Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1436ھ

ہ رسالہ

15 - 16
دینی ماحول کی فراہمی، والدین کی اہم ذمے داری

مولانا خالد سیف الله رحمانی
	
انسان کی فطرت میں بنیادی طور پر خیر کا غلبہ ہے، اسی لیے ہر شخص سچائی، انصاف، دیانت داری، مروت اور شرم وحیا کو قابل تعریف سمجھتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جھوٹ، ظلم، خیانت، بے مروتی او ربے حیائی کو ناپسند کرتا ہے، یہاں تک کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص اس کو جھوٹا کہہ دے تو اس سے اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور بعض اوقات یہ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، انسان بعض دفعہ بے حیائی کا کام کرتا ہے ؛ لیکن اپنے عمل پرپردہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ، یہ دراصل فطرت کی آواز ہے؛ اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر بچہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسلام پر پیدا ہوتا ہے، یعنی الله کی فرماں برداری کے مزاج پر پیدا کیا جاتا ہے؛ لیکن اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں:” کل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یھودانہ، اوینصرانہ، او یمجسانہ․“

لیکن خارجی حالات کی وجہ سے بہت دفعہ انسان اپنی اصل فطرت سے ہٹ جاتا ہے، اس کا رحجان گناہ کی طرف بڑھنے لگتا ہے، ظلم وناانصافی، بے حیائی وبے شرمی، کبروغرور اور دوسروں کی تحقیر سے اس کے قلب کو تسکین ملتی ہے، یہ انسان کی اصل فطرت نہیں ہے ؛ بلکہ خارجی عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والا انحراف ہے!

جو خارجی عوامل انسان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، وہ بنیادی طور پر دو ہیں: ایک: ماحول، دوسرے: تعلیم، تعلیم کامطلب تو واضح ہے، ماحول کے اصل معنی گردوپیش کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان رہتا ہے، فکر ونظر او رعملی زندگی میں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، پانی کی اصل فطرت ٹھنڈا ہونا ہے، وہ نہ صرف خود ٹھنڈا ہوتا ہے ؛ بلکہ دوسرے کو بھی ٹھنڈک پہنچاتا ہے ؛ لیکن جب سخت گرمی او رتپش کا موقع ہوتا ہے اور دُھوپ کی تمازت بڑھی ہوئی ہوتی ہے تو پانی بھی گرم ہو جاتا ہے او رپینے والوں کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی، اسی طرح انسان پر اس کے ماحول کا اثر پڑتا ہے۔

اگر اس کو نیک، شریف، با اخلاق لوگوں کا ماحول میسر آجاتا ہے تو اس کی فطری صلاحیت پروان چڑھتی ہے اور اس کی خوبیاں دو چند ہو جاتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے پانی میں برف ڈال دیا جائے کہ اس سے اس کی ٹھنڈک اور بڑھ جاتی ہے اور یہ پانی پیاسوں کے لیے اکسیر بن جاتا ہے ، اگر اس کو غلط ماحول ملے تو اس کے اندر جو خوبیاں تھیں وہ بھی بتدریج ختم ہو جاتی ہیں، اس کی مثال اس صاف شفاف پانی کی ہے، جس کے اندر کسی نے گندگی ڈال دی ہو۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ماحول کی اہمیت او راس کے اثرات کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نیک آدمی کی مثال اس شخص کی ہے جو مشک رکھے ہوا ہو، اگر تم کو اس سے مشک نہ مل سکے تو خوشبو تو مل جائے گی اور خراب آدمی کی دوستی وہم نشینی کی مثال بھٹّی دُھونکنے والے کی ہے، اگر تمہارا کپڑانہ جلے تو کم سے کم اس کے دُھوئیں سے نہ بچ سکو گے۔ (بخاری،باب المناسک)

ماحول کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن وحدیث میں اس کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ انسان اچھے ماحول میں رہے اور خراب ماحول سے اپنے آپ کو بچائے، الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تم راست گو اور راست عمل لوگوں کے ساتھ رہا کرو: ﴿کونوا مع الصادقین﴾․(توبہ)

