ہے تو ہمارے علاوہ چین اور ایران کے مفادات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور یہ چیز ہمارے علاوہ چین کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ ماضی میں چین ہمیں دفاع اور سلامتی کے معاہدے کی پیشکش کر چکا ہے جس سے ہم امریکی خوف کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اب یہ ہماری ضرورت ہے کہ ہم پاک چین تعلقات کو مزید نقصان سے بچانے اور اپنے مستقبل کے علاوہ مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے چین کی موجودہ ناراضگی دور کریں اور وہ رشتے مضبوط بنائیں جن کا ماضی میں دونوں طرف سے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔
ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اس دوستی میں امریکہ کی ریشہ دوانیوں سے پڑنے والی دراڑوں کو بھرنے اور قد آور درخت سے مرجھاتے ہوئے اس پودے کو تازہ آب وہوا فراہم کرنے کے لیے ہمیں پیش رفت کرنی چاہیے اور یہ طے کر لینا چاہیے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا اہم عنصر امریکہ کے بجائے چین ہے اور دونوں ممالک کا مفاد مشترک ہے کیونکہ امریکہ بھارت اور ایک لحاظ سے روس کے ذریعے سے دونوں کے لیے خطرات میں اضافہ کر رہا ہے۔ افغانستان میں عدم استحکام اور امریکہ وروس اور ان کے مشترکہ دوست بھارت کی مداخلت یا باہمی مفادات کے ٹکراؤ کی صورت میں کشمکش کے اثرات پاکستان اور چین پر یکساں مرتب ہوں گے اور جس جہاد کے خاتمے کے لیے امریکہ اتنی دور سے وارد ہوا ہے، وہ بھی جلدی ختم ہونے والا نہیں کیونکہ جس طرح ڈینگ سیاؤپنگ کی اصلاحی اور اعتدال پسندانہ پالیسیوں کے باوجود چین کمیونزم اور سوشلزم کو ترک کرنے پر تیار نہیں اور وقتاً فوقتاً اس نظریے سے وابستگی کی یاد دہانی کراتا رہتا ہے، اسی طرح کوئی مسلمان بھی جہاد سے دامن چھڑا کر اپنے خدا اور رسول کے سامنے شرمندہ ہونا پسند نہیں کرتا اور پاکستان فوج کا تو ماٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے یا تبدیل ہو چکا ہے؟
اہل پاکستان اور مسلمانوں نے چین کا کمیونزم برداشت کیا ہے تو چین کو بھی جہاد سے الرجک نہیں ہونا چاہیے البتہ سنکیانگ اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ امریکہ کے بچھائے ہوئے جال میں پھنسنے سے گریز کریں جو چین کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے انہیں اکساتا رہتا ہے اور الزام پاکستان یا افغانستان پردھر دیا جاتا ہے۔ ہم ان کے معاملات میں دخل نہ دیں اور کوشش کریں کہ چینی حکومت اور مسلمانوں میں افہام وتفہیم ہو تاکہ کسی غلط فہمی کا امکان باقی نہ رہے۔ اس طرح ہم چین کے ساتھ مل کر کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور دفاع وسلامتی کو درپیش نئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ گوادر بندرگاہ، مکران ساحلی ہائی وے کے علاوہ شاہراہ ریشم کے ذریعے سے نہ صرف رشتوں کو مضبوط بلکہ معیشت کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ عوام تو پہلے سے جانتے ہیں لیکن حکمرانوں پر بھی جلد واضح ہو جائے گا کہ امریکہ پاکستان کا دوست نہیں اس لیے مزید اس کے جال میں پھنسے رہنا دانش مندی نہیں۔ جب بحران کے دوران میں وہ ہماری کوئی بات ماننے پر تیار نہیں اور ہمارے مفادات کے منافی اقدامات میں مصروف ہے تو بعد از جنگ حکمت عملی سے کسی قسم کی توقع وابستہ کرنا خوش فہمی ہے جس کا شکار نہیں رہنا چاہیے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
