Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم1437ھ

ہ رسالہ

2 - 15
دنیا کی سب سے پہلی فقہ اکیڈمی

مولانا محمد غیاث الدین حسامی
	
فقہ اسلامی ایک جامع اور منظم نظام حیات ہے ،قرآن و سنت سے کشید کیا ہوا عطر ہے ،فطرت انسانی سے ہم آہنگ ایک معتدل اور متوازن قانون ہے، یہ فقہ اسلامی ہی ہے جو حیرت انگریز طور پر انسانی زندگی کو منظم اور مربوط کرتی ہے، خالق و مخلوق کے مابین رشتہ استوار کرتی ہے ،سیاسی اور معاشی نظام کی صورت گری کرتی ہے اور ایک انسان کو کام یاب اور خوش گوار زندگی کا گر سکھاتی ہے۔

زمانہ رسالت اور فقہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ وحی کا زمانہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہوتا تو آپ اس کی تشریح فرما کر لوگوں کو دینی و دنیوی مسائل بتاتے ،لوگ آپ سے مسائل پوچھتے اور اس پر عمل کرتے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر دینی احکام جاری فرماتے ،کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وحی سے کوئی حکم نہ ملنے کی صورت میں آپ اجتہاد فرماتے ۔بعد میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بذریعہ وحی اسی اجتہاد کی توثیق کردی جاتی یا اگر کسی تغیر و تبدل کی ضرورت پیش آتی تو اس میں آپ کو وحی کے ذریعے راہ نمائی فراہم کردی جاتی ،جیساکہ احادیث میں آتا ہے کہ:رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس امر کے بارے میں کوئی وحی نازل نہیں ہوتی ہے تو میں اپنی رائے سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا کرتا ہوں۔(ابوداوٴد،باب فی قضاء القاضی) آپ کے عہد میں اس وقت کی موجود دنیا میں زندگی گزارنے کے انداز مختلف تھے، صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت ربانی کے نچوڑ، قرآن حکیم کی روشن تعلیمات اور اپنے حسنِ عمل سے عقائد وافکار ،معاشرت ،معیشت، قانون وسیاست ،تعلیم و تربیت، غرض یہ کہ ہر شعبہٴ حیات میں جو تاریخی اور مثالی انقلاب برپا کیا وہ کسی بھی صاحب عقل و دانش سے پوشیدہ نہیں ۔

دور صحابہ اور فقہ
آپ کے بعد صحابہ بھی اسی طریق پر عمل کرتے رہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ میں بہت سے ایسے تھے جن کے سینہ کو اللہ نے علم و حکمت سے معمور کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض صحبت نے ان کے ذوق و مزاج کو شریعت سے آشنا بنادیا تھا ،یہ حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مسائل بتایا کرتے تھے اور دینی معاملات میں منشائے ربانی کے مطابق رائے دینا شروع کر چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حضرات باضابطہ فتاوی دیتے تھے ،ان میں خاص طور سے سیدنا ابو بکر،عمر، عثمان، علی ،عائشہ ،عبد الرحمن بن عوف،عبد اللہ بن مسعود ،ابی بن کعب ،معاذ بن جبل،زید بن ثابت اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم کے فتاوی مشہور ہیں۔ ان کے فتوی دینے کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب ان کے سامنے کوئی صورت حال پیش کی جاتی تو وہ اس کا موازنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش آئی ہوئی صورت حال سے کرتے اور ان میں مشابہت کی بنیاد پر حضور کے فیصلے کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنا دیتے ۔جب کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ،صحیفہ خداوندی اور سنتِ رسول میں اس کو تلاش کرتے، اگر اس میں مسئلہ کا حل موجود نہ ہوتا تو قرآن وسنت کو سامنے رکھ کر اپنے اجتہاد و رائے سے کام لیتے اور اس مسئلے کو حل کرتے،صحابہ نے فقہ واجتہاد کی راہ سے اسلامی تعلیمات کے دریا بہائے اور اجتہاد کے اسی چشمہ صافی سے لاکھوں کو سیراب کیا،ہر پیش آمدہ مسائل پر ان کے اہل ا لرائے حضرات نے اپنی رائے پیش کی،اس کی بہت ساری مثالیں احادیث اور سیر کی کتابوں میں موجود ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کام کو پسند کیا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب حضور اکرم نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم بناکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ سے پوچھا کہ اے معاذ!تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاوٴ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گاحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر سنت رسول میں بھی نہ پاوٴ ؟تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپکیدی اور فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد (معاذ)کو اس چیزکی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔ (ابوداوٴد، باب اجتہاد الرأی فی قضاء)

