Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1436ھ

ہ رسالہ

10 - 16
ایمان کی مٹھاس

حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اخترؒ
	
تقویٰ اختیار کرنے پر ولایت کی بشارت
الله تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بہت بڑا انعام فرمایا ہے کہ ہمارے گندے اور ناپاک میٹریل کو اپنی دوستی کے لیے قبول فرما لیا۔ الله تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جس وقت ماں کے پیٹ میں تمہاری تخلیق اور تعمیر ہوتی ہے میں اس وقت بھی تم سے خوب باخبر رہتا ہوں ۔ لیکن اس کے باوجود کہ تمہارا میٹریل اور اجزائے تعمیر یہ بالکل ناپاک ہیں اتنی بڑی پاک ذات کا مالک تمہارے تقویٰ کی برکت سے تم کو اپنا ولی، اپنا دوست بنانے کے لیے تیار ہے، یہ معمولی انعام نہیں ہے۔

ولی الله بننے کا نسخہ
الله کا ولی بننے کے لیے بڑے بڑے وظیفوں کی ضرورت نہیں ہے، الله تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم آدھی رات کو دریا میں جاؤ او رگردن تک پانی میں ڈوب کر وظیفے پڑھو یا قبرستان میں ٹوٹی ہوئی قبر میں لیٹ کر وظیفے پڑھو۔ الله نے اپنی دوستی کے لیے کسی وظیفہ کی شرط نہیں لگائی، صرف ایک شرط لگائی ہے کہ جس کام سے ہم ناراض ہوتے ہیں تم ہم کو ناراض کرکے وہ کام نہ کرو اور آرام سے ولی الله بن جاؤ۔ کیوں کہ ہر گناہ میں پریشانی، ذلت وخواری، بے چینی اور بے عزتی ہے، صحتِ جسمانی کی بھی خرابی ہے اور صحتِ روحانی کی بھی خرابی لازم ہے ۔ ہم تم کو مصیبتوں سے، بے عزتی کے کاموں سے، جسمانی اورروحانی صحت کی خرابیوں سے بچانے کے لیے او راپنی دوستی حاصل کرنے کے لیے ایک راستہ بتاتے ہیں کہ تم گناہوں کے نجس کنکر، پتھر جیسی خراب چیزوں کو اپنے قلب کی جھولی سے پھینک دو اور اپنے مولیٰ کو حاصل کر لو۔

اجتنابِ معصیت پر عطائے نسبت
جس کو الله ملتا ہے تو وہ بے مثل ذات کو اپنے دل میں رکھتا ہے، اسی لیے خود بھی بے مثل ہو جاتا ہے، لذتِ بے مثل سے آشنا ہو جاتا ہے اور اس کو دنیا ہی میں جنت سے افضل نعمت حاصل ہو جاتی ہے، یعنی خالقِ جنت مل جاتا ہے۔ اس پر میر الیسٹر کا میڈانِ لندن شعر سنیے #
        مانا کہ میر گلشنِ جنت تو دور ہے
        عارف ہے دل میں خالقِ جنت لیے ہوئے

حفاظتِ نظر کا حکم انسانی فطرت کے عین مطابق ہے
جب آپ شریف آدمی ہو کر گوارا نہیں کرتے کہ کوئی آپ کی بہو، بہن، بیٹی، بیوی کو دیکھے تو آپ بھی کسی کی بیوی کو، کسی کی بیٹی کو، کسی کی بہن کو نہ دیکھیں۔ اب اگر کوئی بے غیرتی ہی پر اتر آیا ہو تو وہ مستثنیٰ ہے، ہم اس کو نہیں کہتے، لیکن اگر کسی میں ذرا بھی شرافت اور دل میں ذرا بھی غیرتِ انسانی ہو تو وہ الله کے احکام کو سمجھ جائے گا کہ الله تعالیٰ نے جو تقویٰ کا حکم دیا ہے ، وہ ہماری فطرت کے مطابق دیا ہے، ہم خود بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہماری بہن، بیٹی اور بیوی کو کوئی نہ دیکھے۔