مدینہ تشریف لانے کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے تمام مسلمانوں پر یہ بات واجب قرار دی گئی کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کو چھوڑ کر مدینہ میں آکرمقیم ہو جائیں، چناں چہ جزیرة العرب کے طول وعرض سے صحابہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں آباد ہو گئے، ہجرت کرنے والوں کی تعداد چند سوتھی؛ لیکن فتح مکہ کے موقع پر جو لوگ آپ کے ہم رکاب تھے، ان کی تعداد دس ہزار تھی، اور ظاہر ہے کہ فتح مکہ کی مہم میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ مدینہ بالکل خالی ہو جائے، بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کے علاوہ بہت سے جوان بھی مدینہ میں موجود رہے ہوں گے ؛ تاکہ مدینہ کا تحفظ خطرہ میں نہ پڑ جائے، ان میں بیشتر لوگ ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے، ہجرت کے حکم کا بنیادی سبب یہی تھا کہ لوگوں کو ایک معیاری دینی ماحول ملے، یہ ماحول ہی کا اثر تھا کہ جو لوگ ظلم وجور، قتل وقتال، بے حیائی وبے شرمی اور شراب وکباب کے لیے مشہور تھے، انہوں نے ایک ایسی بلند پایہ سوسائٹی کا نقشہ چھوڑا کہ انبیائے کرام کے سوا زمین کے سینے پر اور آسمان کے سائے میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی، یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بافیض صحبت اور ماحول کا اثر تھا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے مختلف طریقوں پر ماحول سازی کا حکم دیا ہے جیسا کہ گذرا، آپ نے اچھے لوگوں کی صحبت اختیا رکرنے کی ترغیب دی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ فرض نمازوں کے علاوہ وہ دوسری نمازیں گھروں میں پڑھو، یہ افضل طریقہ ہے۔(بخاری)

حضرت عبدالله بن عمر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ گھروں میں نماز پڑھا کرو، اس کو قبرستان نہ بناؤ۔ ( مسلم)

فقہاء نے بھی یہ بات لکھی ہے کہ فرض نمازوں کے پہلے اور بعد میں جو سنن مؤکدہ ہیں، انہیں گھر میں ادا کریں۔ (حاشیة الطحطاوی:1/30)

غور کیجیے کہ مسجد سے زیادہ پاکیزہ جگہ کون سی ہو سکتی ہے او رنماز جیسی عبادت کے لیے کون سا مقام ہے جو اس سے زیادہ موزوں ہو؛ لیکن اس کے باوجود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سنن ونوافل کو گھر میں پڑھنے کا حکم دیا، بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی وجہ سے گھر کا ماحول دینی بنے گا، بچے جب اپنے بڑوں کو نماز پڑھتے ہوتے دیکھتے ہیں تو اکثر وہ ان کی نقل کرنے لگتے ہیں او رنماز کی اہمیت ان کے تحت الشعور میں بیٹھ جاتی ہے۔

اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی ہے، حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ؛ بلکہ اس میں تلاوت کیا کرو، خاص کر سورہٴ بقرہ کی کہ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے، شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ ( مسلم)

گھر میں تلاوتِ قرآن ایک ایسا عمل ہے جو ماحول بنانے میں بہت مؤثر ہوتا ہے، گھر کے بچوں کے ذہن میں بھی یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمیں قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے گھر میں ذکر کرنے کی فضیلت بیان کی ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں الله کا ذکر کیا جاتا ہے او رجس گھر میں الله کا ذکر نہیں ہوتا ہے، ان کی مثال زندہ اورمردہ شخص کی ہے ۔ ( مسلم)

اسی طرح اس بات کو بھی بہتر قرار دیا گیا ہے کہ گھر میں کوئی جگہ نماز کے لیے مخصوصی کر لی جائے، اگر گھر میں نماز پڑھنی ہو تو وہیں نمازپڑھی جائے، اس کو حدیث وفقہ کی کتابوں میں ” مسجد البیت“ سے تعبیر کیا گیا ہے، ماحول کو بگاڑ سے بچانے کی تدبیر کے طور پر شریعت کے اس حکم کو دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کے مکان یا زمین کے پڑوس میں مکان یا زمین فروخت کی جائے تو پڑوسی کو اس میں حق شفعہ حاصل ہوتا ہے، اگر پڑوسی وہی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو، جو قیمت دوسرا دے رہا ہو تو اس کو اس پڑوسی کے ہاتھ ہی بیچناواجب ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی ہدایت فرمائی۔ ( سنن ابی داود:3518)

ماحول کا اثر یوں تو ہر سن وسال کے لوگوں پرپڑتا ہے ؛ لیکن بچوں پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے، انسان کے جسم میں سب سے پہلے دماغ کی نشو ونما ہوتی ہے اور دماغ کی ترقی کا مرحلہ تیز رفتاری کے ساتھ طے پاتا ہے، اسی لیے بچوں میں کسی بات کے اخذ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے، وہ بولنے والوں سے الفاظ سیکھتا ہے، چلنے والوں سے چلنے کا انداز سیکھتا ہے، اپنے بڑوں سے اُٹھنے بیٹھنے او رکھانے پینے کے طریقے سیکھتا ہے، گانے سن کر گنگناتا ہے، گالیاں سن کر گالیاں ہی اس کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں او راگر اچھی باتیں سنے تو ان کو دہراتا ہے، اگر باپ کو نماز پڑھتے ہوتے دیکھتا ہے تو رُکوع وسجدے کی نقل کرتا ہے، مسجد جاتے ہوئے دیکھتا ہے تو مسجد جانے کی کوشش کرتا ہے، لڑکے اپنے والد کے سر پر ٹوپی دیکھ کر ٹوپی پہننا چاہتے ہیں اور لڑکیاں اپنی ماں کے سر پردوپٹہ او رجسم پر برقعہ دیکھ کردوپٹہ اوربرقعہ پہننا چاہتی ہیں، غرضیکہ اس کا ذہن تیزی سے ماحول میں پیش آنے والی چیزوں و کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

