Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1436ھ

ہ رسالہ

13 - 16
سنتِ نبوی کی اتباع اور فضیلت

احتشام الحسن، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
اتباعِ سنت اور اسلافِ امت
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد تابعین و تبع تابعین سے لے کر ہندو پاک کے اکابرینِ امت تک ہر فرد اتباع ِ سنت کا شیدائی تھا، ان کا اوڑھنا ، بچھونا، دل کا سکون، آنکھوں کا نور اور سینہ کی ٹھنڈک اتباعِ سنت میں تھی، ان کے شب و روز کا ایک ایک عمل، زبان کا ایک ایک قول اور زندگی کاایک ایک معمول…سنتِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے سانچہ میں ڈھلا ہوا تھا۔ معاملات سے لے کر عبادات تک اور اخلاق و عادات سے لے کر معاشرت تک، ہر ہر شعبے میں ان کی زندگی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کا نمونہ تھی، وہ اٹھتے بیٹھتے…کھاتے پیتے…سوتے جاگتے…ملتے جلتے…آتے جاتے…اسی طرح بے شمار طبعی امور میں بھی نہ صرف سنتوں کا خیال رکھتے تھے ،بلکہ پابندی کے ساتھ عمل پیرا ہوتے تھے۔

امام شافعی  فرماتے ہیں:”جب میں کسی کو حدیث و سنت پر عمل کرتا ہوا دیکھتا ہوں تو گویا میں کسی صحابی کو دیکھتا ہوں ۔“(خطبات ازپروفیسر عبد الشکور:2/35)امام مالک کا مشہور قول ہے:”ان السنة مثل سفینة نوح، من رکبھا نجی، ومن تخلف عنھا غرِق․“( شمائل کبریٰ:1/43) ترجمہ: سنت مثلِ سفینہ نوح ہے، جو سوار ہوا، نجات پاگیا ، جو پیچھے رہا غرق ہو گیا۔

امام زہری فرماتے ہیں:”الاعتصام بالسنة نجاة․“(سنن الدارمی:28)امام اوزاعیکا ارشاد ہے:”ندور مع السنة حیث دارت․“ (نضرة النعیم:2/40) ایک اور جگہ فرمایا:”پانچ چیزیں ایسی ہیں جس پر صحابہ اور تابعین اچھی طرح عمل پیراتھے، ان میں سے ایک اتباعِ سنت ہے۔“(نضرة النعیم:2/40)امام ابو عثمان الحیری فرماتے ہیں:”جس نے قول و فعل میں اپنے نفس کوسنت کا عادی بنایا ، وہ دانش مندی والی باتیں کرے گا۔“(الاعتصام:65)امام ابو زناد فرماتے ہیں:"سنتیں حق کی راہیں ہیں، جو اکثر رائے کے خلاف آتی ہیں۔ پس مسلمانوں کے لیے اس کی اتباع کے علاوہ کوئی چارہٴ کار نہیں ہے۔“ (نضرة النعیم:2/40، بحوالہ: البخاری-الفتح:4/225)

امام ابو حفص فرماتے ہیں:” جس نے افعال و احوال کو ہر وقت سنت پر نہ پرکھا اور نہ ہی اس کے نفس نے اس کا اہتمام کیا، تو اس کو مردوں کی صف میں شمار نہ کرو۔“(الاعتصام:64)امام ابوبکر ترمذی کا ارشاد ہے: ”صرف اور صرف اہل محبت ہی تمام اوصاف میں بلند ہمت ہوتے ہیں اور وہ یہ بلند ہمتی سنت کی اتباع اور بدعت سے اجتناب کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔“ (الاعتصام:62)امام ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:”ان السنن قوام الدین․“(الترغیب والترھیب:1/124)اور امام سیوطی نے اس موضوع پر ایک شان دار کتاب لکھی ، اس کا نام ہے ”مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة․“ (الترغیب والترھیب:1/126)

