Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی سلامتی

ن مضامی

13 - 40
افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر پرویز مشرف کی خود فریبی
صدر جنرل پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جن ترجیحات کا اعلان کیا ہے وہ صرف ان کی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شہری کی ترجیحات ہیں۔ میں خود ان لوگوں میں شامل ہوں جو پاکستان کی سالمیت اور قومی وحدت کے تحفظ کو دوسری ہر چیز پر مقدم قرار دیتے ہیں اور پاکستان کی عسکری اور ایٹمی صلاحیت کو ہر حالت میں برقرار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے یہ تاثر دینا کہ جو لوگ امریکہ اور افغانستان کے حالیہ تنازعہ کے تناظر میں صدر پرویز مشرف سے اختلاف کر رہے ہیں ان کی ترجیحات اس سے مختلف ہیں، قطعی طور پر غلط بات ہے۔ بات ترجیحات کی نہیں بلکہ انہیں بروئے کار لانے کے لیے طریق کار کی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان ترجیحات پر عملدرآمد کے لیے صدر صاحب نے جو راستہ اختیار کیا ہے اور اپنے خطاب میں جس طریق کار کا عندیہ دیا ہے وہ ان ترجیحات کے نفاذ و عملداری کا نہیں بلکہ خدانخواستہ انہیں سبوتاژ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس طریق کار سے پوری دیانتداری اور شرح صدر کے ساتھ اختلاف کر رہے ہیں۔
صدر پرویز مشرف نے امارت اسلامی افغانستان پر حملوں کے لیے امریکہ کو سہولتیں فراہم کرنے کی پالیسی کے حق میں کہا ہے کہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو بھارت یہ کر گزرے گا اور وہ امریکہ کو اس مقصد کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کی پیشکش کر چکا ہے، اس لیے ہم بھارت کو سبقت کا موقع نہیں دینا چاہتے کیونکہ اس سے امریکہ بھارت کے ساتھ ہو جائے گا اور ہمارے ’’کشمیر کاز‘‘ کو نقصان پہنچے گا۔
سچی بات ہے کہ صدر صاحب کے اس بھولپن پر مجھے ہنسی آتی ہے اس لیے کہ یہ بات وہ شخص تو کہہ سکتا ہے جس نے امریکہ کو پہلی بار دیکھا ہو، اس کی تاریخ، اس کے قومی مزاج سے کوئی واقفیت نہ رکھتا ہو مگر ایسے ملک کے سربراہ کے منہ سے یہ بات بھولپن اور سادگی ہی کہلائے گی جو گزشتہ نصف صدی سے ’’امریکہ دوستی‘‘ کے مسلسل چرکے کھا رہا ہے۔ امریکہ کے بارے میں یہ توقع رکھنا خود فریبی کی انتہا ہے کہ وہ افغانستان کے خلاف پاکستان کی زمین یا فضا استعمال کرنے کے بعد اس خطہ میں اپنی ترجیحات بدل دے گا اور بھارت کو اپنے مخالفین میں شمار کر کے کشمیر کو آزادی دلوانے کے لیے پاکستان کی سپورٹ کرے گا۔
پاکستان کے ساتھ اس وقت امریکہ کا مفاد صرف اس قدر ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی نظریاتی وحدت کو توڑنا چاہتا ہے، ان کی باہمی دوستی کو دشمنی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، پاکستان اور افغانستان کے وسطی ایشیا کے ساتھ روابط کو ختم کرنا چاہتا ہے، اور چین کے خلاف اپنے مجوزہ حصار کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ حاصل ہوجانے کے بعد امریکہ کی ترجیحات بدستور وہی رہیں گی جو پہلے چلی آرہی ہیں اور جن ترجیحات میں پاکستان کو بھارت پر ترجیح دینا یا کم از کم اس کے برابر رکھنا بھی امریکی مفادات سے قطعاً کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی لیے صدر مشرف اور ان کے ساتھ اس مسئلہ کو پاک بھارت تنازعہ اور کشمکش کے تناظر میں دیکھنے والے دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی سوچ اور مطالعہ کا دائرہ کشادہ کریں اور وسیع تر عالمی تناظر میں امریکہ کے مفادات، پالیسیوں اور عزائم کا جائزہ لیں۔
