Deobandi Books

پاکستان ۔ قومی سلامتی

ن مضامی

14 - 40
امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار
۲۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو مسجد امن باغبان پورہ لاہور میں ایک عمومی نشست سے کا خطاب۔
بعد الحمد والصلوٰۃ- محترم بزرگو اور دوستو! اس وقت پوری دنیا میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے حادثات اور ان میں ہزاروں جانوں کے ضائع ہو جانے کے بعد اس پر امریکہ کے ردِ عمل اور اس سے پیدا شدہ صورتِ حال پر بحث کا سلسلہ جاری ہے اور میں بھی اسی حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پنٹاگون سے اغوا شدہ طیاروں کے ٹکرانے سے جو عظیم جانی ومالی نقصان ہوا، اس سے سب لوگوں کو دکھ ہوا ہے لیکن امریکہ نے اس کی ذمہ داری عرب مجاہد اسامہ بن لادن پر ڈال کر اس کی آڑ میں افغانستان پر حملہ کرنے کا جو اعلان کیا ہے، اس سے صورتِ حال میں اور کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت سے امریکہ کا مطالبہ ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دے مگر طالبان حکومت کا موقف یہ ہے کہ امریکہ کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کرے۔ اس کے مطالبہ پر غور کیا جائے گا۔ محض شک یا الزام پر وہ ایک مجاہد کو، جو ان کا مہمان ہے، امریکہ کے سپرد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی افغان علما کی مجلس شوریٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسامہ بن لادن اپنے طور پر افغانستان چھوڑ دیں مگر انہیں امریکہ یا کسی اور ملک کے سپرد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ طالبان حکومت کا یہ موقف بہت پرانا ہے اور اس سے پہلے بھی امارتِ اسلامی افغانستان کی حکومت کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ اسامہ بن لادن رضاکارانہ طور پر افغانستان سے چلے جائیں تو ان کی مرضی ہے مگر انہیں بطور ملزم کسی ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ افغان علما کی مجلسِ شوریٰ نے یہی بات اب ذرا مختلف انداز میں کہی ہے اور اسی سے وقتی طور پر کشیدگی میں کسی حد تک کمی کے آثار پیدا ہوئے ہیں مگر امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے آج امریکی ایوان نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ مسئلہ صرف اسامہ کا نہیں بلکہ وہ دہشت گردوں کے نیٹ ور ک کو توڑنا چاہتے ہیں اور دنیا بھر میں دہشت گردوں کے تمام مراکز کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔
امریکہ کے نزدیک عالمِ اسلام کی جہادی تحریکات دہشت گرد ہیں اور جب وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی بات کرتا ہے تو اس سے مراد یہی جہادی تحریکات ہوتی ہیں جو مراکش سے انڈونیشیا تک اور چیچنیا سے صومالیہ تک پھیلی ہوئی ہیں اور کشمیر، فلسطین، چیچنیا اور مورو سمیت مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو غاصب اور مسلط قوتوں سے نجات دلانے کے لیے عسکری جدوجہد کر رہی ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کا کہنا ہے کہ ان سب دہشت گردوں نے افغانستان میں ٹریننگ حاصل کی ہے، اس لیے افغانستان کو تباہ کرنا امریکہ کے لیے ضروری ہو گیا ہے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ بھرپور جنگی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ہم پہلے ہی عرض کیا کرتے تھے کہ اسامہ بن لادن کا نام صرف بہانہ ہے، اصل مسئلہ جہادی تحریکات ہیں جو امریکہ اور اس کے حواری ممالک کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہیں اور اب صدر بش نے صاف طور پر تمام جہادی تحریکات کے خاتمہ کو اپنا سب سے بڑا ہدف قرار دے کر ہمارے ان خدشات کی تصدیق کر دی ہے۔
