Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 16
مطالعہ روح کی غذا ہے

مولانا حبیب الله زکریا
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

حصول علم کے مختلف راستے ہیں، مگر مطالعہ ( کتب بینی) ہی فضل وکمال کا ایساراستہ ہے جو کبھی ختم ہو کر بے وفائی نہیں کرتا، لہٰذا جس نے بھی راز مطالعہ کو پالیا اسے کہنا پڑا کہ : ”مطالعہ روح کی غذا ہے ۔“ بات ذوق کی ہوتی ہے، آپ مطالعہ کو روح کی غذا کہیں یا جہالت کی دوا، یا پھر اسے بہترین مونس قرار دیں یا قوموں کی ترقی کا راز، بہرحال ”مطالعہ“ ہی کے کلیہ سے آپ علم ومعرفت کے پیش بہا خزانے حاصل کرسکتے ہیں ،کیوں کہ مطالعہ ایک ایسا بار آور درخت ہے کہ اس کا پھل جو چکھ لے اسی کے گن گانے لگتا ہے، یہ ایسی میٹھی گنگا ہے کہ اس کا پانی جو پی لے وہ اسی کے گرد خیمہ زن ہو جاتا ہے، ایسا بحر ناپیداکنار ہے کہ اس میں جو ایک مرتبہ غوطہ خوری کر لے وہ پھر اسی میں اپنی دنیا بسا لیتا ہے… غرض مطالعہ کا چسکا جس کو لگ جاتا ہے تو دنیاومافیہا کی ساری لذات اس کو ہیچ لگتی ہیں…

مطالعہ کی حسین راہیں انسان کو علم کی عظیم منزل تک لے جاتی ہیں اور مطالعہ کا چشمہ پیاسی روحوں کو ہمیشہ سے علمی آب حیات سے سیراب کرتا رہا ہے، جب کہ علم کی اہمیت وفضیلت تمام اہل جہاں کے نزدیک مسلّم ومتفق ہے، مطالعہ کی اہمیت کے لیے یہ کافی ہے کہ رب العزت نے پہلی وحی میں فرمایا:(ترجمہ) ”پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا“ قلم کے ذریعے سکھایا گیاعلم، کتابوں کے ذریعے آگے پھیلتا ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جیسے درخت کی بار آوری پانی کی محتاج ہے، مرغزاروں کی دلفریبی آب یاری پر اپنا دامن پھیلائے ہوئے ہے، کھیتوں کی لٹک کھٹک آب پاشی پر منحصر ہے، اسی طرح اگر آپ علمی سلسلے سے جڑنا چاہتے ہیں تو مطالعہ اس کے لیے ناگزیر اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن بڑے افسوس سے یہ کہناپڑتا ہے کہ ہمارے وہ طلباء جن کے ہاتھ کل وقت کی لگام ہو گی، جو امت کے ائمہ اور دین کے پیشوا سمجھے جائیں گے، اس عظیم المرتبہ معاملے سے پہلوتہی کرتے نظر آتے ہیں… فیا للعجب…!!

الله تعالیٰ کلام مجید میں فرماتے ہیں:﴿فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ ﴾․ (سورہ توبہ:122) اس آیت میں الله رب العزت نے وضاحت سے فرمایا ہے کہ تمام کے تمام لوگ جہاد کے لیے نہ نکل جاؤ، بلکہ ایک جماعت اور طائفہ ایسا ہونا چاہیے کہ وہ علم حاصل کرکے اور دینِ اسلام میں تبحر پیدا کرکے امتِ مسلمہ کے عامی لوگوں کو شریعت محمدیہ کے مسائل واحکام سمجھائے اور بتلائے ۔ اسی طرح حدیث پاک میں آقائے دوجہاں، رحمت للعالمین، حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:” علم کا ایک باب (مسئلہ یا قاعدہ وغیرہ حاصل کرنا، اس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو) ایک ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے۔“ ( سنن ابن ماجہ:219)

آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ جو شخص بھی علم وتحقیق کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہو کر دنیا پر اپنا لوہا منوا چکا، اس کی کام یابی کی بنیادی وجہ کثرت مطالعہ ہے، اپنے اسلاف کے حالات زندگی پر آپ نظر دوڑائیں تو آپ کو مطالعہ کی اہمیت کا خوب اندازہ ہو جائے گا۔ امام محمد رحمة الله علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ پوری پوری رات جاگ کر مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ آپ کے اقربا اور تلامذہ جب سونے کی درخواست کرتے تو آپ  کا ایک ہی جواب ہوتا تھا، آپ کا یہ جواب آج کل کے غافل طلباء کے لیے بہت سبق آموز ہے، آپ  بے ساختہ فرماتے کہ ”لوگ ہم پر اعتماد کرکے سوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آگیا تو ان سے پوچھ لیں گے، اب بھلا ہم کیسے سو سکتے ہیں؟!!“

