Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شوال المکرم1437ھ

ہ رسالہ

4 - 15
مطالعہ کیوں اور کیسے؟

مفتی سمیع اللہ
رفیق شعبہ دارالافتا واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

علم کی روح، بقا اور حیات اگر ہم کسی چیز کو قرار دے سکتے ہیں تو وہ ”مطالعہ اور کتب بینی“ ہے۔ علم کی ترقی، رسوخ اور پختگی اسی کی مرہون منت ہے، کوئی فرد مطالعہ اور کتب بینی کے بغیر اعلی علمی مقام حاصل نہیں کر سکتا، چناں چہ یہی وجہ ہے کہ جب ہم دنیا کی عبقری شخصیات کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں… تو افکار ونظریات، میدان عمل، مختلف ہونے کے باوجود اگر ان میں کوئی بات قدر مشترک ہے، تو وہ ذوق مطالعہ او رکتب بینی ہے، جوان کی زندگی کا صرف محبوب مشغلہ ہی نہیں، بلکہ ان کا یہ عشق جنوں کی حدود کو چھو رہا ہے، کتب بینی کے استغراق نے انہیں دنیا کی تمام تررنگینیوں سے بے خبر کیے رکھا اور وہ بھری دنیا میں تنہا رہتے، بزبان حال وہ کہتے #
        اے خیال دوست، اے بیگانہ ساز ما سوا
        اس بھری دنیا میں تونے مجھ کو تنہا کر دیا

مطالعہ ہی ان کی زندگی کا ایسا مشغلہ رہا ہے کہ سفر، حضر، غم، خوشی، صحت ، بیماری، غرض کوئی بھی رکاوٹ اس شغل میں حائل اور مانع نہیں بن سکتی، بلکہ رات کی تاریکی اور غربت نے مل کر جب حائل بننے کی کوشش کی، تو جنوں نے ان کو گلی، کوچوں اور پاس بانوں کی قندیلوں کی راہ دکھا دی، نیند جو انسانی جسم کی ایک ضرورت ہے، اس کی بہت قلیل مقدار پر اکتفا کرکے، نرم بستروں کے بجائے، کتب بینی کی لذت سے لطف اندوز ہوتے اور اپنے آپ سے تنہائی میں یہ کہتے #
        تروم العز ثم تنام لیلا؟
        یغوص البحر من طلب اللألي
        علو الکعب بالھمم العوالي
        وعن المراء في سھر اللیالي
        ومن رام العلی من غیر کد
        أضاع العمر في طلب المحال
آپ بلندیوں کے خواہاں او رپھررات کو سوتے ہو؟ موتیوں کے طالب سمندر میں غوطے لگاتے ہیں، بلند مراتب کے لیے مضبوط اور بلند عزائم چاہییں،عظمتیں اور رفعتیں بقدر مشقت ملتی ہیں۔

مشقت کے بغیر عزتوں کے طالب ناممکن حصول کی تلاش میں عمر ضائع کر رہے ہیں۔

امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ الله تعالی سے جب زیادہ دیر تک جاگنے کی وجہ پوچھی گئی، تو فرمایا، لوگ تو یہ اطمینان کرکے سو جاتے ہیں کہ کوئی مسئلہ پیش آیا تو محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ لیں گے، میں کس پر اعتماد کرکے سو جاؤں؟ مرغ سحر کی نغمہ سنجی جب آپ کے مطالعہ میں خلل کا باعث بنی تو اسے ذبح کرادیا۔ کتب بینی، حصول علم اور اشاعت علم کے اس جنون نے بہت سارے اساطین امت کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے باز رکھا۔ انہوں نے علم کو رشتہ ازدواج پر ترجیح دی، شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة الله نے ایسے شموس بازغہ، کے اسمائے مبارکہ او ران کے مختصراحوال ”العلماء العزاب“ نامی کتاب میں جمع فرمائے ہیں اور شیخ ہی کی کتاب”صفحات من صبر العلماء“ عاشق علم کی ایک حیرت انگیز داستان اور ان کی زندگیوں کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے۔ فقیر کی خواہش ہے کہ ہر طالب علم کے لیے صرف اس کے مطالعے کی نہیں، بلکہ سرہانے رکھنے کی ہے۔

علم میں تعمق، گہرائی، رسوخ واستحضار کے لیے آرام طلبی، آرام دہ خواب گاہوں اور نرم بستروں کی نیندیں، جگری دوستوں کی قہقہوں بھری طویل مجلسیں اور نرم آرائی، موبائل اور کمپیوٹر کے فضول استعمال سے کنارہ کش ہونا پڑے گا، بلکہ اسلیلائے مرام کو پانے کے لے صحرائے عشق میں آبلہ پائی واحد راستہ ہے، اس عظیم مقصد کے لیے دنیا کو ترک کرنا پڑے گا اور دنیا کے حسن کو نفرت کی نگاہ سے دیکھناپڑے گا۔ حضرت امام ابویوسف رحمة الله علیہ کا یہ جملہ اپنے اندر کتنی قوت ومعنویت رکھتا ہے”العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک“ وقال لیس تمرة تاکلھا․

