سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم کی اتباع اور فضیلت
عبدالوکیل المتوکل
متخصص فی علوم الحدیث النبوی، جامعہ فاروقیہ کراچی
ہر دور میں انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی سیرت طیبہ ہی بہترین نمونہ تھی۔ آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ایک جامع، تاریخی او رمستند سیرت ہے، یہ کوئی ادعائی، اختراعی اور مفروضوں اور بے بنیاد قصوں ، کہانیوں پر مبنی سیرت نہیں ہے۔ یہ صرف اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس میں پیغمبر اسلام اور آپ کے صحابہ کرام اور تمام ائمہ متبوعین کی سیرت وسوانح مِنْ وعَنْ محفوظ ہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کیوں؟
انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنے اپنے وقت میں اپنی اپنی قوموں کے لیے اپنے اپنے زمانے کے مناسب حال اخلاقِ عالیہ اور صفاتِ کاملہ کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ ٴ عمل پیش کیا۔ جس کو سامنے رکھ کر اُن کے امتی اپنی دنیا وآخرت سنوارتے رہے۔ مگر یہ انبیائے کرام خاص زمانوں او رخاص قوموں کے لیے مبعوث ہوئے تھے، ایسے رہبر وراہ نماکی ضرورت ابھی باقی تھی جو ساری دنیا کے انسانوں کی ہدایت وراہ نمائی کے لیے ایک ایسی جامع اورکامل ومکمل شریعت لے کر آئے جس کے بعدکسی اور پیغمبر اور شریعت کی ضرورت باقی نہ رہے۔ چناں چہ الله تعالیٰ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو تمام لوگوں کے لیے مبعوث فرماکر آپ صلی الله علیہ وسلم پر دین کی تکمیل اور سلسلہ نبوت کو ختم کر دیا۔اب آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی شریعت قیامِ قیامت تک باقی رہے گی۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع کی ضرورت
قرآن کریم کی بے شمار نصوص اور احادیثِ صحیحہ اس بات پر شاہد ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اور سنتوں کا اتباع ہی انسان کی مکمل اصلاح کا نسخہٴ اکسیر اور دنیا وآخرت کی ہر کام یابی کا ضامن ہے، مگر اکثر لوگوں نے اطاعت واتباع کو صرف نماز، روزہ وغیرہ چند عبادات میں منحصر سمجھ رکھا ہے۔ معاملات اور حقوقِ باہمی، خصوصاً عادات اور آداب معاشرت سے متعلق قرآن وحدیث کے ارشادات اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو عام طور پر ایسا سمجھ لیا گیا ہے کہ نہ یہ دین کا کوئی جز ہیں اور نہ اطاعت واتباع رسول سے ان کا کوئی تعلق ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے ایسے مسلمان بھی دیکھے جاتے ہیں، جو نماز، روزے کے اعتبار سے اچھے خاصے دین دار کہلاتے ہیں، مگر معاملات، معاشرت اور حقوق باہمی کے معاملہ میں بالکل غافل اور بے شعور ہونے کی بنا پر اسلام او رمسلمانوں کے لیے ننگ وعار ہوتے ہیں، جس کی بڑی وجہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے ناواقفیت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی عادات وسنن سے غفلت ہے۔
الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایک مثالی نمونہ بناکر بھیجا ہے اور لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ ،ہر دور، ہر حال میں اور عبادات، معاملات، معاشرت اور عادات میں اس نمونے کے مطابق خود بھی بنیں، سنوریں اور دوسروں کو بھی بنانے، سنوارنے کی فکر کریں، آیت قرآنی:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾․(سورہ الاحزاب:21) کا یہی مطلب ہے۔ گویا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت اور شمائل ایک حیثیت سے عملی قرآن ہے۔
سیرتِ نبوی کا قابلِ توجہ پہلو