مگر اس میں ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ امریکہ افغانستان پر حملے کے لیے ہمارے کندھے پر بندوق رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان کی زمین اور فضا سے حملہ آور ہو کر امارتِ اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کو ختم کرنے کے درپے ہے اور مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار امریکہ کو افغانستان پر حملہ کے لیے زمینی اور فضائی سہولتیں فراہم کرنا چاہتے ہیں اور اسے اسلام اور پاکستان کے مفاد کا تقاضا بتا رہے ہیں۔ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف صاحب نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جس طرح افغانستان پر حملہ کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کی پالیسی کا دفاع کیا ہے، وہ انتہائی حیران کن ہے اور میں اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہ رہا ہوں۔
صدر محترم نے جناب نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا حوالہ دیا کہ آنحضرت ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ کے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ کر کے کفار مکہ کے خلاف احد اور خندق کی جنگیں لڑی تھیں جبکہ اس کے بعد حدیبیہ میں کفارِ مکہ سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر کے خیبر میں یہودیوں سے جنگ جیتی تھی اس لیے یہ عین حکمت اور دانش کا تقاضا ہے اور سنتِ نبوی کی پیروی ہے۔ لیکن جنرل صاحب کا یہ استدلال درست نہیں ہے اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے دونوں قومیں کافر تھیں اور دونوں دشمن تھے۔ ان سے بیک وقت لڑنے کے بجائے حضورؐ نے ایک وقت میں ایک دشمن سے صلح کرنے اور دوسرے دشمن کے خلاف جنگ لڑنے کی حکمتِ عملی اختیار فرمائی جو فی الواقع دانش مندی کی بات تھی لیکن یہاں ایک طرف امریکہ ہے جس کی مہربانیاں نصف صدی سے ہم بھگت رہے ہیں اور دوسری طرف طالبان کی اسلامی حکومت ہے جس کی باقی تمام باتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بھی یہ حقیقت ہے کہ کابل میں طالبان حکومت کا وجود ہی پاکستان کی شمال مغربی سرحد کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اس لیے اس صورتِ حال پر جناب نبی اکرم ﷺ کی مذکورہ حکمت عملی کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا اور اسے غلط فہمی یا دھوکہ کے عنوان سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم کا تاریخ کے اس عظیم واقعہ سے پتہ چلتا ہے جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھیں اور دونوں ایک دوسرے کو شکست دینے کے درپے تھے۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مسیحی سلطنت روم کے بادشاہ قیصر نے حضرت معاویہؓ کو پیش کش کی تھی کہ حضرت علیؓ کے خلاف جنگ میں وہ ان کی مدد کر سکتا ہے مگر حضرت معاویہؓ نے اسے انتہائی سختی کے ساتھ رد کر دیا اور وہ جواب دیا جو اسلامی تاریخ کا روشن باب اور قیامت تک آنے والے مسلم حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ انہوں نے قیصر روم کے نام اپنے خط میں لکھا تھا کہ
’’میری حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ دو بھائیوں کی لڑائی ہے جس سے تمہیں فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جائے گا اور اگر تم نے حضرت علیؓ کے خلاف فوج کشی کی تو تمہارے مقابلے میں حضرت علیؓ کے پرچم تلے سامنے آنے والا سب سے پہلا سپاہی معاویہؓ ہوگا‘‘