جنرل پرویز مشرف سے زیادہ کون اس بات سے واقف ہوگا کہ عربوں نے بھی اسی غلط فہمی میں امریکی کیمپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے عروج کے دور میں روس کے کیمپ میں شمار ہونے والے بعض عرب ممالک اسی توقع پر امریکی کیمپ میں چلے گئے تھے کہ ہم اس خطہ میں امریکہ کو سہولتیں فراہم کریں گے تو امریکہ ہمارے ساتھ ہو جائے گا، اور جب امریکہ ہمارے ساتھ ہوگا تو فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں رعایتیں دے گا اور اسرائیل کے مقابلہ میں ہمیں ترجیح دے گا۔ لیکن اس کا نتیجہ کا ہوا؟ صدر صاحب کو اگر خود واقفیت نہ ہو تو برادر مسلم ملک عرب جمہوریہ مصر کے صدر جناب حسنی مبارک سے کسی وقت رازداری کے ساتھ پوچھ لیں کہ اسرائیل کے مقابلہ میں ترجیح اور مسئلہ فلسطین کے حل میں تعاون کی توقع پر امریکہ کے ساتھی بننے والے ملکوں کے ساتھ امریکہ بہادر نے کیا سلوک کیا ہے؟
فلسطین کی صورتحال سب کے سامنے ہے، وہاں اسرائیل کے جبر و تشدد، فلسطینیوں کے قتل عام، اور مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کی مسلسل سازشیں کسی ذی شعور شخص سے مخفی نہیں ہیں۔ جبکہ اسرائیل کے مقابل جو عرب ممالک کھڑے ہیں وہ سب کے سب امریکہ کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کو تیل کے چشموں پر بالادستی دلائی ہے، فوجی استعمال کے لیے زمین اور اڈے فراہم کر رکھے ہیں، اور امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، صرف اس لیے کہ اسرائیل کے مقابلہ میں امریکہ انہیں بھی کچھ رعایت دے دے۔ لیکن ’’امریکی دوستی‘‘ کے اس فریب نے انہیں معروف محاورے ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کے مصداق اقوام عالم کی برادری میں بے بسی اور عبرت کی تصویر بنا کر رکھ دیا ہے۔
اس لیے جنرل پرویز مشرف سے گزارش ہے کہ ہماری ترجیحات بھی وہی ہیں جو انہوں نے بیان کی ہیں، ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے، ہمیں بھی اس بات کا شعور ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنا ہماری اولین ضرورت ہے، ہم بھی پاکستان کے حساس مراکز ایٹمی تنصیبات اور میزائل پروگرام کا ہر قیمت پر تحفظ چاہتے ہیں، اور ہماری خواہش بھی یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر جلد از جلد حل ہو اور امریکہ سمیت سب عالمی قوتیں اس میں انصاف کا ساتھ دیں۔ لیکن اس کا صحیح راستہ امریکہ کے ساتھ قرب بڑھانا اور اسے اپنی داخلی حدود میں عسکری دخل اندازی اور رسائی کے مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ اس کے ساتھ فاصلہ قائم رکھنا ہے۔ ہم اس وقت انتہائی نازک موڑ پر کھڑے ہیں، جس طرف بھی مڑ گئے واپسی کے لیے دور دور تک کوئی ’’یو ٹرن‘‘ نہیں ہے، اس لیے فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت اور مسیحی رہنما 1 1
