سیر ت رسول الله صلی ا لله علیہ وسلم میں
عصر حاضر کے مسائل کا حل
مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت دراصل تمام مسلمانوں کے لیے روشنی کا بلند اور عظیم الشان مینار ہے ،جس کے ذریعہ وہ جاہلیت ،غفلت اور گم راہی کی تاریکیوں کے ماحول سے رشدو ہدایت اور عزت و سرفرازی کے وسیع میدان میں پہنچ سکتے ہیں اورایک کشادہ شاہ راہ پر گام زن ہو سکتے ہیں، آج بھی اگر مسلمان اپنی کمزوری اور بے بسی اور غلامی کے اسباب تلاش کریں اور اپنی ذلت و مسکنت اور رسوائی، نیز باہمی عدم تعاون اور پسماندگی کا راز معلوم کرنا چاہیں تو ان تمام چیزوں کا بنیادی سبب اور اصل راز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ نشان راہ سے انحراف اختیار کرنے میں مضمر نظر آئے گا ،جسے آپ واضح اور تاب ناک بنا کر اس دارفانی سے رخصت ہوئے تھے، مسلمان آج بھی اپنی اور اپنی ملت کی کمزوری کے اسباب تلاش کر سکتا ہے ،وہ اگر نظر غائر اس کا جائز لے تو اس کو یہ کمزوریاں اپنے کردار ،اپنی سیرت اور طرز زندگی میں محسوس طور پر نظر آئیں گی ،جو اس کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب ہے اور اس کو اصل الاصول کی حیثیت سے اپنائے ہوئے ہے۔یہ طرز حیات اور روش سیرت نبوی سے مختلف اور بسا اوقات متعارض ومتضاد بھی ہے،اس کردار کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے کوئی تعلق نہیں،وہ کردار نبوت جس کا خاکہ آپ نے قولی و عملی حیثیت سے اپنی زندگی میں پیش کیا ہے۔
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنجیدہ اور ٹھوس لہجے میں ببانگ دہل یہ اعلان نہیں فرما دیا:”تم میں کا کوئی شخص اس وقت تک حقیقی او رکامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تمام خواہشات میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائیں۔“ایک دوسرے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”تم میں سے کوئی بھی مومن کامل قرار نہیں دیا جائے گا،جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرنے لگے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“ان دونوں حدیثوں میں غوروفکر کرنے سے مندرجہ ذیل سوالوں کا تشفی بخش جواب ملتا ہے:
٭…ہم ایمان ویقین کے اعتبار سے کیوں کمزور ہیں، جب کہ ہمارے دشمن ہر اعتبار سے طاقت ور ہیں؟!
٭…ہم زوال وانحطاط اور پسماندگی کا شکار کیوں ہیں ،جب کہ وہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ اور کار زارِ حیات میں پیش رفت ہیں۔
٭…ہم نصرت وتائید خداوندی سے کیوں محروم ہیں؟!
٭…ہم لا یعنی اور اپنی شان سے فروتر چیزوں میں کیوں مصروف ہیں؟!
٭…ہم باہم دست و گریباں کیوں ہیں جب کہ دشمنان اسلام محبت والفت اور تعاونِ باہم کے اصول پر عمل پیراہیں؟!
یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات کا انتہائی بہتر اور اطمینان بخش جواب ان دونوں حدیثوں میں موجود ہے۔
کیا ایسا نہیں کہ مسلمان ہوا پرستی میں مشغول،خواہشات نفس کے سامنے سرنگوں ہیں اور وہ اس حقیقت کو یا تو یکسربھول گئے ہیں،یا نسیان کا مظاہرہ کررہے ہیں۔”کہ ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا،جب تک دین محمدی اور پیغام خداوندی کی مکمل پیروی نہ کرنے لگیں۔“بایں معنی کہ کچھ بھی ہو جائے،کیسے بھی حالات پیدا ہو جائیں ،دنیا کے ارزاں مال و متاع اور خواہشات نفس ،ضروریات زندگی سے دین کے مقابلے میں یکسر نظر یں پھیر لیں ،ہوی و ہوس سے مغلوب نہ ہوں ،ان کے دلوں تک پہنچنے کا شیطان کو کوئی موقعہ نہ ملے ،ان کے سینوں میں اغراض اور مفاد پرستی کا کوئی گزر نہ ہو، اس لیے کہ وہ متبعین رسول ہیں، نہ کہ خواہش و نفسیات کے اطاعت گزار اور اغراض اور خواہش نفس کے غلام ۔
لیکن مسلمان اپنی قدیم روش پر باقی نہ رہے ،جو پاک طینتی،پاک بازی ،احتیاط ،تقویٰ ،خدا اور رسول خدا سے سچی محبت،ایمان کامل اور حقیقت ایثار و قربانی سے عبارت ہے ،بلکہ حق بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سیرت پیش کی اور جس کے ذریعہ لوگوں کو ہلاکت و بربادی کے گڑھے سے، (جس کی طرف بڑی بے تابی اور برق رفتاری سے بڑھ رہے تھے )نکال کر روشنی کے کشادہ و پرامن راستے پر لاکھڑا کیا،مسلمانوں نے ا س سیرت سے بے اعتنائی برتی اور غیروں نے اس کے بڑے حصے کو کسی دوسرے عنوان سے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔مسلمانوں کی ذلت و رسوائی ،شکستگی اور بلندی کے بجائے پستی،متاع عزوشرف کے بجائے اسباب شقاوت ، بے بہا دولت اسلام کے بدلے حقیر اور معمولی چیزوں کو اختیار کر لینے کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے ؟
کیا مسلمان اپنی تمام خواہشات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے تابع کیے بغیر عزت و سر بلندی اور سر خ روئی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ جذبہٴ ایثا ر و قربانی کے بغیر قوموں میں قبول عام حاصل کرنے کی آرزو رکھتے ہیں؟کیا وہ فتح و نصرت کی توقع رکھتے ہیں،جب کہ وہ دشمنان اسلام کی حاشیہ برداری میں مشغول اور ظلم و زیادتی کرنے والوں کی ہم نوائی میں مصروف ہیں؟کیا وہ رحمت الہٰی کے مستحق ہوسکتے ہیں جب کہ وہ غیروں کے لطف و کرم کی امید میں سراپا انتظار بنے ہوئے بیٹھے ہیں ؟!۔
کیا مسلمان زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلامی تعلیمات کو از سر نو نافذ نہیں کریں گے ؟کیا وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر سے اپنے سینے سے لگا کر اپنا راہ نما و مقتدیٰ اور تاریک زندگی کے لیے شمع ہدایت قرار دے کر اپنی پوری زندگی کے لیے شمع ہدایت قرار دے کر اور سارے معاشرے میں اس کو عملی جامہ نہیں پہنائیں گے ؟
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بلاکم وکاست اپنی پوری جامعیت وکمال کے ساتھ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ لہٰذا اس کا از سر نو اور بانداز نو مطالعہ کرنا ضروری ہے اور اس کی روشنی میں زندگی گزارنے کا شوق انتہائی لازمی امر ہے ۔
صحابہ ٴ کرام اور تابعین عظام کی پوری زندگی مکمل طور پر ہمارے سامنے ہے،جنہوں نے سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم کو حرز جاں بنایا اور ہر حال میں اس کی پیروی کی،ہمیں ان کی زندگیوں میں غور و فکر کی ضرورت ہے ،تاکہ اس ذخیرہ نایاب میں کوئی جو ہر آب دار ہم کو دست یاب ہوجائے اور ہماری زندگی کا نقشہ یکسر بدل جائے اور تاریخ کا رخ یک لخت مر جائے اور وہ ایک نئی اسلامی تاریخ کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
ذرا سنو ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر پر زور پر شور انداز سے خطاب فرما ہیں اور ہمیں ایک اصول کی تلقین فرمارہے ہیں:”علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین، عضوا علیھا بالنواجذ“(اے لوگو!میری سنت اور توفیق یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہٴ حیات کو سینے سے لگا لو، اور اس پر مضبوطی سے کار بند ہوجاؤ)۔