حضرت بشرحا فی فرماتے ہیں: ایک دفعہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم میرے خواب میں آئے اور پوچھا ”اے بشر!کیا تو جانتا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے ہم نشینوں میں کیسے بلند مرتبہ عطا کیا؟“میں نے کہا ”نہیں! یا رسول اللہ“ فرمایا:”میری سنتوں کی اتباع ، نیک لوگوں کا احترام وغیرہ کی وجہ سے…۔“(الاعتصام:16)”حضرت ابو عثمان حیری فرماتے ہیں:”اگر حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی صحبت کواختیارکرناچاہتے ہو توسنت کی اتباع کرو۔“(الاعتصام:65)اور امام عبد اللہ بن دیلمی فرماتے ہیں :”ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ دین اس وقت نکلنا شروع ہو جاتا ہے جب سنت کو چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر ایک ایک سنت کر کے سارا دین چلا جاتا ہے، جیسے رسی کا ایک ایک بٹ نکالنے سے رسی ختم ہو جاتی ہے۔“(سنن الدارمی:28)

مجدد الف ثانی علامہ سرہندی فرماتے ہیں :میں ہر وقت اپنے اور دوسرں کے لیے یہ دعا کرتا ہوں:
”اللھم أحیني متبعاً للسنة، وأمتنی متبعاً للسنة، وأحشرنی علی اتباع السنة․“(مقالاتِ عثمانی)

حضرت شیخ الہند اکثر وتروں کے بعد دو رکعات نفل بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے ، کسی نے پوچھا کہ”اس سے تو ثواب آدھا رہ جاتا ہے ؟ “آپ نے جواب دیا ”بھائی ! اس سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اتباع میں جی زیادہ لگتا ہے۔“حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ایک دفعہ بازار گئے اور جہاں کہیں سے ”کدو “ملے جمع کر کے لے آئے ، کسی نے پوچھا اتنے سارے کدوں کا کیا کریں گے؟ فرمایا ”میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کو ”کدو“ بہت محبوب تھے، میں اس سنت پر عمل کرتے ہوئے کدو کھاؤں گا۔“حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے فرمایا”ایک دفعہ فاقہ کی وجہ سے سنت پر عمل کرتے ہوئے دو پتھرپیٹ پرباندھے ، مجھے بہت سکون اور نورانیت محسوس ہوئی۔“شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کا اتباعِ سنت بہت مشہور تھا ،آپ آخری عمر میں بہت علیل ہو گئے تھے ، حکیموں اور خادمین نے بہت اصرار کیا کہ آپ کو تکلیف اور پریشانی ہوگی آپ ٹیک لگاکر کھاناکھالیں، آپ نے فرمایا ”نہیں! یہ خلافِ سنت ہے“اور ٹیک چھوڑ کر کھانا کھایا۔(اتباع سنت)

یہ سب اقوال اور واقعات آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں، ان جیسے انمول موتیوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ، کون کون سا واقعہ اور کون کون سا قول نقل کروں؟ صفحات کم ہو تے جا رہے ہیں اور سطریں سمٹتی جا رہی ہیں، جب کہ اسلافِ امت کا ہرہر قول اور ہرہر واقعہ آگے بڑھ کر یہی کہہ رہا ہے کہ ”مجھے بھی ذکر کرو…میرے بارے میں لکھو…میرا بھی تذکرہ ہونا چاہیے…!!“ بہت کچھ بیان ہوتا رہا اور بہت کچھ ہوتا رہے گا، بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا ،مگر فائدہ اور نتیجہ اسی وقت حاصل ہوگا جب عملی زندگی کو سنوارا جائے گا۔

اتباعِ سنت کا ثمرہ
﴿من یطع اللہ ورسولہ ند خلہ جنت تجری من تحتھا الانھار﴾․ترجمہ:جس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی وہ ایسی جنت میں داخل ہو جائے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کیا ہی عمدہ انعام کا ذکر کیا ہے۔ اتباعِ سنت کمالِ محبت کی دلیل ہے، اتباع سے جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت، رحمت، مغفرت اور رضاعت ملتی ہے، وہاں پر مدد و نصرت اور عزت و فلاح نصیب ہوتی ہے۔ نفسانی خواہشات دور ہوتی ہیں اور عبادت میں لذت محسوس ہوتی ہے۔ متبعِ سنت زمانہ کا امام و مقتدا ہوتا ہے۔ اتباعِ سنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا…نہ منزل ملتی ہے…نہ نجات ملتی ہے…نہ ترقیاں ملتی ہیں…نہ کمالات حاصل ہوتے ہیں۔سنتِ رسول صلی الله علیہ وسلم ایسا نور اور ایسی روشنی ہے…جس سے ہر قسم کی تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ جو شخص اس سایہ میں آجائے گا…خواہ وہ قصداً آیا ہو یا غیر ارادی طور پر…اپنے اختیارات سے آیا ہو یا غیر اختیاری طور پر…تو وہ ہر قسم کی گم راہی اور تاریکیوں سے محفوظ ہوجائے گا۔

