فتنے کے اسباب
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک بیان کی تسہیل
تسہیل: محترم سید عروہ عرفان
آج کل کے مطابق آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ اب آم کی فصل آئے گی اور اکثر مسلمان پھل آنے سے پہلے ہی بیع کردیتے ہیں، یعنی یہ پھل بیچ ڈالتے ہیں۔ یہ شرعاً حرام ہے اور اس کا پھل کھانا بھی حرام ہے۔ باغ والوں کی ذرا سی کاہلی سے ساری دنیا حرام کھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قلوب میں نور پیدا نہیں ہوتا۔ نماز وغیرہ عبادات سے جو تھوڑا بہت نور پیدا ہوتا ہے، وہ بھی اس حرام غذا کی ظلمت سے ضائع ہوجاتا ہے۔ میں نے اس کی اصلاح کا ایک آسان طریقہ بتایا تھا۔ اصل طریقہ تو یہی ہے کہ پھل آنے سے پہلے فروخت ہی نہ کیا جائے، بلکہ جب اچھی طرح پھل نمودار ہوجائے تو اس وقت بیع کی جائے۔ اس میں باغ والے یہ عذر نکالتے ہیں کہ صاحب اس وقت تک کون حفاظت کرے گا؟ میں کہتا ہوں کہ کسی وجہ سے اگر گورنمنٹ کا قانون یہ ہوجائے کہ پھل خوب نمودار ہونے سے پہلے کوئی بیع نہ کرے تو کیا اس وقت بھی یہ عذر کریں گے؟ نہیں، بلکہ ہر ایک کو اس پھل کی حفاظت کے طریقے خوب سوجھیں گے۔ اس وقت اگر کوئی کہے کہ تم میرے ہاتھ سے پھل آنے سے پہلے ہی باغ کی بیع کردو تو مالک کہے گا، کیا تم مجھے مجرم بنانا چاہتے ہو۔ یہاں مجرم بننے کا ڈر ہے، لیکن آخرت کے مجرم بننے کو سب کے سب تیار بیٹھے ہیں۔
یہ بالکل درست طریقہ تو لوگ کیا اختیار کرتے، میں نے ایک آسان ترکیب بتائی تھی جس سے دنیا حرام کھانے سے محفوظ ہوجاتی۔ مگر افسوس، وہ بھی نہ ہوسکی۔ میں نے کہا تھا کہ جو لوگ پھل آنے سے پہلے بیع کرچکے ہیں، وہ پھل آنے کے بعد دوبارہ بیع کرلیا کریں۔ فروخت کنندہ خریدار سے کہے کہ ہم نے جو پہلے بیع کی تھی، وہ شرعاً درست نہیں تھی، اب ہم اسی قیمت پر اس پھل کی بیع تمہارے ساتھ دوبارہ کرتے ہیں۔ پھر خریدار کہہ دے کہ میں یہ قبول کرتا ہوں تو اب اس پھل کا کھانا سب کے لیے حلال ہوجائے گا۔
بتائیے، اس میں کیا مشکل ہے؟ صرف زبان ہلتی ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ اس کی کوئی قانونی ضرورت نہ تھی۔ قانون سے ایسی بیع چوں کہ جرم نہ تھی، صرف اللہ نے منع کیا تھا، اس لیے پروا نہیں ہے۔ لہٰذا، اس کے لیے ذرا سی آسان بات بھی گوارا نہیں ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، یوں کہیے کہ نعوذباللہ، ہمیں خدا ہی کی ضرورت نہیں ہے۔ بیوی بچوں کے بغیر تو صبر آتا نہیں، خدا کو چھوڑ کر صبر آگیا ہے!
