نظم و ضبط کی اہمیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں!
مولانا امداد الله یوسف زئی
الحمدلله رب العالمین، والصلوٰة والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین ‘أما بعد:
﴿اِن الصلوٰة کانت علی الموٴمنین کتاباً موقوتاً﴾․(القرآن)
ترجمہ:”یقینا نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے “۔(بیان القرآن)
”اِن الله تعالیٰ یحب اِذا عمل أحدکم عملا ان یتقنہ․‘ (الحدیث)
تمہید
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا یہ ایمان ہے کہ دین اسلام کامل و مکمل دین ہے ،جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے ۔دین اسلام جہاں زندگی کے ہر پہلو پر اصولی تعلیمات فراہم کرتا ہے ،وہاں دینی امور کی جزئیات بھی تفصیل سے بیان کرتاہے ۔یہ محض ایک دعویٰ نہیں ،بلکہ قرآن و حدیث کی نصوص، فقہائے اسلام کی توضیحات و تشریحات اور علمائے امت کی کاوشیں اس کا بین ثبوت ہیں۔
چوں کہ اسلام قیامت تک رہتی انسانیت کے لیے بھیجا گیا اور یہ اللہ کا آخری پیغا م ہے ،اس لیے اس میں نظم وضبط ،اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔
نظام کا مفہوم
نظام نظم سے ہے اور نظم لڑی میں پرونے کو کہتے ہیں ۔گویا اسلام افرادِ امت کے لیے ایک ”مالا“ہے اور اس ”مالا“میں افرادِ امت میں سے ہر فرد کو یکجا سمیٹ کر رکھنا امر مرغوب ہے اور ان کے افراد کے بکھر جانے سے جیسے ”مالا“کے سارے موتی بکھر جاتے ہیں ،ویسے ہی امت بکھر جاتی ہے ،جو کسی بھی طرح محبوب نہیں ،اس کو حدیث میں یو ں سمجھایا گیا ہے کہ:
المسلمون کجسدٍ واحدٍ۔(صحیح البخاری ،کتاب الادب، باب رحمة النساء والبھائم ،ج :2،ص:889،ط،قدیمی)
یعنی سارے مسلمان ایک جسد کی مانند ہیں ،اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا ہی بدن تکلیف محسوس کرتا ہے ،ایسے ہی اگر مسلمانوں کے ایک گروہ یا ایک جماعت کو تکلیف پہنچے تو دنیا کے سارے مسلمان اس جماعت کی خاطر کھڑے ہوجائیں ۔دین اسلام ایک رسی ہے، جو امت مسلمہ کے افراد کو جوڑکر، باہم مربوط کر کے حق تعالیٰ شانہ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔اللہ پاک نے قرآن مجید میں باہمی ربط کو مضبوطی سے قائم رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
﴿وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً﴾․(آل عمران:103)
یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو،اس اعتصام و اعتضاد پر بہت زور دیا گیا ہے اور امت مسلمہ کی کام یابی و سرفرازی کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہی اعتصام ہے ۔کتب احادیث میں ”کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة“’کے ضمن میں بے شمار احادیث سے متابعت جماعت کا حکم اور مفارقت جماعت سے اجتناب کو بیان کیا گیا ہے ۔اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
﴿وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن﴾(الانفال:46)
ترجمہ:”اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت (کا لحاظ)کیا کرواور نزاع مت کرو(نہ اپنے امام سے، نہ آپس میں)ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اُکھڑجائے گی اور صبر کرو ،بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “۔
یعنی آپس میں نزاع اور کشا کش نہ کرو ،ورنہ تم میں بزدلی پھیل جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی ۔