ایک صا حبِ بصیرت بزرگ فر ما تے ہیں:اتبا ع سنت سے خوش گوار تبدیلی محسوس ہوگی… چین و سکون نصیب ہو گا … کا مو ں میں آسا نی و برکت نظر آئے گی …دولت اور وقت میں بر کت ہو گی…وہ لوگ جو آپ سے نفرت کرتے ہیں …وہ آپ سے محبت کر نے والے بن جائیں گے …آپ ہر دلعزیز بنتے جا ئیں گے ، اس لیے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں میں ایسی دلکشی اور کشش ہے کہ دوسروں کو اپنی طرف کھنچتی ہے، یہی کا فر کو بھی اپنی طرف ما ئل کر لیتی ہے …کافر بھی جب کسی سنت پر عمل کرنے والے کو دیکھے گا تو اس کی طرف مائل ہو گا۔ ( اتبا ع سنت : ۹۴ ، حوالہ اصلاحی خطبات )

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دفعہ ایک یہودی اور منا فق کے مابین فیصلہ کیا ، فیصلہ یہودی کے حق میں تھا ۔منا فق نے کہا حضرت عمر فاروق  سے فیصلہ کر واتے ہیں۔ دو نوں حضرت عمر کے پاس حاضر ہوئے ،سارا واقعہ سنایا گیا، یہودی نے کہا کہ ایک دفعہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم میرے حق میں فیصلہ کر چکے ہیں ، مگر میرے مد مقابل نے کہا کہ آپ سے فیصلہ کر وائیں ، حضرت نے کہا یہیں رکو ،میں فیصلہ کرتا ہوں، گھر گئے اور تلوار لاکرمنافق کا سر تن سے جدا کردیا اور فرمایا کہ جس کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پسند نہیں اُس کا اِس دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں!!

مفتی نظام الدین شا مزئی شہید  اس واقعہ کو ذکر کر کے فرماتے ہیں: صحا بہ کے ہاں منکر ِسنت کی سزا قتل ہے ۔ اب اس واقعہ کی روشنی میں وہ لوگ اپنے انجام پر غور کریں جو اپنی زندگی کے مختلف مو اقع میں سنت رسول کو جاننے کے باوجود تر ک کردیتے ہیں اور عملاً گویا منکر ہوتے ہیں، وہ اگر دنیا وی سزا سے بچ جا ئیں گے تو کیا وہ آخری عذاب سے بچ جائیں گے ؟ ترک سنت سے اللہ تعالیٰ کا غضب، قہر اور غصہ نازل ہو تا ہے اور زندگی کے خوب صورت پہلو مر جاتے ہیں ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تارکِ سنت کو اپنی شفاعت سے محروم فرما دیا۔ (ما ہنا مہ الفا روق، جلد: 1 ، شمار : 3)