میں جو کہتا ہوں کہ اگر آپ کو پھل آنے سے پہلے ہی بیع کرنا ہے تو خیر، کرلیا کرو، مگر بعد میں پھل آنے پر معاہدہ دوبارہ کرلیا کرو اور زبان ہلا کر ایجاب و قبول کا اعادہ کرلیا کرو، مگر مجھے اس کی بھی امید نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دل میں احکام شرعیہ کی اہمیت ہی نہیں بسی ہے۔ اور دل میں اہمیت نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ایمان نہیں ہے۔ ایمان تو ہے، مگر دل پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ پردے اٹھ جائیں تو ہر حکم کی قوت پیدا ہوجائے۔
اس لیے سب سے پہلے اپنے دل پر سے ان پردوں کو اٹھانا چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنا دستور العمل یہ رکھیے کہ اول تو بہ قدرِ ضرورت احکام کا علم حاصل کیجیے۔ اس کی آسان صورت یہ ہے کہ جو مستند دینی رسائل تصنیف کیے ہیں، ان کا مطالعہ کیجیے۔ مگر ہر شخص کی کتاب کا مطالعہ نہ کیجیے، کیوں کہ آج کل آزادی کا زمانہ ہے، ہر شخص کا جو جی چاہتاہے، وہ لکھ مارتا ہے۔ آج کل ایسے ایسے مصنف بھی ہیں کہ ایک صاحب نے ایک رسالے میں یہ مضمون لکھا کہ ”ربا“ (سود) حرام نہیں ہے۔ مسلمانوں کو سود سے ترقی حاصل کرنی چاہیے۔ اور جو قرآن میں آیا ہے، وحرم الربوا یعنی ربا حرام ہے، وہ ”رُبا“ (بضم راء) ربودن سے ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے غصب کو حرام کیا ہے اور راء کو جو کسرہ پڑھا جاتا ہے، یہ اعراب بعد میں مولویوں نے لگائے ہیں، جو حجت نہیں ہیں۔“ اس احمق نے یہ بھی نہ دیکھا کہ قرآن عربی زبان میں ہے اور ربودن فارسی مصدر ہے۔ اس سے کوئی لفظ مشتق ہوکر قرآن میں کیوں کر آسکتا ہے؟ پھر یہ لفظ ”رُبا“ مفرداً ؟ فارسی میں بھی مہمل ہے۔ کسی نے اسے استعمال نہیں کیا۔
آج کل تحقیق کا یہ حال ہے۔ ایسے مجددوں کے بارے میں، میں یہ شعر پڑھا کرتا ہوں:
گربہ میر وسگ وزیر موش را دیواں کنند
ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویراں کنند
یعنی بلی امیر، کتا وزیر، چوہے کو دیوان جی بنادیں؛ یہ اراکین سلطنت ملک کو برباد ہی کردیں گے۔ چناں چہ اس قسم کے دینی محققین اگر یوں ہی اسلام کے پر توڑے جائیں گے تو پھر اسلام کی خیر نہیں۔
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہر کتاب کے دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ اگر ہم اپنے مسلک پر جمے رہیں تو کسی کی کتاب کے دیکھنے سے کیا مضائقہ ہے؟ میں کبھی ہر شخص کی تصنیف کا مطالعہ کرنے سے نہ روکتا ،اگر اس کے مطالعے کا برا اثر نہ دیکھ لیتا۔ مگر جب لوگوں کو مطالعے سے متاثر ہوتا دیکھتا ہوں تو منع کرتا ہوں۔ بس، آپ کی خیر اسی میں ہے کہ صرف محققین کے رسالے دیکھیے، خود رَو مصنفوں کے رسالے ہر گز نہ پڑھیے۔ میں آپ کو محققین کے بارے میں بھی بتادوں گاکہ وہ کون لوگ ہیں۔
جو پڑھے لکھے لوگ ہیں، وہ تو یہ رسالے دیکھیں اور نصاب دیکھیں، ایک دو رسالے کافی نہیں۔ البتہ یہ نصاب بھی کوئی محقق ہی بتائے گا۔ اس مطالعے کے دوران جہاں کوئی شبہ ہو، اس پر نشان لگاتے رہیں اور بعد میں ان مشتبہ مقامات کو کسی محقق عالم سے زبانی حل کرالیں۔ اور جو اَن پڑھ ہیں، وہ لوگ یہ رسالے سن لیا کریں۔ اگر آپ کو طلب ہوگی تو اِن شا ء اللہ تعالیٰ آپ کو سنانے والا بھی کوئی مل جائے گا۔ ایک تو یہ کام ضرور کرلیں۔
