کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
تبلیغی مراکز کے لقطہ کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں ڈیرہ غازی خان میں مدنی تبلیغی مرکزی مسجد ہے اور رائیونڈ سے جماعتوں کی آمدورفت کافی ہے، ہوتا یہ ہے کہ بعض ساتھی اپنا سامان بھول کے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم ان کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن وہ نہیں آتے اور جماعتوں سے پوچھتے بھی ہیں کہ بھائی کسی کا کوئی سامان گم ہو تو لقطے کے سامان میں آکر دیکھ لے، پوچھنا یہ ہے کہ اس سامان کو ہم کتنا عرصہ اپنے پاس رکھیں اور کیا اسے اسی طرح جماعت والوں کو جو الله کے راستے میں ہوتے ہیں، ہدیہ مالک کی طرف سے کر دیں یا لقطے کے سامان کو بیچ کر الله کے راستے میں چلنے والوں پر خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ برائے کرم آسان حل بیان فرمائیں
جواب…واضح رہے کہ تبلیغی مراکز میں میں بھول کر رہ جانے والا سامان عام طور پر دو طرح کا ہوتا ہے:
1… معمولی قیمت کا سامان… جیسے تکیہ، پلیٹ، کپڑے، ربر کے جوتے وغیرہ۔
2… قیمتی سامان… جیسے نقدی، موبائل، گھڑی، سردیوں کا بستر وغیرہ۔
دونوں قسم کے سامان کی قیمت میں چوں کہ تفاوت واضح ہے، اس لیے دونوں کے حکم لقطہ میں بھی فرق ہو گا۔ لہٰذا جو سامان پہلی قسم ( معمولی قیمت) کا ہوتا ہے چوں کہ عام طور پر جس سے یہ سامان رہ جاتا ہے تو اس کا مالک نہ ہی دوبارہ آکر اپنی گم شدہ چیز کا پوچھتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے ذمے لگا کر منگواتا ہے۔
لہٰذا اس کا حکم یہ ہے کہ اس سامان کے ملنے کے بعد صرف اتنے دن تک مرکز میں رکھا جائے جتنے دن کے لیے عموماً ایک جماعت کی تشکیل مرکز کے علاقے میں ہوتی ہے اور یہ مدت تقریباً پچیس دن یا ایک ماہ کا عرصہ ہے۔
اسی طرح جو دوسری قسم کا قیمتی سامان ہے چوں کہ یقینی طور پر اس کا مالک اپنی چیز کے گم ہونے پر فکر مند اور پریشان ہوتا ہے اور اکثر خود آکر یا دوسرے کے ذریعے سے اپنی چیز کے بارے میں پوچھتا ہے، لہٰذا اہل مرکز پر لازم ہے کہ اس سامان کو اپنے پاس بحفاظت رکھیں او رحتی الوسع اپنی طرف سے پوری کوشش کرکے اس سامان کو اس کے مالک کا پتہ وغیرہ معلوم کرکے واپس کریں۔
پھر اگر کوشش کے باوجود مالک کا کچھ علم نہ ہو، مثلاً سال گذر جائے اور دل یہ کہے کہ اب مالک بھی اپنی چیز سے مایوس ہو گیا ہو گاتو اب اہل مرکز کو یہ اختیار ہو گا کہ دونوں قسم کے سامان یا اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت کو غریب ( مستحق زکوٰة) لوگوں پر سامان کے مالکان کی طرف سے صدقہ کر دیں۔ خواہ وہ الله کے راستے کے مہمان ہی کیوں نہ ہوں۔
لیکن یہ بات واضح رہے کہ دونوں قسم کے سامان کو صدقہ کرنے کے بعداگر اس کے مالک نے آکر اپنی چیز کا مطالبہ کر لیا اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوا تو اہل مرکز کو اس کی مطلوبہ چیزیا اس کی قیمت دینا ہو گی۔
ہاف آستین کپڑے، جینز کی پینٹ اور تنگ پاجامہ پہننے کا کیا حکم ہے؟
سوال…کیا فرماتے ہیں علمائے دین درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ عورتوں کا شرعی لباس کیا ہے؟
1… آج کل فیشن کے طور پر ہاف آستین والے کپڑے پہننا جائز ہے؟
2… کپڑوں میں جینز کی پینٹ، پہننا، تنگ پاجامہ پہننا اس حوالے سے شرعی حکم کیا ہے؟
3… خواتین کے تنگ اور ہاف آستین والے کپڑے سینے والے درزیوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