دور تابعین اور فقہ
خیر القرون کے دورِ تابعین میں قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ، حضرات صحابہ کے قیاس کردہ فیصلوں کو سامنے رکھ کر تابعین نے اپنے زمانے میں پیش آمدہ مسائل کو حل کیا ہے اور یہ وہ زمانہ تھا کہ اسلام سرزمین عرب کی مسافت طے کرتا ہوا عجم میں داخل ہوچکا تھا،سندھ سے اندلس تک طولاً اور شمالی افریقہ سے ایشیائے کو چک تک عرضاً پھیل گیا تھااور جب متمدن علاقے فتح ہوئے اور امور سلطنت میں وسعت ہوئی تو نئے مسائل اس کثرت سے پیش آئے کہ ان کا حل کرنا ناگزیر تھا،اس دور میں مختلف علاقوں میں بلند پایہ،عالی ہمت،ذہانت وفطانت کے مینار فقہاء ومجتہدین پیدا ہوئے، جنہوں نے اس عہد کے نئے نئے مسائل کا قرآن وحدیث کی روشنی میں استنباط کیا اور شریعت کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا،صغار صحابہ ہوں یا کبار تابعین انہی میں علماء کی ایک بڑی جماعت تیار ہو گئی، جن کی حیثیت علم ومرتبے اور تقوی واجتہاد میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھی۔نئے مسائل کے حل کے لیے علمی مکالمات ہوئے،تحریریں سامنے آئیں اور یوں ہر فقیہ ومجتہد کا اپنا اپنا علم واجتہاد ظاہر ہوااور اپنے ایک مکتب فکر کے ساتھ کام کرنے لگا،اگر اس زمانے کے فقہاء ومجتہدین کی ایک فہرست تیار کی جائے تو بہت سارے نام اس میں شامل ہو سکتے ہیں،ان میں سے بعض فقہاء کے مسالک صرف اس دور میں رائج ہوئے اور بعد میں محفوظ نہیں رہ سکے اور بعض مسالک بعد میں بھی رائج رہے اور اب تک باقی ہیں، جن میں قابل ذکر امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک، امام شافعی،امام احمد بن حنبل ہیں ،لیکن ان چار اماموں کے فقہ واجتہاد کو وسعت بخشی گئی اور ان کے ذریعہ قیامت تک پیش آنے والے مسائل کو حل کیا گیا،اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان ائمہ کرام کو خاص مقام ومرتبہ عطا فرمایا،ان کی فقہ کی قبولیت صاحب مسلک کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے،پھر ائمہ اربعہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کو جو شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی اور جس طرح اسلامی دنیا کے بڑے حصہ میں آپ کے مسلک کی حکم رانی ہے وہ اسلامی تاریخ کا سنہرا باب ہے، آپ ہی کے ذریعہ فقہ کی تدوین کا عظیم الشان کارنامہ انجام پایا، جس پر مسلمان ہمیشہ فخر کریں گے۔