دوسرا کام یہ کریں کہ جوکام کرنا ہو، خواہ نوکری یا ملازمت یا تجارت یا شادی یا غمی، سب کے متعلق پہلے کسی محقق عالم سے اس کام کا شرعی حکم معلوم کرلیا جائے۔ اگرچہ عمل کی توفیق نہ ہو، لیکن دریافت کرلینے سے کم از کم یہ تو فائدہ ہوجائے گا کہ اس کام کے جائز، ناجائز ہونے کا علم ہوجائے گا۔ ممکن ہے کہ یہ علم کسی اور وقت ناجائز سے بچنے کی ہمت پیدا کردے۔ اگر حرام میں بھی مبتلا رہے تو حرام کو حلال سمجھ کر تو نہ کرو گے۔
اب یہ حالت ہے کہ لوگ ضروری باتیں تو دریافت نہیں کرتے،وہ مسائل پوچھتے ہیں جن سے کبھی واسطہ نہ پڑے گا، یا وہ مسائل پوچھتے ہیں جو پہلے سے معلوم ہیں کہ مولوی صاحب کا امتحان ہوسکے۔ رام پور میں ایک صاحب مجھ سے اختلافی مسائل پوچھنے لگے۔ انھیں میرا مسلک بھی معلوم تھا۔ میں سمجھ گیا کہ اس سوال کا مقصود میرا امتحان ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھ سے امتحان کے لیے پوچھتے ہیں یا عمل کے لیے؟ اگر عمل کے لیے پوچھتے ہیں تو اس کے لیے سوال کرنے والے کا اعتقاد ہونا شرط ہے اور آپ مجھے جانتے بھی نہیں تو میرے معتقد کیسے ہوگئے؟ محض نام سننا کافی نہیں ہے۔ نام تو بہت سوں کو معلوم ہوگا۔ اور اگر امتحان کے لیے پوچھتے ہیں تو آپ کو میرا امتحان لینے کا کیا حق ہے؟ بس، وہ اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔
میں ایسا روگ نہیں پالتا کہ ہر شخص کے سوال کا جواب اس کی مرضی کے مطابق دیا جائے۔ جہاں یہ دیکھتا ہوں کہ سوال کا مقصد عمل نہیں ہے، وہاں کبھی جواب نہیں دیتا۔
محض سوال کرنے سے کام نہیں چلتا۔ ہر کام قاعدے سے ہوا کرتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے سوال کرنے سے پہلے اس شخص کے بارے میں خوب اطمینان کرلو۔ پھر اس سے پوچھ پوچھ کر عمل کرو۔ اس میں بھی فضول باتیں نہ پوچھو۔
یاد رکھیے کہ اچھی طرح جانچے بغیر کسی کو اپنا بڑا نہ بنائیے، کیوں کہ دین بڑی قابل قدر چیز ہے۔ اس لیے ہر کس و ناکس کو رہ نما نہ بنائیے۔ لیکن جب کسی کا محقق عالم ہونا ثابت ہوجائے تو پھر اس سے حجت نہ کیجیے۔وہ جو بتادے، اس پر عمل کرلیجیے۔
جب کبھی فرصت ملے، ایسے بزرگوں سے ملتے رہا کیجیے اور یہ خوف نہ کیجیے کہ ہماری حرکات پر لتاڑیں گے۔ ہرگز نہیں، وہ تمہارے سامنے کوئی منھ توڑ بات نہیں کریں گے۔ مگر ہاتھ جوڑ کر بھی نہیں کہیں گے۔ ایسے بزرگوں کی صحبت و برکت سے آپ کی حالت اِن شاء اللہ تعالیٰ خود بہ خود درست ہوتی چلی جائے گی۔ یہ وہ طریقہ ہے جو دل پر سے پردے ہٹاتا ہے۔ اس کے چند اجزا یہ ہیں:
اول، کتابیں پڑھنا یا سننا
دوسرے، مسائل دریافت کرتے رہنا
تیسرے، اہل اللہ کے پاس آنا جانا
چوتھے، اگر ان کی خدمت میں آنا جانا نہ ہوسکے تو کم سے کم ایسے بزرگوں کی حکایات و ملفوظات ہی کا مطالعہ کرلیا کیجیے، سن لیا کیجیے۔