نعمتِ قربِ الہٰی افضل نعمائے عالم ہے
ایک بزرگ کو الله تعالیٰ کی ذات مع اپنی تجلیات او رمع اپنی صفات قلب میں محسوس ہوئی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا #
        یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمع محفل کی
        پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی
یہ کون آیا کہ ساری کائنات میں اور سورج چاند میں لوڈشیڈنگ محسوس ہو رہی ہے ، سلاطین کے تخت وتاج نیلام ہو رہے ہیں ، لیلائے کائنات کے نمکیات نگاہوں سے گرے ہوئے نظر آرہے ہیں، پاپڑ بریانی اور دنیا کی جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اس منعم حقیقی کی تجلیات کے ظہور کے بعد نگاہوں سے گری جارہی ہیں ۔ آہ! میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمة الله علیہ اکثر یہ شعر پڑھ کر مست ہو جاتے تھے اور آنسو بہاتے تھے اور ایک شعر اور پڑھتے تھے #
        بس ایک بجلی سی پہلے کوندی پھر اس کے آگے خبر نہیں ہے
        مگر پہلو کو جو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے جگر نہیں ہے

زخمِ حسرت پر حلاوتِ ایمانی کی بشارت
الله نے ہمیں خراب آرزوؤں کا خون کرنے کا حکم دیا ہے کہ کسی کی بہن، بیٹے یا بیٹی کو مت دیکھو، خراب آرزو کو پورا مت کرو، اپنی حرام خوشیوں کا خون کر لو، کیوں کہ یہ خوشی تم کو رُسوا کر دے گی ، ذلیل کردے گی، مولیٰ سے دور کر دے گی، اس لیے اس خوشی کو ترک کر دو، ان لیلاؤں کو چھوڑ دو۔ اگر جنت کے بارے میں تم کہو کہ اے الله! جنت تو اُدھار ہے، مگر لیلیٰ نقد ہے، سڑکوں پر پھر رہی ہے، دوکانوں میں آرہی ہے ۔ تو الله تعالیٰ کی طرف سے جواب سن لو کہ جب ہم نظر بچانے پر حلاوتِ ایمانی دیتے ہیں تو جنت تو اُدھار رکھتے ہیں، لیکن تمہارا مولیٰ تم کو نقد ملتا ہے، جب تم گناہ چھوڑنے پر صبر کروگے، صبر کی کڑوی گولی کھاؤ گے، نظر بچانے میں دل پر زخمِ حسرت کھاؤ گے تو ﴿اِنَّ الله مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ الله تعالیٰ تمہارے ساتھ ہوں گے۔

معیت الہٰیہ کے درجات
یہاں مَعَ یعنی ساتھ کے کیا معنی ہیں؟ معیت کی بہت قسمیں ہیں، پیغمبروں کی معیت اور ہوتی ہے، ان کے دل میں الله کی معیت اور ہوتی ہے، صد یقین اور اولیاء کی معیت اور ہوتی ہے، جو جتنا قوی ولی الله ہوتا ہے اتنا ہی اس کا الله تعالیٰ سے تعلق بھی قوی ہوتا ہے ۔ اس تعلق مع الله کی بے شمار قسمیں ہیں، جتنے ولی ہیں اتنی قسمیں ہیں۔ وہ ولی جو الله کے لیے زیادہ غم اٹھاتا ہے اورایک لمحہ بھی اپنے الله کو ناراض نہیں کرتا، اس کا تعلق مع الله کیا اس کے برابر ہو گا جو نیکیاں بھی کرتا ہے اور کبھی کبھی نظربا زیاں بھی کرتا ہے؟! جو نیکیاں بھی کرتا ہے او رحرام لذتیں بھی کشید کرتا ہے؟!

ناپاک عشق کی تمام منازل ناپاک ہوتی ہیں
وہ بندہ جو الله تعالیٰ کے قرب کی لذت کو ہر وقت ، ہر لمحہٴ حیات میں کشید کرتا ہے، اپنے خون تمنا سے اپنی مے کشید کرتا ہے، وہ اپنا مے کدہ اپنے قلب میں رکھتا ہے، اسے کسی دوسرے مے کدہ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ الله تعالیٰ اس کے خون تمنا اور خون آرزو کے صدقے میں اپنی محبت کامے کدہ ہر وقت اس کے قلب میں آباد رکھتے ہیں۔

