Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم1437ھ

ہ رسالہ

6 - 15
ماتحتوں کے ساتھ ہمدردی

مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
	
یہ خدائی نظام ہے کہ کوئی مالک ہے تو کوئی مملوک ، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام، کوئی امیر ہے تو کوئی غریب، کوئی ذمہ دار ہے تو کوئی ما تحت، اس میں انسانی قوت کا کوئی دخل نہیں ؛ لیکن آزمائشی مرحلہ یہ ہے کہ مالک اپنے مملوک کے ساتھ کیابرتاوٴ کرتا ہے؟ مخدوم اپنے خادم کے ساتھ کیا رویہ اپناتا ہے؟ حاکم اپنے مملوک کے تئیں کس سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے؟ آقا اپنے غلام کے ساتھ کس رُخ کو اپنا تا ہے؟ ذمہ دار اپنے ماتحت کے تئیں کس پہلو کو اختیار کرتا ہے؟ ان میں سے ہر ایک کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ پیش نظر رکھنا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محکومین، مخدومین، ماتحتوں، خدام کے ساتھ کیا طریقہ کار اپنایا ہے؟ چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت مخدوم بھی تھے، غلاموں کے آقا بھی تھے، محکوموں کے حاکم بھی تھے، رعایا کے امیر بھی تھے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں انسانیت کے ہر طبقہ کے لیے راہ نمائی موجود ہے، جس سے ہر ایک مستفید ہوسکتا ہے، سیرتِ رسول کے مطالعہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح دیگر افراد کے حقوق کا تذکرہ فرمایا، جہاں دیگرطبقات کے حقوق کی یاددہانی کروائی، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں اور خدام کے حقوق کی جانب بھی توجہ دلائی، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدام کے ساتھ نرمی، ماتحتوں کے ساتھ اخوت کے پہلو کو اپنانے کی ترغیب دی، وہیں پر غلاموں کے ساتھ شفقت ومحبت کا مظاہرہ کرنے انہیں آزاد کرنے کی ترغیب دی۔

غلاموں وخدام کے حقوق
ایک انسان جب کسی کی خدمت کے لیے وقف ہوجائے تو مخدوم کے ذمہ بھی کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں، یہی نہیں کہ مخدوم خدام سے خدمت تو لے، اس کے بعد جب ادائیگی حقوق کا مرحلہ ہو تو انجان ہوجائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے حقوق کا اتنا اہتمام فرمایا کہ اخیر مراحل میں بھی جس چیز کی وصیت فرمائی اس میں غلام کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ (مسند احمد: 584 مسند علی) ایک موقعہ پر آپ انے فرمایا: تمہارے خادم وغلام تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارا ما تحت بنایا ہے، جو خود کھائے ،وہ اپنے غلام وخادم کو کھلائے، جو خود پہنے، وہ اپنے خادم وغلام کو بھی پہنائے، ان پر ضرورت سے زائد بوجھ نہ ڈالے، اگر ڈال ہی دے ان کی اعانت وامداد کرے۔ (بخاری: 30، باب المعاصی من أمر الجاہلیة) یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحمتِ تامہ کا اثر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدام وغلاموں کو ماتحتوں کی صف سے اٹھا کر بھائی کے درجے تک پہنچادیا، جس طرح ایک انسان اپنے حقیقی بھائی کے ساتھ غلط سلوک کا تصور تک نہیں کرسکتا، اسی طرح اپنے غلام وخادم کو بھائی ہی تصور کرے، اسی طرح خوراک وپوشاک میں غلاموں کے ساتھ ہم مثل برتاوٴ کرو، صحابہ کرام کا عجیب وغریب مزاج تھا، دربارِ نبوی سے کوئی بات سنتے تو فورا اس کا اثر قبول کرتے ہوئے عمل در آمد فرماتے، حضرت ابوذر جو مقامِ ربذہ میں رہا کرتے تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان سن رکھا تھا، انہوں نے جو اچھا کپڑا پہنا تھا ،وہی کپڑا اپنے غلاموں کو بھی پہنادیا تھا، معرور بن سوید نے ابوذر سے وجہ دریافت کی تو ابوذر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کردیا، (بخاری: 30، باب المعاصی من أمر الجاہلیة) الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین ما تحتوں کے حقوق کی نشان دہی کر رہے ہیں، سردار ومخدوم کو اس جانب متوجہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے ما تحتوں کے ساتھ برادرانہ اسوہ اپنائیں، نہ یہ کہ وہ اپنے ما تحتوں کی توہین وتحقیر کرے۔

