عقل مند انسان
ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورَ﴾․ ( سورة الأنعام:162) صدق الله مولانا العظیم․
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّار﴾ پس جو کوئی شخص جہنم سے بچا لیا گیا ﴿وَأُدْخِلَ الْجَنَّة﴾ اور جو کوئی شخص جنت میں داخل کر دیا گیا ہے﴿فَقَدْ فَازَ﴾ پس تحقیق وہ کام یاب ہو گیا،﴿وَما الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورَ﴾ اور نہیں ہے دنیا کی زندگانی، مگر دھوکے کا سامان، جو آدمی جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہ کام یاب ہے۔
جنت میں داخلہ اور جہنم سے بچاؤ، یہ ایسی صورت میں ممکن ہے، جب آدمی جہنم سے بچنے والے کام کرے۔ اور جنت میں داخلہ اسی وقت ممکن ہے جب آدمی جنت میں داخل ہونے والے کام کرے۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ آدمی کام تو کرے جہنم میں داخل ہونے والے اور امید یہ رکھے کہ میں جنت میں داخل ہوں۔ یہ ممکن نہیں۔ ایک اصولی بات الله تعالیٰ نے ارشاد فرما دی ہے:
چناں چہ جہنم سے بچنے کی جو صورت ہے، اسی کو پھر الله تعالیٰ نے آخر میں ارشاد فرمایا ہے، وہ یہ کہ﴿وَما الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورَ﴾ اور نہیں ہے دنیا کی زندگانی، مگر دھوکے کا سامان۔ آدمی اس دنیا میں دھوکے میں پڑ جاتا ہے اور دھوکے میں پڑ کر وہ بجائے جنت کے، جہنم والے راستے پر چل پڑتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی بہت بڑی جماعت جو ایک ہزار نہیں ہیں، پانچ ہزار نہیں ہیں، دس ہزار نہیں ہیں، پچاس ہزار نہیں ہیں، بلکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش انبیائے کرام علیہم السلام اس دنیا میں انسانوں کو یہی گتھی سلجھانے کے لیے اور یہی بات بتانے کے لیے تشریف لائے۔
ان تمام انبیا کرام کی، سب کی ایک ہی بات تھی، اور وہ یہی ہے کہ جہنم سے اپنے آپ کو بچاؤ او رجنت میں داخل ہونے کی کوشش اور اس کے لیے اعمال کرو اور دنیا جو دھوکے کی جگہ ہے اس میں اپنے آپ کو مت پھنساؤ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہر آدمی جانتا ہے، ہر آدمی جانتا ہے، جو یہاں موجود ہیں وہ بھی جانتے ہیں اور جو یہاں نہیں ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا کی جتنی چیزیں آج میرے پاس ہیں، وہ میرے پاس نہیں رہیں گی، یہ کوئی راز نہیں ہے، یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ ایک آدمی کے پاس پچاس لاکھ روپے بینک میں ہیں، آپ مجھے بتائیے کہ اس پچاس لاکھ کے مالک کو یہ معلوم ہے کہ کل یہ جیے گا اور جب رات کو اس کی موت آجائے گی تو کیا اس پچاس لاکھ کا مالک رہے گا؟ کتنی واضح سی بات ہے۔ ایک آدمی کے پاس عمارتیں ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھ رہا ہے ،لیکن اگر آج شام اس کی موت آجائے تو کیا کل کو وہ ان عمارتوں کا مالک رہے گا؟
یہ بھی یاد رکھیں کہ جب آدمی دنیاوی اعتبار سے زندگی گزارتا ہے اور دنیا اس کی ترجیحات میں ہوتی ہے، دین کو خیر باد کہہ دیتا ہے اور دین کی طرف وہ مائل اور متوجہ نہیں ہوتا تو اور زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ اگر دین دار ہے تو بیوی پیچھے رہ جائے گی اور اس کے لیے کچھ نہ کچھ صدقہ کرتی رہے گی، ایصال ثواب کرتی رہے گی، بیٹے پیچھے رہ جائیں گے، وہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ بندوبست او رانتظام کرتے رہیں گے۔