تو میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھول پوری نے فرمایا کہ جب بندہ الله کو پاجاتا ہے اور کیا چھوڑ کرپاتا ہے؟ نجس اورگندے مقامات کو۔ کیوں کہ ہر گناہ کا آخری مرکز وہی ہے۔ اس پر میرا شعر سن لیجیے #
        عشقِ بتاں کی منزلیں، ختم ہیں سب گناہ پر
        جس کی ہو ابتداء غلط کیسے صحیح ہو انتہاء؟
اگر کسی کو کسی حسین پر پورا قابومل جائے تو اولیاء صدیقین مستثنیٰ ہیں، وہ تو گناہ میں ملوث نہیں ہوں گے، لیکن عام امت کے لیے خطرہ ہے کہ وہ گناہ میں مبتلا ہو سکتی ہے۔

طلوعِ آفتابِ قربِ الہٰی
الله تعالیٰ زخم حسرتِ حسن نامعلوم دے کر تمہیں شدتِ غم حسنِ معلوم سے بچارہے ہیں، یعنی سانپ سے بچارہے ہیں، بس تھوڑا سا مچھر کے کاٹے کو برداشت کر لو اور اس کے بعد آپ کو کیا ملے گا؟ خونِ آرزوسے کیا ملے گا؟ الله تعالیٰ کے قرب کا سورج ملے گا۔ الله تعالیٰ کا ئنات کو ایک سورج دیتا ہے تو مشرق لال ہو جاتا ہے ،مگر اپنے عاشقوں کو جوہر وقت خونِ آرزو اور خون تمنا کرکے اپنے مالک کو ایک لمحہ بھی ناراض نہیں کرتے، اس ایثار ووفاداری کے صدقے میں الله تعالیٰ ان کے دل کے چاروں اُفق پر بے شمار آفتاب دیتا ہے۔

انسان کے قلب میں بھی مشرق ہے، قلب میں بھی مغرب ہے، قلب میں بھی شمال ہے، قلب میں بھی جنوب ہے۔ اگربندہ ہر طرح سے الله کا وفادار اور نمک حلال ہے، اپنے دل کے خونِ آرزو سے اپنے مشرق، مغرب ، شمال، جنوب کو سرخ کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس کے دل کے ہر اُفق کو بے شمار آفتابِ معرفت عطا فرماتا ہے، آفتابِ محبت عطا فرماتا ہے، آفتابِ قربِ ولایتِ خاصہ عطا فرماتا ہے، آفتابِ ولایتِ صدیقیت نصیب فرماتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمہ الله علیہ کا ایک شعر یاد آگیا #
        جب کبھی وہ اِدھر سے گزرے ہیں
        کتنے عالم نظر سے گزرے ہیں
یعنی جب خالقِ عالم قلب کی گلیوں میں آئیں گے تو سارے عالم کو ساتھ لائیں گے۔ تو میرے شیخ شاہ عبدالغنی پھول پوری رحمة الله علیہ نے یہ عجیب وغریب واقعہ سنایا کہ ایک شخص رند مشرب، حسن پرست، بدنگاہی کا شدید مریض جب اس نے گناہوں سے توبہ کر لی اور خون آزو کی مشق کرلی اور دنیاوی لیلاؤں سے دستبرداری کر لی، یہ ہے علامتِ وفاداری۔ جو دنیاوی لیلاؤں سے حکم الہٰی سمجھ کر دست برداری کر لے کہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّؤا مِنْ اَبْصَارِھِمْ﴾ اے نبی ! مومنین سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔تو اس وفاداری کے صدقے میں جب اس کو الله تعالیٰ، مولائے کائنات اپنے قربِ خاص وتجلیاتِ خاص کے ساتھ قلب میں محسوس ہوا کہ دل میں کوئی آگیا ہے #
        یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمع محفل کی
        پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی
خواجہ صاحب نے جونپور میں حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة الله علیہ سے پوچھا تھا کہ حضرت جب مولیٰ دل میں آتا ہے تو کیا اس کو پتا چل جاتا ہے کہ آج میرے قلب میں مولیٰ آگیا ہے؟ تو حضرت تھانوی نے فرمایا کہ خواجہ صاحب جب آپ بالغ ہوئے تھے تو کیا آپ کو دوستوں سے پوچھنا پڑا تھا کہ یاروبتاؤ! عزیز الحسن بالغ ہوا یا نہیں؟ یا آپ کو اپنے بلوغ کا خود احساس ہو گیا تھا؟ آپ کی رفتار بدل گئی، گردن کے نشیب وفراز اور گفتار ، رفتار اور کردار سب بدل گئے۔ جب روح بالغ ہوتی ہے اور الله کو پاجاتی ہے تو اس کی رفتار، اس کا کردار سب کچھ بدل جاتا ہے۔