امام اعظم ابو حنیفہ کی فقہ(فقہ حنفی)جو دراصل آپ اور آپ کے تلامذہ کے اجتہادات کا خلاصہ اور نچوڑ ہے،کئی صدیاں گذرنے کے بعد بھی فقہ حنفی کی جو معنویت ہے وہ دوسری کسی بھی فقہ میں نظر نہیں آتی،اس لیے کسی کہنے والے نے کہا کہ فقہ حنفی فطرت کے عین مطابق ہے، اس میں ہر اس مسئلہ موجود ہے جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے ۔

فقہ کے مدون اول
اہل تشیع کہتے ہیں کہ فقہ کے مدون اول امام جعفر صادق ہیں، جب کہ علماء کی رائے یہ ہے کہ تدوین فقہ کا سہرا امام الائمہ ،کاشف الغمہ، سراج الامہ، حضرت نعمان بن ثابت، المعروف بہ امام اعظم ابو حنیفہ  کے سر جاتا ہے اور صحیح بات یہی ہے کہ فقہ کے مدون اول امام اعظم ابو حنیفہ  ہیں ،تمام فقہاء و مجتہدین نے اس کا اعتراف کیا ہے ،امام شافعی  نے فرمایا کہ جوفقہ پڑھنا چاہتا ہو وہ امام اعظم ابو حنیفہ  کا محتاج ہے ۔(الدا رالمختار حاشیہ ابن عابدین، مقدمہ)اور امام مالک  فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ کو فقہ کی توفیق دی گئی ہے ۔(تاریخ الفقہ، ص:29)اسی طرح علامہ سیوطی  لکھتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ  پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کی تدوین کی اور اسے ابواب میں مرتب کیا ،پھر موٴطا کی ترتیب میں امام مالک  نے انہیں کی پیروی کی۔ امام اعظم ابو حنیفہ  سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا۔ (تبییض الصحیفة:ص19)اسی طرح مسند خوارزمی میں ہے، امام اعظم نے سب سے پہلے شریعت کی تدوین کی ،کیوں کہ صحابہ و تابعین نے علم شریعت میں ابواب فقہ کی ترتیب پر کوئی تصنیف نہیں کی ؛کیوں کہ ان کو اپنی یاد داشت پر اطمینان تھا ،لیکن امام اعظم  نے صحابہ و تابعین کے بلاد اسلامیہ میں منتشر ہونے کی وجہ سے علم شریعت کو منتشر پایا اور متاخرین کے سوئے حفظ کا خیال کر کے تدوین شریعت کی ضرورت محسوس کی ،ان علماء و مجتہدین کے اقوال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ علم شریعت کی تدوین سب سے پہلے امام اعظم ابو حنیفہ  نے ہی کی ہے ۔

امام اعظم ابو حنیفہ  سے پہلے ابراہیم نخعی نے اس طرف توجہ دی تھی، لیکن ان کی یہ کوشش صرف زبانی روایات پر مشتمل تھی ،فن کی حیثیت سے نہ تھی اور نہ استنباط و استدلال کے قواعد مقرر تھے ،نہ احکام کی تفریع کے اصول و ضوابط متعین تھے ،اس لیے حضرت ابراہیم نخعی  کی یہ سعی قانون کے درجہ تک نہیں پہنچی تھی ،لیکن امام اعظم  کی طبیعت مجتہدانہ اور ذہن غیر معمولی فطین اور حافظہ نہایت ہی قوی تھا اور اپنے زمانے کے حالات اور تجارت کی وسعت اور ملکی تعلقات میں معاملات کی ضرورتوں سے باخبر تھے ،ہر روز سینکڑوں فتاوی آتے تھے، جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ تدوین فقہ کی کس قدر ضرورت ہے ،اس لیے امام اعظم  کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسائل کے جزئیات کو اصولوں کے ساتھ ترتیب دے کر قانون کا ایک مجموعہ تیار کیا جائے، جو آنے والی تمام انسانیت کے لیے ایک دستور ثابت ہو اور جس میں تمام چیزوں کی رعایت ہو چناں چہ امام اعظم  کی مجتہدانہ طبیعت نے اس فن کی تدوین و ترتیب کی طرف توجہ کی اور اس کے لیے ایک خاص فقہ اکیڈمی قائم کی، جسے دنیا کی سب سے پہلے فقہ اکیڈمی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