الله تعالیٰ ہم سب کو ہدایت پر استقامت عطا فرمائے اور ہمارا حامی وناصر ہو۔
جواب… اسلام نے عورت کو ایک مقام ومرتبہ دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی اس رتبہ ومقام کے لحاظ سے احکامات کی تعمیل کا پابند کیا گیا ہے تاکہ وہ شرعی احکامات کی تعمیل کرکے اپنے اس مرتبہ کو قائم رکھ سکے اور لباس چوں کہ عورت کی پاک دامنی اور غیر محرم مردوں سے حفاظت کا ایک ذریعہ ہے، لہٰذا اس پر اگر خصوصی توجہ دی جائے اور شرعی لباس کی اہمیت کو معاشرے میں اجاگر کیا جائے تو جو بے حیائی کا ایک سیلاب ہے وہ تھم سکتا ہے، مذکورہ بالا تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1…واضح رہے کہ ایک مسلمان عورت کے لیے شرعی لباس یہ ہے کہ وہ لباس عورت کے بدن کو مکمل ڈھانک لے اور وہ لباس نہ اتنا تنگ ہو کہ عورت کے مستور اعضاء کی حکایت کرے اور نہ اتنا باریک ہو کہ مستور اعضاء اس سے دکھائی دیں اور نہ اس لباس میں مردوں اور فساق وفجار کی مشابہت اختیار کی گئی ہو اور اسی طرح اس لباس سے فخروتکبر مقصود نہ ہو۔ باقی جہاں تک تعلق ہے ہاف آستین کا تو چوں کہ ہاف آستین والا لباس دین دار گھرانوں میں معیوب سمجھا جاتا ہے ، نیز یہ بے حیائی کا ذریعہ اور سبب بھی ہے ، لہٰذا محارم کے سامنے بھی اسے پہننا ناپسندیدہ ہے ، لیکن غیر محرم مردوں کے سامنے ہاف آستین والے کپڑے پہننا جائز نہیں۔
2… جینز کی پینٹ او رتنگ پاجامہ میں چوں کہ واجب الستر اعضا کی بناوٹ نظر آتی ہے ، لہٰذا ایک مسلمان عورت کے لیے اس کا پہننا جائز نہیں۔
3… خواتین کے لیے تنگ اور ہاف آستین والے کپڑے سینے والے درزی چوں کہ گناہ کے کام میں تعاون کا ذریعہ بن رہے ہیں، لہٰذا گناہ کے اس کام پر تعاون کی وجہ سے گنہگار ہوں گے۔
بچہ کو علاج کے لیے عیسائی کے ساتھ چرچ میں بھیجنا کیسا ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کا ایک مسلم گھرانے سے تعلق ہے، زیدکا بیٹا عمر جو کہ حفظ قرآن کررہاتھا اسی اثناء میں وہ بیمار ہوا اور اب تین چار سال ہوئے ہیں کہ وہ تقاضہ کرنے سے بھی قاصر ہے۔بقول ڈاکٹرز یہ دماغی مرض میں مبتلا ہے جس میں چند ہی لوگ مبتلا ہوتے ہیں لیکن اس مرض کا بالکلیہ علاج تشخیص نہیں ہوا۔اور بقول عاملین یہ آسیب میں مبتلا ہے لیکن صلحاء کا کہنا ہے اسے بہت ہی بُری نظر لگی ہوئی ہے۔بہرکیف! ہر جگہ سے علاج کرایا جائز وناجائز (مزاروں وغیرہ) علاج کرایا کچھ افاقہ نہ ہوا۔
اس صورت حال کو دیکھ کر زید کے ایک غیر مسلم عیسائی نے دعویٰ کیا کہ آپ اسے میرے ساتھ چرچ بھیجیں یہ آٹھ دن میں وہاں سے چل کر آئے گا اگر یہ صحت یاب نہ ہوا تو میں اسلام قبول کر لوں گا (قبول دین اس کی جانب سے ہے یہ نہیں کہ صحت یابی پر ہم العیاذ بالله راہِ ضلال کو اختیار کریں) زید اوران کے بھائیوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ یہ مسلمان ہو جائے وہ اسی لیے اپنے گھر میں ہونے والے پندرھویں دن مجلس میں بھی لاتے تھے، نیز زید کافی حد تک مایوسی کا بھی شکار تھا، ان تمام حالات کی وجہ سے زید کا بیٹا چرچ جاتا ہے اس غیر مسلم کے ساتھ، لہٰذا مذکورہ بالا تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر شریعت کی روشنی میں ہماری راہ نمائی فرمائیں نیز آسیب وسحر کا یقین او راس کاکس حد تک علاج کروانا درست ہے اور ہم نے سنا ہے تعویذ شرک ہے تو جلد از جلد جواب عنایت فرماکر ہمیں راہِ ہدایت سے منحرف ہونے سے بچائیں۔