ایمان کی تین اقسام
ایمان کی تین قسمیں ہیں، ایک ایمان استدلالیہ، دوسرا ایمانِ موروثیہ، تیسرا ایمان ذوقیہ۔ ایمان استدلالیہ یہ ہے کہ ہر آدمی کہتا ہے کہ اس کائنات کا ضرور کوئی خالق ہے او راس پر الله کی مخلوقات سے استدلال قائم کرتا ہے او رایمانِ موروثیہیہ ہے کہ اس کے والدین مسلمان تھے۔ لیکن جب ایمان، ایمانِ ذوقیہ، ایمان حالیہ اور ایمان وجدانیہ سے بدل جائے گا تب آپ کے قلب میں وجدان ہو گا، آپ واجدہوں گے یعنی الله آپ کے قلب میں اپنی تجلیات کے ساتھ موجود ہو گا، اس ایمان کو ایمانِ وجدانیہ کہتے ہیں، ایمانِ ذوقیہ کہتے ہیں، ایمان حالیہ کہتے ہیں ۔ یہی ایمان اہل الله کو عطا ہوتا ہے، یہ ایمانی کیفیت ذکر کی برکت سے، گناہوں کو چھوڑنے کی برکت سے اور اہل الله کی جوتیاں اٹھانے کی برکت سے عطا ہوتی ہے۔

بارگاہِ الہٰی میں ناامیدی نہیں ہے
پھولوں کی جڑوں میں یعنی گلاب، چنبیلی کی جڑوں میں گوبر ہوتا ہے ،لیکن پھولوں میں خو ش بو ہوتی ہے۔ اپنی قدرت دکھائی کہ پھولوں کی جڑوں میں تم تو بد بودار کھاد دیتے ہو، لیکن ہم پھولوں میں عرشِ اعظم سے خوش بو بھیجتے ہیں، نسیم جنت بھیجتے ہیں، جنت کی ہوائیں آتی ہیں، جو کلیوں کی مُہر توڑتی ہیں، یہ پھولوں کا کمال نہیں ہے، پھولوں کا کمال ہوتا تو جڑوں میں جو لید ہے وہ اپنی بہار دکھاتی اور پھول بد بودار پیدا ہوتے۔

اس لیے اے گنہگارو! ناامید نہ ہو، اگرچہ تمہای ناف کے نیچے نجاستِ اصلیہ ہے او راگرچہ تمہارے اخلاق، کردار اور بری بری عادتیں بد نظری وغیرہ نجاستِ معنویہ ہے۔ تو تمہارے ناف کے نیچے نجاستِ اصلیہ بھی ہے او رتمہارے قلب میں برے برے خیالات او ربری بری عادتوں کی نجاستِ معنویہ بھی ہے ،لیکن اس کے باوجود نا امید نہ ہونا، جیسے ہم پھولوں کو کھاد کے باوجود خوش بو دیتے ہیں، تم کو بھی اپنی ولایت اور قرب کی خوش بو سے نواز سکتے ہیں۔ بس میرے ارادے کی دیر ہے، میرا ارادہ بے حد طاقت ور ہے اور میرے ارادہ پر مراد کا تخلف محال ہے۔

الله تعالیٰ خالقِ رحمتِ مادرِ کائنات ہیں
میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب فرماتے تھے کہ حکیم اختر سنو! الله تعالیٰ کی دوستی بڑی آسان ہے کہ خراب چیز یعنی گناہوں کے کنکر پتھر جھولی سے پھینک دو، الله تعالیٰ اپنی رحمت سے تمہاری جھولی کو بھی پاک کرے گا اوراپنی ذات بھی عطا کرے گا۔ الله تعالیٰ دونوں کام کرتے ہیں، لاَ اِلٰہ سے ہمارے قلب کی گندگی اور نجاست کو پاک کرتے ہیں اور اِلاَّ اللّٰہُ سے اپنی قرب کی نوازش کرتے ہیں۔