اسی طرح، (پانچویں) اگر کچھ دیر اللہ کا ذکر بھی کرلیں تو یہ قلب کی اصلاح میں بہت ہی مدد گار ہے۔پھر اسی ذکر کے وقت میں سے کچھ وقت اپنے محاسبے کے لیے نکالیے، جس میں اپنے نفس سے ایسے باتیں کیجیے کہ اے نفس، ایک دن اس دنیا سے جانا ہے، موت آنے والی ہے، اس وقت یہ سب مال و دولت یہیں رہ جائے گا، بیوی بچے سب تجھے چھوڑ دیں گے اوراللہ تعالیٰ سے واسطہ پڑے گا۔ اگر تیرے پاس نیک اعمال زیادہ ہوئے تو بخشا جائے گا اور اگر گناہ زیادہ ہوئے تو جہنم کا عذاب بھگتنا پڑے گا، جو ناقابل برداشت ہے۔ اس لیے اپنے انجام کو سوچ اور آخرت کے لیے کچھ سامان کر۔ یہ عمر بڑی قیمتی دولت ہے، اسے فضول ضائع مت برباد کر۔ مرنے کے بعد تو اس کی تمنا کرے گا کہ کاش! میں کچھ نیک عمل کرلوں، جس سے مغفرت ہوجائے۔ مگر اس وقت تجھے یہ حسرت فائدہ نہ دے گی۔ پس، اس زندگی کو غنیمت سمجھ کر اسی وقت اپنی مغفرت کا سامان کرلے۔
اگر ذکر بھی ہوسکے تو سابقہ دستور العمل کے ساتھ یہ محاسبہ تو روزانہ ضرور کرلیا کیجیے۔
میں آپ سے نوکری چھڑواتا ہوں، نہ بیوی بچوں کو چھوڑنے کو کہتا ہوں۔ آپ دنیا کے سارے دھندے کیجیے ، مگر یہ کام بھی ساتھ ساتھ کیجیے۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ ایک دن وہ ہوگا کہ یہ عمل آپ کی دنیا اور دین دونوں کو سنوار دے گا۔
دنیا تو اس طرح سنور جائے گی کہ دنیا میں جو مقصود ہے، یعنی راحت قلب، وہ اللہ کے فضل سے بڑھ جائے گی۔ اس وقت تو یہ حالت ہے کہ آپ روٹی نہیں کھاتے، بلکہ روٹی آپ کو کھاتی ہے۔ دنیا کی حالت یہ ہے کہ یہ کسی کے پاس جاتی ہے، تب بھی پریشان کرتی ہے اور آتی ہے، تب بھی پریشان کرتی ہے۔ اگر روپیہ پیسہ پاس نہیں، تب تو فکر ظاہر ہے کہ ہر وقت اسی ادھیڑ بن میں رہتا ہے کہ آج کہاں سے کھاؤں گا،کہاں سے پہنوں گا؟ اور جو روپیہ پاس ہے تو اس کی حفاظت کی فکر ہے کہ اسے کہاں رکھوں، کہاں چھپاؤں؟ کہیں چور اچکے نہ لے جائیں، کسی کو خبر نہ ہوجائے۔ بعض دفعہ اس پریشانی میں بہت سوں کو نیند ہی نہیں آتی۔
چناں چہ جب دنیا پاس نہ ہوتو حسرت ہوتی ہے اور جب دنیا ہاتھ آتی ہے تو اپنے ساتھ ہزاروں غم لاتی ہے۔ لہٰذا، اس وقت دنیا آپ کے لیے باعث راحت نہیں،بلکہ عذاب کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿ولا تعجبک اموالھم ولا اولادھم انما یرید اللہ ان یعذبھم بھا فی الحیوٰة الدنیا﴾ کہ تمھیں اُن کے اموال اور اولاد تعجب میں نہ ڈالیں کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ان کے ذریعے انھیں دنیا کی زندگی ہی میں عذاب دیں۔
واقعی، دنیا داروں کے لیے دنیا کا جمع ہونا عذاب ہی ہے۔ انھیں تو چین کی نیند بھی میسر نہیں ہوتی۔ اللہ کی طرف متوجہ ہو کر دیکھیے، اس وقت یہ دنیا آپ کے لیے راحت کا ذریعہ ہوگی۔ پھر آپ کو قورمے میں وہ مزہ نہیں آئے گا جو اس وقت خالی چٹنی میں آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی پر عاشق ہوجائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے آپ کو کوئی ایسی چیز کھانے کو دے جو آپ کو پسند نہیں تو ذرا سوچ کر بتائیے کہ آپ کو وہ کھانے میں لذت آئے گی یا نہیں؟ یقینا، اس وقت آپ کو وہ ناپسندیدہ چیز بھی پسندیدہ چیزوں سے کہیں زیادہ مزہ دے گی۔ کیوں کہ وہ محبوب کے ہاتھ سے چھو کر آئی ہے۔