جواب…الله تعالیٰ نے اس جہاں کو امتحان کی جگہ بنایا ہے، اس جہاں کی ہر شکل وصورت الله تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے خواہ ،شکل مال داری کی ہو، خواہ فقر کی ہو خواہ وہ شکل اولاد کی نعمت ملنے کی ہو یا اس نعمت سے محرومی کی، خواہ وہ شکل صحت کی ہو یا بیماری کی۔
الغرض مسلمان کا کوئی دن اس دنیا میں امتحان سے خالی نہیں خود الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ:” یقینا تمہاری اولاد اور تمہارے اموال تمہاری آزمائش (امتحان) کے لیے ہیں۔“ تو اب جس مسلمان نے بھی الله تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کسی بھی امتحان میں صبر وشکر سے کام لیا، تو یہ آزمائش اس مسلمان کے لیے گزشتہ کی تلافی اور آئندہ کے لیے رفع درجات کا باعث ہو گی۔
یقینا اولاد پر آنے والی تکلیف والدین کے لیے انتہائی زیادہ پریشان کن اور صبر آزما ہوتی ہے اور اس کو صرف وہی آدمی محسوس کر سکتا ہے، جس پر یہ تکلیف گذر رہی ہو، بچہ کی اس تکلیف کے باوجود زید کو چاہیے کہ صبر سے کام لے اور ہرگز کوئی ایسا کام نہ کرے، جو کام علاج کے لیے شریعت میں جائز نہیں مثلاً مزاروں پر جاکر چڑھاوے چڑھانا، صاحبِ قبر سے مدد وغیرہ مانگنا یا اسی طرح عیسائی کے ساتھ بچے کو چرچ میں بھیجنا۔
بلکہ ایسے غیر مسلم عیسائی کے ساتھ تو تعلقات رکھنا بھی درست نہیں کہ جس سے آئندہ کے لیے اپنے ایمان پر ڈاکہ پڑنے کا خطرہ ہو کیوں کہ بسا اوقات اہل باطل کو قوت خیالیہ کے ذریعے تصرفات کرنے کا فن آتا ہے کہ پھر اس تصرف کے ذریعے اہل باطل مختلف قسم کے کام کر لیتے ہیں تو یہ ان کے حق ہونے کی ہر گز دلیل نہیں ہو سکتا، بلکہ حضرت تھانوی رحمہ الله نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اہل باطل کے تصرفات اہل حق سے زیادہ قوی ہوتے ہیں، لہٰذا بچے کو عیسائی کے ساتھ ہر گز چرچ میں نہ بھیجیں بلکہ حدودِ شرعیہ کی رعایت کرکے ہر ممکن علاج کی اپنی طرف سے پوری کوشش کریں۔
باقی جہاں تک جنات ، آسیب اور سحر وغیرہ کے اثرات اور اس سے بیماری لگنے کا تعلق ہے تو یہ تمام چیزیں شریعت مطہرہ میں ثابت ہیں، لیکن یہ تمام اسباب تکلیف دیگر جسمانی بیماریوں کے اسباب کی طرح ہیں، کہ جس طرح جسمانی بیماری کے اسباب سے بیماری اس وقت لگے گی جب الله تعالیٰ کا حکم ہو گا بالکل اسی طرح جنات، سحر اور نظر بد وغیرہ سے تکلیف اور بیماری صرف الله کے حکم سے لگے گی۔
شریعت مطہرہ نے ہر قسم کی جسمانی اور روحانی بیماری کا علاج کروانے کی ایک حد تک اجازت دی ہے۔ تعویذات بھی دیگر علاج کی طرح علاج کی ایک قسم ہیں، جیسے جسمانی بیماری کے لیے دوا وغیرہ لینے کی اجازت ہے ، ایسے ہی شیطانی اثرات کو دور کرنے کے لیے تعویذ وغیرہ لینے کی بھی اجازت ہے لیکن ان تعویذات میں غلو کرنا یا ان کو ہی مؤثر بالذات سمجھنا ہر گز جائز نہیں۔
علماء کرام نے مندرجہ ذیل شرائط کی رعایت کرتے ہوئے تعویذات کے ذریعے علاج کروانے کی اجازت دی ہے:
1… تعویذ میں کسی قسم کے شرکیہ کلمات نہ ہوں۔
2… تعویذ کرنے کے لیے کسی قسم کا حرام عمل کرنا حرام ہے مثلاً بکرا، یا مرغا ذبح کرکے اس ذبح والے خون سے تعویذ لکھنا، بالکل جائز نہیں۔
3…تعویذ میں لکھے گئے کلمات مفہوم المعنی ہوں۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ زید کے بیٹے کو صحت کاملہ دے اور ہر قسم کے شیطانی اثرات (سحر، آسیب ، نظربد) سے بچے کی حفاظت فرمائے تاکہ بچے کو پھر سے قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت نصیب ہو۔ آمین!