مذکورہ بالا آیت صاف طور پر اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ ذات نبوی اور سیرت نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کا سب سے اہم اور قابل توجہ پہلو، پیغام ومطالبہ اور حصولِ سعادت وکمال کا ذریعہ اس کی اقتداء اور اتباع زندگی کے لیے ان کو اسوہٴ کامل، معیار اکمل واتمّ او رایمانیات وعقائد سے لے کر طاعات وعبادات او ران دونوں سے آگے بڑھ کر معاملات واخلاق اور اجتماعیات زندگی کا دستور العمل بنانا ہے۔
اس لیے سیرتِ مبارکہ کی صحت واستناد، شہرت واشاعت، محبوبیت ومقبولیت اور اس کی بے نظیر تاریخیت کے ساتھ ( جس کی نظیر انبیاء علیہم السلام سے لے کر، مشاہیر عالم سے لے کر، عظمائے انسانیت، فاتحین ممالک، مؤسسین سطلنت ومملکت، مصلحین اقوام واُمم، مدونین فنون، ناشرینِ علم، کسی طبقے میں نہیں ملتی) اس کا واجب الاقتداء ہر طبقہ انسانی، ہر فرد وبشر کے لیے قابلِ عمل اور موجب کمالِ انسانی اور ذریعہ سعادت ونجات ہونا آیت مندرجہ بالا سے صاف طریقہ سے نمایاں ہے۔
سنت نبوی کا مقام
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو قرآن کریم کے بعد اسلامی قانون کا دوسرا اہم ترین ماخذ تسلیم کیا گیا ہے، سنت کا یہ مقام صدیوں سے مسلم اور غیر متنازعہ رہا ہے اور اگرچہ فقہی آراء کے بارے میں مسلمانوں میں مختلف نقطہ نظر رہے ہیں، لیکن قرآن حکیم اور سنت نبوی کی حجیت کا کسی ماہرِ قانون نے کبھی انکار نہیں کیا، چند ایسے متفرق افراد کی انفرادی آرا سے قطع نظر، جنہوں نے اپنے آپ کو مسلم اُمت کے اجتماعی دھارے سے خود الگ کر لیا تھا، کسی فرد نے کبھی اسلامی قانون کے بنیادی او راہم ماخذ کی حیثیت سے سنت کا درجہ چیلنیج نہیں کیا۔
سنت کی لغوی تعریف
سنت لغت میں سیرت کو کہتے ہیں ،چاہے اچھی ہو یا بُری:” کذا في لسان العرب: السنة: السیرة، حسنة کانت أو قبیحة․“
سنت کی اصطلاحی تعریف
اصطلاحاً سنت کے کئی معانی ہیں، اس لیے کہ محدثین، فقہاء، اصولیین، ہر ایک نے اپنے نقطہ نظر سے سنت کی تعریف کی ہے، ذیل میں ان تمام کی تعریفات ذکر کی جاتی ہیں:
محدثین کے نزدیک سنت کی اصطلاحی تعریف
ہر وہ چیز جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منقول ہو، چاہے وہ قول، فعل، تقریر کے قبیل سے ہو یا وہ صفاتِ خِلقی یا خُلقی سے متعلق ہو، یہاں تک کہ حرکات وسکنات، سونے میں ہوں یا جاگنے میں اور یہ عام ہے بعثت سے پہلے کو بھی اور بعد کو بھی۔ علامہ ابوبکر الخلال نے اپنی کتاب ”السنة“ میں اسی تعریف کو ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو:
”کل ما نقل عن النبی صلی الله علیہ وسلم من قول أو فعل، أو إقرار أو تقریر، أوصفة خُلقیة أو صفة خلقیة، حتی الحرکات والسکنات في الیقظة والمنام قبل البعثة أو بعدھا․“
محدثین کو یہ تعریف کیوں اختیار کرنی پڑی؟
محدثین نے سنت کی یہ تعریف ( ہر وہ چیز جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے نسبت رکھتی ہو وہ سنت ہے ) اس لیے اختیار کی ہے کہ محدثین کی نظرمیں سنت میں عموم ہے، یعنی سنت ہر اس چیز کا نام ہے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی سے متعلق ہو، چاہے اس سے کوئی حکمِ شرعی ثابت ہو رہا ہو یا نہیں اور چاہے اس کی اتباع واجب ہو یا نہ ہو۔
فقہاء کے نزدیک سنت کی تعریف
ہر وہ چیز جو آپ صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہو، جس کے کرنے کا مطالبہ دلیل شرعی سے ثابت ہو ،اس حال میں کہ وہ مطالبہ نہ بصورتِ فرض ہو نہ بصورت واجب۔ دکتور محمد عجاج الخطیب نے اپنی مشہور کتاب” السنة قبل التدوین“ میں سنت کی مندرجہ بالا تعریف کو یوں ذکر کیا ہے:”کل ماثبت عن النبي صلی الله علیہ وسلم، ولم یکن عن باب الفرضِ ولا الواجب، فھي الطریقة المتبوعة فی الدین․“