فقہ اکیڈمی کا قیام
ہجرت کا ایک سو بیسواں سال تھا کہ امام اعظم ابو حنیفہ  کے استاذ حضرت حماد  اس دنیا سے رحلت کر گئے تھے ،اس وقت بلاد عرب و عجم میں فقہاء ومجتہدین کی کثرت تھی ،ہر فقیہ نئے مسائل میں قرآن و حدیث کو سامنے رکھ کر اپنے اجتہاد کے ذریعہ انفرادی طور پر فتاوی دیا کرتا تھا، ایسے میں امام اعظم ابو حنیفہ نے تمام مجتہدہین کے برعکس مسائل کے استنباط و اجتہاد کا یہ کام انفرادی طور پر تنہا انجام نہیں دیا، بلکہ اس کام کے لیے آپ نے حضرت عمر کی طرح شورائی طرز پر اپنے سینکڑوں تلامذہ میں سے خاص خاص تلامذہ کو، جو قرآن و حدیث ،فقہ و فتاوی،زہد و تقوی،عبادت و پرہیزگاری میں منفرد مقام رکھتے تھے، جمع کر کے ایک فقہ اکیڈمی تشکیل دی، جو فکری آزادی اور اظہار رائے میں اپنی مثال آپ تھی ،گویا فقہ اکیڈمی قائم کر کے امام اعظم ابو حنیفہ  نے اس حدیث پر عمل کیا، جس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی کہ جدید پیش آمدہ مسائل فقہاء سے معلوم کرو، کسی ایک کی بات پر مت چلو،علامہ طبری نے اپنی کتاب میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر کوئی ایسا امر پیش آئے جس میں امرو نہی منصوص نہ ملے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فقہاء و عابدین سے معلوم کرو اور کسی ایک کی بات پر مت چلو۔(طبری)

فقہ حنفی کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ تنہا ایک مجتہد کی رائے اور ان کی کوششوں کا ثمرہ نہیں، بلکہ یہ ممتاز فقہاء ومجتہدین کی پوری ایک جماعت کی سالہا سال کی کوششوں کا نتیجہ ہے ،علامہ موفق فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے فقہ حنفی کی تدوین کے لیے نظام شورائی رکھا اور وہ شرکائے مجلس کو چھوڑ کر تنہا اپنی رائے مسلط نہیں کرتے تھے۔ (مناقب ابی حنیفہ ج2ص133)

فقہ اکیڈمی کے چالیس فقہاء
امام ابو حنیفہ  کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں سے متجاوزہے ؛لیکن آپ نے ان میں سے خاص خاص تلامذہ کو، جنہیں آپ بہت عزیز رکھتے تھے ،اپنی فقہ اکیڈمی میں شامل کیا ،جن کی تعداد بقول امام طحاوی چالیس تھی (بعض نے 36اور بعض 60بھی ذکر کیا ہے)

