Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1436ھ

ہ رسالہ

4 - 16
تقویٰ  --- معیارِ عز وشرف

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
	
ہر انسانی معاشرے میں عزت وشرافت کے معیارات ہوتے ہیں اور ہر عام وخاص او رہرکس وناکس ان معیارات مطلوبہ تک پہنچنے کی کوشش وسعی وجہد میں اپنی عمر کا بہترین حصہ اور اپنے ذہن کی بہترین صلاحیتیں صرف کرتا ہے، اس ساری کاوش کے نتیجے میں کچھ لوگ تو اس انسانی معاشرے کے اعلیٰ معیار تک پہنچ پاتے ہیں اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو محروم رہ جاتے ہیں اور اپنی یہ خواہش اگلی نسلوں کو منتقل کرکے قبروں میں جااترتے ہیں اور بعض اوقات تو قرنوں تک اس منزل کا حصول ناممکن رہتا ہے، انصاف کا تقاضا یہ ہے معیار عز وشرف ایسا ہو جسے ہر کوئی حاصل کرسکے، تب ایک کھلی اورعام دوڑ ہواور قوتِ بازوسے جو اس معیار مطلوب پر پہنچ سکے پہنچ لے۔

”دولت“ کم وبیش تمام انسانی معاشروں میں معیار عزوشرف سمجھا جاتا ہے ،خاص طور پر مغربی تہذیب نے اسی معیار کو بہت ہی پزیرائیبخشی ہے، یہودیوں نے اس کو اپنی زندگی کا مقصد ہی بنا لیا ہے اور ہندوتودولت کے نام پر لکشمی کی پوجا بھی کرتے ہیں، بظاہر دیکھنے میں یہی لگتا ہے کہ دولت سے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں، تمام خوشیاں خریدی جاسکتی ہیں، دولت کی دیوی جس پر مہربان ہو وہ معاشرے میں بہت جلد مرکزیت حاصل کر لیتا ہے، سب اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، رنگ، روپ، صحت ، تعلقات، تعلیم اور مستقبل گویا اس کی ساری دنیا ہی روشن ہوچکتی ہے؛ لیکن کیا اس کے حصول کے مواقع سب انسانوں کے لیے یکساں ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب”نہیں“ میں ہی ہے ، ایک مزدور صبح سے شام تک دھوپ میں کھڑے ہو کر خون پسینہ ایک کرتا ہے اور چند سکے ہی کماپاتا ہے، جب کہ دوسرا انسان ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور کروڑوں اربوں کا وارث بن جاتا ہے، تب کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ عزوشرف کو دولت سے منسوب کر دیا جائے؟

بعض معاشروں میں ”صحت“ معیار عزوشرف ہوتا ہے، تاتاریوں کو ایک عالم دین نے اسلام کی دعوت دی، ان کے سردار کو بات سمجھ تو آگئی، لیکن اس نے کہا کہ ہمارے ہاں پہلوانوں کی بات چلتی ہے، یہ ہمارا قومی پہلوان ہے، آپ اس سے کشتی کر لیں او رجیت جائیں تو ہم آپ کی بات مان لیں گے، وقت مقررہ پر پہلوان اور وہ عالمِ دین اکھاڑے میں گھتم گتھا ہوئے، تاریخ گواہ ہے کہ چند ثانیوں کے بعد وہ پہلوان چاروں شانے چت تھا ؛ کیوں کہ فتح شکست تو بہرحال الله تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، صحت کا معیار رکھنے والا یہ تاتاری قبیلہ مسلمان ہو گیا، جس پر علامہ اقبال  نے کہا #
        ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
        پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