اس آیت کریمہ میں باہمی نزاع کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں:ایک یہ کہ تم ذاتی طور پر کمزور اور بزدل ہوجاؤ گے۔ باہمی کشا کش اور نزاع سے دوسروں کی نظر میں حقیر ہوجانا تو بدیہی امر ہے،لیکن اپنی قوت پر کیا اثر پڑتا ہے کہ اس میں کمزوری اور بزدلی آجائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی اتحاد و اعتماد کی صورت میں ہر ایک انسان کے ساتھ پوری جماعت کی طاقت لگی ہوئی ہے ،اس لیے ایک آدمی اپنے اندر پوری جماعت کی قوت محسوس کرتا ہے اور جب باہمی اتحاد و اعتماد نہ رہا تو ہر آدمی کی قوت اکیلی قوت رہ گئی۔
باہمی اتحاد کے قیام اور افتراق و انتشار سے بچاؤ کی راہ نظم کا قیام ہے ۔نظم فرد واحد کی مانند انسانیت کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے اور بہترین معاشرہ وہی کہلاتا ہے جس میں خدائی تعلیمات کی تعمیل ہو اور زندگی کے ہر شعبے میں آسمانی ہدایات پیش نظر رکھی جائیں ۔غلط فہمی سے ہمارے معاشرے میں نظم و ضبط کو محض ملکی و قومی امور کا لازمہ سمجھا جاتا ہے ،حالاں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”اِن الله تعالیٰ یحب اِذا عمل أحدکم عملاً ان یتقنہ“۔ (شعب الایمان ،باب فی الامانات وما یجب من أو أھما الیٰ أھلھا:7،ص:232،ط،مکتبہ الرشد،ریاض)
”اللہ تعالیٰ تمہارے کسی بھی کام میں یہ پسند کرتا ہے کہ اُسے عمدگی اور سلیقہ سے کیا جائے “۔
ہر چھوٹا یا بڑا عمل سلیقہ مندی کا تقاضا کرتا ہے اور دین نے ہمیں یہ سلیقہ سکھایا ہے ۔سلیقہ مندی نظم کے قیام کا باعث ہے اور بظاہر معمولی سمجھی جانے والی بد سلیقگی ،بدنظمی کاذریعہ سبب بنتی ہے۔مفی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی معارف القرآن میں سورة صافات کی آیت﴿والصّٰفَّتِ صَفًّا﴾ کیضمن میں لکھتے ہیں :
”اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کام میں نظم و ضبط اور ترتیب وسلیقہ کا لحاظ رکھنا دین میں مطلوب اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہو یا اس کے احکام کی تعمیل ،یہ دونوں مقصد اس طرح بھی حاصل ہوسکتے تھے کہ فرشتے صف باندھنے کے بجائے ایک غیر منظّم بھیڑ کی شکل میں جمع ہوجایا کریں ،لیکن اس بدنظمی کے بجائے انہیں صف بندی کی توفیق دی گئی، اور اس آیت میں ان کے اچھے اوصاف میں سب سے پہلے اسی وصف کو ذکر کر کے بتا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا بہت پسند ہے ۔ (معارف القرآن ،ج:7،ص:417،ط:مکتبہ معارف القرآن )
اسی نظم و ضبط کے پہلو سے مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق دینی تعلیمات کا ایک اجمالی جائزہ لیتے ہیں :
عبادات
عبادات میں بنیادی امورارکانِ خمسہ ہیں،ان تمام ارکان میں نظم جلوہ گر ہے۔
1..…نظامِ صلوة:
باجماعت نماز بھی نظم و ضبط اور اجتماعیت کا پنج وقتہ درس ہے کہ دن میں پانچ مرتبہ مسلمان مسجد میں جب اکٹھے ہوں تو یہ احساس رہے کہ سارے مسلمان یک جان ہیں ،الگ الگ نہیں ہیں اوراس جماعت کی اتنی اہمیت بتائی گئی ہے کہ جنگ کے دوران بھی ترک کرنے سے گریز کیا گیا اور ”صلاة الخوف“مشروع کی گئی اور مسلمانوں کو یکسانیت کا احساس دلانے کے لیے ”سووا صفوفکم، فاِن تسویة الصفوف من اِقامة الصلوٰة․“(صحیح بخاری ،باب اقامة الصف من تمام الصلوة)”اپنی صفیں درست رکھو،کیوں کہ صفیں درست رکھنا نماز کی تکمیل کا حصہ ہے“کا حکم بھی دیا گیا ۔نیز نماز کے ارکان و شرائط نظم کی کھلی دلیل ہیں ۔حدیث شریف میں حکم دیا گیا ہے کہ جب آدمی مسجد میں جائے تو جماعت میں شامل ہونے کے لیے بھاگ دوڑ نہ کرے، بلکہ وقار اور سنجیدگی کو ملحوظ رکھے ۔جماعت کی نماز میں مقتدی امام کی پیروی کرے، وغیرہ ،یہ تمام امور نظم وضبط کے دائرے میں آتے ہیں ۔پھر جمعہ وعید ین میں بڑے اجتماع سے اسی اجتماعیت اور عدم مفارقت کا درس دینا مقصود ہے کہ مسلمان ایک جسم ہیں ،اگر چہ دنیاوی مشاغل میں کچھ جدا ہو جائیں ،لیکن حقیقت میں یک جان ہیں ۔