اسی طرح یہ سمجھ لیجیے کہ یہاں آپ جو قورمہ کھاتے ہیں اس میں اس لیے مزہ نہیں آتا کہ آپ کو یہ خبر نہیں کہ یہ خدا کا دیا ہوا ہے۔ اگر اعتقاداً علم ہے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ پوری محبت نہیں ہے۔ اس لیے پورا مزہ نہیں آتا۔ اس طریقے پر عمل کرکے آپ پر حقیقت کھل جائے گی۔ پھر آپ ہر شے کو اللہ کی طرف سے سمجھیں گے اور ہر حال میں راحت ہوگی، کبھی بے چینی نہیں ہوگی۔یہی وہ بات ہے جو ایک بزرگ نے ایک بادشاہ کے جواب میں کہی تھی:
پوشش تو اطلس ودیبا حریر
بخیہ زدہ خرقہ پشمین ما
کہ تیرا لباس ریشم و اطلس کا ہے او رہمارا خرقہ پشمین بخیہ زدہ ہے۔ اسی طرح، بہت سی چیزوں کا موازنہ کرکے آخر میں کہتے ہیں:
باش کہ تا طبل قیامت زنند
آن تو نیک آید دیا ابن ما
ذرا، صبر کرو قیامت میں معلوم ہوجائے گا کہ وہ تمہاری راحت اچھی تھی یا یہ ہماری محنت۔ یعنی اس وقت تو ہر چیز میں خوش حال ہے اور ہم خستہ حال ہیں، مگرٹھہرا رہ، ابھی قیامت آنے والی ہے، اس وقت تجھے معلوم ہوگا کہ بادشاہ کون ہے اور مفلس کون ہے۔
اللہ کے تعلق سے قلب میں ایسی راحت اور چین ہوتا ہے جس سے انسان فقر میں بھی بادشاہ ہوتا ہے۔ حضرت غوث پاک فرماتے ہیں کہ جب سے آدھی رات کی مناجات و عبادات میں لذت حاصل ہوئی ہے، اس وقت سے مجھے جو (اجناس) کے برابر بھی ملک و مال کی قدر نہیں۔ یہ حلاوت ہوتی ہے اللہ کے تعلق میں اور یہ لذت ہوتی ہے اس نسبت میں کہ جو دنیا بھر سے مستغنی کردیتی ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اس دستور العمل سے آپ کی دنیا بھی با حلاوت ہوجائے گی اور کھانے پینے میں بھی وہ لذت آئے گی جو اِس وقت خواب میں بھی نہ ملی ہوگی۔ اس وقت آپ کو اللہ کی ناراضی کسی طرح گوارا نہیں ہوگی اور سب گناہ ایک ایک کرکے چھوٹ جائیں گے۔ دین بھی درست ہوجائے گا۔
اس دستور العمل کا ایک جز یہ ہے کہ محققین کے رسائل دیکھیے اور محققین سے مسائل پوچھیے۔ ان کے پاس آمد ورفت رکھیے۔
اب سوال یہ ہوتاہے کہ محققین کون لوگ ہیں؟ یہ بہت مشکل سوال ہے، جس نے اس وقت مسلمانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ علما میں اس وقت سخت اختلاف ہے۔کوئی ایک بات کو حرام کہتا ہے تو دوسرا اسے جائز کہتا ہے۔ کوئی ایک بات کو سنت کہتا ہے تو دوسرا اسے بدعت بتلاتا ہے۔ اب کس کی مانیں، کس کی نہ مانیں، یا سب پر عمل کریں تو یہ ناممکن ہے۔ یا ایک کو دوسرے پر ترجیح کی وجہ کیا ہے؟ لہٰذا، بعض نے تو یہ فیصلہ دیا ہے کہ سب کو چھوڑدو۔
مجھے اس فیصلے سے شکایت نہیں ہے، مگر رونا اس بات کا ہے کہ جب یہی صورتِ اختلاف دنیاوی فنون کے ماہروں میں پیش آتی ہے تو وہاں آپ نے یہ فیصلہ کیوں نہیں کیا کہ سب کو چھوڑ دو۔ دنیا کے معاملات میں کیوں کسی ایک کو ترجیح دے کر پکڑ لیا؟ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی مریض کے علاج میں اطبا اور ڈاکٹروں کی رائے مختلف ہوتی ہے۔ کوئی کچھ مرض تشخیص کرتا ہے، کوئی کچھ۔ ہر ایک اپنی ہی رائے کو درست بتاتا ہے اور دوسرے کی رائے کو مریض کے لیے مہلک بتاتا ہے۔ وہاں آپ نے سب حکیموں کو کیوں نہیں چھوڑا اور یہ کیوں نہ کہا کہ افسوس! اطبا میں اتفاق ہی نہیں رہا، اب ہم کس کا علاج کریں؛ جاؤ، مریض کو مرنے دو؛ ہم کسی کا علاج نہیں کرتے۔ وہاں آپ ایک حکیم یا ڈاکٹر کو ترجیح دے کر علاج کیوں کرتے ہیں؟ اسی طرح، وکیلوں کے ساتھ بھی وہ برتاؤ نہیں کیا جاتا جو علما کے ساتھ کیا گیا ہے۔ کیا وکلا میں اختلاف نہیں ہوتا؟ ہوتا ہے اور یقینا ہوتا ہے، پھر ایک وکیل کو دوسرے پر ترجیح کیوں دی جاتی ہے؟ سب کو کیوں نہیں چھوڑا جاتا؟