ہمارے ہاں بھی ایسے رواج موجود ہیں کہ پورا بکرا کھا لینے والے کو اور دودھ دہی کے کئی گلاس چڑھالینے والے کو ہیرومان لیا جاتا ہے ؛ لیکن سوال پھر یہ ہے کہ کیا انسانی معاشرے کے سب لوگ صحت کا یہ معیار حاصل کرسکتے ہیں؟ جوب پھر ” نہیں “ میں ہے کہ قدرت نے ہر کسی کو تو ایسا جسم نہیں دیا کہ وہ اس کی پرورش کرکے پہلوان بن سکے ؛ پھر بیماریاں، ذہنی تناؤ اورپریشانیاں ہر کسی کو اس قدر لاحق ہوتی ہیں کہ تن سازی اور صحت مندی کا حصول ممکن ہی نہیں رہتا اور یہ سب کچھ ہو تو بھی وسائل اورمواقع کی کمی آڑے آتی ہے ؛ اکثرانسانی معاشروں میں ”نسل“ بھی عزوشرف کا معیار ہوتی ہے، جیسے ہندؤوں میں برہمن عزت والا ہے، خواہ کتنا ہی عمدہ باصفا انسان ہو، پنجاب کے قدیم علاقوں میں ”چوہدری“ اور ”کمی“ کا تصور، سندھ کے دیہی علاقوں میں ”وڈیرہ“ اور ”ہاری“ کا تصور اوردنیا بھر کے معاشروں میں کم وبیش اسی طرح کے صدیوں قدیم تصورات بھی اسی نوع سے مستعار ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا انسان اپنی مرضی سے اپنی نسل کا چناؤ کرتا ہے؟ یا پھر محنت ومشقت کرکے اپنی نسل تبدیل کی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے اس کا جواب بھی ”نہیں“ میں ہے ، دولت اور صحت کی دوڑ میں توپھر بھی ایک آدھ فی صد لوگ آگے نکل سکتے ہیں؛ لیکن نسل میں تو یہ منزل ناممکن الحصول ہے ؛ تب یہ ظلم نہیں کہ ” نسل “ کو معیار عزوشرف بنا کر انسانوں میں پیدائشی تقسیم کرکے طبقاتی خلیج پیدا کر دی جائے؟ پھر ایک انسانی معاشرے کے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں وقتی طور پر عز وشرف کے معیارات بنتے رہتے ہیں، مثلاً ڈرائیوروں میں بہترین گاڑی چلانے والا، طالب علموں میں محنتی طالب علم، ڈاکٹروں میں شفا بانٹنے والا ڈاکٹر، معلمین میں اچھی تیاری کرواکے بچوں کو پاس کرانے والا معلم اور سیاست دانوں میں خوش اخلاق، مسائل حل کرنے والا اور مرجع خلائق راہ نما وغیرہ اپنے اپنے گروہوں میں عزت وشرف کے مستحق ہوتے ہیں ؛ لیکن یہ سب بھی وقتی ، عارضی اورختم ہونے والے معیارات ہیں، مثلاً بس کے بغیر ڈرائیور بے کار ہے، کتب کے بغیر طالب علم محنت نہیں کر سکتا، دوائیاں نہ ہوں تو ڈاکٹر کس کام کا؟ اور آمریت کی موجودگی میں کوئی لیڈر پنپ نہیں سکتا وغیرہ ؛ تب ایسا معیار شرف ہونا چاہیے جو ہر وقت، ہر کسی کے لیے او رہمیشہ باقی رہنے والا ہو۔

تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں سے معاشرتی عزوشرف کا معیار”تقویٰ“ کا ہونا بہت ساری مشترکات میں سے ایک مشترک ہے، یہ معیار انسانی معاشرے میں موجود ہر کوئی حاصل کر سکتا ہے، ہر وقت حاصل کرسکتا ہے او رجب تک چاہے اسے باقی رکھ سکتا ہے؛ چاہے تو صرف اس دنیا میں او رچاہے تو آخرت میں بھی اس کے ثمرات سمیٹ سکتا ہے، اس معیار شرف کے حصول کے لیے دولت، صحت، خاندان او رکسی خارجی وداخلی انسانی ومادی عنصر کی کوئی ضرورت نہیں ؛ اس معیار کے حصول کے لیے کسی نسل سے ہونا کوئی ضروری نہیں، کسی علاقے اور کسی جاگیر کی اس پر کوئی اجارہ داری نہیں، اس چشمے کا فیض عام ہر وقت ہر کسی کے لیے جاری وساری ہے، جو چاہے یہاں سے آسودہ ہو لے اور دوسروں کو بھی راحت بہم پہنچائے، تقوی کا مطلب ”خوف خدا“ ہے، جنگل کے اندر ایک نوجوان اپنے خیمے میں چراغ کی روشنی میں مصروف مطالعہ تھا، ایک بھٹکی ہوئی شہزادی نے اس سے پناہ چاہی، وہ اپنا چراغ لے کر باہر آگیا اور شہزادی خیمے میں سدہار گئی، شیطان نے اس نوجوان پر حملہ کیا، اس نے اپنی چھوٹی انگلی چراغ کی لَو میں جلائی، تکلیف ہونے پر کھینچ لی؛ پھر اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اس آگ کو تو برداشت نہیں کرسکے اس سے کہیں زیادہ دہکتی ہوئی دوزخ کی آگ کو کیسے برداشت کرو گے ؟ سات دفعہ شیطان نے اس پر حملہ کیا، سات دفعہ اس نے اپنی انگلی جلائی؛ پھر بالآخر الله تعالیٰ کی رحمت نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے بزرگ صحابی حضرت ابی بن کعب  سے سوال کیا: تقوی کیا ہے ؟ انہوں نے جواباً سوال کیا کہ اے امیر المومنین! کیا آپ کبھی کانٹوں والے راستے سے گزرے ہیں؟ جی ہاں ! کیسے گزرتے ہیں؟ ” اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں، تاکہ کوئی کانٹا ان میں الجھ کر انہیں داغ دار نہ کر دے “ فرمایا: یہیتقوی ہے ؛ گویا اس دنیا سے یوں گزر جانا کہ گناہوں سے دامن آلودہ نہ ہو ، بازار سے گزر جانا؛ لیکن آنکھوں کو میلانہ ہونے دینا، رزق کمانا، لیکن سوداور حرام سے دستر خوان کو خراب نہ ہونے دینا ، موسیقی سے کانوں کو بچائے رکھنا، لڑائی جھگڑے میں بد کلامی اور گالم گلوچ سے زبان کو پاکیزہ رکھنا او راپنے دیگر معاملات میں قلب وفکر کی حفاظت تقوی کی تعلیمات کا خلاصہ ہے، حضرت بلال، حضرت سمیہ، حضرت یاسر او رحضرت عمار رضی الله عنہم دولت، صحت، خاندان، نسل اور علاقہ ہر لحاظ سے تہی دامن تھے، نسلوں سے غلامی ان کا مقدر تھی، لیکن صرف تقوی کی بنیاد پر انہوں نے ایسا مقام پایا کہ سرورِ عالم صلی الله علیہ وسلم نے جنت میں حضرت بلال  کے قدموں کی چاپ سنی، آج کوئی والدین اپنے بچوں کا نام فرعون، نمرود، ہامان اور قارون نہیں رکھتے؛ حالاں کہ دنیاوی اعتبار سے یہ کتنے ہی کام یاب لوگ تھے؛ لیکن کتنے ہی والدین ہیں جو قیامت تک اپنے بچوں کے نام ان مقدس ہستیوں کے نام پر رکھتے رہیں گے۔