موجودہ حالات میں صورتِ حال یہ ہے کہ بچہ صبح سات بجے اسکول جانے کی تیاری کرتا ہے او رشام پانچ بجے یا اس کے بعد گھر واپس آتا ہے ، جانے سے پہلے کا وقت سونے اور تیاری کرنے میں گذر جاتا ہے، واپسی کے بعد بھی مغرب تک کا وقت کھیل کود وغیرہ میں، گویا ان کا پورا دن اسکول کے ماحول میں گذرتا ہے، مغرب کے تین ساڑھے تین گھنٹے کے بعد بچے سو جاتے ہیں ؛ کیوں کہ ان کی عمر کے لحاظ سے انہیں آٹھ گھنٹہ سونا چاہیے، اس تین چار گھنٹے میں انہیں اسکول کا ہوم ورک بھی کرنا ہے او رکھانا پینا بھی ہے ؛ اس لیے بہت کم وقت ایسا بچتا ہے، جس میں وہ اپنے والدین او ربھائی بہنوں کے ساتھ بیٹھیں، کچھ وقت مغرب کے بعد او رکچھ وقت فجر کے بعد، عمومی صورت حال یہ ہے کہ والد آفس اور کاروبار سے اتنی دیر سے آتے ہیں کہ بچے نیند کی آغوش میں جاچکے ہوتے ہیں، ماں کھانا پکانے اور اگر خدانخواستہ ٹی وی دیکھنے کا شوق ہو تو ٹی وی دیکھنے میں اپنا وقت گزار دیتی ہیں، اکثر بچوں کے لیے ماں باپ کے پاس کوئی وقت نہیں ہوتا۔

اسکول کا ماحول یہ ہے کہ اگر عیسائی مشنری اسکولوں میں گئے تو وہ صبح سے شام تک عیسائی طور طریقوں کو برتتے ہوئے دیکھتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر اس طرح آویزاں ہوتی ہے کہ گویا وہ خدا ہیں اور بندوں پر اپنا دست کرم رکھ رہے ہیں، ہندو انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں داخل ہوئے تو وہاں مورتیاں ہیں، وندے ماترم کا مشرکانہ ترانہ ہے، ہندوتہوار منائے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ بچوں پر ہندو آئیڈیالوجی نقش ہو کر رہ جائے، مسلم انتظامیہ کے تحت جو اسکول ہیں ان میں معیار تعلیم کے پست ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا فقدان ہے، مخلوط تعلیم کا نظام ہر جگہ ہے، یونی فارم شرم وحیا کے تقاضا سے آزاد ہے، کلچرل پروگرام کے نام سے بے ہودہ ڈرامہ کرایا جاتا ہے اور لڑکیاں رقص کرتی ہیں، چند ہی مسلم ادارے اس سے مستثنیٰ ہیں اور وہ بہرحال قابل تحسین اور لائق تشکر ہیں۔

ان حالات میں ماں باپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں دینی ماحول بنائیں، چھٹی کے اوقات اور بچوں کی تعطیل کے ایام اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں، ان اوقات میں انہیں ضروری دینی باتیں سکھائیں او رسمجھائیں، نماز اور تلاوتِ قرآن کا ماحول بنائیں ، گھر کی خواتین ڈھکا چھپا باپردہ لباس پہنیں، گھر کے بڑے مرد وعورت آپسی گفتگو میں تہذیب وشائستگی او رباہمی ادب واحترام کا لحاظ رکھیں، زبان کی حفاظت کریں او رکوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں جس میں بچوں سے تربیت کی باتیں کہی جاسکتی ہوں، موجودہ حالات میں اگر ہم نے بچوں کو دین واخلاق سے ہم آہنگ ماحول فراہم نہیں کیا تو آئندہ نسل کے لیے بڑا خطرہ ہے؛ کیوں کہ ہمارا تعلیمی نظام بھی دین واخلاق سے بیگانہ ہے او رتعلیم گاہ کا ماحول بھی اخلاقی بگاڑ کا شکار ہے، ان حالات میں اگر والدین نے بچوں کو مناسب ماحول فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی تو یہ بچوں کے ساتھ یقینا بڑا ظلم ہے اور ان کے والدین وسرپرست عندالله جواب دہ ہیں۔

Flag Counter