خدام کی تنبیہ
کئی مرتبہ غلطی کرنے پر نا فرمانی کی راہ اپنانے پر خدام کو تنبیہ کی جاسکتی ہے؛ لیکن تنبیہ کا طریقہٴ کار ایسا اپنا یا جائے کہ جس سے غلام کی اصلاح بھی ہو اور تکلیف بھی نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف مبارکہ بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک اہم وصف کی جانب حضرت عائشہ نے توجہ دلائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی خادم کو نہ مارا اور نہ ہی کسی عورت کو مارا، (ابوداوٴد: 4786، باب التجاوز فی الأمر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے خود مارنے سے احتراز کیا ،اسی طرح دیگر صحابہ کرام کو بھی اس سے باز رکھتے رہے، ابو مسعود انصاری فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں اپنے غلام کو ماررہا تھا، میں نے اپنے پیچھے ایک آواز سنی، ”جان لو ابومسعود!اللہ تم پر اس غلام سے زیادہ قادر ہے“اس آواز کی جانب متوجہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، ابو مسعود نے کہا: یارسول اللہ! یہ غلام اللہ کے لیے آزاد ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ابو مسعود!اگر تم اس غلام کوآزاد نہ کرتے تو تمہیں آگ چھولیتی۔ (مسلم : 1650) باب صحبة الممالیک۔ اسی طرح کا واقعہ عبد اللہ بن عمر کے ساتھ پیش آیا، ایک دفعہ انہوں نے اپنے غلام کو مارا، پھر اس کے بعد غلام کو طلب کیا، اس کی پشت پر مار کے اثرات دیکھے، اس کے بعد تکلیف کی بابت دریافت کیا ،پھر آزاد کردیا، در حقیقت یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحیم قلب کے اثرات تھے، جو صحابہ کرام کے قلوب تک منتقل ہوئے تھے، نہ صرف یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مارنے ہی سے منع فرمایا؛ بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: اگر کوئی غلام کو مارہی دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس غلام کو آزاد کردے۔ (مسلم: 1657 کفارة من لطم عبدہ)

غورکیجیے! صبح سے شام تک ایک شخص سے ہم خدمت لیتے ہیں، اتفاقا اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ہم اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، حتی کہ زدو کوب بھی کر جاتے ہیں، کچھ ہی دیر بعد اس خادم وغلام سے خدمت کے خواہاں ہوتے ہیں! یہ کہاں کا نصاف ہے؟ ابھی تو وہ مطعون ومضروب تھا! تھوڑی ہی دیر میں وہ تمہارا خادم کیسے بن سکتا ہے؟ آخر وہ بھی تو انسان ہے، وہ بھی اپنے پہلو میں دل رکھتا ہے، ماتحتی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھیں، نہ صرف یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے غلاموں کو مارنے ہی سے منع کیا ہے؛ بلکہ ان کے لیے صحیح الفاظ تک استعمال کرنے کی تلقین کی ، تم میں کوئی بھی اپنے غلام وباندی کو عبدی ، امتی نہ کہے، کیوں کہ تم سب ہی اللہ کے بندے ہو اور تمام عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں، لیکن تم اپنے غلاموں کو غلامی، باندیوں کو فتاتی کہہ سکتے ہو۔ (مسلم: 2249، باب لفظة العبد)۔

خدام سے عفو ودرگذر
انسان غلطیوں سے مرکب ہے، بشر ہونے کے ناطے کسی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے، اسی طرح اگر غلطی غلام ماتحت سے ہوجائے تو اس سے انتقام نہ لیا جائے، اس کی پکڑ نہ کی جائے، اس پر سختی نہ کی جائے، عفوو در گذر کی راہ اپنائے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ امت کواسی کا پیغام دیا، ایک صحابی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آکر دریافت کرنے لگے، خادم کو ہم کتنی دفعہ معاف کریں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش رہے، سوال دہرایا گیا تو پھر خاموش رہے، جب تیسری دفعہ سوال ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: روزانہ ستر دفعہ معاف کیا کرو۔(ابوداوٴد: 5164، باب فی حق المملوک) ماتحتوں کی غلطی پر پکڑ کرنے کے بجائے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ ہمیں سزائیں دینے پر قادر ہے۔

