Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1436ھ

ہ رسالہ

7 - 16
اسلام اور سوشلزم

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

کیا اسلام نے ذاتی ملکیّت کو ناجائز ٹھہرایا ہے؟
اسلام ذاتی ملکیّت کی نفی نہیں کرتا اور نہ ہی اسے ناجائز ٹھہراتا ہے، البتہ دولت کے حصول اور خرچ کرنے کی راہیں ضرور متعین کرتا ہے ۔ اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام دولت کے حصول کے لیے ہر طریقے اور ہر راستے کو جائز قرار دیتا ہے۔ جوا، شراب، جنس فروشی، ذخیرہ اندوزی، مصنوعی مہنگائی، سرمایہ دارانہ نظام میں جائز ٹھہرتی ہے، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ ریاست کو اس کا ٹیکس ادا کر دیا جائے، اس ظالمانہ نظام معیشت کے مقابلے میں میں سوشلزم (اشتراکی نظام) وجود میں آیا، جس میں تمام ملکی پیداوار کی مالک حکومت ہوتی ہے اور عوام الناس کو ضروریات زندگی حکومت مہیا کرتی ہے، ان کی ذاتی ملکیت میں کچھ نہیں ہوتا ہے، کچھ لوگ اس نظام معیشت سے متاثر ہو کر اسے اسلامی نظام معیشت کا نام دینے لگے اور اسے مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے قرآن واحادیث کا سہارا لینے لگے۔ چناں چہ پرویز غلام احمد، جو اس تحریک کے علم بردار رہے ہیں ﴿قُلِ العَفْو﴾ کی تفسیر میں ذاتی ملکیت کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

” اس ”قل العفو“ کے فیصلے نے اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے طے کرکے رکھ دیا ، اس سے کسی کے پاس فاضلہ دولت نہ رہی ، جب کسی کے پاس فاضلہ دولت نہ رہی تو معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے پیدا ہو نے والی تمام خرابیوں اور تباہیوں کا خاتمہ ہو گیا۔“ (طلوع اسلام نومبر1969، ص:34)

دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
”سوشلزم کا معاشی نظام تو قرآن کے معاشی نظام کے مماثل ہے۔ ( طلوع اسلام اگست1967، ص:27)

ایک او رجگہ معاشی مشکلات پر تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
” یہ تمام مشکلات اس وقت تک پیدا ہوتی رہیں گی جب تک قرآن کریم کا معاشی نظام رائج نہیں ہو گا، اس نظام میں نہ زمین اور دیگر ذرائع وسائل پیداوار پر کسی کی ذاتی ملکیت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کے پاس فاضل روپیہ ہوتا ہے کہ وہ جائیدادیں کھڑی کرے یا اسے کاروبار میں منافع پر لگائے۔“ (طلوع اسلام جولائی1970، ص:32)

پرویز صاحب او ران کے ہم نوا اشتراکیوں کا یہ دعوی باطل اور قرآن کریم کی معنوی تحریف ہے ۔ اس دعوے کا بطلان جاننے کے لیے یہی کافی ہے کہ ؟

حضورکریم صلی الله علیہ وسلم او ران سے قرآنی تعلیمات سمجھنے والے صحابہ کرام میں سے کسی سے ”قُلِ العَفْو“ کی یہ انوکھی تفسیر منقول نہیں ہے۔

نیز اس آیت میں صحابہ کرام نے استفسار کیا کہ کس قدر خرچ کریں؟ یہ سوال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام   رضي الله عنهم کے پاس فاضل دولت موجود تھی اور فاضل دولت رکھنا کوئی عیب نہ تھا اور ان کی ذاتی ملک پر کوئی اعتراض نہ تھا ،راہ الہٰی میں دولت خرچ کرنے کی ترغیب اس لیے ہی دی گئی تھی کہ وہ اس کے مالک تھے، اگر فاضل دولت کا مالک ہونا جرم ہوتا، تو اہل اقتدار کو حکم ہوتا کہ ان سے فاضل دولت وصول کر لو، نہ یہ کہ مال دار کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دو۔

زکوٰة ، فطرانہ، زائد از ضرورت مال کا ہی دیا جاتا ہے، اگر کوئی زائد از ضرورت مال کا مالک ہی نہ ہو تو زکوٰة وفطرانہ کے احکام کیوں؟ اور کس پر لاگو ہوں گے ۔