فقہاء کے اس تعریف کو اختیار کرنے کی وجہ
فقہاء نے سنت کی مندرجہ بالا تعریف اس لیے اختیار کی ہے کہ فقہاء کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ فعلِ مکلف پر شریعت کا کون سا حکم مرتب ہو رہا ہے، یعنی شریعت مطہرہ مکلف سے مذکورہ فعل کا مطالبہ کس درجہ میں کر رہی ہیں، اس لیے کہ فقہائے کرام شریعت کے حکم سے اس حوالے سے بحث کرتے ہے کہ بندوں کے افعال پر وجوب، ندب ، اباحت، حرمت، کراہت کس طرح ثابت ہوتا ہے۔
اصولیین کے ہاں سنت کی تعریف
ہر وہ چیز جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے صادر ہو، جو حکم شرعی کے لیے دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی ہو اور قرآن مجید کے علاوہ ہو، چاہے وہ قول، فعل، تقریر جس سے بھی متعلق ہو۔ دکتور محمد عجاج الخطیب اپنی کتاب”السنة قبل التدوین“ میں سنت کی مندرجہ بالا تعریف ذکر کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:”کل ماصدر عن النبی صلی الله علیہ وسلم غیر القرآن الکریم من قول، أو فعل، أو تقریر مما یصلح أن یکون دلیلاً لحکمٍ شرعی․“
اصولیین کا مندرجہ بالا تعریف کو اختیار کرنے کی وجہ
اصولیین نے سنت کی تعریف میں اس بات کو مدنظر رکھاہے کہ سنت چوں کہ اسلامی قانون کا مصدر او رماخذ ہے تو انہوں نے سنت ان چیزوں کو بتایا جن سے شریعت کے احکام ثابت ہو رہے ہوں اور شریعت کے احکام رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قول، فعل، تقریر سے ہی ثابت ہوتے ہیں۔
ایک اہم نکتہ!
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر ہونی چاہیے کہ سنت کا لفظ عموماً جب کلام نبی، کلامِ صحابہ اور کلامِ تابعین میں استعمال ہو جائے تو اس سے منہج نبوی اور وہ طریقہ جو دین میں مشروع ہو، جس کی اتباع کی گئی ہو مراد ہوتا ہے، اس سے وہ فقہی سنت جو واجب کے مقابل ہوتی ہے مراد نہیں ہوتی۔ مندرجہ بالا نکتہ کی وضاحت حلب کے مشہور محدث شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی زبانی ملاحظہ ہو:”ولفظ السنة إذا ورد في کلام النبي ا، وکلام الصحابة، والتابعین رضي الله عنہم، فالمراد بہ الطریقة المشروعة المتبعة في الدین، والمنہج النبوي الحنیف، ولا یراد بہ السنة الفقہیة التی تقابل الواجب․“
سنت کے لغوی او راصطلاحی معنی کے بعد اب آتے ہیں اتباع کے لغوی اور اصطلاحی معنی کی طرف۔
اتباع کا لغوی معنی
اتباع لغت میں کسی کے پیچھے چلنے کو کہتے ہیں کذا فی المعجم الوسیط:”اتبع“ الشئ سار وراء ہ․
اتباع کا اصطلاحی معنی
اتباع شرعی کو امام احمد بن حنبل اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں :”ھو ان یتبع الرجل ماجاء عن النبي صلی الله علیہ وسلم وعن أصحابہ، ثم ھو من بعد في التابعین مخیر․“
اتباع کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے بعد اب آتے ہیں اتباع سنت کی اہمیت کی طرف۔
اتباع سنت کی اہمیت قرآن کی روشنی میں
قرآن کریم کی بے شمار آیات کے واضح احکام ہیں جن کے تحت مسلمانوں پر پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کی اطاعت اور پیروی لازم کی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار پیغمبر کی اطاعت پر زور دیا جاتا ہے، حتی کہ اطاعت رسول کو الله کی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے:﴿قُلْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ الْکَافِرِیْن﴾․(سورة آل عمران:32)