یہ اس کیفیت کی بات ہے جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ ایک دوسرے کے خلاف حالتِ جنگ میں تھے جبکہ ہماری طالبان کے ساتھ کوئی جنگ بھی نہیں ہے اس لیے ہمارے لیے اسلام کی تعلیم یہی ہے جو حضرت معاویہؓ نے قیصرِ روم کے نام اپنے خط میں بیان فرمائی ہے۔
جنرل صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر ہم نے امریکہ کو حملے کی سہولتیں فراہم نہ کیں تو بھارت ایسا کر دے گا اور پھر امریکہ بھارت کے ساتھ ہو جائے گا جس سے ہمارے کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا۔ میرے نزدیک یہ انتہائی بھولپن ہے اور یہ بات وہی شخص کر سکتا ہے جو امریکہ کو جانتا نہیں ہے۔ امریکہ کے بارے میں یہ توقع رکھنا خود فریبی ہے جس کا شکار ہم سے پہلے ہمارے عرب بھائی ہو چکے ہیں۔ ہمارے برادر عرب ملکوں نے اسی توقع اور امید پر امریکہ دوستی کا پرچم اٹھایا تھا کہ اسرائیل کے مقابلے میں امریکہ ان کا لحاظ کرے گا اور ان کے امریکہ کا ساتھی بننے سے اسرائیل اور عربوں کے حوالے سے امریکہ کی پالیسیوں میں توازن قائم ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور ساری دنیا یہ منظر دیکھ رہی ہے کہ امریکہ نے اپنی فوجیں سعودی عرب اور کویت میں بٹھا رکھی ہیں اور پشت پناہی اسرائیل کی کر رہا ہے۔ وسائل عربوں کے استعمال کر رہا ہے اور تحفظ اسرائیل کو فراہم کر رہا ہے اس لیے ہمارے مہربانوں کو یہ غلط فہمی ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ امریکہ پاکستان میں بیٹھ جائے گا تو بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت بھی کرے گا اور پاکستان میں اس کی موجودگی سے پاکستان کے کشمیر کاز کو کوئی فائدہ بھی پہنچے گا۔ پھر یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب امریکہ کے بقول وہ جہادی تحریکات کا خاتمہ کر دے گا، پاکستان کو افغانستان سے لڑا دے گا اور چین کے سر پر فوجیں بٹھا کر پاک چین تعلقات میں رخنہ پیدا کر دے گا تو پھر کون سا کشمیر کاز باقی رہ جائے گا جسے بچانے کی ہمارے حکمران فکر کر رہے ہیں؟ ’’کشمیر کاز‘‘ اگر ہے تو وہ مجاہدین کی قربانیوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے ہزاروں شہدا کا خون دے کر اسے زندہ رکھا ہوا ہے ۔جب یہ مجاہدین اور ان کے گروپ ہی دہشت گرد قرار پا کر پاکستان کے ہاتھوں امریکی انتقام کا نشانہ بن جائیں گے تو ’’کشمیر کاز‘‘ کا وجود ہی کہاں باقی رہ جائے گا؟
صدر محترم کا ارشاد ہے کہ ہم امریکہ کو افغانستان کے خلاف سہولتیں فراہم کر کے اپنی ایٹمی تنصیبات اور میزائل پروگرام کا تحفظ کر سکیں گے مگر یہ بات بھی خود فریبی ہے اس لیے کہ ہماری عسکری صلاحیت میں اضافے اور ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکہ اب تک جو کچھ کہتا آ رہا ہے، اس کے پیش نظر ہم اس قدر فاصلے سے اپنی ایٹمی تنصیبات کو امریکی مداخلت سے محفوظ تصور نہیں کر رہے تو جب وہ گوادر، کوئٹہ اور پشاور میں آ بیٹھے گا تو پھر ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کی گارنٹی کون دے سکتا ہے؟ اس لیے ہم دیانت داری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ ہماری ایٹمی تنصیبات اور میزائل پروگرام کا تحفظ امریکہ کے ساتھ فاصلہ قائم رکھنے میں ہے، اسے اپنی داخلی حدود میں براجمان ہونے کا موقع دینے میں نہیں۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ امریکہ کو سہولتیں دینے کی پالیسی سے ہمیں معیشت کو سنبھالا دینے میں مدد ملے گی اور ہمارے معاشی حالات سدھر جائیں گے۔ میں اس کے جواب میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات ان عرب ممالک سے دریافت کر لیجئے جن کے کندھے پر دس سال سے امریکہ سوار ہے اور اس نے وہاں اپنی فوجیں بٹھا رکھی ہیں کہ امریکہ بہادر کی تشریف آوری اور اس کی فوجوں کی آمد سے ان کی معیشت کو کتنا سہارا ملا ہے؟ ان میں سے سعودی عرب کی حالت آج یہ ہے کہ تیل کی دولت سے مالامال اس ملک کو اپنا بجٹ کا خسارا پورا کرنے کے لیے عمرہ جیسی عبادت کو بزنس کے حساب سے ڈیل کرنا پڑ رہا ہے اور قرضے لینے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے اس لیے ہمارے نزدیک یہ بات بھی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کہ امریکہ کو افغانستان کے خلاف فوجی سہولتیں دینے سے پاکستان کی معیشت سدھرنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔
حضراتِ محترم ! میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ کے اصل مقصد کو پہچانیں اور اس کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ میرے نزدیک امریکہ کے موجودہ عالمی کردار اور بھاگ دوڑ کے بنیادی مقاصد تین ہیں:
ایک یہ کہ دنیا بھر کی جہادی تحریکات کو دہشت گردی کا نام دے کر سختی کے ساتھ کچل دیا جائے اور افغانستان کو اس تمام تر دہشت گردی کا سرچشمہ قرار دے کر طالبان حکومت کو ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ اپنی مرضی کی حکومت بٹھائی جائے۔
دوسرا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں فکری ہم آہنگی اور نظریاتی یگانگت کے فروغ کو وسطی ایشیا تک پھیلنے سے روکا جائے۔ ان اثرات کے وسیع ہونے کے امکانات کو سامنے رکھ کر یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ خطہ اگر دوبارہ اکٹھا ہو گیا تو بہت بڑی قوت بنے گا اور اسے بھارتی حلقوں میں ’’مغل امپائر‘‘ کے زندہ ہونے سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور اسے روکنے پر امریکہ اور بھارت دونوں متفق ہیں جس کی واحد صورت پاکستان اور افغانستان کی دوستی کو توڑنا ہے اور امریکہ اسے توڑنے کے لیے پاکستان کو افغانستان کے خلاف حملوں میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔
امریکہ کا تیسرا مقصد چین کے خلاف حصار قائم کرنا اور پاکستان میں بیٹھ کر پاک چین دوستی میں رخنے ڈالنا ہے تاکہ چین اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے قابل نہ رہیں اور امریکہ ان کے حوالے سے آسانی کے ساتھ من مانی کر سکے۔
ان حالات میں آپ خود سوچ لیں کہ جب خدا نخواستہ پاکستان کے تعلقات چین اور افغانستان دونوں کے ساتھ خراب ہو جائیں گے اور مجاہدین کے گروپوں کو بھی دہشت گرد قرار دے کر خود پاکستان کے ہاتھوں گراؤنڈ کر دیا جائے گا تو خطے میں خود پاکستان کی حیثیت کیا رہ جائے گی اور کیا کل کوئی صاحب یہ کہنے کے لیے کھڑے نہیں ہو جائیں گے کہ کشمیریوں کے ساتھ ہمیں بہت ہمدردی ہے اور ہمیں ان کی فکر بہت زیادہ ہے لیکن خود پاکستان کی سالمیت ہمارے لیے سب سے مقدس ہے اس لیے کشمیریوں کو بھول جائیے اور پاکستان کے وجود کا تحفظ کیجئے۔
محترم بزرگو اور دوستو! میں نے حالات کا نقشہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے اور میری آپ سے گزارش ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ اس صورتِ حال کا جائزہ لیں۔ یہ اسلام کے مفاد کی بات ہے، پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے اور طالبان کی اسلامی حکومت کے مستقبل کا سوال ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی دینی جماعتوں نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا ہے، وہ بالکل درست اور ملک وملت کے مفاد کا تقاضا ہے اس لیے سب دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس موقف کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں اور دینی قوتوں کو مضبوط کریں کیونکہ اس وقت دین، ملک اور قوم کے تحفظ کا یہی ناگزیر تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