الله وظائف سے نہیں، تقوی سے ملتا ہے
جگر مراد آبادی کے استاد اصغر گونڈوی کا شعر ہے #
        جمال اس کا چھپائے گی کیا بہارِ چمن
        گلوں سے چھپ نہ سکی جس کی بوئے پیراہن
اگر الله والے اپنی خوش بو بھی چھپالیں اور سب سے کہیں کہ میں تو کچھ نہیں ہوں، لیکن جو سمجھ دار ہو گا وہ سمجھ جائے گا کہ یہ بہت کچھ ہیں، جب ہی کہتے ہیں کہ میں کچھ نہیں ہوں۔ جو کچھ نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم بہت کچھ ہیں اور جو بہت کچھ ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں ہیں، یہ عجیب معاملہ ہے۔

میرے مرشد شاہ عبدالغنی رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ الله والا بننا بہت آسان ہے، بس کسی الله والے کا ہاتھ پکڑ لو۔ الله کا راستہ تنہا طے کرنا بہت مشکل ہے، اسی لیے کسی الله والے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لو ،پھر الله کاراستہ صرف آسان ہی نہیں، مزے دار ہو جاتا ہے۔ یہ جملہ میرے شیخ فرماتے تھے کہ الله والوں کے صدقے میں الله کا راستہ صرف آسان ہی نہیں ہوتا، مزے دار بھی ہو جاتا ہے ۔ میرے مرشد نے فرمایا کہ ایک رندباد نوش، جوشرابی کبابی تھا اور کارشبابی بھی کرتا تھا، لیکن جب الله کو پا گیا اور تمام گناہ چھوڑ دیے تو یہ کہہ کر رویا #
        جمادے چند دادم جاں خریدم
        بحمدالله عجب ارزاں خریدم
اے خدا! میں نے آپ کی راہ میں کنکر پتھر پیش کیے، یعنی گناہ چھوڑ دیے تو آپ نے کیا دیا؟ ہم نے خراب کام ہی تو چھوڑے ہیں، گناہوں کے نجاست آلودہ کنکر پتھر ہی تو چھوڑے ہیں، یعنی گناہوں سے توبہ کر لی ہے، مگر اس کی برکت سے آپ کو پالیا ہے، الحمدلله! الله تیرا شکر ہے، آپ کو بڑا سستاپایا ہے۔

حفاظتِ نظر کی بہ نسبت نظر بازی میں زیادہ تکلیف ہے
حیدرآباد دکن میں ایک صاحب نے کہا کہ ہر وقت نظر بچاتے بچاتے تو دل میں بڑی حسرت آئے گی؟ میں نے کہا کہ پھر انعام بھی سن لو۔ میڈاِن حیدرآباد دکن شعر پیش کر رہا ہوں، اسی وقت الله تعالیٰ کے کرم سے یہ شعر عطا ہوا، تاکہ سائل کو اطمینان ہو جائے #
        ہائے جس دل نے پیا خونِ تمنا برسوں
        اس کی خوش بو سے یہ کافر بھی مسلماں ہوں گے
پھر میں نے دیکھا کہ وہاں سی آئی ڈی والے کچھ نوٹ کر رہے ہیں تو میرے دل میں فوراً ایک اور مصرع آگیا #
        اس کی خوش بو سے یہ کافر بھی مسلماں ہوں گے
یعنی ناقص ایمان والے، کمزور ایمان والے مومن، قوی مومن اور خاص ولی الله ہو جائیں گے، ولایتِ عامہ کا مومن ولایتِ خاصہ سے مشرف ہو گا۔

حلاوتِ ایمانی کے اثرات
الله تعالیٰ نے جنت کو ادھار رکھا ہے ،لیکن خود کو ادھار نہیں رکھا، جس وقت نظر بچائی اسی وقت حلاوتِ ایمانی پائی یعنی مولیٰ کی خو ش بوئے قرب عطا ہوئی، الله اپنے قرب کی خوش بو عطا کر دیتے ہیں، جس کا نام حلاوتِ ایمانی ہے۔ دل سے سارے جسم میں خون سپلائی ہوتا ہے، دل ہیڈآفس ہے، حوض ہے، مرکزہے، جب دل میٹھا ہوتا ہے تو وہ جو خون سپلائی کرتا ہے اس سے کانوں میں قوت سامعہ، یعنی سننے کی طاقت پیدا ہوتی ہے تو کان بھی میٹھے ہو جاتے ہیں، آنکھ بھی میٹھی ہو جاتی ہے ، زبان بھی میٹھی ہو جاتی ہے، اگر درد بھی اٹھتا ہے تو وہ بھی میٹھا ہوتا ہے۔ خواجہ عریز الحسن مجذب رحمة الله علیہ فرماتے ہیں #
        ہے عشق مجھے کس لبِ شیریں کا الہٰی
        گر درد بھی اٹھتا ہے تو میٹھا میرے دل میں