لیکن ان فقہاء کے سنین وفات اور امام صاحب سے وابستگی کو دیکھتے ہوئے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سارے حضرات شروع سے آخر تک اس کام میں شریک نہیں رہے ؛بلکہ مختلف ارکان نے مختلف ادوار میں تدوین کے اس کام میں ہاتھ بٹایا،ان میں بعض وہ تھے جنہوں نے آخری زمانے میں اس کام میں شرکت کی ،عام طور سے شرکائے مجلس کے نام ایک جگہ نہیں ملتے،مفتی عزیز الرحمن بجنوری اور ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے ان ناموں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے ،جس میں امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر،حسن بن زیاد،مالک بن معقول،داؤد طائی،مندلبن علی،نضربن عبدالکریم،عمرو بن میمون،حبان بن علی ،ابو عصمہ ،زہیر بن معاویہ ،قاسم بن معن ،حماد بن ابی حنیفہ،ہیاج بن بطام،شریک بن عبداللہ ،عافیہ بن یزید، عبداللہ بن مبارک ،نوح بن دارج ،ہشیم بن بشیر سلمی،ابو سعید یحییٰ بن زکریا،فضیل بن عیاض،اسد بن عمر ،علی بن مسہر،یوسف بن خالد التیمی ،عبد اللہ بن ادریس ،فضل بن موسی ،حفص بن غیاث ،وکیع بن الجراح ،یحییٰ بن سعید القطان ،شعیب بن اسحاق،ابو حفص بن عبد الرحمن ،ابو مطیع بلخی ،خالد بن سلیمان،عبدالحمید،ابو عاصم النبیل،مکی بن ابراہیم،حماد بن دلیل ،ہشام بن یوسف ،یحییٰ بن ابی زائدہ وغیر ہ شامل ہیں ،(بحوالہ طہارت و نماز کے مسائل)

امام اعظم نے فقہ اسلامی کے مختلف ابواب و مباحث کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور فقہ اکیڈمی کے قیام کے لیے نہایت کام یابی سے ان علوم کے ماہرین کو جمع کیا اور سالہاسال ان کی سر پرستی فرماتے رہے ،مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمید اللہ ”امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی“کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :فقہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہے اور قانون کے ماخذوں میں قانون کے علاوہ لغت ،صرف و نحو،تاریخ وغیرہ ہی نہیں، حیوانات ،نباتات،بلکہ کیمیا کی بھی ضرورت پڑتی ہے ،قبلہ معلوم کرنا جغرافیہ طبعی پر موقوف ہے ،نماز اور افطار اور سحری کے اوقات علم ہیئت وغیرہ کے دقیق مسائل پر مبنی ہے ،رمضان کے لیے روٴیت ہلال کو اہمیت ہے اور باد ل وغیرہ کے باعث ایک جگہ چاند نظر نہ آئے تو کتنے فاصلے سے رویت اطراف پر موٴثر ہوگی وغیرہ وغیرہ مسائل کی طرف اشارہ سے اندازہ ہوگا کہ نماز روزہ جیسے خالص عباداتی مسائل میں بھی علوم طبعیہ سے کس طرح قدم قدم پر مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے ،کاروبار ،تجارت ،معاہدات، آب پاشی، صرافہ ،بنک کاری وغیرہ کے سلسلے میں قانون سازی میں کتنے علوم کے ماہروں کی ضرورت ہوگی !!امام اعظم ابو حنیفہ  ہر علم کے ماہروں کو ہم بزم کرنے اور اسلامی قانون کو ان سب کے تعاون سے مرتب و مدون کرنے کی کوشش میں عمر بھر لگے رہے اور بہت حد تک کام یاب ہوئے (امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی)