ترجمہ:” آپ فرما دیجیے کہ تم اطاعت کیا کرو الله کی اور اس کے رسول کی پھر اگر وہ لوگ اعراض کریں، سوا لله تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتے۔“
اطاعت رسول کو اس قدر اہمیت کے ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ الله تعالیٰ کی اطاعت اس کے بغیر عملاً ممکن نہیں ہے۔
قرآن کریم میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ رسول کی اطاعت یا فرماں برداری نہ تو الله کا کوئی نیا قانون ہے اور نہ اس کا اطلاق صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک مخصوص ہے، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے پیشتر بھیجے جانے والے تمام انبیاء کے لیے بھی یہی اصول کار فرمارہا ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون﴾․ (سورہ آل عمران:132)
ترجمہ:”اور خوشی سے کہنا مانو الله تعالیٰ کا اور رسول کا، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے۔“
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ﴾․(سورہ الانفال، آیت:20)
ترجمہ:”اے ایمان والو! الله کا کہنا مانو او راس کے رسول کا اور اس سے روگردانی مت کرنا او رتم سن تو لیتے ہی ہو۔“
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جب کبھی قرآن میں الله کی اطاعت کا ذکر آیا ہے، تو اسی کے فوراً بعد رسول کی اطاعت کا حکم بھی آیا ہے ،جو پورے قرآن میں کہیں ایک مرتبہ بھی فروگذاشت نہیں ہوا ،یعنی پورے قرآن کریم میں کوئی ایک بھی آیت ایسی نہیں ہے، جس میں الله کی اطاعت کا بیان ہو اور اسی کے ساتھ فوراً ہی رسول کی اطاعت کا ذکر نہ ہو۔
اس کے برعکس ایسی کئی آیات ہیں جہاں صرف رسول کی اطاعت کا بیان ہے، لیکن اس کے ساتھ الله کی اطاعت کا کوئی ذکر نہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وَأَقِیْمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون﴾․(سورة النور، آیت:56)
ترجمہ:”اور نماز کی پابند رکھو اور زکوٰة دیا کر وار رسول کی اطاعت کیا کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“
اطاعت رسول کو اس قدر اہمیت کے ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ الله تعالیٰ کی اطاعت اس کے بغیر عملاً ممکن نہیں ہے۔
قرآن کریم میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ رسول کی اطاعت یا فرماں برداری نہ تو الله کا کوئی نیا قانون ہے اور نہ اس کا اطلاق صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک مخصوص ہے، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے پیشتربھیجے جانے والے تمام انبیاء کے لیے بھی یہی اصول کار فرمارہا ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّہِ…﴾․(سورہ النساء: 64)
ترجمہ:” اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اس واسطے مبعوث فرمایا ہے کہ بحکم خدا وندی ان کی اطاعت کی جائے۔“
قرآن کریم نے اس بات کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ تمام رسول، الله تعالیٰ کی رضا وخوش نودی کے ترجمان ہیں، چناں چہ رسول کی اطاعت درحقیقت خود الله تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے، ملاحظہ ہو:﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ…﴾․(سورہ النساء:80)
ترجمہ:” جس شخص نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی۔“
اتباعِ سنت کی اہمیت احادیث کی روشنی میں
