Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم1437ھ

ہ رسالہ

12 - 15
اولاد کی بہترین تربیت

مولانا محمد عادل بن علی خان
	
اولاد کی تربیت کیسے کریں؟
یہ ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے۔ آج کے دور میں تقریباً80 فی صد سے زائد ماں، باپ اس مسئلہ کے بارے میں پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو کس طرح مہذب باخلاق وباکردار بنائیں؟ بگڑتے معاشرہ وبگڑتے ماحول میں بگڑی اولاد ایک درد سر بن کر رہ گئی ہے، ہر شخص دورِ حاضر میں اپنی اولاد کی نافرمانی کا رونا روتانظر آرہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ محض یہی ہوتی ہے کہ ماں باپ بچپن میں اولاد کو اتنا لاڈ پیا رکر لیتے ہیں کہ ان کی ہر جائز وناجائز خواہش پوری کرنے میں دریغ نہیں کرتے، انہیں اپنی اولاد کی ضد کے سامنے ہتھیارڈالنے پڑ جاتے ہیں۔ بچپن میں جب بچے گالیاں دیں تب بھی ماں باپ ہنسی خوشی اس مہلک امر کو نظر انداز کر تے ہیں ۔ بچہ کسی محفل میں ناچ گانا کر لے تو ماں باپ کو اس پر فخر محسوس ہوتا ہے ،غرض تمام کی تمام بُرائیاں وہ بچہ ماں، باپ کے سامنے بجالا رہا ہوتا ہے اور ماں، باپ کو اس پر اس طرح کی خاموشی کا خمیازہ ان کے بالغ ہونے کے بعد بھگتنا پڑتا ہے۔

جب ہم اپنی اولاد کو بچپن میں اسلامی تہذیب نہیں سکھائیں گے اورانہیں دینی تعلیمات سے آشنا نہیں کرائیں گے تو اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا تو یقینی ہو جاتا ہے ۔ اگر بچہ بچپن میں اسلامی تعلیمات ودینی علوم کا جامہ زیب تن کر لے تو وہ اخلاقیات، اخلاص، اطاعت وفرماں برداری کا خوگر بن جاتا ہے۔ ماں، باپ کی بھی فلاح وکام یابی کا ذریعہ بن جاتا ہے، بہت خوش نصیب ہیں وہ والدین جو اپنے بچوں کی اصلاح ان کے بچپن میں ہی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور پھر یہی بچے ان کے بڑھاپے میں ان کا سہارا بن جاتے ہیں۔ ان کی خدمت کرتے ہیں، ان کی تمام ضروریات پوری کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

یہ بات تو مسلّم ہے کہ بچہ پیدائش کے بعد سے اپنا ہر عمل بڑوں سے ہی سیکھتا ہے… لہٰذا اس بچہ کے سامنے بڑوں کا جو کردار رہے گا اسی کردار کی پیروی وہ بچہ کرے گا ہم سب سے بڑی غلطی یہیں سے کر بیٹھتے ہیں کہ ”ابھی تو یہ بچہ ہے، اسے کیا خبر کہ کیا ہو رہا ہے اور ہم کیا کہہ ر ہیں؟ “ اس زعم باطل میں ہم نہ جانے کیا کیا کر بیٹھتے ہیں اور کیا کیا کہہ دیتے ہیں… جب کہ وہ بچہ ان تمام چیزوں کو لیتا ہے اور اسی پر پھر آہستہ آہستہ عمل پیرا ہوتا ہے ۔ لہٰذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ آپس کی لڑائی اور بدزبانی اس بچہ کے سامنے ہر گز نہ کریں، بسا اوقات گھریلو لڑائی جھگڑوں میں بات گالم گلوچ تک جا پہنچتی ہے او راس طرح بچہ بھی آہستہ آہستہ ان تمام گالیوں اور نازیبا جملوں کو سیکھ لیتا ہے ، پھر بعد میں والدین سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ لہٰذا بچہ کی بہترین تربیت میں والدین کا اپنا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، خصوصاً ماں کا کردار، کیوں کہ ماں کا وقت بچہ کے سامنے زیادہ گزرتا ہے ،بنسبت باپ کے۔ اسی لیے والدین کو چاہیے کہ وہ تربیت کا ایسا طرز اپنائیں کہ بچہ رفتہ رفتہ ادب واحترام، شائستہ گفت گو، بااخلاق وباکردار، صدق وامانت داری ودیانت داری، اطاعت وفرماں برداری کا پیکر بن کر پروان چڑھے اور نو عمری ہی سے وہ نماز کا پابند رہے، کیوں کہ جناب رسول کرم اکا ارشاد گرامی ہے کہ بچوں کو بچپن ہی سے نماز کی ترغیب دو ،چناں چہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ”مروا أولادکم بالصلوٰة وھم أبناء سبع سنین، واضربوھم علیھا وھم أبناء عشر سنین، وفرقوا بینھم فی المضاجع․“(رواہ أبو داؤد والترمذی)

ترجمہ:” تم اپنی اولاد کو نماز کا حکم کرو جب کہ وہ سات سال کے ہوں اور ان کو نماز ( نہ پڑھنے) پر مارو جب کہ وہ دس سال کے ہوں اور ان کے بستر بھی جدا جدا کر دو۔“