3 پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کمی کی تجویز 2 1
4 رتہ دوہتڑ توہین رسالتؐ کیس 1 2
5 دفاعی پالیسی ۔ قرآنی احکام کی روشنی میں 3 1
6 پاکستان کا ایٹمی دھماکہ اور مستقبل کی پیش بندی 4 1
7 غازی ظہیر الدین بابر ، پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر 5 1
8 این جی اوز کی ملک دشمن سرگرمیاں 6 1
9 عوامی جمہوریہ چین کے حکمرانوں سے ایک گزارش 7 1
10 مسئلہ کشمیر ۔ عالمی سازشیں، متحرک گروہ، قابل قبول حل 8 1
11 افغانستان کی تعمیر نو ۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کے خیالات 9 1
12 حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ پر ایک نظر 10 1
13 آزادیٔ کشمیر کا پس منظر اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی پیشگوئی 11 1
14 ملٹی نیشنل کمپنیاں اور پاکستان کی خودمختاری 12 1
15 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر پرویز مشرف کی خود فریبی 13 1
16 امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار 14 1
17 افغانستان پر جاری امریکی حملہ ۔ ایک ٹی وی پینل انٹرویو 15 1
18 ہمارے دانشوروں کی سوچ تاریخ کے آئینے میں 16 1
19 بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ 16 18
20 کربلا کا محاصرہ 16 18
21 شیر کی ایک دن کی زندگی 16 18
22 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ پاکستان کیوں مجبور تھا؟ 17 1
23 افغانستان کی صورتحال اور پاکستان کی خارجہ پالیسی 18 1
24 وہی قاتل، وہی مخبر، وہی منصف ٹھہرے 19 1
25 پاکستان میں مسیحی ریاست کا قیام ۔ خطرات و خدشات 20 1
26 دہشت گردی‘ کے حوالے سے چند معروضات 21 1
27 اسلامی نظریاتی کونسل کا سوال نامہ 21 26
28 مولانا زاہد الراشدی کا جواب 21 26
29 دینی و ملی فرائض اور ہماری ترجیحات 22 1
30 پاک امریکہ تعلقات ۔ سابق صدرجنرل محمد ایوب خان کے خیالات 23 1
31 مذہبی شدت پسندی کے عوامل 24 1
32 استحکامِ پاکستان اور اس کے تقاضے 25 1
33 استحکامِ وطن اور حضورؐ کا اسوۂ حسنہ 25 32
34 استحکامِ وطن اور حضرت عمرؓ کی گڈ گورننس 25 32
35 استحکامِ وطن اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خلافت 25 32
36 گلگت بلتستان کی انتظامی حیثیت کا تنازع 26 1
37 ملکی دفاع کے تقاضے اور قادیانی گروہ کی ہٹ دھرمی 27 1
38 قادیانی رپورٹ ۲۰۱۴ء 28 1
39 ستمبر کا مہینہ اور قادیانی مسئلہ 29 1
40 امریکی غلامی کا حقیقت پسندانہ تجزیہ 30 1
41 کشمیر کا مسئلہ 31 1
42 ملا اختر منصورؒ کی شہادت، امریکہ کی جھنجھلاہٹ ! 32 1
43 برطانوی سامراج کی غلامی سے عالمی معاہدات کی غلامی تک 33 1
44 پاک امریکہ تعلقات ۔ جبر و مکر کی ایک داستان 34 1
45 وطنِ عزیز پاکستان کی خصوصیات اور انہیں درپیش خطرات 35 1
46 تجدیدِ عہد برائے دفاع وطن 36 1
47 تکمیلِ پاکستان 36 46
48 دفاعِ وطن 36 46
49 قومی وحدت 36 46
50 وزیراعظم اور ’’متبادل بیانیہ‘‘ 37 1
51 صوبہ خیبر پختون خوا ۹۰ سال پہلے کے تناظر میں 38 1
52 بین الاقوامی علماء کانفرنس قاھرہ ۱۹۶۵ء سے مولانا مفتی محمودؒ کا خطاب 40 1
Flag Counter