Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1436ھ

ہ رسالہ

5 - 16
اسلامی معاشرے کے عابد ومجاہد

مولانا حافظ فضل الرحیم
	
”عن ابی ھریرة ص قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الساعی علی الارملة والمسکین کالمجاھد فی سبیل الله، واحسبہ قال: کالقائم لا یفتر وکالصائم لا یفطر․“ (رواہ البخاری ومسلم)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کسی بیوہ یا کسی مسکین حاجت مند کے لیے مدد اور تعاون اور کوشش کرنے والا بندہ الله تعالیٰ کے نزدیک اجرثواب میں راہ خدا میں جہاد کرنے والے بندے کی طرح ہے۔“

راوی فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ بھی فرمایا کہ ایسے بندے کی مثال شب بیدار بندے کی طرح ہے جو شب بیداری میں سستی نہ کرتا ہو اور اس ہمیشہ روزہ رکھنے والے کی طرح ہے جو کبھی ناغہ نہ کرتا ہو۔ اس حدیث کو امام بخاری او رامام مسلم نے روایت کیا ہے۔

ہر شخص جو دین کی واقفیت رکھتا ہو وہ جانتا ہے کہ راہ خدا میں جہاد اور جانبازی بلند ترین عمل ہے۔ اسی طرح کسی بندے کا یہ حال کہ اس کی راتیں عبادت میں کٹتی ہوں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو، بڑا ہی قابل رشک اس کا حال ہے ،لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا کہ الله تعالیٰ کے نزدیک یہی درجہ ان لوگوں کا بھی ہے جو کسی حاجت مند مسکین یا کسی بیوہ کی مدداور اس کی خدمت کرے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جہاں تمام مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ہم دردی کرنے کا حکم فرمایا ،وہاں خصوصی طور پر ان افراد کے بارے میں ہدایات عطا فرمائیں جو معاشرے کے دوسرے افراد سے زیادہ توجہ کے قابل ہوتے ہیں۔ ہم دردی کیا ہوتی ہے ؟ اس کے بارے میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” تم مسلمانوں کو آپس میں ہم دردی کرنے، محبت کرنے اور آپس میں مہربانی کرنے میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے، اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اس کے دکھ اور درد کو محسوس کرکے بیداری اور بخارمیں مبتلا ہوجاتا ہے ۔“ اگر خدا نخواستہ انگلی میں تکلیف ہو جائے اور زخم تکلیف دینے لگے تو پورا جسم اس کے علاج اور اس کی تکلیف کو دور کرنے میں لگ جاتا ہے ۔ اعصاب فوراً دماغ کو اطلاع دیتے ہیں کہ فلاں حصے میں تکلیف ہے او رپھر ٹانگیں ڈاکٹر صاحب کی طرف چل پڑتی ہیں ، آنکھیں راستہ دکھاتی ہیں ، ڈاکٹر تک پہنچ گئے تو زبان نے اپنا کام شروع کر دیا ” ڈاکٹر صاحب انگلی میں تکلیف ہے “ اور پھر کانوں نے ڈاکٹر کی ہدایات کو سننا شروع کر دیا ۔ دوسرا ہاتھ جیب میں گیا اور پیسے نکال کر دیے، دوا سنبھالی اور یوں ایک انگلی کی تکلیف کو دور کرنے میں پورا جسم مصروف ہو گیا اور تکلیف دور ہو گئی۔

اگر آج معاشرے کے کسی انسان کو تکلیف پہنچے اورمعاشرے کے کچھ افراد مل کر اس کی تکلیف دور کرنے میں لگ جائیں، بالکل اسی طرح جس طرح ایک جسم کے مختلف اعضاء نے مدد اور تعاون کیا تھا تو پھر معاشرے میں ہم دردی کا ثمر نظر آئے گا اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ اگر انسان کے کسی جسم کے حصہ پر فالج کا حملہ ہو جائے تو وہ بے حس ہو جاتا ہے، اسے نہ اپنی تکلیف کا احساس ہوتا ہے نہ دوسرے اعضاء کی تکلیف کا احساس رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر معاشرے کے افراد میں آپس کی ہمدردی نہ رہے، خود غرضی اور نفسا نفسی پیدا ہو جائے تو پھر وہ افراد معاشرہ بھی بے حس ہو کر دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں کرسکیں گے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسی لیے تمام مسلمانوں کے لیے ایک جسم کی طرحہم دردی اور تعاون کرنے کا تذکرہ فرمایا۔