لیکن اگر ایک آدمی خالص دنیا دار ہے، دنیا، دنیا، دنیا، صبح شام، دن رات دنیا۔ بیوی بھی اس کوشش میں ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ مرے تاکہ اس کی چیزوں کے اوپر میں قابض ہوں اور اولاد بھی اس کوشش میں ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ مرے۔ اس کے مرنے سے پہلے آپس میں باتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ کسی طرح یہ مرے تو یہ چیز میرے پاس آئے گی، یہ چیز میرے پاس آئے گی۔ یہ کوئی اَن ہونی نہیں، صبح شام کے یہ واقعات ہیں جو ہمارے ارد گرد ہورہے ہیں۔
ہمارے ہاں دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی میں ایک صاحب اپنے دو بیٹوں اور دو دامادوں کے ساتھ آئے۔ انہوں نے ایک پرچہ دکھایا جس میں انہوں نے اپنی عقل سے اپنی جائداد اپنے وارثوں میں تقسیم کی تھی۔ اور اب مسئلہ پوچھنے آئے تھے۔ ابھی وہ یہ پوچھ ہی رہے تھے کہ انہوں نے جو کچھ تقسیم کیا ہے، آیا شریعت کی رُو سے درست ہے یا نہیں، ان کے بیٹوں اور دامادوں میں یہی جھگڑا شروع ہو گیا کہ نہیں یہ میرا ہو گا، یہ تیرا ہوگا۔ ابھی تو باپ زندہ ہے، اس پر یہ حال ہے۔ صبح شام کے واقعات ہیں۔
﴿وَما الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورَ﴾ خوب یاد رکھیے کہ دنیا کی زندگانی دھوکے کا سامان ہے۔ کوئی نہ ساتھ لے کر گیا ہے اور نہ کوئی ساتھ لے کر جائے گا۔ ہم صبح شام اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگر کسی کے اوپر مرتے وقت بنیان ہے اور اس کی زندگی ختم ہو چکی ہے، ہاتھ اکڑ گئے ہیں اور وہ بنیان سہولت کے ساتھ نہیں نکل رہی تو قینچی سے کاٹتے ہیں، انگلی کے اندر کوئی چھلا، کوئی انگوٹھی ہے اورنہیں نکل رہا ہے تو پلاس سے یا کٹر سے کاٹ دیتے ہیں۔
الله رب العزت نے بہت ساری چیزوں کو ہم سے مخفی رکھا ہے۔ خود الله تعالیٰ کی ذات ہمیں نظر نہیں آتی، لیکن الله تعالیٰ موجود ہیں، حاضر ہیں، ناظر ہیں، ”فعال لما یرید“ ہیں ، پوری کائنات کے نظام کو الله تعالیٰ ہی چلا رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو یہ دھوکا لگ گیا اور وہ یہ سمجھے کہ یہ سب کچھ خود بخود ہے۔ اور جیسے یہ دنیا خود بخود ہے، ایسے ہی ہم بھی خود بخود ہیں اور جیسے یہ خود بخود بنی ہے، ایسے ہی خود بخود ختم بھی ہو جائے گی، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کائنات کو الله تعالیٰ نے بنایا ہے، آسمانوں کو الله نے بنایا ہے، زمینوں کو الله نے بنایا ہے اور آسمانوں اور زمین کے بیچ جو کچھ ہے، اس سب کو الله ہی نے بنایا ہے۔ ایک ایک چیز الله کی مخلوق ہے اور الله اس کے خالق ہیں۔ کوئی شے بغیر خالق کے نہیں ہے۔
امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اسی طرح کے ایک شخص کی بحث ہوگئی۔ اس طرح کا نظر یہ رکھنے والوں کو ”دہر یہ“ کہا جاتا ہے۔ اس دہریے نے حضرت امام ابوحنیفہ سے کہا کہ سب کچھ خود بخود ہے، یہ کسی بنانے والے نے نہیں بنایا۔ اس لیے کہ اگر بنانے والا ہوتا تو نظر آتا۔ بنانے والا تو ہمیں نظر نہیں آتا۔ امام صاحب نے بہت سمجھایا، لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ تو یہ طے ہوا کہ ایک مناظرہ رکھا جائے۔ وہ اپنی بات بیان کرے اور امام صاحب اپنی بات بیان کریں تاکہ لوگوں کے سامنے صحیح بات آجائے۔
چناں چہ دن متعین ہو گیا، وقت متعین ہو گیا، جگہ متعین ہو گئی۔ اب سب لوگ پہنچ گئے، دہر یہ بھی پہنچ گیا، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله نہیں ہیں، اب اس نے شور کرنا شروع کر دیا کہ تمہارا عالم او رمناظر نہیں آیا۔ لوگوں میں تشویش پیدا ہو گئی۔ خیر کچھ دیر بعد امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمہ الله تشریف لائے تو انہوں نے سب سے پہلا اعتراض یہ کیا کہ آپ نے وقت متعین کیا، دن متعین کیا، ساری چیزیں متعین کیں اور آپ وقت پر نہیں آئے۔