ملازم کا کمپنی سے دھوکہ دہی کے ذریعے خرچ وصول کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ!
زید ایک کمپنی کا ملازم ہے، زید انجینئر ہے، کمپنی اسے اندرون شہر اور بیرون شہر، بلکہ کبھی کبھار بیرون ملک کام کے سلسلے میں بھیجتی رہتی ہے، زید کے آنے ، جانے، ٹھہرنے اور کھانے پینے وغیرہ کا سارا انتظام اور خرچہ کمپنی کے ذمے ہے، کمپنی نے زیدسے کہا ہے کہ آپ جس اچھے سے اچھے ہوٹل میں قیام کرنا چاہیں اور جو کچھ وہاں کھانا پینا چاہیں آپ کو اجازت ہے ، البتہ اس ہوٹل کا پیمنٹ بل دکھانا ضروری ہو گا کہ واقعةً آپ نے یہ یہ خرچے کیے ہیں۔
زید لالچ میں آکر کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کے بجائے اپنے کسی عزیز یا دوست کے گھر میں ٹھہر جاتا ہے، ظاہر بات ہے کہ دوست عزیز کے گھر ٹھہرنے پر زید کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ وہاں مہمان کے طور پر ٹھہرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا، لیکن زید کے ہوٹل والے سے دوستانہ مراسم ہیں تو اسے تمام صورت حال سمجھا کر اس سے قیام وطعام وغیرہ کے خرچے کا بل بنوالیتا ہے ( واضح رہے کہ زید ہوٹل والے کو کوئی رشوت نہیں دیتا کیوں کہ ہوٹل والا اس کا دوست ہے ) اور وہ بل کمپنی میں دکھا کر خرچہ وصول کر لیتا ہے۔
اندرون شہر جانے کی صورت میں کمپنی کی طرف سے زید کو اجازت ہے کہ وہ جو گاڑی اسپیشل کرکے جانا چاہے یا تیل کا جتنا خرچہ آئے وہ کمپنی سے وصول کرے، لیکن زید اپنی موٹر سائیکل پر جاکر کمپنی سے زیادہ تیل یا دوسری گاڑی پر جانے کا خرچ وصول کر لیتا ہے۔
واضح رہے کہ کمپنی زید کے اس طرح کرنے سے لاعلم ہے او راگر کمپنی کو زید کے خرچہ وصول کرنے کا یہ طریق کار معلوم ہو گیا تو زید کو خرچہ نہیں دے گی، یا کم دے گی۔
تو مندرجہ بالا صورت حال میں آپ حضرات شریعت مطہرہ کی رو سے زید کے اس عمل کا حکم بتائیں کہ زید کا یہ عمل شرعاً درست ہے یا نہیں؟ زید کے لیے اور اس کے اہل وعیال (جن کو زید کے مذکورہ عمل کا علم ہے ) کے لیے زید کی اس طرح کی آمدنی کا استعمال شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ ابھی تک اس طرح کی جتنی رقم لی ہے زید کے لیے اس بارے میں کیا حکم ہے؟
زید کہتا ہے کہ میرا یہ عمل درست ہے کیوں کہ اگر میں کسی اچھے ہوٹل میں ٹھہرتا یا دوسری گاڑی اسپیشل کرکے جاتا تو اتنا ہی کمپنی کا خرچہ ہوتا جتنا کہ میں وصول کررہا ہوں اور اب یہ تو میرا کمال یا محنت یا تعلقات ہیں جن کی بدولت میں کمپنی کی یہ رقم دوسروں کے ہاتھ میں جانے کے بجائے خو داپنے لیے بچالیتا ہوں، کمپنی تو ہر صورت یہ خرچہ دے گی (البتہ اسے میں رکھوں گا یا ہوٹل والا لے گا)
اگر زید کے لیے خرچہ بچانے کا یہ طریقہ جائز نہ ہو تو کوئی او رجائز طریقہ بھی ضرور بتا دیں۔ جزاکم الله تعالیٰ خیراً