خدام کے لیے دعا، نہ کہ بد دعا
کوئی بھی انسان کسی کی خدمت کرتا ہے تو مخدوم خدمت کا صلہ تو حقیقی معنی میں دے ہی نہیں سکتا، قلیل معاوضہ وخرچ خدمت کا صلہ نہیں ہوسکتا، تو کم ازکم خدام کو دعاوٴں سے نوازا جائے، حضرت انس آپ صلی الله علیہ وسلم کے خادم خاص رہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت انس کو تین دعائیں دیں، عمر میں برکت کی، مال میں برکت کی، اولاد میں برکت کی، اس دعا کا اثر یہ ہوا کہ خود حضرت انس فرماتے ہیں، میں نے طویل عمر پائی، مال میں برکت یوں ہوئی کہ مدینہ میں سب کے باغ سال میں ایک دفعہ پھل دیتے تو میرے باغ دو دفعہ دیا کرتے، اولاد میں برکت یوں کہ آپ رضی الله عنہ کی صلبی اولاد کی تعداد علامہ شمس الدین ذہبی کی صراحت کے مطابق 106 تک پہنچ گئی تھی۔ (سیر أعلام النبلاء 3/399،بیروت) حضرت عبد اللہ بن عباس جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں دعا سے نوازا۔

اللہم فقہہ فی الدین وعلمہ التأویل (ابن ابی شیبہ: 32223 باب ما ذکر فی ابن عباس) اے اللہ انہیں دین کا فہم نصیب فرما، اور قرآن کے علم سے نوازدے، نتیجہ یہ ہوا کہ فقہ شافعی کی اکثر بنیادیں حضرت ابن عباس کے اقوال ہی سے جاملتی ہیں اور علم قرآن سے اللہ نے ایسے نوازا کہ امام التفسیر کہلائے، مخدوم پر لازم ہے کہ وہ خادم کو دعاوٴں سے نوازتا رہے، بجائے اس کے بددعا کا سہارا نہ لے، بعض دفعہ خدام سے گستاخی یا طبیعت کے خلاف کسی بات کے پیش آجانے پر انسان تنبیہ کرنے کے بجائے بد دعا کا سہارا لیتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح بد دعا کرنے سے سختی سے منع فرمایا ، اپنے لیے بد دعا نہ کرو، نہ ہی اولاد کے لیے، نہ ہی اپنے خادم کے لیے، نہ ہی اپنے مال کے لیے؛ اگر قبولیت کی گھڑی موافق ہوجائے گی تو یہ بد دعا قبول ہوگی۔(ابوداوٴد: 1532، باب النہی أن یدعوا الانسان)

حضرت انس وزید کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا کرم
حضرت انس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک طویل عرصہ گذارا، اس کے با وجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ان پر ظلم وزیادتی نہ کی، کبھی ان کے ساتھ ناروا سلوک نہ اپنایا، بزبان خود حضرت انس فرماتے ہیں: میں دس سال تک آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کرتا رہا، قسم بخدا! آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی مجھے بُرا نہ کہا، نیز کبھی اُف تک نہ کہا اور کسی بھی چیز کے بارے میں یہ سوال نہ کیا کہ تم نے یہ کام کیوں نہ کیا؟ یہ کیوں کیا؟ (مسند احمد: 1278 مسندانس بن مالک) خادم کی گواہی مخدوم کے حق میں انتہائی معتبر ہے؛ کیوں کہ خادم کو دورانِ خدمت سردو گرم حالات سے گذرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود نرمی کی تصدیق قابلِ حیرت ہے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا، میں نکلا تو بازار میں کھیلتے ہوئے بچوں کے ساتھ شامل ہوگیا، تھوڑی ہی دیر کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیچھے سے میری گردن پکڑ کر فرمایا: ” اے اُنیس“ ابھی تک تم نے وہ کام کیا نہیں؟ حضرت انس نے جواب دیا ،ابھی جا کر آتا ہوں یا رسول اللہ۔ (مسلم :2310 ،باب احسن الناس خلقا)۔