امام صاحب نے فرمایا کہ بھئی !میری بات تو سنو۔ اگر میرا عذر معقول ہوا تو میری جو مشکل تھی، وہ سب کی سمجھ میں آئے گی۔
چناں چہ لوگوں نے کہا، ہاں امام صاحب! آپ بتائیے۔
امام صاحب نے فرمایا کہ یہ جگہ جہاں ہم سب لوگ موجود ہیں، اس جگہ اور میرے مکان کے درمیان ایک دریا ہے۔ وہاں سے آنے میں مجھے کشتی کی ضرورت پڑی۔ چناں چہ میں تو اپنے گھر سے وقت پرنکلا اورجب میں دریا کے کنارے پہنچا تو وہاں کشتی نہیں تھی۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ کشتی آئے۔ میں انتظار کر ہی رہا تھا کہ اچانک کنارے پر جو درخت لگا ہوا تھا، وہ خود بخود کٹ گیا اور خود بخود کٹنے کے بعد خود بخود اس کے تختے بننے لگے اور پھر وہ تختے خود بخود آپس میں جڑنا شروع ہو گئے اور پھر وہ تختے آپس میں جڑ کر خود بخود کشتی کی شکل بن گئے اور پھر وہ کشتی خود بخود چل کر میرے پاس آئی اور میں اس میں سوار ہوا اور پھر وہ کشتی خود بخود چل کر کنارے پر آگئی اور میں آپ لوگوں تک پہنچا۔
امام صاحب نے یہ بات کہی تو اس دہریے نے زور سے قہقہہ لگایا او رکہا دیکھ لیا، تمہارے صاحب کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں؟ کبھی کسی نے سنا ہے کہ درخت خود بخود کٹ گیا ہو؟ کبھی کسی نے سنا ہے کہ درخت کے خود بخود تختے بن گئے ہوں ؟ کبھی ایسا ہواہے کہ وہ تختے خود بخود آپس میں جڑ کر کشتی کی شکل بن گئے ہوں اور کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ وہ کشتی چل کر خود بخود آدمی کے پاس پہنچے اور پھر وہ خود بخود سفر کرے اور منزل تک پہنچے۔ کبھی کسی نے دیکھا ہے؟
لوگوں نے کہا، نہیں دیکھا۔
اب امام صاحب نے فرمایا کہ بھئی! یہی بات میں تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں۔ ہمارا مناظرہ اسی پر ہے کہ جب ایک درخت خود بخود نہیں کٹ سکتا او رجب ایک درخت کے خود بخود تختے نہیں بن سکتے او رجب ایک درخت کے تختے خود بخود آپس میں مل کر کشتی کی شکل نہیں بن سکتے، تو یہ اتنا بڑا کارخانہ عالم خود بخود کیسے ہو گیا؟ کیا یہ خود بخود ہو سکتا ہے ؟ (اصول الدین عند الإمام أبی حنیفہ، الباب الثانی، بیان اعتقادہ فی التوحید، الفصل الاول، المبحث الثانی،ص:222)
خود بخود کچھ نہیں، سب کچھ الله کی مرضی سے ہے۔ سب کچھ الله تعالیٰ کے کرنے سے ہے۔ الله تعالیٰ کر رہے ہیں۔ الله تعالیٰ”فعال لمایرید“ ہیں۔ الله تعالیٰ نے ہر چیز،کو پیدا کیا۔ ایک چھوٹا ساکیڑا جو چٹان کے اندر ہے، کئی کئی پردوں میں، وہاں الله تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا اور وہاں اس کو الله تعالیٰ اس کی غذا پہنچارہا ہے۔ وہاں اسے زندہ رکھتا ہے۔ یہ الله تعالیٰ کرنے والے ہیں۔
الله تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کو مخفی رکھا ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنی ذات کو مخفی رکھا، حالاں کہ الله تعالیٰ موجود ہیں۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے، ہمارا یہ ایمان ہے۔فرشتے نظر نہیں آتے، لیکن ہمارا یہ ایمان ہے کہ فرشتے ہیں۔ یہاں اس مسجد میں بھی ہیں۔ مسجد الله کا گھر ہے۔ یہ فرشتوں سے بھری ہوتی ہے، لیکن فرشتے ہمیں نظر نہیں آتے۔ جنت ہے، جہنم ہے، مرنے کے بعد کی زندگی ہے، سب مخفی ہے، نظر نہیں آتا۔