دور حاضر میں اتباعِ سنت کا فقدان اور اثرات
آج سے ایک صدی قبل ”لارڈ میکا لے “ نے کہا تھا کہ ” میں ایسا نصاب اور پرو گرام تشکیل دوں گا ، جس سے یہ مسلمان اگر یہودی اور عیسائی نہ بن سکے تو مسلمان بھی نہیں رہیں گے۔ “ آج اس شاطر دماغ کا دعوی سچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں ، فرد ہو یا جماعت ، ایک گھر ہو یا پورا خاندان ،ایک چھوٹی سی بستی ہو یا بڑے سے بڑاشہر، غیر مسلم ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیت ہو یا مسلم ممالک کی غالب اکثریت ، ہر فرد مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے، مگر شکل و صورت اور وضع قطع سے وہ کہیں سے بھی مسلمان نہیں لگتا ۔ سنت کو سنت کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ہرطرف، ہر جانب اتباع سنت کا فقدان ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جہاں ایک طرف مسلمان مغلوب ہیں، ان کا خون ندی نالو ں کی طرح بہہ رہاہے، مسلمانوں کی بستیاں روئی کے گا لو ں کی طرح اُ ڑ رہی ہیں اور لمحہ بھر میں سینکڑوں مسلمان لقمہ اجل بن جاتے ہیں ، وہاں دوسری طرف اسلام پر نزع کا عالم طاری ہے ، ہر طرف فحاشی و عریانی کا طوفان برپا ہے ، مادیت کا سیلاب رواں ہے ۔ ہر طرف مغربیت کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، بدکاری اور شراب نوشی عام ہے ، رب کی نا فرمانیاں حد سے تجاوز کر چکی ہیں، ہر کوئی الحاد، زندقہ،بد دینی اوربے دینی میں مبتلا ہے، اخلاقی اقدار، روحانی بصیرت اور ایمانی جوہر کھو چکا ہے۔انٹر نیٹ، کمپیوٹر ، ٹیلی ویژن اور میڈیا کی تباہ کاریاں عام ہیں ، مساجد اور خانقاہیں ویران، جب کہ سینما گھر اور نیٹ کلب آباد ہیں۔

افسوس صرف یہ نہیں کہ کچھ معلوم نہیں، بلکہ جو معلوم ہے، وہ معمول میں نہیں ہے اور افسوس صد افسوس یہ ہے کہ آج کا دینی طبقہ بھی اس رخ پر چل پڑا ہے اور اسی بہاوٴ میں بہہ رہا ہے…!!آج ہم یہ رونا روتے ہیں کہ ہماری پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں …ہمارے قباء نوچے جا رہے ہیں … ہمارے ذاتی امور پر نکتہ چینی ہو رہی ہے … مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ آج مسا جد سے لے کر مدارس تک …خا نقاہوں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے دینی اداروں تک …ہم وارثان ِانبیا ء ہوکر بھی عملی دنیا میں کئی سنتوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں …کیا اس سے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا دل نہ دکھتا ہو گا…؟!! کیا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفا نہیں ہوں گے…؟!!کیا اللہ تعالیٰ اس پر ناراض نہیں ہوتے ہوں گے…؟!! تو پھر یہ آہ وبکا کس بات کی …؟!!

آج گلی کو چوں سے لے کر بڑی بڑی شاہ راہوں تک نا موس رسالت اور حر متِ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر احتجاج اور ریلیا ں نکال کر ہم ظاہری محبت کا اظہا رتو کر لیتے ہیں ،مگر صبح سے شام ،دن سے رات تک اور سر سے پاوٴں تک ہم حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی کئی سنتوں کو ذبح کر دیتے ہیں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہما رے دل آپ صلى الله عليه وسلم کے حقیقی مقام ، مرتبہ اورعظمت سے خالی ہیں، اس لیے کہ ہمارے دلوں میں دنیا اور اس دنیا کی محبت گھر چکی ہے ، ہمارے آئیڈیل وہ داغ دار لوگ بن چکے ہیں جو ملمع سازی کے ساتھ کیمرے کی سکر ین میں آجاتے ہیں، متبعِ سنت علماء و صلحاء سے ہمارانا طہ ٹوٹ چکا ہے ، ہمارے بچے نوجوان ہو کر بوڑھے ہو جاتے ہیں مگر سیرتِ طیبہ سے بالکل نابلد ہوتے ہیں ، ہم بچپن ہی سے بچوں کے ہاتھ میں لہوو لعب کے ایسے آلا ت پکڑا د یتے ہیں کہ وہ مرتے دم تک ان میں کھو کر سیرت النبی صلى الله عليه وسلم سے غافل ہو جا تے ہیں۔

ہم متبع سنت کیسے بن سکتے ہیں ؟
        اگر تم چاہتے ہو سارے زمانہ کا اَمن
        تو یہ راز پو شیدہ ہے محمد صلی الله علیہ وسلم کے خزانہ میں

