Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1436ھ

ہ رسالہ

2 - 16
کس نے سکھائے اسماعیل کو آدابِ فرزندی!

مفتی امداد الحق بختیارپروہی
	
جب قدرت کسی بچے کے مستقبل کو تاب ناک اور روشن بنانا چاہتی ہے، اسے شہرت کی بلندی اور عزت واکرام کی چوٹی پر فائز کرنا چاہتی ہے، آئندہ ملک وملت کی زمام قیادت اس سے وابستہ کرنا چاہتی ہے، اسے دین کا داعی، مصلح، مجدد اور برگشتہ لوگوں کا ہادی بنانا چاہتی ہے توابتدائے آفرینش سے ہی اس کے اندر اوصاف حمیدہ، اخلاق عالیہ، ظرف وسیع، ذہن ثاقب اور فکر صحیح جیسی ستودہ صفات ودیعت رکھتی ہے اور بچپن سے ہی اس کی گفتار وکردار، نشست وبرخاست اور زندگی کے ایک ایک عمل اور ایک ایک قول سے صلاحیت وصالحیت کا نور جھلکتا ہے، دنیا کے اندر سب سے بڑا اعزاز جس سے کسی انسان کو نوازا گیا ہے، وہ نبوت ورسالت ہے، اس سے بڑھ کر نہ کوئی اعزاز ہوا ہے اورنہ ہوگا۔

جس عظیم ہستی کے مقدر میں یہ اعزاز ہوتاہے، اللہ تعالیٰ خاص اپنی نگرانی اور فرشتوں کی نگہبانی میں اس کی پرورش وپرداخت کرتے ہیں، انسانیت کی تمام منفی صفات سے اسے پاکیزہ کردیا جاتا ہے اور وہ سراپا صفات حسنہ سے آراستہ وپیراستہ ہوتے ہیں، ان سے ایسے ایسے اعمالِ صالحہ اور اخلاقِ کریمانہ کا صدور ہوتا ہے کہ اگر انسانیت اس کے عشر عشیر پر بھی عمل پیرا ہوجائے تو کام یابی وکامرانی اس کا مقدر بن جائے، اللہ تعالیٰ نے اپنے جن پیغمبروں کا قرآن کریم میں ذکر کیا ہے، ان میں سب سے زیادہ حیرت انگیز حضرت اسماعیل عليه السلام کی طفولیت کا واقعہ ہے، جو اطاعت وفرماں برداری، ذہانت وذکاوت کا ایک ایسا نمونہ ہے، جسے پیش کرنے سے پوری دنیا عاجز وقاصر ہے۔

ناامیدی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ا للہ تبار ک وتعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے حضرت ابراہیم علیہ السلا م کو ایک ولد رشید عطا کیا اور جب وہ فرزند عزیز، یعنی اسماعیل علیہ السلام چلنے پھرنے لگے، بلوغ کی منزل کے قریب پہنچ گئے اور اس لائق ہوگئے کہ قوت بازو بن کر والد کا سہارا بنیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلا م نے مسلسل تین روز تک ایک خواب دیکھا کہ میں اپنے لڑکے اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان یعنی ذبح کررہا ہوں اور یہ بات طے شدہ ہے کہ انبیاء علیہم ا لسلام کا خواب وحی ہوتاہے، اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اللہ کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کیا اور لختِ جگر کے سامنے اپنا خواب بیان کیا، تاکہ اس کا امتحان لیں کہ وہ اس آزمائش میں کس حد تک پورا اترتا ہے، لیکن وہ بھی اللہ کے خلیل کا بیٹا تھا اور اسے خود منصب رسالت پر فائز ہونا تھا، وہ بیٹا جن کے صلب سے سید الاولین والآخرین صلی الله علیہ وسلم دنیا میں تشریف لانے والے تھے، اس بیٹے نے بھی پلٹ کر یہ نہیں پوچھا کہ ابا جان ! مجھ سے کیاجرم سرزد ہوا ہے؟ میرا قصور کیا ہے کہ مجھے موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے؟ اس میں کیا حکمت اور مصلحت ہے؟ بلکہ بیٹے کی زبان پر ایک ہی جواب تھا:﴿یا أبت افعل ما تؤمر﴾ ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں اور انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، اس جواب سے جہاں حضرت اسماعیل عليه السلام کے بے مثال، جذبہٴ جانثاری کی شہادت ملتی ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کم سنی ہی میں اللہ نے انھیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا کیا تھا نیز :﴿ستجدني إن شاء ا للہ من الصٰبرین﴾کے جملے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا غایت ادب اور کمال تواضع کو دیکھئے کہ ان شاء اللہ کہہ کر معاملہ اللہ کے حوالے کردیا اور اس وعدہ میں جو دعویٰ کی ظاہری صورت پیدا ہوسکتی تھی اسے ختم فرمادیا، دوسرے آپ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ ”ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے“ لیکن اس کے بجائے آپ نے فرمایا کہ ”آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے“ جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرمادیا کہ صبر وضبط تنہا میرا کمال نہیں، بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوئے ہیں ،ان شاء اللہ میں بھی ان میں شامل ہوجاؤں گا،اس طرح آپ نے اس جملہ میں فخر وتکبر، خود پسندی اور پندار کے ہر ادنی شائبے کو ختم کر کے اس میں انتہا درجہ کی تواضع وانکساری کا اظہار فرمایا۔

پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اکلوتے فرزند کو قربان گاہ لے کر پہنچے تو سنیے اس فرماں بردار اور نیک بخت لڑکے نے کیا کہا: ابا! آپ مجھے اچھی طرح باندھ دیں، تاکہ میں زیادہ نہ تڑپ سکوں اور میری آنکھوں پر کپڑا لپیٹ دیں، کہیں میرے چہرہ کو دیکھ کر آپ کی پدرانہ محبت نہ جاگ اٹھے اور اطاعتِ حکمِ الہٰی میں کچھ کمی نہ آجائے اوراپنا کرتاسمیٹ لیں، کہیں میرے خون کی چھینٹیں آپ کے کپڑوں پر نہ لگ جائیں اور میرا ثواب گھٹ جائے اور آپ کے کپڑوں پر میرا خون دیکھ کر والدہ کو زیادہ غم نہ ہو، چھری خوب تیز کرلیں، تاکہ حکم الہٰی کی اطاعت میں ذرہ برابر تاخیر نہ ہو اور والدہ میرا کرتا دیکھنا چاہیں تو دکھا دیں،تاکہ ماں کی ممتا کے سمندر میں کچھ سکون اور ٹھہراؤ آجائے۔

الغرض حضرت ابراہیم عليه السلام نے آپ کو چت لٹا یااور آپ کی گردن پر پوری طاقت اور پوری ہمت وضبط کے ساتھ چھری چلانے لگے، لیکن اللہ جل جلالہ کا مقصد کچھ اورہی تھا، چھر ی سے گردن کٹ کر جسم سے الگ ہونا تو دور، گردن پر ہلکی خراش بھی نہیں آئی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پیتل کا ایک ٹکڑا بیچ میں حائل کردیا تھا، حضرت اسماعیل عليه السلام نے کہا ابا جان! میرا چہرہ آپ کے سامنے ہے، شفقت پدری جوش مارتی ہوگی، شاید اس لیے آپ سے چھری صحیح طور سے نہیں چل رہی ہے، آپ مجھے کروٹ لٹاکر چھری چلائیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ قرآن کریم میں اس کو ذکر فرمایا :﴿فلما أسلما وتلہ للجبین﴾ چناں چہ ایسا ہی کیا گیا، لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی، مگر امتحان میں کام یابی ہوگئی اور غیب سے نداء آئی :﴿قد صدقت الرؤیا﴾ تم نے خواب سچ کر دکھا یا جو کام تمہارے کرنے کا تھا تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اب آزمائش پوری ہوچکی ، اس لئے اب انہیں چھوڑ دو۔

ایک بوڑھے باپ کی طرف سے ارمانوں سے مانگے ہوئے بیٹے کی یہ اتنی بڑی قربانی اور ایک معصوم بچے کی ایسی دانش مندی، اطاعت شعاری وجانثاری اور فدا کاری ہے،تاریخ اقوام عالم جس کی ادنی نظیر پیش کرنے سے بھی عاجز ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں انبیاء علیہم السلام کے جذبہٴ خلوص ، اطاعت وفرماں برداری سے کچھ حصہ عطا فرمائے۔ آمین!

اس پورے واقعہ سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ قربانی صرف اس لیے مشروع کی گئی ہے؛ تاکہ انسانوں کے دل میں یہ احساس، یہ علم اور یہ معرفت پیداہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہر چیز پر فوقیت رکھتا ہے، دین در حقیقت اتباع کا نام ہے اور جب اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم آجائے تو عقلی گھوڑے دوڑانے کا موقع نہیں، حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنا مناسب نہیں، ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی گم راہیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اللہ کے ہر حکم میں حکمت اور مصلحت تلاش کرتے ہیں، عقلی فائدے ڈھونڈتے ہیں، کوئی مصلحت اور فائدہ نظر آجائے تواس پر عمل کرتے ہیں، ورنہ اس کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں، یہ کوئی دین نہیں ہے اور اس کا نام اتباع نہیں ہے، اتباع وہ ہے جو حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہما السلام نے کر کے دکھایا۔

قربانی ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ دین اللہ کے حکم کی اتباع کا نام ہے، جب اللہ کا کوئی حکم سامنے آجائے تو چوں وچراں کے بغیر اپنا سر جھکا دے اور اس حکم کی اتباع کرے ،چاہے اس میں کوئی حکمت، مصلحت اور دنیوی فوائد ہمیں معلوم ہوں یا نہ ہوں، نیز قربانی کے اس واقعہ سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ اولاد کو ہر حال میں والدین کے حکم کی اتباع کرنی چاہیے،(بشرطیکہ وہ حکم شریعت کے خلاف نہ ہو)اور اس میں ہمیں پس وپیش اور لیت ولعل سے کام نہیں لینا چاہیے، والدین کے ہر حکم کو سر آنکھوں پر رکھنا چاہیے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس واقعہ میں ہمارے نوجوانوں کے لیے بہت مکمل نمونہ موجود ہے، جو والد کے حکم پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہوگئے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے ہر حکم کو زندگی کے ہر شعبے میں مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے والدین کا اطاعت شعار اور فرما ں بردار بنائے،آمین!

Flag Counter