اعمال کی قدروقیمت اسی دنیاوی زندگی میں ہے
بتاؤ! انسان مرنے کے بعد گناہ چھوڑتا ہے یا نہیں؟ یا کسی کا جنازہ گناہ کر سکتا ہے؟ مرنے کے بعد کفن ہٹا کر کسی حسین کو دیکھ سکتے ہو؟ مرنے کے بعد تو کافر بھی گناہ چھوڑ دیتا ہے، مرنے کے بعد کافر بھی گناہ نہیں کرتا۔ ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ مجھے مولیٰ والا بنا دیں، میں چاہتا ہوں کہ مولیٰ کے پاس تو جانا ہے، لیکن مولیٰ کے پاس بغیر مولیٰ نہ جاؤں، مولیٰ کے پاس مولیٰ کو لے کر جاؤں۔ یہ ظالم میرے پاس آتا ہے، اس نے یہ جملہ مجھ ہی سے سیکھا ہو گا۔

اہل الله کا بے مثل جذبہ ندامت
مولانا رومی فرماتے ہیں #
        ہر کجا بینی تو خوں برخاک ہا
        پس یقیں می داں کہ آں از چشم ما
اے دنیا والو! جہاں بھی زمین پر دیکھنا کہ کچھ خون پڑا ہوا ہے تو یقین کر لینا کہ جلال الدین رومی ہی وہاں الله کی محبت میں خون کے آنسو رویا ہو گا۔ پوری کائنات میں جہاں دیکھنا کہ خون پڑا ہے تو سمجھ لینا کہ جلال الدین الله کی عظمتوں کے سامنے، قیامت کے خوف سے، اپنی نالائقیوں پر ندامت کی وجہ سے خون کے آنسو رویا ہو گا۔ اس کا نام جذبہ گرفتن ہے، یعنی الله والوں کو اتنا جذبہٴ ندامت ہوتا ہے کہ اگر وہ سارے عالم میں خون کے دریا کے دریا رو لیں تو بھی الله کی عظمت کے سامنے اپنے گناہوں پر ندامت کا حق ادا نہیں ہو سکتا ہے ۔ اسی جذبہ کے طور پر مولانا رومی نے یہ شعر کہا تھا۔ اور مولانا رومی الله تعالیٰ سے عرض کر رہے ہیں #
        اے دریغا اشکِ من دریا بدے
        تانثارِ دلبرے زیبا شدے
اے خدا! چند آنسو رونے سے ہماری تسلی نہیں ہوتی، لہٰذا ہمارے آنسوؤں کو دریا بنا دے، تاکہ جلال الدین رومی دریا کے دریا آنسو آپ پر فدا کرے۔

الله والوں کے یہ جذبات ہوتے ہیں، الله والوں کے قلب میں کیا کیا جذبات ہوتے ہیں او ران کے قلب کے عالم میں کیا کیا عالم ہوتے ہیں دوسرا اس کو کیا جانے؟ درد والے کے درد کو بے درد کیا جانے کہ درد کیا چیز ہے؟

اب جلدی سے دو تین باتیں پیش کرتا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ میرے مرشدِ ثانی شاہ ابرابر الحق صاحب دامت برکاتہم جب شیخ الحدیث مولانازکریا صاحب رحمة الله علیہ سے ابوداؤد شریف پڑھ رہے تھے تو شیخ الحدیث نے ان کے بارے میں فرمایا کہ مولانا ابرار الحق صاحب جب مجھ سے ابوداؤد شریف پڑھ رہے تھے تو اسی وقت سے یہ صاحبِ نسبت یعنی ولی الله ہیں۔