لیکن موت․․․ الله تعالیٰ نے اسے ظاہر کر دیا۔ آدمی کے باپ کا انتقال ہوتا ہے تو آدمی آنکھوں سے دیکھتا ہے؛ ماں کا انتقال ہوتا ہے تو وہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ بہنوں، بھائیوں، دوستوں اور دوسرے عزیز واقارب کو مرتے ہوئے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔اپنے ہاتھوں سے قبر کھودتا ہے، اپنے ہاتھوں سے اپنوں کو قبر میں اتارتا ہے، اپنے ہاتھوں سے اس قبر کو مٹی سے بھرتا ہے، یہ سب صبح شام کے واقعات ہیں۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ غفلت اسی موت کے بارے میں ہے، حالاں کہ موت تو کسی بھی وقت واقع ہوسکتی ہے۔
چناں چہ سمجھ دار آدمی، عقل مند آدمی اور زیرک آدمی وہ ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرلے۔ یہی تیاری جنت لے جاتی ہے اور جہنم سے بچا لیتی ہے۔ اگر آدمی اس حوالے سے فکر مند نہیں ہے اور وہ خدانخواستہ غفلت میں مبتلا ہے تو اسی کو الله تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ آدمی دنیا کے سامان، دنیا کے اسباب، دنیا کی چیزوں، دنیا کے پیسے، دنیا کی دولت، دنیا کی جائیداد میں مگن ہے۔ لہٰذا عام طور پر آدمی صبح کو اٹھتا ہے اور وہ دنیا کے حصول میں منہمک ہو جاتا ہے۔ صبح سے شام بلکہ رات تک اسی ادھیڑ بن میں مگن رہتا ہے۔ اس معمول میں کسی کو ساٹھ سال ہوگئے، کسی کے اسی سال ہوگئے۔
آپ غور فرمائیے کہ کیا الله تعالیٰ نے انسان کو جو اشرف المخلوقات ہے، جس کو الله تعالیٰ نے اپنی خلافت اور نیابت کے لیے پیدا فرمایا، کیا اس کا مقصد یہی ہے کہ یہ صبح سے لے کر شام تک اور ساری زندگی جانوروں کی طرح کھاتے پیتے، ہگتے موتتے گزار دے اور اپنی زندگی یوں ہی تمام کردے۔ یہ تو جانور بھی کرتے ہیں، پرندے بھی کرتے ہیں۔ وہ صبح کو اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں او رتلاش معاش کرتے ہیں، پھرتے ہیں،دانہ چگتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر اپنے گھونسلوں میں واپس آجاتے ہیں۔
دوسرے جانوروں کا بھی یہی سلسلہ ہے۔ گائے بھی یہی کرتی ہے، بھینس بھی یہی کرتی ہے، گدھا بھی یہی کرتا ہے، خچر بھی یہی کرتا ہے، گھوڑا بھی یہی کرتا ہے، تو پھر اشرف المخلوقات میں اور جانوروں میں کیا فرق ہے؟
الله تعالیٰ نے اس انسان کو صرف کھانے کمانے کے لیے اس دنیا میں نہیں بھیجا، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ الله تعالیٰ کی نیابت میں زندگی گزارے۔ الله تعالیٰ کی یاد میں اور بندگی میں اپنی زندگی گزارے۔ الله تعالیٰ نے جن نبیوں کو بھیجا ہے ان نبیوں کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارے اوراپنی موت اور آخرت کو یاد رکھے۔ اور وہ لوگ جو اپنی موت کو یاد رکھتے ہیں تو پھر یقینا اس کے لیے فکر مند ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے ہم کچھ تیاری کر لیں ۔
حضرت عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب قبر کا تذکرہ ہوتا تو وہ بہت زیادہ روتے، بہت زیادہ روتے۔ لوگوں نے پوچھا کہ بہت سی چیزوں کے تذکرے ہوتے ہیں، آپ پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی، قبر کے تذکرے سے آپ دہل جاتے ہیں اور بہت زیادہ روتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
حضرت عثمان رضی الله عنہ نے فرمایا کہ مرنے کے بعد سب سے پہلی منزل قبر ہی ہے۔ اگر یہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بن گئی تو اگلی تمام منزلیں سہل اور آسان ہو جائیں گی او راگر خدانخواستہ، خدانخواستہ یہ پہلی منزل برباد ہو گئی اور خراب ہوگئی او رجہنم کی بھٹی بن گئی، تو اگلی تمام منزلیں مشکل اور دشوار ہو جائیں گی۔ اس لیے حضرت عثمان رضی الله عنہ کثرت کے ساتھ روتے تھے۔