دسمبر ۲۰۰۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت اور مسیحی رہنما 1 1
3 پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کمی کی تجویز 2 1
4 رتہ دوہتڑ توہین رسالتؐ کیس 1 2
5 دفاعی پالیسی ۔ قرآنی احکام کی روشنی میں 3 1
6 پاکستان کا ایٹمی دھماکہ اور مستقبل کی پیش بندی 4 1
7 غازی ظہیر الدین بابر ، پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر 5 1
8 این جی اوز کی ملک دشمن سرگرمیاں 6 1
9 عوامی جمہوریہ چین کے حکمرانوں سے ایک گزارش 7 1
10 مسئلہ کشمیر ۔ عالمی سازشیں، متحرک گروہ، قابل قبول حل 8 1
11 افغانستان کی تعمیر نو ۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کے خیالات 9 1
12 حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ پر ایک نظر 10 1
13 آزادیٔ کشمیر کا پس منظر اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی پیشگوئی 11 1
14 ملٹی نیشنل کمپنیاں اور پاکستان کی خودمختاری 12 1
15 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر پرویز مشرف کی خود فریبی 13 1
16 امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار 14 1
17 افغانستان پر جاری امریکی حملہ ۔ ایک ٹی وی پینل انٹرویو 15 1
18 ہمارے دانشوروں کی سوچ تاریخ کے آئینے میں 16 1
19 بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ 16 18
20 کربلا کا محاصرہ 16 18
21 شیر کی ایک دن کی زندگی 16 18
22 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ پاکستان کیوں مجبور تھا؟ 17 1
23 افغانستان کی صورتحال اور پاکستان کی خارجہ پالیسی 18 1
24 وہی قاتل، وہی مخبر، وہی منصف ٹھہرے 19 1
25 پاکستان میں مسیحی ریاست کا قیام ۔ خطرات و خدشات 20 1
26 دہشت گردی‘ کے حوالے سے چند معروضات 21 1
27 اسلامی نظریاتی کونسل کا سوال نامہ 21 26
28 مولانا زاہد الراشدی کا جواب 21 26
29 دینی و ملی فرائض اور ہماری ترجیحات 22 1
30 پاک امریکہ تعلقات ۔ سابق صدرجنرل محمد ایوب خان کے خیالات 23 1
31 مذہبی شدت پسندی کے عوامل 24 1
32 استحکامِ پاکستان اور اس کے تقاضے 25 1
33 استحکامِ وطن اور حضورؐ کا اسوۂ حسنہ 25 32
34 استحکامِ وطن اور حضرت عمرؓ کی گڈ گورننس 25 32
35 استحکامِ وطن اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خلافت 25 32
36 گلگت بلتستان کی انتظامی حیثیت کا تنازع 26 1
37 ملکی دفاع کے تقاضے اور قادیانی گروہ کی ہٹ دھرمی 27 1
38 قادیانی رپورٹ ۲۰۱۴ء 28 1
39 ستمبر کا مہینہ اور قادیانی مسئلہ 29 1
40 امریکی غلامی کا حقیقت پسندانہ تجزیہ 30 1
41 کشمیر کا مسئلہ 31 1
42 ملا اختر منصورؒ کی شہادت، امریکہ کی جھنجھلاہٹ ! 32 1
43 برطانوی سامراج کی غلامی سے عالمی معاہدات کی غلامی تک 33 1
44 پاک امریکہ تعلقات ۔ جبر و مکر کی ایک داستان 34 1
45 وطنِ عزیز پاکستان کی خصوصیات اور انہیں درپیش خطرات 35 1
46 تجدیدِ عہد برائے دفاع وطن 36 1
47 تکمیلِ پاکستان 36 46
48 دفاعِ وطن 36 46
49 قومی وحدت 36 46
50 وزیراعظم اور ’’متبادل بیانیہ‘‘ 37 1
51 صوبہ خیبر پختون خوا ۹۰ سال پہلے کے تناظر میں 38 1
52 بین الاقوامی علماء کانفرنس قاھرہ ۱۹۶۵ء سے مولانا مفتی محمودؒ کا خطاب 40 1
Flag Counter