اگر ہم چا ہتے ہیں کہ فرد سے جماعت تک، گھر سے خاندان تک ، بستی سے شہروں تک اور ملک سے پوری دنیا تک سب امن وآشتی کا گہوارہ بن جائیں تو ہمیں اپنی زند گیا ں بد لنی ہوں گی ، حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کے حقیقی مقام و مرتبہ کو پہچاننا ہوگا ۔ نیک وصالح علماء اور بزر گانِ دین کی صحبت اختیار کرکے دنیا اور اہل دنیا کی محبت نکالنی پڑے گی،اغیار کی مشا بہت چھوڑ کر نبوی رنگ میں رنگناہو گا ،اپنا ہر قول اور ہر فعل آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتو ں سے مزین کرنا ہوگا۔اس کا سب سے بہترین طر یقہ یہ ہے کہ ہم خودبھی اور اپنے بچوں کو بھی سیرتِ النبی صلی الله علیہ وسلم کامطا لعہ کرائیں۔قدرت اللہ شہاب ”شہاب نامہ“میں لکھتے ہیں: ”سیا سی شکستگی ،معاشی بد حالی ، ثقا فتی ابتری اور رو حانی اقدار کی بدحالی کے اس تاریک دور میں مسلمانوں کے دینی شعور کو سہارا دینے اور محکم رکھنے کے لیے علمائے کرام اور روحانی پیشو اوٴں نے بہت سے راستے اختیار کیے۔ ان راستوں میں ایک یقینی راستہ سیرت ِطیبّہ کی نشرواشاعت کا اہتمام تھا کیوں کہ احیائے ایمان میں حبِ رسول اور ذکرِ رسول صلی الله علیہ وسلم کیمیا کی طرح اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔“( شہاب نامہ ازقدرت اللہ شہاب)

خلا صہ کلام
امام اہل سنت حضرت مولاناسر فراز خان صفدر نے اتباع ِسنت پر اپنے دلی جذبات کا اظہار بہت عمدہ الفاظ میں کیا ہے ،جو اس مضمون کا لب ِ لباب اور خلا صہ ہے، فرماتے ہیں: ” جناب ِنبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم عین فطرِت انسانی کے موافق اور متوازی ہے۔اورانسانی فطرت کے دبے اورپھٹے ہوئے جملہ تقاضوں کی ترجمانی ہے اوراس کی خلاف ورزی فطرتِ انسانی سے بغاوت ہے۔ہادیِ بر حق ،رہبرِکامل،خاتم النبیین،حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی شر یعت اورآئین جس تو جہ کا مستحق ہے ،اگر ویسی ہی توجہ اس کی طرف کی جائے توآج بھی مسلمان وہی جوشِ ایمانی اوروہی مبہوت کن کارنامے دنیا کوپھر دکھا سکتے ہیں۔جو آں حضرات کے صحابہ کرام نے دکھا ئے تھے۔ مذھب ِاسلام اور سنت ِ رسول ہی کے ذریعہ دنیا میں کا مل اتحا د، صحیح عدل اور مکمل امن قائم ہو سکتا ہے، نہ ان جیسا رہبر کامل دنیا میں پیدا ہوا اور نہ تاقیامت پیدا ہوگااور نہ کو ئی نظام اور آ ئین ہی ایسا موجود ہے ۔

ولادت سے لے کر وفات تک ، خو شی سے لے کر غمی تک ،زندگی کے ہرپہلو اورہرشعبہ میں اس کی اصلاح کے لیے ہم کو صرف سنت ِ رسول اللہ اور شر یعت ِ اسلامی کی طرف متو جہ ہونا پڑ ے گا ، جو ہر طرف سے محفوظ و موجود ہے ۔کسی دو سری شر یعت ،کسی دوسرے ہادی، کسی اور آئین اور کسی رسم ورو اج کی طرف نہ تو ہمیں نگا ہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔بھلا جس کے گھر میں شمعِ کا فوری روشن ہو ،اس کو فقیر کی جھو نپڑی سے اس کا ٹمٹما تا ہوا چراغ چرانے کی کیا ضرورت اور حا جت ہے ؟ ہاں! مگر کوئی خوش نصیب اس کی طرف ہا تھ بھی گو بڑھائے۔ کو تا ہ دست اور بد قسمت کوسنتِ رسول اللہ کے آب ِ حیا ت سے کیا فا ئد ہ ؟ #
        یہ بزم مئے ہے یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
        جو بڑھ کر خود اُ ٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے
                    (راہ سنت :24)

Flag Counter