2..…نظام صوم:
سال میں ماہِ رمضان میں روزے رکھنے کی مشروعیت کی ایک حکمت یہی ہے کہ مال دار آدمی جب پورے دن بھوکا رہے تو اس کو احساس ہو کہ غریب و لاچار لوگ کیسے ساری زندگی ایسے ہی فقر و فاقہ میں گزار دیتے ہیں، شریعت کے مزاج میں یہ بات ہے کہ غریبوں کا احساس کیا جائے، لاچارومسکین کا خیال رکھا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب احساس پیدا ہو،اسی احساس کو پیدا کرنے کے لیے شریعت نے روزے کو مشروع قرار دیا، پھر روزے میں اوقات تعیین اور دیگر متعلقہ احکام بھی نظم کی افزائش کا باعث ہیں ،گویا ”صوم “بھی اجتماعی نظم کا سبق ہے۔
3..…نظامِ زکوة:
اسی طرح زکوٰة کی مشروعیت اس بات کا درس دینے کے لیے ہے کہ مسلمان وہ نہیں جو صرف اپنی دنیا بنانے اور سمیٹنے کی فکر میں لگا رہے اور قریب کے دوسرے غریب لوگ فقر و فاقہ میں پڑے رہیں،اسی بات کا سبق سکھاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”توٴخذ من أغنیائھم وترد علیٰ فقرائھم“گویا زکوٰة ادا کرتے ہوئے بھی مسلمان اجتماعیت کے قیام کی لڑی پرورہا ہوتا ہے۔
4..…نظام ِ حج:
جس طرح پنج وقتہ نماز مسلمانوں کو متابعتِ جماعت کی یاد دہانی کے لیے ہے اور عیدین کا اجتماع بھی اسی یاد دہانی کی کڑی ہے تو بالکل اسی طرح صاحبِ استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض کر دیے جانے کی ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ساری دنیا سے مسلمان ایک جگہ جمع ہو جائیں اور اس اجتماع سے مسلمانوں کی یکجہتی کا اظہار ہو۔حج کی فرضیت میں بھی مخالفت سے اجتناب اور مقارنت جماعت کا پہلو پایا جاتا ہے ۔
5..…نظامِ جہاد:
اسلامی نظام کی ایک اہم اساس یہ بھی ہے کہ قوموں کے درمیان طاقت کا توازن قائم رہے ،ایسا نہ ہو کہ طاقت ور کمزور کو لقمہٴ تر بنالے ،بلکہ ہر قوم کو اپنے تحفظ و دفاع اورطاقت کے ناجائز تسلط سے محفوظ رہنے کے لیے طاقت کو یکجا رکھنے اور اس کو نظم و نسق سے استعمال کرنے کے اصول بھی تفصیل سے بتائے ہیں ،انہی تفصیلات کا اجمالی عنوان”جہاد“ہے۔جہاد کے لیے، تیاری ،صف بندی،عزم و حوصلہ ،ثابت قدمی ،ضعیفوں ،کمزوروں ،عورتوں اور مذہبی طبقے سے عدم تعرض کے تفصیلی احکام سکھائے ہیں ۔یہ تفصیلات اسلام میں جنگی نظام کے نظم و نسق اور ہمہ جہتی کا مظہر ہیں۔
6..…واقعہٴ معراج:
عبادات کے ضمن میں واقعہٴ معراج بھی سبق آموز ہے ،اسلام ہمیں منظم انداز میں تمام امور کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کا درس دیتا ہے اور نظم کی پابندی کے بغیر کیف ما اتفق امور کو سر انجام دینے کو ناپسند کرتا ہے،اس کی مثال ہمیں واقعہٴ معراج میں ملتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہو کر آسمانوں کی طرف گئے ،تو امت کو نظام کی اہمیت سکھلانے اور جتلانے کے لیے ایسے واقعات سے مطلع فرمایا کہ جس کا خلاف متوقع تھا۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آسمانِ دنیا پر پہنچے تو سوال ہوا کہ:”من ھذا“؟پھر دوسرا سوال ہوا:”ومن معک؟“پھر تیسراسوال ہوا:”وقد أرسل الیہ؟“پھر اس کے بعد ”مرحباً بہ، فنعم المجیء جاء“سے استقبال ہوا اور آگے حضرت آدم علیہ السلام نے ”مرحباً بالابن الصالح والنبی الصالح“ کہہ کر آمد پر خوشی کا اظہار فرمایا،پھر ان سوالات کا سلسلہ ساتویں آسمان تک جاری رہا ۔مزید برآں یہ بھی اسی واقعہ کے نظم کا حصہ نظر آتا ہے کہ جبرئیل امین کو ایک موقع پر مقام خاص کے بعد آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت کہ آپ مزید آگے تشریف لے گئے، جس کو اللہ پاک نے قرآن مجید میں بھی بیان فرمایا:﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنَی﴾․(النجم :8،9)