امام اللغة حضرت جاحظ پر فالج کا حملہ ہوا، آپ صاحب فراش ہو گئے، مگرذوقِ مطالعہ تن درست وتوانا تھا، اس حالت میں بھی کتابوں کے جھرمٹ میں محو مطالعہ رہتے، ایک دن تمام کتابیں آپ پر گر پڑیں، گویا لپک لپک کر معانقہ میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہی تھیں اور آپ عملی طور پر اس جملہ کا مصداق بن گئے #
        مریں گے ہم کتابوں پر، ورق ہو گا کفن اپنا

حضرت امام زہری کی بیوی نے ان کی کثرتِ کتب بینی سے تنگ آکر ان سے کہا: ”والله ھذہ الکتب أشد علی من ثلث ضوائر“ کہ بخدا! آپ کی یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔

مشہور محدث امام مسلم  کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مطالعہ میں اتنے منہمک ہو گئے کہ پوری رات جاگتے رہے۔ اور ساتھ ساتھ کھجوریں بھی تناول فرماتے رہے، صبح ہونے تک کھجوروں کا پورا ٹوکر ا ختم کر چکے تھے۔ مگر انہیں پتہ نہ چلا، چناں چہ اسی سے انہیں مرض لاحق ہوا اور وفات پاگئے۔

حضرت ابوالعباس ثعلب  کی عمر90 سال سے متجاوز ہو چکی تھی، مگر ذوق مطالعہ جوان تھا، راہ چلتے مطالعہ میں مستغرق تھے کہ اچانک گھوڑے کا دھکا لگا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے، لوگوں نے اٹھایا تو پتہ چلا کہ آپ وفات پا چکے تھے۔

علامہ ابن جوزی  نے زمانہ طالب علمی میں ہی بغداد کے بڑے بڑے کتب خانوں میں موجود ہزاروں کتب کا مطالعہ کر ڈالا۔

علامہ انورشاہ کشمیری نے فقط20 دن میں فتح القدیر کا مطالعہ کر لیا۔

شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا اپنے بارے میں ” آپ بیتی“ میں لکھتے ہیں: ”جب تک میری ایک بہن حیات تھیں وہ لقمے بنا کر میرے منھ میں ڈالتی تھیں او رمیں مطالعہ میں مشغول رہتا تھا۔ ان کی وفات کے بعد اب میرے اتنے ناز اٹھانے والا کوئی نہیں رہا اور مطالعہ کا حرج مجھ کو گوارہ نہیں ،اس لیے رات کا کھانا چھوٹ گیا۔“

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی مطالعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں :” مطالعہ کی برکت سے استعداد اور فہم پیدا ہوتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کپڑے رنگنے کے لیے اسے دھویا جاتا ہے، پھر رنگ کے مٹکے میں ڈالا جاتا ہے اور اگر پہلے اسے دھویا نہ جائے تو کپڑے پر داغ پڑ جاتا ہے، اسی طرح اگر مطالعہ نہ کیا جائے تو سبق کا مضمون اچھی طرح سمجھ میں نہیں آتا اور اس سے معلم کو تکلیف ہوتی ہے ۔“

یعنی مطالعہ نہ کرنے والے طالب علم گویا اپنے استاذ کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور ان کی ناراضگی مول لیتے ہیں، یہ استاذ کی بہت بڑی حق تلفی ہے اور استاذ کی حق تلفی کرنے والا طالب علم کبھی کام یاب نہیں ہوتا۔

” مطالعہ کی عادت اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے دنیا کے سارے دکھوں سے بچنے کے لیے ایک مضبوط ترین پناہ گاہ تعمیر کر لی ہے۔“ شاید اسی پناہ گاہ کی تعمیر کو ہی سن کر ہندوستان کے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی زندگی کی خواہش قرار دیتے ہوئے فرمایا:” میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہتر تصور کیا ہو سکتا ہے؟ جاڑے کا موسم ہو اور جاڑابھی قریب قریب درجہ انجماد کا ،رات کا وقت ہو، آتش دان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں، میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں۔“ #
        اگر چاہتا ہے تو عروج پر تیرا ستارا ہو
        مسلمان کے آباء کی وہی شان پیدا کر