اگر زائد از ضرورت مال کی ملکیّت کا تصور ہی نہ ہوتا تو بیع وشراء، مال غنیمت، دین وقرض، مہر، دیت (خون بہا) کے قرآن وسنت کے احکام (نعوذ بالله) لغو ٹھہریں گے یا قابل عمل ہوں گے؟ اگر قابل عمل ہیں تو ذاتی ملکیت کے بغیر کیسے ؟

میراث میں ملنے والا مال اگر زائد از ضرورت ہو تو وارث اس کا مالک ہو گا یا نہیں ؟ قرآن کریم نے وراثت پانے کے لیے فقر کی کوئی شرط بیان نہیں کی ۔وارث امیر ہو یا فقیر وہ اپنا حصہ لے سکتا ہے ۔

پرویز صاحب نے ان دلائل واحکام سے جن سے ذاتی ملکیت کا ثبوت ملتا تھا، ایک ہی دعوی کر دیا کہ یہ سب احکام منسوخ ہیں ۔ لیکن اس بھونڈے دعوی پر بھی کوئی دلیل نہ دے سکے، چناں چہ لکھتے ہیں ۔

وراثت ، قرضہ ، لین دین، صدقہ وخیارت وغیرہ کے متعلق احکام اس عبوری دور سے تعلق رکھتے ہیں جس میں سے گزر کر معاشرہ انتہائی منزل تک پہنچتا ہے۔ (نظام ربوبیت، ص:27)

یتیموں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے مال کی حفاظت کا حکم
﴿وَیَسْئلُونَکَ عَنِ الْیَتَامَی قُلْ إِصْلاَحٌ لَّہُمْ خَیْْرٌ…﴾ یتیموں کے ساتھ مال کی حفاظت کرنا سرپرستوں کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے ، ان کے مال میں بے جاتصرف کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، چناں چہ سورة النساء میں ہے : ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً﴾․ (النساء:10)(جو لوگ کہ کھاتے ہیں مال یتیموں کا ناحق، وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھر رہے ہیں) چناں چہ صحابہ کرام یتیم بچوں کی پرورش میں اس قدر احتیاط کرنے لگے کہ ان کا کھانا الگ پکواتے اور الگ ہی کھلاتے، اگر بچ جاتا تو رکھے رکھے گل سڑ جاتا، اس میں تکلیف بھی تھی اور نقصان بھی تھا، اس آیت میں بتایا گیا کہ اصل مقصد یتیموں کی پرورش کے سلسلے میں ان کی مصلحت کا مکمل خیال رکھنا ہے، نہ کہ سر پرستوں کو مشکلات میں ڈالنا، لہٰذا ان کا کھانا اپنے کھانے کے ساتھ پکانے میں کچھ حرج نہیں، بشرطیکہ ان کے مال سے انصاف کے ساتھ خرچ وصول کیا جائے، احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر غیر اختیاری طور پر کچھ کمی بیشی ہو جائے تو معاف ہے۔ یہ بات کہ کون انصاف سے کام لے رہا ہے اور کس کی نیت میں فتور ہے؟ الله تعالیٰ خوب جانتا ہے۔

﴿وَلاَ تَنکِحُواْ الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ وَلأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ وَلاَ تُنکِحُواْ الْمُشِرِکِیْنَ حَتَّی یُؤْمِنُواْ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکٍ وَلَوْ أَعْجَبَکُمْ أُوْلَئِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ وَاللّہُ یَدْعُوَ إِلَی الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِہِ وَیُبَیِّنُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُون﴾․(سورہ بقرہ، آیت:221)
اور نکاح مت کرو مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لے آئیں اور البتہ لونڈی مسلمان بہتر ہے مشرک بی بی سے، اگرچہ وہ تم کو بھلی لگے اور نکاح نہ کردو مشرکین سے جب تک وہ ایمان نہ لے آویں او رالبتہ غلام مسلمان بہتر ہے مشرک سے اگرچہ وہ تم کو بھلالگے، وہ بلاتے ہیں دوزخ کی طرف اور الله بلاتا ہے جنت کی او ربخشش کی طرف اپنے حکم سے اور بتلاتا ہے اپنے حکم لوگوں کو، تاکہ وہ نصیحت قبول کریں