دنیاوی معاملات میں تو آدمی خود مختار ہوتا ہے، کسی کے بنائے ہوئے طریقے کا پابند نہیں ہوتا، جیسا کہ روز مرہ کے معاملات میں ہمارا مشاہدہ ہے کہ آئے روز نت نئی ایجادات سامنے آتی ہیں اور نت نئے طریقے ایجاد ہوتے ہیں، تو ایسے لوگوں کی تحسین کی جاتی ہے اور ان کی ان نئی ایجادات کو سراہا جاتا ہے، جب کہ دین کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے، اس لیے کہ دین میں عبادات اور تقرب الی الله کے نئے طریقوں کی ایجاد کی بالکل اجازت نہیں ہے، جو طریقہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بتلایا یا صحابہ کرام، ائمہ متبوعین کے ہاں معمول بہ رہا ہو، اس کے علاوہ کسی اور طریقے کی سرے سے اجازت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اتباع سنت اور اعتصام بالسنة کی بہت تاکید فرمائی ہیں۔ بخاری شریف کی روایت ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو وہ مردود ہے ،ملاحظہ ہو:”من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو ردٌ․“
اسی طرح مستدرک حاکم میں حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کی روایت ہے، جس سے اتباع سنت کی مزید تاکید ہوتی ہے، ملاحظہ ہو:”یاأیھا الناس، إنی قد ترکتُ فیکم ما إن أعتصمتم بہ فلن تضلّوا أبداً: کتاب الله وسنّة نبیّہ…“
اسی مضمون کی ایک حدیث امام ترمذی نے بھی نقل کی ہے، وہ لکھتے ہیں:”…فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ․“
اتباعِ سنت کی اہمیت صحابہ کرام کی نظر میں
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ فرماتے ہیں:”لست تارکا شیئاً کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یعمل بہ إلا عملت بہ، إني أخشی إن ترکتُ شیئاً من أمرہ أن أزیغ․“
حضرت عمر رضی الله عنہ کا حجر اسود کو خطاب ملاحظہ ہو:”إنی أعلم أنک حجر، لاتضر ولا تنفع، ولو لا أني رأیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقبلک ما قبلتک“
حضرت عمر رضی الله عنہ نے ایک اور جگہ اتباع سنت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:” سیاتي ناس یجادلونکم بشبھات القرآن، فخذوھم بالسنن․“
اتباعِ سنت کے حوالے سے داماد پیغمبر حضرت علی رضی الله عنہ کا قول ملاحظہ ہو:”إن أشرب قائما فقد رأیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یشرب قائما، وإن أشرب قاعدا فقد رأیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یشرب قاعداً․“
اتباعِ سنت کے میدان میں ایک نمایاں نام حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کا ہے، جن کے بارے میں منقول ہے کہ سفرمیں بغیرکسی ضرورت وحاجت کے لیٹتے اور قضائے حاجت کے طریقہ پر بیٹھتے، یہمحض اس لیے کہ آپ نے سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کو وہاں ایسا کرتے دیکھا ہوتا، یہ محض حب رسول اور اتباعِ سنت کی خاطر ہوتا تھا ،وہ فرماتے ہیں:”إن الله تعالیٰ بعث محمداً صلی الله علیہ وسلم ولا نعلم شیئاً، فإنما نفعل کما رأینا محمداً صلی الله علیہ وسلم․“
اتباعِ سنت کی اہمیت ائمہ متبوعین کی نظر میں
امام ابوحنیفہ رحمہ الله اتباع سنت کی اہمیت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:”إیاکم والقول فی دین الله تعالیٰ بالراي، وعلیکم باتباع السنة، فمن خرج عنھا ضل․“
امام دارالہجرة امام مالک رحمہ الله تشبیہ کے بلیغ انداز پر اتباع سنت کی عظمت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
”السنن سفینة نوح، من رکبھا نجا، و من تخلف عنھا غرق․“
ناصر السنہ امام شافعی رحمہ الله کا اتباع سنت کے جذبے سے سرشار یہ قول ملاحظہ ہو:”ای ارض تقلنی إذا رویت عن النبي صلی الله علیہ وسلم حدیثاً وقلت بغیرہ․“
ترکِ سنت پر وعید قرآن کی نظر میں
اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری پر قرآن کریم نے بار بار، زور دیا ہے اور اسے الله تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے، ٹھیک اسی طرح رسول کی نافرمانی او راس کے نتائج سے خبر دار کیا ہے او راُسے الله کی نافرمانی کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے:﴿وَمَن یَعْصِ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا﴾․(سورہ النساء:14)
ترجمہ:”اور جو شخص الله اور رسول کا کہا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جائے گا، اس کو آگ میں داخل کر دیں گے، اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔“
﴿وَمَن یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْناً﴾․(سورہ الاحزاب:14)
ترجمہ:”او رجو شخص الله کا اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گم راہی میں پڑا۔“
﴿وَمَن یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ لَہُ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً﴾․(سورہ جن، آیت:23)
ترجمہ:”اور جو لوگ الله اور اس کے رسول کا کہنا نہیں مانتے تو یقینا ان لوگوں کے لیے آتش دوزخ ہے ،جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔“
ترکِ سنت پر وعید احادیث کی روشنی میں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صرف کتاب الله پر اکتفا اور سنت پر عمل نہ کرنے سے منع فرمایا، ملاحظہ ہو:” ألا ھل عسیٰ رجل یبلغہ الحدیث عنی وھو متکی علی أریکتہ، فیقول: بیننا وبینکم کتاب الله، فما وجدنا فیہ حلالاً استحلنناہ، ما وجدنا فیہ حراماً حرمناہ، وإنما حرم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کما حرم الله․“
اسی طرح ایک اور حدیث میں سنت پر عمل نہ کرنے والے کے بارے میں بہت سخت وعید ارشاد فرمائی، ملاحظہ ہو:”فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی․“
اتباع سنت کی اہمیت اور ترک سنت پر وعید کے بعد اب آتے ہیں اتباع سنت کی فضیلت کی طرف، یعنی اتباع سنت پر دنیا وآخرت میں ملنے والے اجر وثمر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں۔
اتباعِ سنت کی فضیلت قرآن کی روشنی میں
﴿وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ﴾․(سورة النساء:13)
قرآن پاک میں دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:﴿وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِم﴾․(سورہ النساء:69)
اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کام یابی کی ضمانت کیا ہو گی کہ الله رب العزت نے خود اطاعة الله اور اطاعتِ رسول کو بہت بڑی کام یابی قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو:﴿وَمَن یُطِعْ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْماً﴾․ (سورة الاحزاب:71)
اتباعِ سنت کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
فساد امت کے زمانے میں سنت نبوی کی اتباع کرنے والے کا اجر شہید کے اجر کے برابر ہو گا:”المتمسک بسنتي عند فساد أمتي فلہ اَجر شہید․“
ایک دوسری روایت میں ”لہ اَجر مائة شہید“ کی زیادتی وارد ہوئی ہے، جس سے فساد زمانہ میں اتباع سنت پر ملنے والے اجر اور اس کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے، آپ علیہ السلام نے حضرت بلال بن حارث سے فرمایا:” إنہ من أحیا سنة من سنتي قد اُمیتت بعد؛ فإن لہ من الأجر مثل من عمل بھا من غیر أن ینقص من أجورھم شیئا…“
اتباعِ سنت اور دور حاضر