امام ابو حنیفہ کی اس فقہ اکیڈمی میں جو ممتاز فقہاء قرآن سنت کی روشنی میں مسائل جدیدہ کو حل کرتے تھے ان کا علمی پایہ نہایت بلندتھا، بلکہ یہ سب اپنے اپنے فن میں ماہر تھے ،ان میں حدیث کے حافظ بھی تھے ،قیاس کے ماہرین بھی ،عربی زبان پر مکمل دسترس رکھنے والے بھی تھے ،مولانا عبدالحی فرنگی محلی امام صاحب کے تلامذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کے درس میں شریک ہو کر فیض پانے والے تلامذہ اپنے زمانے کے مجتہدین میں سے تھے ،ابو یوسف اخبار اور زبان کے ماہر تھے ،امام محمد کو فقہ ،اعراب اور بیان میں فوقیت حاصل تھی ،امام زفرقیاس میں ممتاز تھے ،حسن بن زیاد سوال اور مسائل اور مسائل کی تفریع میں بلند درجہ رکھتے تھے،عبداللہ بن مبارک اپنی اصابت رائے سے مشہور تھے ،زاہد مفسر وکیع بن الجراح اور ذکی و فطین حفص بن غیاث لوگو ں کے درمیان فیصلہ میں مہارت رکھتے تھے ،یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کا مقام احادیث کو جمع کرنے اور فروع کو محفوظ کرنے کے اعتبار سے بلند تھا۔(بحوالہ ترجمان السنة ج 1ص212)یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت وکیع بن الجراح کے سامنے کسی شخص نے کہا کہ امام اعظم نے اس مسئلہ میں غلطی کی ہے ،یہ سن کر حضرت وکیع  نے کہا ابو حنیفہ کیسے غلطی کر سکتے ہیں ،جب کہ ان کے ساتھ ابو یوسف اور زفر جیسے قیاس کے ماہر،یحییٰ بن ابی زائدہ،حفص بن غیاث، حبان اور مندل جیسے حفاظ حدیث اور قاسم بن معن جیسے لغت کے جاننے والے، داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسے زاہد و متقی شامل ہوں ؟!اگر وہ غلطی کرتے تو کیا یہ لوگ ان کی اصلاح نہیں کریں گے؟ (معجم المصنفین ص52)

مسائل میں بحث وتحقیق
امام اعظم کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی میں ایک ایک مسئلہ پر بہت گہری نظر ڈالی جاتی اور ہر مسئلہ کو پوری تحقیق کے بعد قابل عمل قراردیا جاتا،مسائل پر بحث،تحقیق کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے علامہ الموفق لکھتے ہیں، ایک ایک مسئلہ مجلس کے تمام مجتہدین کے سامنے پیش کیا جاتا،لوگوں کے خیالات کو الٹ پلٹ کر دیکھا جاتا، اراکین مجلس کے دلائل سنے جاتے اور اپنی رائے اور دلائل سے شرکائے مجلس کو مطلع کیا جاتااور ان سے بحث وتحقیق کی جاتی،کبھی کبھی ایک ایک مسئلہ کی تحقیق میں پورا مہینہ یا اس سے بھی زیادہ مدت لگ جاتی، یہاں تک کہ مسئلہ کا کوئی ایک پہلو متعین ہو جاتااور امام اعظم ابو حنیفہ کا یہ انداز تھا کہ وہ کسی پر زور نہیں دیتے یا اپنا مسئلہ کسی پر زبردستی نہیں تھوپتے تھے، بلکہ مجلس کے تمام شرکاء کو آزادانہ مناظرہ کی دعوت دی جاتی اور رائے پیش کرنے پر شرکاء کی حوصلہ افزائی کی جاتی اور مجلس کو بے تکلف بناتے ،تا کہ ادب واحترام،عقیدت ومحبت کے باعث قانون سازی کے عمل میں کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے،آپ کے ایک شاگرد حضرت عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں ایک مسئلہ پیش ہوا اس پر مسلسل تین دن تک بحث ومباحثہ ہوتا رہا اور اراکین اس پر غور وخوض کرتے رہے۔(مناقب الامام ابی حنیفہ)

مشہور محدث امام ا عمش مجلس کے حالات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس مجلس کے سامنے کوئی مسئلہ آتا ہے تو حاضرین اس مسئلہ کو اس قدر گردش دیتے ہیں اور الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ بالآخر اس کا حل روشن ہو جاتا ہے ۔(مناقب امام ابو حنیفہ 3-2)

اسد بن عمر بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب کی مجلس میں پہلے ایک مسئلہ کے مختلف جوابات دیے جاتے، پھر جس کا جواب سب سے زیادہ محقق ہوتا آپ اس کی توثیق کرتے اور ہمت افزائی کرتے اور وہ جواب دیوان میں لکھ لیا جاتا۔(نصب الرایہ مقدمہ ج1 ص23)