کافر عورتوں سے نکاح کرنے کی ممانعت
میاں بیوی کا رشتہ انتہائی الفت کا ہوتا ہے ،یہ اس وقت کام یاب ہوتا ہے جب ان میں باہمی مناسبت کا کوئی عنصر موجود ہو ، وہ بنیادی عنصر عقیدہ ہے، جس پر انسان کی شعوری زندگی کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اگرفکر ونظر میں اختلاف ہو تو ازدواجی زندگی کے مقاصد ، مصالح فوت ہو جاتے ہیں، اس لیے الله تعالیٰ نے کفار کی عورتوں سے نکاح کرنے سے روک دیا ، اسی طرح مسلمان خواتین کو بھی کافروں کے نکاح میں دینے سے منع فرما دیا۔

البتہ کتابیہ یعنی یہودی، نصرانی، خواتین سے اس وقت نکاح کرنے کی اجازت ہے جب وہ توحید ، انبیا، کتب سماویہ پر سچا عقیدہ رکھتی ہوں ، لیکن علماء نے اسے پسند نہیں فرمایا۔( اس کی مکمل بحث سورة مائدہ میں آئے گی ان شاء الله)

فقہی مسائل
٭...مشرک، آتش پرست ،بے دین ، ملحد، عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں۔
٭...اہل کتاب خواتین سے مسلمان مرد نکاح کر سکتے ہیں، بشرطیکہ دینی معاملات میں نقصان کا اندیشہ نہ ہو، لیکن پسندیدہ نہیں۔
٭...جو عورت خود کو نصرانی یا یہودی کہلواتی ہو، لیکن اس کے عقائد ملحدانہ ہوں تو اس سے بھی نکاح جائز نہیں، عموماً انگریزوں کو عیسائی سمجھاجاتا ہے، لیکن یہ درست نہیں، ان میں عموماً دہریہ اور بے دین قسم کے لوگ ہوتے ہیں، صحیح العقیدہ عیسائی یہودی کم ہوتے ہیں۔
٭...مسلمان عورت کا نکاح کسی کافر او رکتابی سے جائز نہیں۔
٭...جو شخص ظاہری طور پر مسلمان سمجھا جائے، لیکن اس کے عقائد وافکار کفریہ ہوں، اسے مسلمان عورت بیاہنا جائز نہیں۔
٭...اگر شادی کے بعد مسلمان مرد نے کفریہ عقائد اختیار کر لیے تو اس کا اپنی بیوی سے نکاح ٹوٹ جائے گا ۔ عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے ۔
٭...قادیانی جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکر ہیں، اسی طرح پرویزی جو حدیث رسول کی حجیت تسلیم نہیں کرتے ، روافض کا فرقہ اثنا عشریہ جو اپنے بارہ ائمہ کی امامت کو نبوت سے اعلی اور برتر سمجھتے ہیں۔ تحریف قرآن کے مدّعی ہیں ، حضرت عائشہ رضی الله عنہا پر بہتان لگاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے فرقے ، بوہری، آغاخانی سے مسلمان مرد وعورت کا نکاح جائز نہیں ،نہ ہی ان سے دلی تعلق رکھنے کی اجازت ہے۔

﴿وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِیْ الْمَحِیْضِ وَلاَ تَقْرَبُوہُنَّ حَتَّیَ یَطْہُرْنَ فَإِذَا تَطَہَّرْنَ فَأْتُوہُنَّ مِنْ حَیْْثُ أَمَرَکُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ، نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُواْ حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ وَقَدِّمُواْ لأَنفُسِکُمْ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّکُم مُّلاَقُوہُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:223-222)
اور تجھ سے پوچھتے ہیں حکم حیض کا، کہہ دے وہ گندگی ہے ،سو تم الگ رہو عورتوں سے حیض کے وقت اور نزدیک نہ ہو ان کے جب تک پاک نہ ہوویں، پھر جب خوب پاک ہو جاویں تو جاؤ ان کے پاس، جہاں سے حکم دیا تم کو الله نے، بے شک الله کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں، سو جاؤ اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو اور آگے کی تدبیر کرو اپنے واسطے اور ڈرتے رہو الله سے اور جان رکھو کہ تم کو اس سے ملنا ہے او رخوش خبری سنا ایمان والوں کو