روزِ محشر کے اختتام پر جب جنت الفردوس کے دروازے پر اگلی پچھلی امتوں کے بے شمار لوگ منتظر ہوں گے کہ کب محسنِ انسانیت تشریف لائیں او راس جنت کا دروازہ سب سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے ہی کھولا جائے تو بلال  نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی سواری کی نکیل تھامی ہوئی ہوگی، دروازہ کھو لا جائے گا او راگرچہ جنتی کی حیثیت سے تو خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم ہی پہلے داخل ہوں گے، لیکن عملاً سواری کی نکیل تھامے حضرت بلال سب سے پہلے اس جنت میں داخل ہو رہے ہوں گے، اس دنیا میں بظاہر اگرچہ دولت، دنیا، اقتدار اور اعلیٰ نسل کے لوگ ہی عزت والے ہیں ؛ لیکن یہ محض ایک فریب کے سوا کچھ نہیں، یہ عزت ان انسانوں کی نہیں ،بلکہ ان سے وابستہ مراعات کی ہے، اہل دولت جب دولت سے محروم ہو جاتے ہیں توان کے تلوے چاٹنے والے انہیں کے سروں پر چھتر لگاتے ہیں، اہل اقتدار کی چاپلوسیاں کرنے والے اقتدار سے علیحدگی پران کو پہچانتے ہی نہیں کہ تو کون؟ میں کون؟ اور جس نے نسلی برتری کی بنا پر تفاخر کا انجام دیکھنا ہو وہ دنیا کے عظیم خاندانوں کے زوال کی داستانیں پڑھ کر دیکھ لے، حقیقت یہ ہے آج بھی قبیلہ بنی نوع انسان کے افراد دل وجان سے کسی وصف کی عزت وتوقیر وتکریم کرتے ہیں تو وہ ” تقویٰ“ ہی ہے۔ عبرت کا مقام ہے کہ بادشاہوں کی قبروں پر ” سیر وسیاحت“ کے لیے جایا جاتا ہے ؛ جب کہ اولیاء الله کے مقابر کی زیارت آج بھی مذہبی عقیدت کے ساتھ کی جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام اس دنیا میں تشریف نہ لاتے تو جنگل کا بادشاہ شیرنہ ہوتا اور وحشت وبربریت اوردرندگی کی علامت بھیڑیا اور ریچھ نہ ہوتے، بلکہ حضرت انسا ن ہی جنگلی پن میں اور درندگی میں ان کو پیچھے چھوڑ چکے ہوتے جیسا کہ تاریخ کے اوراق میں درج بعض انفرادی واقعات سے ثابت ہوتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے انسان کو انسانی شعائر سے آگاہ کیا، اسے خاندان جیسی نعمت عظمی کا ادراک عطا کیا، رشتوں کا تقدس اور چادر اور چاردیواری کی تمیز سکھائی، تہذیب وتمدن کی تعلیم دی اور معرفت الہٰی اور تقوی تو ان انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا خاصہ تھی ہی، جو بنی نوع انسان کے بھلے مانسوں کی پہچان بنی ، انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے ہٹ کر کوئی تمدن کتنا ہی ترقی کر لے او راس کی راتیں دنوں سے کتنی ہی زیادہ روشن ہو جائیں اور اس کی تیز رفتاری سورج چاند ستاروں کو ہی مات دے دے او راگرچہ اس کی تعلیمی وتہذیبی ادارے سارا سال اور دن رات شاد باد رہیں، لیکن ان سب کے باوجود وہ تمدن انسانیت سے عاری اور حیوانیت سے قریب تر ہو گا، بیسیویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز کے عالمی حالات اس بات کی بہت تازہ اور ناقابل تردید شہادتیں ہیں۔

انسانیت کا اعلیٰ وصف”تقوی“ ہی انسانوں میں انسانیت کا ضامن ہے، یہ ”تقوی“ صرف ایک ہی طریقے سے رب ذوالجلال کے ہاں مقبول ہے اور وہ طریقہ محسن انسانیت کا بتایا ہوا طریقہ ہے، باقی سب طریقے جو اس کے علاوہ ہیں گزشتہ انبیاء کی تعلیمات کو مسخ کرکے بنائے گئے ہیں یا پھر تکمیل قرآن مجید کے بعد خود سے تراشے گئے ہیں، جن کی کہ کوئی سند الله تعالیٰ کی کتاب میں موجود نہیں ہے، ایک ایک سنت کو تازہ کرنا، پہلے اپنے پانچ چھ فٹ کے جسم پر اسلام نافذ کرنا اور پھر اپنے گھر کی ریاست میں بزورقوت اس دین کو جار ی کرنا ”تقوی“ کے اولین تقاضے ہیں اور پھر کسی ایسے گروہ کے ساتھ مل جانا جو دنیا بھرمیں الله تعالیٰ کی زمین پر الله تعالیٰ کے نظام کو نافذ کرنے کی محنت کر رہا ہو الله تعالیٰ کے قرب اور دنیا وآخرت میں فوز وفلاح حکم یابی وکامرانی او رنجات کا ذریعہ ہے۔

Flag Counter