سیرت ائمہ اربعہ میں ہے کہ تدوین فقہ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی بات کا مسئلہ پیش کیا جاتا، اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق ہوتے تو اسی وقت قلم بند کر لیا جاتا اور نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں، کبھی کبھی عرصہ دراز تک مباحثہ چلتا رہتا ۔امام اعظم ابو حنیفہ  بہت غور و تحمل کے ساتھ سب کی تقریریں سنتے اور آخر میں ایسا فیصلہ فرماتے کہ سب کو تسلیم کرناپڑتا ۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ امام اعظم کے فیصلہ کے بعد بھی لوگ اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے ۔اس وقت تمام مختلف فیہ اقوال قلم بند کر لیے جاتے اور اس بات کا خاص التزام کیا جاتا کہ جب تک تمام حضرات شریک نہ ہوتے کسی مسئلہ کو طے نہ کیا جاتا ۔تمام شرکائے مجلس حاضر ہو جاتے اور اتفاق کر لیتے تب وہ مسئلہ تحریر کیا جاتا اس طرح تیس سال کے عرصہ میں یہ عظیم الشان کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔

امام اعظم ابو حنیفہ کی مجلس اجتہاد میں بعض اہم عصری موضوعات زیر تحقیق لائے گئے ،امام اعظم ابو حنیفہ  پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب الفرائض اور کتاب الشروط وضع کیے ،قانون بین الممالک جو تاریخ کا حصہ سمجھا جاتا تھا اس کو تاریخ سے الگ کر کے مستقل فقہی چیز قرار دیا گیا اور کتاب السیر مرتب ہوئی، جس میں صلح اور جنگ کے قوانین مدون ہوئے ،اس طرح ایک ضخیم مجموعہ قوانین تیار ہوا ،جو متعدد کتب کی شکل میں اس دور میں موجود رہا،بعد میں اسے امام محمد  نے مزید منقح کر کے مدون کیا اور یہی مجموعہ فقہ حنفی کی اساسی کتب ہیں۔ (تدوین فقہ اور امام ابو حنیفہ کی خدمات)

فقہ اکیڈمی میں اجتہاد کا طریقہ کار
امام اعظم ابو حنیفہ کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی میں مسائل پر غور وخوض کرنے کا وہی طریقہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اختیار کیا تھا،بالخصوص سیدنا عبداللہ بن مسعود،سیدنا علی،قاضی شریح،ابراہیم نخعی،حماد اور دیگر ہم عصر فقہاء ومجتہدین کے فیصلوں کو کافی اہمیت دی جاتی،ڈاکٹر صحبی محمصانی اجتہاد کے طریقہ کار کے بارے میں امام اعظم ابو حنیفہکا اپنا قول نقل کرتے ہیں:”اگر کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں مسئلہ نہ مل سکے تو اقوال صحابہ سے اخذ کرتا ہوں، جس کا قول چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جس کا قول چھوڑنا چاہوں ترک کردیتا ہوں اور ان کے اقوال سے کسی دوسرے کے قول کی طرف تجاوز نہیں کرتا،لیکن جب معاملہ ابراہیم نخعی،شعبی،ابن سیرین،حسن بصری،عطا،اور سعید بن جبیر تک پہنچتا ہے تو وہ اجتہاد کرنے والے لوگ تھے،ہمیں بھی ان کی طرح اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے ۔”(فلسفہ التشریع فی الاسلام)اسی طرح علامہ عبد البر نے اپنے کتاب میں تحریر کیا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ ہمیشہ معتبر قول کی طرف رجوع فرماتے،قول قبیح کو ترک کرتے، عوام کے معاملات میں غوروفکر اور قیاس سے کام لیتے،مگرجب قیاس سے کسی قسم کے فساد کا اندیشہ ہوتا تو لوگوں کے معاملات کا فیصلہ استحسان سے کرتے،جب اس سے بھی معاملات بگڑتے نظر آتے تو مسلمانوں کے تعامل کی طرف رجوع کرتے،جس حدیث پر محدثین کا اجماع ہوتا اس پر عمل کرتے، جب تک مناسب سمجھتے اسی پر اپنی قیاس کی بنیاد کھڑی کرتے، پھر استحسان کی طرف توجہ فرماتے،آپ احادیث میں ناسخ ومنسوخ کی تحقیق فرماتے جب کوئی حدیث مرفوع ثابت ہو جاتی تو اس پر سختی سے عمل کرتے۔(الانتقاء فی فضائل الثلاثة الفقہاء ص141)