شان نزول: حائضہ خاتون کے ساتھ معاشرتی برتاؤ
حیض ایک خاص قسم کا ناقص خون ہوتا ہے، جوہر صحت مند جوان بالغہ عورت کو ہر مہینے کے کچھ دنوں میں بغیر کسی بیماری کے رحم سے جاری ہوتا ہے ۔ یہودی ونصاری اس طبعی ناپاکی کے دنوں میں خواتین کے ساتھ افراط وتفریط کا رویہ رکھتے تھے، نصاری تو اسے ناپاکی سمجھتے ہی نہیں، ان کے مخصوص ایام میں ان کے ساتھ کھانے پینے کے علاوہ صحبت کرنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے، اس کے مقابلے یہودیوں کا رویہ کس قدر سخت ہے، تورات کی عبارت پڑھیے۔

”جو کوئی اسے چھوئے گا شام تک نجس رہے گا اور اور جو کوئی اس کے بستر کو چھوئے ،اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے غسل کرے اور شام تک ناپاک رہے … اور جو کوئی اس چیز کو جس پروہ بیٹھی ہے چھوئے اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے نہائے اور شام تک ناپاک رہے ،اگر مرد اس کے ساتھ سوتا ہے اور اس کی نجاست اس پر ہو تو وہ رات دن تک ناپاک رہے گا اور ہر ایک بسترجس پر یہ مرد سوئے گا ناپاک ہو جائے گا۔“(احبار15:19۔124)

ہندؤوں میں حیض کی نجاست کا تصور یہودیوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ پوری عورت ناپاک تصور کی جاتی ہے، کسی کھانے پینے کے برتن کو ہاتھ نہیں لگاسکتی۔ یہ نجاست صرف اس عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اس عورت کا پورا خاندان بشمول مردوزن ناپاک شمار ہوتا ہے، ان ایام کی مدت بھی ذات پات کی روشنی میں طے ہوتی ہے۔ (خلاصہ از تحفة الہند، ہندؤوں کے یہاں ناپاکی ص:164)

حضرت انس رضي الله عنه  سے منقول ہے کہ یہودیوں میں جب کسی خاتون کو حیض آتا تو اس کے ساتھ کھانا پینا بند کر دیتے اور گھر میں اسے سب سے الگ تھلگ رکھتے۔( صحیح مسلم، رقم الحدیث:302)

صحابہ کرام رضي الله عنهم  اس افراط وتفریط کو دیکھ کر تردد کا شکار تھے ،بارگاہ نبوی میں آکر عرض گزار ہوئے کہ یا رسول الله! ہم حیض کے دنوں میں اپنی بیویوں کے ساتھ کیسے پیش آئیں؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔

تفسیر: حیض کی حقیقت اور احکام
حیض کیا ہے ؟ ایک خاص قسم کا خون ہے جو ہر جوان وصحت مند عورت کے رحم سے مہینے کے چند دنوں میں جاری ہوتا ہے۔ فقہ حنفیہ میں اس کی کم از کم مدت تین دن اور تین رات ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہیں۔(فتاوی عالمگیری:1/39) تین دن سے کم اور دس دن کے بعد آنے والا خون استحاضہ کہلاتا ہے، جوکسی بیماری کا نتیجہ ہوتا ہے۔

الله تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں واضح کر دیا کہ حیض ایک گندگی ہے ،اس لیے ان ایام میں بیوی کے ساتھ صحبت کرنے سے دو ررہو ، البتہ اس کے ساتھ کھانے پینے، لیٹنے، بوس وکنار کرنے کے علاوہ اس کی ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصے کو چھوڑ کر ،بقیہ جسم سے، بلاکسی حائل کے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں اور ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصے پر کوئی حائل کپڑا وغیرہ موجود ہو تو پھر بھی فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ چناں چہ حضرت میمونہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم جب کسی بیوی سے ملامست کا ارادہ فرماتے تو حیض کی حالت میں وہ جامہ باندھ لیتیں۔ ( صحیح بخاری:رقم الحدیث:303)

عبدالله بن سعد الانصاری رضي الله عنه  سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت فرمایا: حیض کی حالت میں میرے لیے بیوی سے کون سا فائدہ اٹھانا حلال ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” مافوق الإزار“ جامے کے اوپر سے فائد ہ اٹھانا حلال ہے۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:212)

استحاضہ
استحاضہ کا خون رحم کی رگ پھٹنے کی وجہ سے جاری ہوتا ہے، جس عورت کو استحاضہ کا خون آئے شریعت اس پر صحت مند عورت کے احکا م جاری کرتی ہے ،اس پر سے نماز، روزہ ساقط نہیں ہوتا، اس سے مجامعت کرنا بھی جائز ہے ، استحاضہ کی پہچان علماء نے فقہی کتابوں میں تفصیل سیلکھ دی ہے۔