محتاجوں، بیماروں، بیواؤں اور غریبوں کی مدد اور ان کے تعاون سے جہاں دنیا کی نعمتیں اور راحتیں نصیب ہوتی ہیں وہاں آخرت میں بھی اتنا ہی بڑا اجر وثواب ہے ۔ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے ، فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس لیے نہ خود اس پر ظلم کرے اور نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لیے اسے بے یارومددگار چھوڑے اور فرمایا جو کوئی اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرے گا تو الله تعالی اس کی ضرورتوں کو پورا فرمائیں گے اورجو کسی مسلمان کی تکلیف او رمصیبتوں کو دور کرے گا تو الله تعالیٰ قیامت کے دن کی مصیبتوں میں اس کی مصیبتوں کو دور کرے گا اور فرمایا: جو کسی مسلمان کے عیبوں کو چھپائے گا الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کا پردہ فرمائے گا۔

معاشرے میں جن افراد کے ساتھ خصوصی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے ان میں بیواؤں کے ساتھ یتیموں کا تذکرہ بھی آیا ہے۔ چناں چہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی او راس کے برابر کی بیچ والی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر فرمایا کہ جتنا تھوڑا سا فاصلہ اور فرق تم میری ان دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہو بس اتنا ہی فاصلہ اور فرق جنت میں میرے اور اس مومن کے مقام میں ہو گا جو اس دنیا میں کسی یتیم کی کفالت اور پرورش کا بوجھ اٹھائے، خواہ وہ یتیم اس کا اپنا عزیز ہو یا اجنبی ہو۔ حضرت ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر صرف الله کے لیے ہاتھ پھیرا تو سر کے جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پِھرا، تو ہر ہر بال کے حساب سے اس کی نیکیاں ثابت ہوں گی۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے گھرانوں میں بہترین وہ گھرانہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بد ترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔

غریبوں ، بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ ہم دردی اور تعاون او ران کے اخراجات کی فکر رکھنا دراصل یہ وہ اعمال ہیں جو دل کی درد مندی اور رحم کے جذبہ سے انسان کرسکتا ہے او راگر کوئی انسان محسوس کرے کہ میرے اندر کچھ بے حسی اور سخت دلی پائی جاتی ہے تو اس کا علاج بھی یہی ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اپنی سخت دلی کی شکایت کی آپ صلی الله علیہ نے فرمایا کہ یتیموں کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا کرو اور مسکینوں اور حاجت مندوں کو کھانا کھلایا کرو۔

آج کل کے معاشرہ میں الله تعالیٰ کے ایک ارشاد گرامی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہو گیا ہے، فرمایا:﴿لاتبطلوا صدقاتکم بالمن والاذی﴾
”اے ایمان والو! تم اپنے صدقہ وخیرات کو تکلیف او راذیت دے کر اور احسان جتلا کر ضائع نہ کرو۔“

لہٰذا آج کے ماحول میں کسی غریب کی مدد کی جائے تو اس کی عزت نفس کا خاص خیال رکھا جائے اور خصوصاً سفید پوش محتاجوں تک مدد پہنچانا اورباعزت محتاج بیواؤں کی مدد کرتے وقت ان کی خو دداری کی حفاظت بہت ضروری ہے ۔ الله تعالیٰ نے ایسے ہی خوددار محتاجوں کے بارے میں فرمایا: ﴿یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف تعرفھم بسیماھم لا یسالون الناس الحافا﴾․
”کہ کہ لوگ ایسے لوگوں کو نہ مانگنے کی وجہ سے مال دار سمجھتے ہیں، لیکن آپ ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہیں اور وہ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔“

واقعی ایسے خود دار محتاجوں تک مدد کا پہنچانا بہت بڑا کام ہے، لیکن ان تمام تعاون اور مدد کی صورتوں میں صرف اس بات کا خیال خاص طور پر رہے کہ جن کی مدد کی جائے انہیں ذہنی اذیت اور تکلیف کسی صورت میں نہ پہنچے اور پھر تعاون کرنے والا کبھی بھی احسان نہ جتلائے۔

الله رب العزت ہمیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تمام تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین !

Flag Counter