ان اقوال سے ثابت ہوا کہ امام صاحب کی فقہ اکیڈمی میں جدید مسائل کا حل پہلے قرآن وسنت میں تلاش کیا جاتاہے؛کیوں کہ یہ دونوں اصل الاصول ہیں اور دین کا سرچشمہ ہیں، جس سے کسی عقل مند کو انکار نہیں،پھر صحابہ کے اقوال یا قضایا سے استدلال کیا جاتا، صحابہ جس بات پر متفق ہوں امام صاحب اس پر عمل کرتے ہیں اور اگر صحابہ میں اختلاف پایا جائے تو علت مشترکہ کی بنیاد پر ایک صورت کو دوسری صورت پر قیاس کرتے۔

حل شدہ مسائل کی تعداد
حنفی فقہ اکیڈمی کا قیام120ھ میں ہوا اور150ھ تک قائم رہی، ان تیس سالوں کی جہد مسلسل کے بعد ایک ایسا مجموعہ تیار کیا گیا جس کی تعداد کے بارے میں تذکرہ نگاروں کے مختلف اقوال ملتے ہیں،چناں چہ علامہ خوارزمینے ان کی تعداد تراسی(83)ہزار لکھی ہے، جن میں اڑتیس کا تعلق عبادات سے ہے اور باقی کا معاملات سے،جب کہ بعض حضرات نے چھ لاکھ اور بعض نے بارہ لاکھ سے بھی زیادہ ذکر کیا ہے، مشہور محقق مولانا مناظر احسن گیلانی کا خیال ہے کہ اس تعداد میں ان مسائل کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو امام اعظم کے مقرر کردہ اصول و کلیات کی روشنی میں مستنبط کیے گئے تھے (قاموس الفقہ ج1ص360)اگر تراسی ہزار کو ہی مان لیا جائے تو یہ تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔

بہر حال فقہ حنفی دنیا کی وہ عظیم فقہ ہے جس کی ترتیب وتدوین میں پوری ایک جماعت کا حصہ ہے اور وہ صیقل شدہ ہے ،یعنی حکومت اور کار قضاء اس کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کا حل اس نے پیش کیا ہے اور لوگوں کو جو مختلف طرح کے معاملات پیش آتے ہیں ان میں راہ نمائی کی ہے، تیرہ صدیوں سے وہ تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن ہو چکی ہے، اس لیے بلاخوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی مذہب اور مسلک تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن ہوا ہے اور مضبوط شورائی نظام کے ذریعہ اس کی ترتیب عمل میں آئیہے تو وہ صرف فقہ حنفی ہے ،وہ اب تک زندہ اور پایندہ ہے،دوسری خاص بات یہ بھی ہے کہ امام ابو یوسف،امام محمد اور امام زفراگرچہ خود اپنی جگہ مجتہد مطلق تھے، لیکن ان کے اقوال امام اعظم ابو حنیفہ کے اقوال کے ساتھ ہی کتابوں میں ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا یہ سب مل ملا کر فقہ حنفی ہو گئے ہیں۔جس کی وجہ سے فقہ حنفی کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔

Flag Counter