مطالعہ کے لیے ایک ضروری امر یہ ہے کہ ہر کس وناکس کی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے، بلکہ اپنے اساتذہ اور بڑوں سے پوچھ پوچھ کر مطالعہ کیا جائے ، مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی فرماتے ہیں: ” ہر ایک کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے، بلکہ باذوق او راہل علم اساتذہ اور بڑوں سے مشورہ کے بعد کسی کتاب کامطالعہ کیا جائے۔“ بعض دفعہ غیر ضروری کتب کا مطالعہ کرکے ایک صحیح عقل مند انسان اسلام سے کوسوں دور پہنچ جاتا ہے، حتی کہ ارتداد کی گم گشتہ وادیوں میں بھٹکتارہتا ہے۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی زندگی ہمارے لیے باعث نمونہ اور عبرت ہے۔ آپ نے بغیر کسی کی راہ نمائی کے مطالعہ کیا تو ارتداد کی حد تک پہنچ گئے، مگر جب الله تعالیٰ نے ان کو ہدایت دی اور صراط مستقیم دکھائی تو وقت کے مفسر قرآن بن گئے، آپ نے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی زیر نگرانی پھر سے مطالعہ کیا تو اسلام کے کئی سارے سربستہ از ان پر کھلتے چلے گئے۔

عصرِ حاضر میں غیر مسلم اقوام کی دنیاوی ترقی میں بھی مطالعہ کا اہم کردار ہے۔ آپ کو یورپ میں بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور وسیع وعریض کتب خانے ان کے مطالعاتی ذوق کی گواہی دیتے نظر آئیں گے، ہم نے اپنے آباء کے قدیم علمی ورثے کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے ۔

الله تعالیٰ ہمیں اپنے آباء واجداد کا حقیقی جانشین بننے کی توفیق عطا فرمائے! ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی وہی ذوق وشوق لے کر مطالعہ کو اپنی زندگی کا جز لاینفک بنالیں، بعید نہیں کہ الله اس مظلوم امت مسلمہ کو پھر سے وہی زندہ دلی اور زمانے کی قیادت عطا فرما دیں۔
ہاں !ایک بات سامنے رہے کہ #
        فقط چلتے رہنے سے مسافت کم نہیں ہوتی

”الدین کلہ ادب“ کے قاعدہ او رکلیہ کے تحت مطالعہ کے بھی کچھ اصول، قواعد اور آداب ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ”محبت“ کی طرح مطالعہ بھی آداب خود سکھا دیتا ہے، مگر علما نے مبتدئین کے لیے چند آداب مرتب کیے ہیں، تاکہ مطالعہ سے وہ خوب اچھی طرح استفادہ کر سکیں :

حسن نیت وحسن انتخاب۔ کتب اور آلات علم کامکمل احترام۔ باوضو ہو کر مطالعہ کرنا۔ مطالعہ کے لیے کسی اچھے اور ماہر مشیر کی راہ نمائی۔ اپنے اندر تدریجاً ذوق مطالعہ، مستقل مطالعہ، وسعتِ مطالعہ اورپھر حاصل مطالعہ لکھنے کی عادت پیدا کیجیے۔ دوران مطالعہ ایک سے زائد مختلف کتابوں کو اپنے پاس رکھیں، تاکہ ایک کتاب سے جی بھرنے پر دوسری کتاب اٹھالیں۔ تھکاوٹ کی حالت میں مطالعہ نہ کریں، ہلکی پھلکی غذا کے بعد مطالعہ کریں، تاکہ سستی اور کاہلی نہ چھاجائے۔ مطالعہ ایسی جگہ پر کیا جائے جہاں روشنی ، ہوا وغیرہ کا انتظام مناسب ہو اور لوگوں کی آمد ورفت اور شور شرابہ نہ ہو۔ دورانِ مطالعہ کوئی بات یا عبارت سمجھ میں نہ آئے تو نشان زد کریں اور بعد میں کسی اہل علم کی طرف رجوع کریں۔ مطالعہ چاہے تھوڑا تھوڑا ہو، مگر روزانہ ہو،تا کہ تسلسل نہ ٹوٹے اور عادت بن جائے۔

ان چند مختصر اور جامع ترین آداب کی پابندی سے ان شاء الله ہم خوب ثمرات حاصل کرسکتے ہیں۔ مطالعہ کی حسین راہیں ہماری منتظر ہیں… عروج کا ستارہ طلوع ہونے کے لیے ہمارے کردار کا منتظر ہے۔

آئیے! کم ہمتی ،سستی، احساس کمتری اور لغویات کو پرے پھینک کر اپنے آباء کے عظیم علمی خزانے کے وارث بن جائیں کہ خوش بختی آپ کی راہ تک رہی ہے… کامرانی آپ سے ملنے کو بے تاب ہے … ہمت کیجیے اور اپنی روٹھی کتابوں کو منا لیجیے… گلے سے لگا لیجیے…!!!

Flag Counter