جواب… صورتِ مسئولہ میں زید کا کمپنی سے مذکورہ طریقہ پر خرچہ وصول کرنا شرعاً جائز نہیں، کیوں کہ اس میں جھوٹ، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی وغیرہ جیسے ناجائز امور پائے جاتے ہیں ، نیز کسی مسلمان کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ہوتا، ظاہر ہے کہ مذکورہ طریقہ پر خرچہ وصول کرنا کمپنی کی رضا مند ی کے خلاف ہے۔
نیز جو پیسے زید پہلے سے وصول کر چکا ہے وہ اس کے لیے اور ا سکے اہل وعیال کے لیے حلال نہیں، لہٰذا اگر بغیر فتنہ وفساد کے کمپنی کو واپس کرنا ممکن ہو تو واپس کر دیے جائیں، ورنہ بغیر ثواب کی نیت کے کسی فقیر، غریب کو دیے جائیں۔
البتہ اس خرچہ کے بچانے کا یہ طریقہ ہو سکتا ہے کہ زید کمپنی والوں سے یہ کہہ دے کہ جو خرچہ ہوٹل کے کرایہ اور کھانے اور آنے جانے کے کرایہ وغیرہ کا مجھے دیا جاتا ہے، اتنا میری تنخواہ میں اضافہ کیا جائے، باقی ہوٹل کا کرایہ، آنے جانے کا خرچ وغیرہ میں اپنی طرف سے کروں گا، کمپنی کی طرف سے نہیں کروں گا، یا کمپنی والوں سے اپنے اس عمل کی اجازت لے لی جائے۔
عقیقہ کے چند ضروری مسائل
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عقیقہ کی اصل کیا ہے؟ کس طرح کا جانور در کار ہوتا ہے؟ اور عید الاضحی کی قربانی والے بڑے جانور میں کتنے حصے عقیقہ والے افراد کے لیے مقرر کیے جاسکتے ہیں؟ اور ایام قربانی کے علاہ کیا عام دنوں میں بڑے جانور کے ساتوں حصے کئی عقیقہ والے افراد کے لیے مقرر کیے جاسکتے ہیں؟
(الف) عقیقہ کرنے کے لیے عمر کاتعین کیا ہے؟ (ب) لڑکے کے عقیقہ کے دو حصے میں سے کیا ایک حصہ بڑے جانور اور دوسرا حصہ چھوٹے جانور کا کیا جاسکتا ہے؟ (ج) لڑکے کے دو حصوں میں کیا ایک حصہ کسی ایک شہر اور دوسرا حصہ کسی دوسرے شہر میں ایک ہی روز میں کیا جاسکتا ہے؟
جواب……1.. عقیقہ ایک مستحب عمل ہے اور عقیقہ کے اکثر احکام ومسائل قربانی کے احکام ومسائل کی طرح ہیں، اور عقیقہ کے لیے ویسا ہی جانور درکار ہوتا ہے جیسا کہ قربانی کے لیے درکار ہوتا ہے اور عقیقہ کے لیے بہتر تو ساتواں دن پھر چودھواں پھر اکیسواں دن ہے، لیکن اس کے بعد عقیقہ کرنے سے بھی عقیقہ ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی ساتویں دن کا اعتبار کرنا بہتر ہے اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا ہے جب عقیقہ کرنا ہو اس سے پہلے والے دن عقیقہ کیا جائے مثلاً بچہ اگر جمعہ کے دن پیدا ہو ا ہو، تو عقیقہ جمعرات کے دن کیا جائے۔
2..…قربانی کے جانو رمیں عقیقہ کے حصوں کی کوئی تعیین نہیں ہے جتنے چاہیں شریک ہو سکتے ہیں البتہ کل حصہ دار سات سے زائد نہ ہوں، نیز عام دنوں میں بھی بڑے جانور میں ساتوں حصے کئی عقیقہ کرنے والے افراد کے لیے مقرر کیے جاسکتے ہیں۔
3..…(الف) عقیقہ کے لیے عمر کا کوئی تعین نہیں ہے، البتہ بہتر ساتواں دن پھر چودھواں دن پھر اکیسواں دین ہے (ب) جی ہاں! کیا جاسکتا ہے۔ (ج) جی ہاں کیا جاسکتا ہے۔