اس حدیث پاک میں جناب رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے تمام سر پرستوں اور والدین کو واضح حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کو بچپن میں ہی نماز کا عادی بنائیں او راگر بچے دس سال کی عمر کو پہنچ کر بھی نماز قائم نہ کریں تو ان کی مناسب پٹائی کا بھی حکم فرما یا، تاکہ وہ اس اہم فریضہ سے غفلت نہ برتنے پائیں اور واضح رہے کہ بچوں کو بغرض تربیت مارنا اور ان پر مناسب سختی کرنا کہ وہ مہذب وصالح بن جائیں، یہتربیت کا حصہ ہے اگرچہ بچہ والدین کے لیے لخت جگر ہوتا ہے، لیکن ذرا سوچیے اگر آپ اپنے اس لخت جگر کو مہذب وصالح بنانے لیے اس کے بچپن ہی سے مناسب حکمت عملی نہیں اپنائیں گے تو کل کو یہی لخت جگر بے نمازی، بدکرداری وبداخلاقی جیسی مذموم صفات کے ساتھ منسوب کیا جائے گا، جو یقینا آپ نہیں چاہیں گے اور اگر حصول تربیت واصلاح کی خاطر بچوں پر سختی کرنا ممتا وشفقت کے منافی ہوتا تو جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کبھی اس کا حکم نہ فرماتے، حالاں کہ آپ علیہ السلام تو رؤف و رحیم ذات ہیں۔

ایک اور روایت میں جو حضرت علی کرم الله وجہہ سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”أدبوا أولادکم علی ثلاث خصال: حب نبیکم، وحب اٰل بیتہ، وتلاوة القرآن، فإن حملة القرآن فی ظل عرش الله یوم لا ظل إلا ظلہ مع الأنبیاء․“(رواہ الطبرانی)

ترجمہ:” اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت، اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے الله کے عرش کے سایہ میں انبیاء کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔“

اس حدیث پاک میں جنابِ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم  بچوں کی بہترین تربیت کے حوالہ سے بہترین راہ نمائی فرما دی کہ نبی کی محبت ، ان کے اہل بیت، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین سے محبت کرنا بچوں کو سکھایا جائے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی تلقین کی جائے۔ والدین کی طرف سے اپنی اولاد کو بہترین تحفہ وہ قرآنی تعلیم ہے۔ آج ہم اپنی اولاد کے لیے روپیہ، پیسہ اور طرح طرح کی جائیداد، پراپرٹی جمع کرتے تھکتے نہیں کہ یہ چیزیں ہمارے بعد ہماری اولاد کے لیے فائدہ مند ہوں، لیکن ان کی دینی علوم کی پیاس بجھانے کی ہم ذرا فکر نہیں کرتے، حالاں کہ جائیداد اور مال ودولت نے تو صرف دنیاوی حاجات کو پورا کرنا ہے، جب کہ قرآن وحدیث اور دینی تعلیم نے تو اس کی دنیا وآخرت دونوں کو سنوار دینا ہے اور اسی میں ہم غفلت کا مظاہرہ کرتے پھر رہے ہیں۔

امام غزالی رحمہ الله تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ بچوں کو قرآن کریم اور احادیث نبویہ علی صاحبھا الصلوٰة والسلام اور نیک لوگوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دینی چاہیے، تاکہ بچہ نو عمری ہی سے شریعت کے احکامات سیکھ لے اور جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جائے اس کا ایمان کامل ، مضبوط اور راسخ عقیدہ میں سر شار ہو کر پلے بڑھے اور اپنے ماں ، باپ کا مطیع وفرماں بردار ہو۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ جب آہستہ آہستہ بولنے لگتا ہے تو والدین اس بچہ کو طرح طرح کے الفاظ سیکھانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، ممی، ڈیڈی کے الفاظ اس بچہ کی زبان پر لانے کو ترس رہے ہوتے ہیں، اگر اسی موقع پر والدین ذمے داری کا مظاہرہ کریں اور اس بچہ کو کلمہ ، الله اور رسول کے نام یاد کروائیں تو ان شاء الله قوی امید ہے کہ یہ بچہ آگے جاکر درست سمت پر چلے گا، بس تھوڑی ہمت کی ضرورت ہے، پھر بچوں کی اچھی اور بہترین تربیت کرنا کوئی مشکل کام نہیں، بچہ ماں کے پیٹ سے برائیاں سیکھ کر نہیں آتا، اسے بُرا ماحول برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے، لہٰذا حتی الامکان اپنے بچوں کو بُرے ماحول سے دور رکھنے کی کوشش کریں، انہیں نیک ، دینی ماحول فراہم کریں، بچپن ہی سے شریعت کے احکامات کا پابند بنائیں، جہاں آپ اس کے عصری علوم کی تعلیم کی فکر کرتے ہیں اسی طرح دینی علوم کی تعلیم کی بھی ضرور فکر کریں ۔ الله تعالیٰ تمام والدین کی اولاد کو مطیع وفرماں بردار بنائے او ران کے لیے ان کی اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ (آمین ثم آمین!)

Flag Counter