وہ آدمی جو موت کو یاد رکھتا ہے ا ورموت کے لیے تیاری کرتا ہے، یاد رکھیے کہ وہ بہت زیادہ سمجھ دار ہے۔
موت کے تذکرے اور یاد کرنے سے بہت سے لوگوں کو یہ مغالطہ ہے، کہتے ہیں جب دیکھو موت کی بات کرتا ہے، ہم تو دنیا میں ہیں اور یہاں ہم نے جینے کی باتیں کرنی ہیں، یہاں ہم نے عیش وعشرت کی باتیں کرنی ہیں۔ آپ یاد رکھیے کہ وہ آدمی جو موت کا خوب تذکرہ کرتا ہے، موت کو کثرت سے یاد کرتا ہے ،وہ بڑا سمجھ داربھی ہوتا ہے اور وہ بڑا بہادر بھی ہوتاہے۔ جو لوگ موت کا تذکرہ نہیں کرتے یا وہ لوگ جو موت کا تذکرہ سننا نہیں چاہتے وہ ناسمجھ بھی ہیں اور بزدل بھی۔
صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی حیاتِ مبارکہ ہمارے سامنے ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے نتیجے میں وہ ہر وقت موت کو یاد رکھتے تھے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ﴿اکثروا ذکر ھازم اللذات الموت﴾․(المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب الزھد، رقم الحدیث:34326) موت، جو لذتوں کو توڑنے والی ہے، کو خوب کثرت سے یاد کرو۔
اس کا نتیجہ کیا تھا کہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین ان جیسا شجاع، بہادر اور کوئی نہیں تھا، ہر وقت موت کو سامنے رکھتے تھے۔ ان کے واقعات آپ نے اکثر سنے اور پڑھے ہیں۔
جہاد میں قتال ہو رہا ہے، ایک صحابی رضی الله عنہ کو کسی نے کھجور پیش کی۔ انہوں نے کھجور پھینک دی او ر کہا کہ کھجور کھانے میں مشغول ہونے سے بہتر ہے کہ میں اس سے پہلے جنت میں پہنچ جاؤں۔ (الطبقات الکبری لابن سعد، غزوة بدر2/25)
موت کے تذکرے سے آدمی کبھی بھی غافل نہ ہو۔ کثرت سے موت کویاد رکھیے۔ موت کے لیے تیاری کیجیے اور اس کا جو سب سے آسان اور سہل طریقہ ہے، وہ یہ کہ دن میں کچھ وقت فارغ کرکے، چاہے دو منٹ ہوں، تین منٹ ہوں، چار منٹ ہوں، موت کا مراقبہ کیا جائے۔ موت کو یاد کیا جائے کہ میرا انتقال ہو گیا ہے، مجھے غسل دیا جارہا ہے، مجھے کفن پہنایا جارہا ہے، میری نماز جنازہ ہور ہی ہے، مجھے اٹھا کے قبر کی طرف لے جایا جارہا ہے، مجھے قبر میں دفن کر رہے ہیں۔ کیا یہ سب ہر ایک کے ساتھ ہونا ہے یا نہیں ہونا؟ہر ایک کے ساتھ ایسا ہی ہونا ہے۔ ایک فرد بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔
جو آدمی یہ مراقبہ کرے گا تو یاد رکھیے اس کا وضو اچھا ہو جائے گا، اس کی نماز اچھی ہو جائے گی۔ اس کی نماز میں رکوع اور سجدے درست ہو جائیں گے۔ اس کو اپنی آخرت کی فکر لگ جائے گی۔اس کے تمام اعمال درست ہو جائیں گے۔ موت تو اس وقت آئے گی جب الله کے ہاں اس کا وقت لکھا ہوا ہے، اس سے پہلے نہیں آئے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ موت تو لکھی ہوئی تھی پندرہ سال بعد او رموت کے تذکرے سے آج آجائے۔ نہیں․․․ موت پندرہ سال بعد ہی آئے گی۔ لیکن اس پندرہ سال کے عرصے میں موت کا تذکرہ کرنے اور موت کو یاد کرنے سے موت مبارک ہوجائے گی۔
یوں، آپ کی آخرت سنور جائے گی، آپ کے اندر الله تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جائے گا، آپ الله تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جائیں گے۔
اور یہی مطلوب ہے۔ الله تعالیٰ یہی چاہتے ہیں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
ربنا تقبل منّا إنک أنت السمیع العلیم، وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم․
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلیٰ آلہ وأصحابہ أجمعین، برحمتک یا أرحم الراحمین․