ضرورتِ شیخ کی ایک مثال سے وضاحت
میرے مرشدِ ثانی شاہ ابرار الحق صاحب مجھ کو ہر دوئی شہر میں ایک مریض کی عیادت کے لیے لے گئے، اس کے گھر کے سامنے دو گھر تھے، ایک گھر کے سامنے گدھے کی لید، گھوڑے کی لید، کانٹے اور گندگی پڑی ہوئی تھی اور دوسرے گھر کے سامنے ایک مالی بیٹھا ہوا ہے او رگلاب،چنبیلی او ربیلا کے خوش نما پھول او رگھاس سلیقہ سے لگی ہوئی ہے۔ تو میرے مرشد نے فرمایا کہ دیکھو جہاں مالی ہے اس گھر کے صحن اور دروازے کے سامنے گلشن اورگلستان اور رشکِ چمن نظارہ نظر آرہا ہے اور جس گھر کا کوئی مالی نہیں ہے، اس کے سامنے گدھے گھوڑے کی لید، کانٹے اور گندگیاں نظر آرہی ہیں۔ اسی طرح جس دل کی زمین پر الله والوں کی تربیت کا فیضان ہوتا ہے، اس کے دل میں الله کی محبت کے پھول کھِلے ہوتے ہیں اور جس کے دل میں کوئی باغباں، کوئی مرشد نہیں ہوتا اس کے دل میں شہوات کے برے برے خیالات او رگناہوں کی لید اور گوبر ہوتے ہیں۔

اہل علم کے لیے صحبت اہل الله کی ضرورت
جدہ سے مکہ شریف جاتے ہوئے ہمارے پیر بھائی انجینئر انوارالحق ایک پیٹرول پمپ پر پیٹرول لینے کے لیے رکے تو وہاں ایک بہت بڑا آئل ٹینکر بھی آگیا، جس کی پیٹھ پر دس ہزار گیلن پیٹرول لدا تھا۔ اب اس نے بھی کہا کہ دو گیلن ہم کو بھی دے دو۔ تو حضرت نے انوار الحق صاحب سے فرمایا کہ یہ پیٹرول پمپ والے سے دو لیٹر پیٹرول کیوں مانگ رہا ہے؟ اس پر تو خود دس ہزار گیلن پیٹرول لدا ہوا ہے تو انوارالحق صاحب نے کہا کہ حضرت دس ہزار گیلن پیٹرول اس کی پیٹھ پر ہے ،اس کے انجن میں نہیں ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ علم اگر پیٹھ پر ہو، مگر دل میں الله کی محبت نہیں ہو ، مدرسوں سے علم کی کمیات تو سیکھ کر آیا، مگر الله والوں سے الله کی محبت کی کیفیتِ احسانیہ اور کیفیتِ محبت نہیں سیکھی تو اس کی پیٹھ پر لدا ہوا علم ایسا ہے کہ نہ خود فائدہ اٹھا سکتا ہے، نہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ اہلِ علم کو اپنے علم پر غرور وناز نہیں کرنا چاہیے، الله والوں کی جوتیاں اٹھانے سے شرمانا نہیں چاہیے، جب مولیٰ کو پاجاؤ گے تب دل سے ان پر فدا ہو جاؤ گے کہ الله والوں سے کیا ملتا ہے۔ جس طرح امرود والوں سے امرود ملتا ہے، مٹھائی والوں سے مٹھائی ملتی ہے او رکباب والوں سے کباب ملتا ہے ۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمة الله علیہ فرماتے تھے کہ جب ہر چیز اس کے والوں سے ملتی ہے تو الله بھی الله والوں سے ملتا ہے۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمة الله علیہ جن کے ساتھ اختر کو الله نے تین سال مسلسل ان کی مجلس میں بیٹھنے کا شرف عطا فرمایا، فرماتے ہیں #
        نہ جانے کیا سے کیا ہو جائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا
        جو دستارِ فضیلت گم ہو دستارِ محبت میں
اے الله! ہماری حیات میں وہ ایمان داخل فرمادے کہ جس سے ہم ہر لمحہٴ حیات آپ پر فدا رہیں او رایک سانس بھی آپ کو ناراض کرنے والے کسی گناہ میں مشغول نہ ہوں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اولیاو صدیقین کی حیاتِ پاکیزہ عطا فرما دے۔ آمین!

Flag Counter