اس کا جواب آپ کے پاس کیا ہے؟
لیجیے، میں اس کا جواب بھی دے دیتا ہوں۔ جو اصل بات ہے، وہ یہ ہے کہ چیزیں دو قسم کی ہوتی ہیں: ایک وہ جنھیں ضروری سمجھاجاتا ہے توانھیں کسی اختلاف کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاتا، بلکہ وہاں آدمی اپنی عقل سے تدبیر سوچتا ہے اور اختلاف کے باوجود ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے؛ جن چیزوں کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، انھیں اختلاف کی صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہاں تدبیر اور تامل سے ایک کو ترجیح دینے کی مشقت گوارا نہیں کی جاتی۔ یہ قاعدہ انسانی طبیعت کا ہے۔ اسی کے مطابق یہاں عمل کیا جاتا ہے کہ انسان میں دو چیزیں ہیں، جان اور ایمان۔ جان چوں کہ عزیز تر ہے، اس لیے اس کی صحت و حفاظت کے اسباب میں اختلاف ہونے سے سبھی کو ترک نہیں کردیا جاتا، بلکہ وہاں یہ قاعدہ نکالا جاتا ہے کہ اہل کمال (ماہرین) میں تو اختلاف ہوا ہی کرتا ہے، اس سے گھبرانانہیں چاہیے؛ ہم اپنی عقل سے اور اپنے خیر خواہوں سے دریافت کریں گے کہ ان سب حکیموں اور ڈاکٹروں میں کون سب سے حاذق ہے، بس اسی کا علاج اختیار کرلیں گے۔ جب کہ ایمان عزیزنہیں، اس لیے علما کے اختلاف میں عقل سے کام لینا اور غور و فکر کی محنت برداشت کرنا گوارا نہیں ہے۔
اگر آپ ایمان کو بھی عزیز رکھتے تو علما میں بھی اسی طرح انتخاب کرتے، جیسے حکما میں کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس، آپ کو ایمان عزیز نہیں ہے، اس لیے سب کو بالکل ہی چھوڑدیا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں مولویوں کی خطا نہیں ہے، بلکہ ضرور ہے۔ میں آگے آپ کو بتاؤں گا کہ ان میں سے کن کی خطا ہے۔ مگر آپ سے اتنی شکایت ضرور کروں گا کہ اس اختلاف کی وجہ سے سب کو چھوڑدینا، بے ترتیبی اور غلط رائے ہے۔ یہ ایمان کو عزیز نہ سمجھنے کی علامت ہے۔
بعض لوگ علما کے اس اختلاف کو دیکھ کر انھیں یہ رائے دیتے ہیں کہ سب مولویوں کو متفق ہوجانا چاہیے؛ نا اتفاقی بری چیز ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا نا اتفاقی کوئی جرم ہے اور اس کے لیے کوئی قید بھی ہے؟ اگر نااتفاقی کوئی جرم ہے اور اس کی وجہ سے ہر فریق مجرم ہوجاتا ہے تو عدالت کو چاہیے کہ جب اس کے پاس کوئی مدعی دعوا پیش کرے تو تحقیق سے پہلے مدعی اور مدعا علیہ دونوں کو سزا دیا کرے، کیوں کہ دعوے اور اس کے انکار سے دونوں میں نااتفاقی ہونا ثابت ہوگیا۔ چناں چہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں مجرم ہوئے۔
اگر عدالت ایسا کرے تو سب سے پہلے آپ ہی مخالف ہوں گے اور دنیا بھر میں شور و غل مچادیں گے کہ یہ کون سا انصاف ہے کہ مقدمے کی تحقیق سے پہلے ہی دونوں کو مجرم کو بنادیا گیا۔(جاری)