اکتوبر ۲۰۰۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت اور مسیحی رہنما 1 1
3 پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کمی کی تجویز 2 1
4 رتہ دوہتڑ توہین رسالتؐ کیس 1 2
5 دفاعی پالیسی ۔ قرآنی احکام کی روشنی میں 3 1
6 پاکستان کا ایٹمی دھماکہ اور مستقبل کی پیش بندی 4 1
7 غازی ظہیر الدین بابر ، پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر 5 1
8 این جی اوز کی ملک دشمن سرگرمیاں 6 1
9 عوامی جمہوریہ چین کے حکمرانوں سے ایک گزارش 7 1
10 مسئلہ کشمیر ۔ عالمی سازشیں، متحرک گروہ، قابل قبول حل 8 1
11 افغانستان کی تعمیر نو ۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود کے خیالات 9 1
12 حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ پر ایک نظر 10 1
13 آزادیٔ کشمیر کا پس منظر اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی پیشگوئی 11 1
14 ملٹی نیشنل کمپنیاں اور پاکستان کی خودمختاری 12 1
15 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر پرویز مشرف کی خود فریبی 13 1
16 امریکی عزائم اور پاکستان کا کردار 14 1
17 افغانستان پر جاری امریکی حملہ ۔ ایک ٹی وی پینل انٹرویو 15 1
18 ہمارے دانشوروں کی سوچ تاریخ کے آئینے میں 16 1
19 بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ 16 18
20 کربلا کا محاصرہ 16 18
21 شیر کی ایک دن کی زندگی 16 18
22 افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ پاکستان کیوں مجبور تھا؟ 17 1
23 افغانستان کی صورتحال اور پاکستان کی خارجہ پالیسی 18 1
24 وہی قاتل، وہی مخبر، وہی منصف ٹھہرے 19 1
25 پاکستان میں مسیحی ریاست کا قیام ۔ خطرات و خدشات 20 1
26 دہشت گردی‘ کے حوالے سے چند معروضات 21 1
27 اسلامی نظریاتی کونسل کا سوال نامہ 21 26
28 مولانا زاہد الراشدی کا جواب 21 26
29 دینی و ملی فرائض اور ہماری ترجیحات 22 1
30 پاک امریکہ تعلقات ۔ سابق صدرجنرل محمد ایوب خان کے خیالات 23 1
31 مذہبی شدت پسندی کے عوامل 24 1
32 استحکامِ پاکستان اور اس کے تقاضے 25 1
33 استحکامِ وطن اور حضورؐ کا اسوۂ حسنہ 25 32
34 استحکامِ وطن اور حضرت عمرؓ کی گڈ گورننس 25 32
35 استحکامِ وطن اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خلافت 25 32
36 گلگت بلتستان کی انتظامی حیثیت کا تنازع 26 1
37 ملکی دفاع کے تقاضے اور قادیانی گروہ کی ہٹ دھرمی 27 1
38 قادیانی رپورٹ ۲۰۱۴ء 28 1
39 ستمبر کا مہینہ اور قادیانی مسئلہ 29 1
40 امریکی غلامی کا حقیقت پسندانہ تجزیہ 30 1
41 کشمیر کا مسئلہ 31 1
42 ملا اختر منصورؒ کی شہادت، امریکہ کی جھنجھلاہٹ ! 32 1
43 برطانوی سامراج کی غلامی سے عالمی معاہدات کی غلامی تک 33 1
44 پاک امریکہ تعلقات ۔ جبر و مکر کی ایک داستان 34 1
45 وطنِ عزیز پاکستان کی خصوصیات اور انہیں درپیش خطرات 35 1
46 تجدیدِ عہد برائے دفاع وطن 36 1
47 تکمیلِ پاکستان 36 46
48 دفاعِ وطن 36 46
49 قومی وحدت 36 46
50 وزیراعظم اور ’’متبادل بیانیہ‘‘ 37 1
51 صوبہ خیبر پختون خوا ۹۰ سال پہلے کے تناظر میں 38 1
52 بین الاقوامی علماء کانفرنس قاھرہ ۱۹۶۵ء سے مولانا مفتی محمودؒ کا خطاب 40 1
Flag Counter