دنیا میں ہر طرف اندھیرا مچا ہوا، ظلم کا راج ہے ،کوئی ظالم کا ہاتھ نہیں روکتا، مظلوم کا ساتھ نہیں دیتا، خدا کا خوف دلوں سے نکل گیا ہے۔ آج بھی وہی ہو رہا ہے جو زمانہ جاہلیت میں ہو رہا تھا۔ ہر طرف ظلم وشقاوت، نفس پرستی، انانیت اور خود غرضی کا بازار گرم ہے، یعنی آج بھی ہم ایام جاہلیت کے قریب ہو رہے ہیں۔ امت مسلمہ اس وقت جس صورت حال سے دو چار ہے، اس کی تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ہر صاحب نظردیکھ رہا ہے کہ عزت ووقار اور سربلندی گویا کہ ہم سے چھین لی گئی ہے ۔ افتراق وانتشار ہے، باہمی خانہ جنگیاں ہیں، اختلافات ہیں۔ وحدت امت جو مطلوب ہے اس کا شیرازہ پارہ پارہ ہو چکا ہے۔
یہ سب اتباعِ سنت اور اطاعتِ رسول سے دوری کا نتیجہ ہے، دنیا اگر فلاح وکام یابی اور سکون واطمینان چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مقدس تعلیمات کے مطابق اپنے کو بدلے۔ چاہے اس تبدیلی میں معاشرے کی ایک ایک اینٹ کیوں نہ اکھیڑنا پڑے، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ تمدن وتہذیب او رمعاشرے کی غلط کاریوں سے نباہ کرنے کے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حکم میں ایک شوشے کی بھی تبدیلی گوارا کر لی جائے۔ زندگی او رترقی نام ہی اسوہٴ حسنہ کی اتباع کا ہے، جہاں یہ اتباع نہیں وہاں رجعت ہے، زوال ہے، موت ہے۔
بے شمار قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ شاہد ہیں ( جیسا کہ ماقبل میں بعض کا ذکر آچکا ہے ) کہ انسان کی کامل اصلاح اور دنیا وآخرت کی تمام کام یابیوں کی ضمانت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اور سنتوں کی پیروی ہی میں مضمر ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ ، خواہ وہ عبادات ہو یا معاملات ، معاشرت ہو یا اخلاق وکردار ، امن عامہ ہو یا میدان جنگ، سیاست ہو یا نظام عدل وانصاف، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، خانگی معاملات ہوں ، یا مملکتی امور… غرض زندگی کے ہر پہلو اور ہر موقع کے لیے آپ علیہ السلام نے بہترین او رکامل ترین نمونہ عمل چھوڑا ہے۔ ہمیں خود بھی اس کو اختیار کرنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف توجہ وترغیب دلانی چاہیے۔
موجودہ دور میں امت مسلمہ کی نشاة ثانیہ کا راز اتباعِ رسول میں پنہاں ہے!
اگر ہم میں سے ہر ایک فرد، مرشد ہو یا مرید، استاد ہو یا طالب علم، مرد ہو یا عورت، حاکم ہو یا محکوم، زمین دار ہو یا تاجر، سپاہی ہو یا عام آدمی… غرض کوئی بھی مسلمان ہو اور کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنی کام یابی کا راز اتباع رسول، پیارے نبی کی پیاری سنتوں ہی میں خیال کرے اور اس شعبہ ہائے زندگی سے متعلق نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات کو اپنے لیے اسوہٴ حسنہ بنائے۔
ایک طرف اگر یہ بات عقلاً وبدایةً مسلم ہے کہ معاشرہ کی اصلاح فرد کی اصلاح میں مضمر ہے، تو دوسری طرف قرآن وحدیث او رتاریخ اسلام کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب بھی معاشرہ نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات مقدسہ کو اختیار کیا اور آپ علیہ السلام کی اتباع کو لازم پکڑا تو وہ معاشرہ دنیا وآخرت دونوں میں سر خ رو ہوا، آج بھی یہ کام یابی وکام رانی مسلمانوں کا مقدر ٹھہر سکتی ہے اور یہ رعب ودبدبہ قائم ہو سکتا ہے اور الله کی مدد ان پر اتر سکتی ہے، بشرطیکہ امت مسلمہ کا ہر فرد حب رسول کے جذبہ سے سرشار ہو اور اتباع رسول کا عملی نمونہ بن کر دکھائے۔
شاعر نے اسی بات کو اپنے اشعار میں کیا خوب بیان کیا ہے #
مومن جو فدا نقشِ قدم پاک نبی ہو
ہو زیرِ قدم آج بھی عالم کا خزینہ
گرسنت نبوی کی کرے پیروی امت
طوفان سے نکل جائے گا اس کا سفینہ