اس واقعہ سے نظام کی اہمیت اور نظم کی بلا استثنا پاس داری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باوجود اللہ پاک علام الغیوب ہونے کے ہر آسمان پر سوالات کا سلسلہ بتاتے ہیں کہ نظام پاس داری ضروری ہے اور یہ کہ ہر کام ایک نظم کے تحت ہی ہونا چاہیے ،جس سے کام باآسانی اور سہولت کے ساتھ پایہٴ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔
نظام معاشرت و حقوق العباد
اسی طرح اسلام حقوق العباد کے معاملہ میں بھی ایک ایسا نظام پیش کرتا ہے جو ہر انسان کو اس کا حق دلاتا ہے،کسی کے ساتھ ظلم وناانصافی کو قطعاً برداشت نہیں کرتااور اس نظام کی مثال دنیا کے کسی دوسرے مذہب اور قانون میں نہیں ملتی۔مثال کے طور پر خواتین کے معاملہ میں اسلامی نظام میں ہر بالغ مردوعورت کو یکساں شہری اور دیوانی حقوق حاصل ہیں،وہ اپنی ذاتی اور شخصی جائیداد اور ملکیت کے حصول اور نظم و نسق اور تصرف میں بالکل آزاد ہیں۔اس کے برعکس”قانونِ روما“میں خواتین مستقل طور پر مردوں کی نگرانی اور سر پرستی میں تھیں،وہ اپنے نگراں یا سرپرست کی اجازت کے بغیر نہ کوئی جائیداد حاصل کر سکتی تھیں اور نہ حاصل شدہ جائیداد میں کسی تصرف کی مجازتھیں۔یہ پابندی خواتین پر زندگی کے آغاز سے لے کر انتہا تک رہتی تھی۔یہ بات بھی دنیا کے سامنے واضح رہنی چاہیے کہ ہمارے اسلام کا یہ نظام وحی الٰہی کا مرہونِ منت ہے۔اس کی اصل قرآن وسنت ہے۔اس کی کوئی ہدایت یا راہ نمائی کبھی کسی دوسرے مذہب سے لینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔نہ صرف فقہ اسلامی کے تشکیلی دور، یعنی ابتدائی چار ہجری صدیوں میں بلکہ بعد میں کم و بیش مزید آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے قانون کی کسی کتاب کا ترجمہ عربی زبان میں نہیں کیا،جس سے معلوم ہوا کہ اسلام کا قانون انتہائی مرتب اور منظّم ہے۔
نظامِ معاملات
جس طرح عبادات کے مختلف شعبوں میں اسلام اپنے پیروکاروں کی پوری طرح راہ نمائی کرتا ہے ،اسی طرح معاملات میں بھی اسلام نے باہم معاملات کرنے والے بائع و مشتری کو کچھ اصول سکھلادیے جس سے وہ ایک نظم کے تحت اپنے کاروباری مسائل کو حل کر سکیں ۔اور اس نظام کا داعیہ یہاں بھی وہی ہے کہ کہیں متعاقدین کے درمیان نزاع و جدال کی صورت پیش نہ آئے اور ہر عاقد کو اپنا پورا حق مل سکے اور ہر قسم کے دھوکے سے گریز کرنے کی تاکید فرمادی گئی ،تا کہ مسلمانوں کی اجتماعیت میں خلل واقع نہ ہو،اس نظام سے متعلق چند احادیث درج ذیل ہیں:
1…”نھیٰ رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن بیع الغرر․“(صحیح مسلم،باب بطلان بیع الحصاة والبیع الذی فیہ غرر)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر سے منع فرمایا ہے۔ بیع غرر اس بیع کو کہتے ہیں جس میں مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) مجہول ہو یا بیچنے والے کے قبضے سے باہر ہو۔
2…”لا یسم المسلم علیٰ سوم أخیہ․“(صحیح مسلم ،باب تحریم بیع الرجل علی بیع أخیہ وسومہ علی سومہ)