نفاس
جوخون بچے کی پیدائش کے بعد رحم مادر سے خارج ہوتا ہے اسے نفاس کہتے ہیں ، فقہ حنفیہ میں اس کی کم از کم مدت مقرر نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہے۔ (الدر المختار:1/199) نفاس اور حیض کے احکام مشترکہ ہیں۔

حیض سے متعلق چند فقہی مسائل
٭...ایام حیض میں عورت سے صحبت کرنا حرام ہے ۔ (فتاوی عالمگیریہ:1/39)
٭...اگر حیض پورے دس دن میں ختم ہو تو عورت کے غسل کرنے سے پہلے صحبت کرنا جائز ہے۔ اگر دس دن سے پہلے ختم ہو تو اس وقت تک عورت سے صحبت کرنا جائز نہیں جب تک عورت غسل نہ کر لے یا ایک نماز کا وقت نہ گزر جائے ۔ (ایضاً)
٭...اگر ایام حیض میں صحبت کر لی تو صدق دل سے توبہ واستغفار اور اس کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی کرنا چاہیے۔ ( ایضاً)
٭...ایام حیض میں تلاوت کرنا، مسجد میں داخل ہونا، قرآن کریم کو چھونا جائز نہیں ۔اسی طرح نماز اورروزہ رکھنا بھی جائز نہیں، البتہ پاکی حاصل ہونے کے بعد رمضان کے روزوں کی قضا ضرور ی ہے۔ (ایضاً) نمازوں کی قضا ضروری نہیں ہے۔
٭...ایام حیض میں دعا اور وظیفے کی نیت سے قرآنی دعائیں پڑھنا جائز ہے۔ (الدرالمختار:1/293)
٭...ایام حیض میں قرآن کریم پڑھنا پڑھانا جائز نہیں، البتہ معلمہ قرآن کے لیے یہ گنجائش ہے کہ ہر ہر لفظ کی تعلیم ہجہ کے ذریعے دے یا ہر لفظ پر سانس توڑ کر نیا سانس لے۔ (الدر المختار:1/193)

عورتیں کھیتیاں ہیں
﴿نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُم…﴾ الله تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں عورتوں کو کھیتی کے ساتھ تشبیہ دے کر ان کے خصوصی ملاپ کے متعلق چند حقائق بیان فرمائے ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح کھیتی سے مقصود اناج کی پیدا واربڑھانا اور غلہ حاصل کرنا ہوتا ہے، اسی طرح نکاح اور ہم بستری سے مقصود صرف جسمانی تلذذ نہیں، بلکہ انسانیت کی بقا اور اولاد حاصل کرنا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم بستری نسوانی جسم کے اسی حصے میں کرنی چاہیے جس سے اولاد حاصل کرنے کا مقصد پورا ہو، وہ عورت کا اگلا حصہ ہے، عورت کے مقام دبر ( پچھلے حصے) میں صحبت کرنا خلاف فطرت اور حرام ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگلے حصے میں صحبت کرنے کے لیے کوئی سی بھی ہیئت اختیار کرناجائز ہے ۔ یہودی صحبت او رہم بستری کے لیے صرف ایک ہی طریقے کو جائز سمجھتے تھے، ان کا خیال تھا کہ اگلے حصے تک پہنچنے کے لیے بھی اگر عورت کو الٹا لٹا کر جماع کیا جائے تو بچے بھینگے پیدا ہوتے ہیں۔ (روح المعانی، البقرہ تحت آیة رقم:223) قرآن کریم نے اس کی تردید فرمادی۔

﴿وَلاَ تَجْعَلُواْ اللّہَ عُرْضَةً لِّأَیْْمَانِکُمْ أَن تَبَرُّواْ وَتَتَّقُواْ وَتُصْلِحُواْ بَیْْنَ النَّاسِ وَاللّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ، لاَّ یُؤَاخِذُکُمُ اللّہُ بِاللَّغْوِ فِیَ أَیْْمَانِکُمْ وَلَکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا کَسَبَتْ قُلُوبُکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ حَلِیْم﴾․(سورہ بقرہ، آیت:225-224)
اور مت بناؤ الله کے نام کو نشانہ اپنی قسمیں کھانے کے لیے کہ سلوک کرنے سے اور پرہیز گاری سے اور لوگوں میں صلح کرانے سے بچ جاؤ اور الله سب کچھ سنتا جانتا ہے نہیں پکڑتا تم کو الله بیہودہ قسموں پر تمہاری، لیکن پکڑتاہے تم کو ان قسموں پر کہ جن کا قصد کیا تمہارے دلوں نے اور الله بخشنے والا، تحمل کرنے والا ہے