اور عشق کے معیار کو اتنا بلند کرنا ہو گا کہ بقول حضرت مولانا زکی کیفی رحمةا لله علیہ #
        دنیا نے حسین بن کے مجھے جب بھی صدا دی
        نفرت سے میرے عشق کے معیار نے دیکھا

اب رہی یہ بات کہ مطالعہ کیسے او رکن کتابوں کا کرے؟ تو ان دونوں باتوں کا آسان جواب، بلکہ حل یہ ہے کہ کسی استاد کی راہ نمائی سے یہ کام کر ے او ران سے رابطہ رکھے اور ہر مرحلہ میں ان سے مشاورت کرے، وہ طالب علم کی صلاحیت، ضرورت، فہم، حیثیت اورمناسبت کو دیکھ کر کتب کا انتخاب فرمائیں گے اور وہی کتب طالب علم کے لیے مفید ہیں، جہاں تک عمومی مطالعہ کا طریقہ ہے تو ” محبت خود تجھے آداب محبت سکھا دے گی“ تاہم چند چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو ملحوظ رکھا جائے تو ان شاء الله اس سے طالب علم کو فائدہ ہو گا۔

1...مطالعہ میں سرعت کے بجائے فہم کو اہمیت دینی چاہیے، اگر کوئی بیس صفحات مطالعہ کرے اور سطحی طور پر اس سے بہتر ہے کہ خوب فہم اور بیدار مغزی کے ساتھ دس صفحات کا مطالعہ ہو۔

2...کتب او روقت کی مناسبت بھی بہت ضروری ہے۔
عام طور پر کتابیں تین طرح کی ہوتی ہیں:
1.عمیق اور دقیق علمی کتب. 2.  سہل اور آسان کتب. 3.  نشاط انگیز اور دلچسپ کتب.

وقت کی بھی تین قسمیں ہیں:
1.  یکسوئی، خلوت اور نشاط کا وقت. 2.    جلوت اور فرصت کا وقت ( جیسے انتظار گاہوں اور سفر کا وقت). 3.  تھکاوٹ،اکتاہٹ اور بیزاری کا وقت.

قسم اول کی کتابوں کا مطالعہ وقت کی قسم اول میں ہونا چاہیے، قسم ثانی کا مطالعہ وقت کی دوسری قسم اور ثالث کاموزوں وقت، وقت ثالث ہے۔

3...کتب بینی کی مثال موتی اور جواہر کے بازار میں سیر کرنے کی ہے یا پھل او رپھولوں سے بھرئے ہوئے باغ کی طرح ہے، لہٰذا قلم اورکاغذ کی زنبیل ساتھ رکھیں، تاکہ اپنی پسند یا ضرورت کی چیزکو فوری طور پر محفوظ کیا جاسکے۔

مختصر یہ کہ کتب بینی وہ روگ ہے جو تمام بیماریوں کا علاج ہے، وہ چاشنی ہے جس کے سامنے تمام ذائقے ہیچ ہیں، وہ سُر اور سازِخاموش ہے جس کے سامنے سارے نغمے بے سروساز معلوم ہوتے ہیں۔ وہ منظر ہے جس کے سامنے تمام حسین مناظر کی رعنائی ماند پڑ جاتی ہے۔

اب اس غزل ناتمام کو حضرت مولانا اسعد الله صاحب رحمہ الله ناظم مظاہر العلوم سہارن پور کی اس خوب صورت غزل پر تمام کرتا ہوں #

انسان کو بناتا ہے اکمل مطالعہ
ہے چشم دل کے واسطے کاجل مطالعہ
دنیا کے ہر ہنر سے ہے افضل مطالعہ
کرتا ہے آدمی کو مکمل مطالعہ
کرتا ہے دُور جہل کی دلدل مطالعہ
تعلیم کے بڑھاتا ہے کَس بَل مطالعہ
یہ تجربہ ہے خوب سمجھتے ہیں وہ سبق
جو دیکھتے ہیں غور سے اوّل مطالعہ
ہم کیوں مطالعہ نہ کریں ذوق وشوق سے
کرتے نہیں ہیں احمق واجہل مطالعہ
ناقص تمام عمر وہ رہتے ہیں علم سے؟
ہوتا نہیں ہے جن کا مکمل مطالعہ
کھلتے ہیں راز علم انہیں کے قلوب پر
جو دیکھتے ہیں دل سے مسلسل مطالعہ
ہے تشنگان رشد وہدایت کے واسطے
اصرار عقل ونقل بادل مطالعہ
اسعد مطالعہ میں گزاروں تمام عمر
ہے علم وفضل کے لیے مشعل مطالعہ

Flag Counter