ترجمہ:کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے۔ یعنی کسی سے خریدو فروخت کا معاملہ ہورہا ہو تو اس میں مداخلت نہ کرے اور اس چیز کے زیادہ دام نہ لگائے۔
3…”نھیٰ عن بیع الثمار حتّٰی یبدوَ صلاحُھا․“ (موٴطا امام مالک ،باب النہی عن بیع الثمار حتی یبدوصلاحہا،ط:داراحیاء التراث العربی)
ترجمہ:رسول کریم صلی اللہ نے پھلوں کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ ان کی پختگی ظاہر نہ ہو جائے ۔
4…”من احتکر فھو خاطی ءٌ․“ (صحیح مسلم ،تحریم الاحتکار فی الاقوات)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو آدمی ذخیرہ کرے وہ گناہ گار ہے ۔
یعنی جو تاجر غلہ وغیرہ ضروریاتِ زندگی کا ذخیرہ عوام کی ضرورت کے باوجود مہنگائی کے لیے محفوظ رکھے ۔
5…”اسی طرح ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے خریدوفروخت میں لوگ دھوکہ دیتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :جب تم خریدو تو کہہ دیا کرو کہ ”لا خلابة“یعنی اس بیع میں مجھے کوئی دھو کہ نہ ہواور تین دن کا اختیار مقرر کرنے کا فرمایا۔ (صحیح بخاری ،باب مایکرہ من الخداع فی البیع)
نظام وراثت
اسلام سراپا نظام ہے ،ہر پہلو کا ایک نظام منظم کر دیا گیا ہے۔ وراثت کے باب میں بھی جب ہم اسلامی نظام پر نظر دوڑاتے ہیں تو شریعت کے احکام بالکل منفرد انداز کے نظر آتے ہیں اور ہر فریق کا حصہ قرآن پاک میں تفصیل سے واضح کردیا گیا اور ”’الأقرب فالأقرب“اور ”القربیٰ تحجب البعدی“کے قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قریبی رشتہ دار کو محرومی سے بچالینے کا درس بھی یہی نظام دیتا ہے۔
نظام سیاست
سیاست بھی زندگی کا بہت وسیع اور بہت اہم شعبہ ہے ۔اس کو بھی اسلام نے ایک نظام میں منضبط کردیا ۔اسلام میں اقتدار اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور وہی اصل قانون ساز ہے ،اس لیے اسلامی حکومت کے دستور کا ماخذ قرآن مجید ہے،ان کی تشریح و تفصیل اور جزئیات کی تفریع شارع علیہ السلام پر چھوڑ دی گئی ہے ،چناں چہ انہیں بنیادوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکومت الہٰیہ کی تشکیل فرمائی اور اس کی روشنی میں جزوی قوانین بنائے ،پھر جب اسلامی حکومت کا دائرہ وسیع ہوا ،نئے نئے ملک زیر نگیں ہوئے ،نئی نئی قومیں مفتوح ہوئیں اور نئے نئے مسائل پیدا ہوئے ،تو پھر خلفائے راشدین نے کلام مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال اور فیصلوں کی روشنی میں اپنے اجتہاد سے خلافت اسلامیہ کا نہایت وسیع اور مکمل نظام قائم کیا، اموی اور عباسی دور میں”کتاب الخراج ،کتاب الأموال،الأحکام السطاانیة، الطرق الحکمیة“بھی اسی نظام کو ضبط کرنے کے لیے لکھی گئیں۔
سیاست و حکومت سے متعلق جتنی جامعیت کے ساتھ اسلام نے راہ نمائی فراہم کی ہے ،اس کا نمونہ دیگر اقوام و مذاہب کے ہاں ناپید ہے ،علامہ ابن خلدون نے مقدمہ ابن خلدون اور حضرت شاولی اللہ دہلوی نے حجة اللہ البالغہ میں اس کا اجمالی تعارف اور بنیادی احوال ذکر کیے ہیں ۔مذکورہ تفصیل سے واضح ہوا کہ نظم و ضبط اور اجتماعیت دین میں نہایت اہمیت رکھتی ہے ۔وفاق المدارس العربیہ کے قیام کا پس منظر بھی اسی مقصد کا حصو ل ہے ۔
خلاصہ یہ کہ اسلام اپنے تمام شعبوں میں مرتب نظام کا نفاذ چاہتا ہے اور اس نظام سے روگردانی اور اعراض کو قطعاً ناپسند کرتا ہے جس کی دلیل”من شذ شذ فی النار“،”علیکم بالجماعة، واِیاک والفرقة“، ”یدالله علیٰ الجماعة“میں ملتی ہے اور اللہ پاک کی طرف سے نصرت کے وعدے بھی ایک جماعت و نظام کے تحت چلنے میں ہیں اور مفارقت میں وعیدیں بھی بیان کردی گئی ہیں۔