نیکی نہ کرنے پر قسم نہیں کھانی چاہیے
عرب میں دستور تھا کہ لوگ خدا کی قسم کھا کر یہ کہہ بیٹھتے کہ ہم فلاں نیک کام نہیں کریں گے ، فلاں پر صدقہ نہیں کریں گے، فلاں کے درمیان صلح نہیں کرائیں گے ، جب انہیں کوئی ان نیک کاموں کی ترغیب دیتا تو فوراً عذرپیش کر دیتے ہم یہ کام نہ کرنے کی قسم کھا چکے ہیں ۔ اس آیت میں الله تعالیٰ نے اعمال خیر سے محروم رہنے کے لیے قسم کو ڈھال بنانے سے منع فرمایا ہے ۔ جو قسمیں انسان کو خیر سے محروم رکھنے کا ذریعہ بن رہی ہوں انہیں توڑ کر کفارہ ادا کرنا چاہیے ۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک صحابی عبدالرحمن بن سمرہ رضي الله عنه  کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اگر تم کسی بات پر قسم کھا لو، پھر تمہیں (اس کے خلاف ) دوسری بات میں اس سے زیادہ بھلائی نظر آئے تو اسی کو لے لو اور قسم کا کفارہ دے دو ۔ ( صحیح بخاری، رقم الحدیث:7147)

یمین(قسم) کی تین قسمیں ہیں
٭...یمین لغو: ”لغو“ بے فائدہ کو کہتے ہیں ۔ اصطلاحِ شریعت میں یمین لغو ( بے فائدہ قسم) اس قسم کو کہتے ہیں جو زمانہ حال یا زمانہ ماضی کے کسی معاملے کو سچا جان کر اس پر قسم کھائی جائے، لیکن وہ معاملہ حقیقت کے برعکس ہو ۔ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے ۔
٭...یمین منعقدہ: زمانہ حال او رزمانہ مستقبل میں کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کے متعلق قسم کھانے کو یمین منعقدہ کہتے ہیں ۔ ایسی قسم کو توڑنے سے کفارہ اور استغفار لازم ہو جاتا ہے ۔
٭...یمین غموس: زمانہ ماضی کے کسی معاملے پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانے کو یمین غموس کہتے ہیں ۔ ایسی قسم اٹھانا گناہ کبیرہ ہے۔ اس لیے اس غموس یعنی گناہ میں غوطہ لگانے کو کہتے ہیں ۔ اس میں بھی فقط توبہ واستغفار ہے، کوئی کفارہ نہیں ہے۔ ( تبیین الحقائق:کتاب الایمان۔3/419)

قسم کا کفارہ
قسم کے کفارہ کا ذکر سورة مائد ہ میں ہے ۔ ( مائدہ:89) غلام آزاد کرنا، یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ، یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا ، اگر یہ نہ ہو سکے تو تین دن مسلسل روزے رکھنا۔

قسم کے متعلق فقہی مسائل
٭...بلاضرورت شدیدہ قسم نہیں کھانی چاہیے۔
٭...الله تعالیٰ کے ذاتی وصفاتی ناموں کے ساتھ قسم کھانے سے قسم واقع ہو جاتی ہے ۔ رسول الله کی قسم، ماں باپ کی قسم ، سر کی قسم ، بچوں کی قسم کھانے سے قسم نہیں ہوتی، بلکہ ایسی قسم کھانا شرک کے زمرے میں آتا ہے ۔
٭...کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے یا حرام کو حلال کر لینے سے بھی قسم ہو جاتی ہے ۔
٭...صرف قسم کہنے سے بھی قسم واقع ہو جاتی ہے ۔
٭...قسم کھانے والا عاقل ، بالغ مسلمان ہو ، دیوانے ، بچے اور کافر کی قسم واقع نہیں ہوتی۔
٭...حرام چیز کو بھی اپنے اوپر حرام کرنے سے قسم ہو جاتی ہے، مثلا کہا آئندہ گانا سننا مجھ پر حرام ہے ۔ اگر پھر سن لیا تو کفارہ دینا پڑے گا۔ (ملخص از بہشتی زیور:151) (جاری)

Flag Counter