غور کیجیے! آپ صلی الله علیہ وسلم کے حکم فرمانے کے باوجود حضرت انس کھیل میں مصروف ہوگئے، اتنی تاخیر ہوگئی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم خود انس کو تلاش فرماتے ہوئے نکل پڑے، اس کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم نے خادم پر کوئی نکیر نہ کی ، خدمت میں کوتاہی پر کوئی حرف زنی نہ کی، بلکہ یا اُنیس کہہ کر مخاطب فرمایا، یہ انداز ِتخاطب انتہائی محبت سے بھر پور ہے، جس کو عربی میں تصغیر کہا جاتا ہے، چھوٹے بچوں کو ان الفاظ سے محبت کے اظہار کے موقعہ پر پکارا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ان پر خفا ہوتے، انہیں ڈانٹتے ، صرف آپ صلی الله علیہ وسلم نے محبوبانہ انداز میں استفسار فرمایا، مطلوبہ حکم کے بجا نہ لانے پر، کام نہ کرنے پر خدام کے ساتھ کیا طرزِ عمل اپنانا چاہیے اس سے بخوبی راہ نمائی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح حضرت زید بن حارثہ جو حادثاتی طور پر غلام ہوگئے اور غلامی کے ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آگئے تھے، زید کے والد بیٹے کی جدائی پر انتہائی غمگین وپریشان تھے، بیٹے کی جدائی پر انہوں نے اشعار بھی کہے، کسی طرح ان کے علم میں یہ بات آئی کہ حضرت زید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بن گئے ہیں، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بیٹے کا مطالبہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے والد کے ساتھ جائیں یا یہیں رہیں، حضرت زید نے والد کے بجا ئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ہی کو پسند کیا، حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے حضرت زید اتنے متاثر ہوگئے تھے کہ آزادی کے بجائے غلامی کو پسند فرمایا، والد کے بجائے خاندان وقبیلہ کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دی، یہ وہی رحیمانہ وکریمانہ پہلووٴں کے اثرات تھے جن کے سایہ میں حضرت زید پروان چڑھے تھے۔ جسے کسی بھی قیمت پر انہوں نے چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ (طبرانی: 4651)

خلاصہٴ کلام یہ ہوا کہ مختلف مواقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ماتحتوں کے ساتھ نرمی محبت، الفت ،رحمت کے پہلو اپنانے کی تلقین کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماتحتوں کے سلسلہ میں اس پہلو کی بھی رعایت کی کہ ان پر زائد بوجھ نہ ڈالا جائے، تحمل سے زائد کا م نہ لیا جائے، اگر زائد کام لوتو ان کا ساتھ دے دیا کرو۔ (بخاری: 30، باب المعاصی من أمرالجاہلیة) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوغلاموں کی اتنی زیادہ فکر دامن گیر تھی کہ موقعہ بموقعہ غلاموں کے آزاد کرنے کی تلقین کی ، غلاموں کی آزادی کو مختلف کفارات کے موقعہ پر مشروع کیا گیا، غلاموں کے آزاد کرنے کی مختلف فضائل بیان فرمائے ،ایک موقعہ پر فرمایا: جو بھی مسلمان کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے تو وہ جہنم سے چھٹکارا پائے گا- (ترمذی: 1547، باب ما جاء فی فضل من أعتق)

بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے تو غلاموں کے تعلق سے اتنا اہتمام فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے آخری کلمات بھی غلاموں ہی کے تئیں تھے، کہ تم اپنے غلاموں کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرو۔ (مسند احمد: 584 مسند علی)

یہ آپ کی فکرکا ہی نتیجہ ہے کہ آج دنیاسے غلامی کا خاتمہ ہوگیا، الغرض ہمیں اس بات کو جانچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کے ساتھ، اپنے خادموں ، ملازموں کے ساتھ کیا رویہ اپناتے ہیں؟ کہیں ہم انہیں بے جا تکلیف تو نہیں دے رہے ہیں، کہیں ماتحتوں کے ساتھ ہمارا رویہ سیرت نبوی کے مخالف تو نہیں ہے؟ جانچنے کے ساتھ ہمارے رویہ میں تبدیلی کی ضرورت ہے، سیرت رسول صلی الله علیہ وسلم کے مطابق طرزِ عمل اپنانے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!

Flag Counter