Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 17
محرم الحرام، توہمات کی زد میں

مولانامحمد سرور شوکت
متخصص فی الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی

نبی اکرم صلى الله عليه وسلم اور یگر تمام انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام دنیا میں لوگوں کے لیے ہدایت و راہ نمائی لے کر آئے تھے، جس کی روشنی میں لوگ الله تعالیٰ کے پسندیدہ طریقہ پر چل کر دنیا وآخرت کی کام یابیاں حاصل کریں اور دوسری طرف اپنی طرف سے بنائے گئے توہمات، خیال پرستی، وساوس اور فضول رسومات کو چھوڑ کر خواہ مخواہ کی مشقت، تکلیف سے نکل جائیں۔

الله تعالیٰ نے شریعت کو زندگی کا واحد طریقہ قرار دیا، تاکہ انفرادی واجتماعی زندگی کی گزر بسر عافیت وآسانی کے ساتھ ہو، کوئی قانونی پیچیدگی، خلا نہ ہو، انسانوں کو طریقہ وقانون خود طے کرنے کی تکلیف نہ دی جائے، کیوں کہ اس کا علم، تجربہ محدود ہے، یہ کل کا دھندلا سا خیال لاسکتا ہے، مگر اس کی حقیقت، ضرورت ومسائل کا بخوبی ادراک نہیں کرسکتا، وحی کی روشنی میں ماضی، حال اور مستقبل کی ضرورتوں کا انتظام ہو سکتا ہے۔

الله تعالیٰ کے احکامات میں حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیروی میں سراسر فائدہ اور سہولت ہے، انسان نے جب کبھی اس کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کیاہے تو اس نے ہمیشہ سہولت ، راحت کے بدلے مشقت اور تکلیف اٹھائی، محرم الحرام اور سال بھر کے سارے مہینوں ، دنوں کے بارے میں نبوی ہدایات موجود ہیں ، خوشی وغمی کے بارے میں بتایا گیا ہے، مگر دخل اندازی کا اثر یہ ہوا کہ اب جوں ہی ماہ محرم قریب آتا ہے، ہر طرف سوگ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، طرح طرح کی رسومات و توہمات لوگوں کو گھیر لیتی ہیں، کیا ان پڑھ، کیا جاہل؟ اچھے خاصے پڑھے لکھے ، مذہب سے وابستگی رکھنے والے لوگ بھی عقیدہ کی کمزوری، تو ہم پرستی، فضول رسومات او راہل باطل کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسے نظر آتے ہیں۔

ماہِ محرم محترم یا منحوس؟
ماہ محرم میں سوگ منانا، اسے منحوس سمجھنا اور کوئی خوشی کی تقریب انجام نہ دینا لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی پابندیاں ہیں، شریعت نے کسی طرح بھی ان توہمات کو اختیار کر لینے کا نہیں بتایا ہے ، اہل باطل نے جب یہ دیکھا کہ ان کی تعداد کم ہے، تو ایسی باتیں مسلمانوں میں پھیلائیں، جن سے خوف، دہشت توہمات کی کیفیت طاری ہو جائے، تاکہ ان کے خانہ زاد ”غم“ اور ”تعزیہ“ کو افراد اور ماحول کی قوت ملے۔

کوئی چیز بذات خود منحوس نہیں ہوتی، بلکہ نحوست انسان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتی ہے، اس کا سبب کسی مہینے ، جانور، ستارے یا کسی بے جان چیز کو قرار دینا، یہ جہالت ہے ۔ لله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ایسے غلط عقیدوں کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے۔ چناں چہ قرآن پاک میں الله تعالیٰ نے نحوست کا سبب بد اعمالیوں کو بتایا ہے ، ارشاد پاک ہے۔

﴿قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَن مَّعَکَ قَالَ طَائِرُکُمْ عِندَ اللَّہِ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُون﴾․(النمل، آیت:47)
ترجمہ: وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو او رتمہارے ساتھ والوں کو منحوس سمجھتے ہیں ( حضرت صالح علیہ السلام نے جواب میں )فرمایا کہ تمہاری (اس) نحوست کا (سبب) الله کے علم میں ہے، بلکہ تم وہ لوگ ہو کہ ( اس کفر کی بدولت) عذاب میں مبتلا ہو گے۔

حضرت صالح علیہ الصلاة والسلام نے اپنی قوم کو جب ایمان کی دعوت دی تو ان لوگوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا:” جب سے تم لوگ آئے ہو، ہم پر قحط وسختیاں آگئی ہیں ، یہ نحوست تم لوگوں کی وجہ سے ہے۔“ الله تعالیٰ نے اس کی تردید فرما کر بتادیا کہ تم پر جو آفت پڑی ہے، یہ تو الله تعالیٰ کی طرف سے عذاب ہے، اس کا سبب تو الله تعالیٰ کے علم میں ہے کہ وہ بد اعمالیاں ہیں ، حق کی دعوت دینے والے اس کا سبب نہیں، ان کی دعوت کو ٹھکرانا اورنہ ماننا اس عذاب کا سبب ہے۔

اسی طرح قرآن پاک میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَةٌ یَطَّیَّرُواْ بِمُوسَی وَمَن مَّعَہُ أَلا إِنَّمَا طَائِرُہُمْ عِندَ اللّہُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُون﴾․ (الاعراف، آیت:131)
ترجمہ: اور اگر ان کو کوئی بد حالی پیش آتی تو موسی او ران کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے ہیں، یاد رکھو !ان کی نحوست ( کا سبب) الله کے علم میں ہے، لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

حضرت موسی علیہ الصلاة والسلام نے جب فرعون اور اس کی قوم کو ایمان کی دعوت دی، تو انہوں نے انکار کیا، جس کی وجہ سے ان پر قحط سالی آئی ، اس پر وہ کہنے لگے کہ یہ سب ( معاذ الله) موسی اور ان کے رفقاء کی نحوست ہے، تو حق تعالیٰ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔

حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس طرح کی باتوں سے منع فرمایا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ذکر ہے :عن أبی ھریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ” لا عدوی، ولا طیر، ولاھامة، ولا صفر“․
ترجمہ: حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہ بیماری کا متعدی ہونا ہے ( زمانہ جاہلیت میں لوگوں کااعتقاد تھا کہ جو شخص بیمار کے ساتھ کھاتا پیتا ہے تو اس کی بیماری اس کو بھی لگ جاتی ہے ) اور نہ بدفالی ہے ( عرب کی عادت بدشگونی کی تھی، جب کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے ،اگر وہ دائیں جانب جاتا تو نیک شگون لیتے اگر وہ بائیں جانب جاتا تو بدشگونی لیتے) اور نہ ہامہ ہے ( یہ پرندے کا نام ہے، جاہلیت میں لوگوں کا زعم باطل تھا کہ یہ مقتول کی ہڈیوں سے پیدا ہوتا ہے اور فریاد کرتا ہے میری پیاس بجھا دو، یہاں تک کہ اس کا قاتل مارا جائے) نہ صفر ( ماہ صفر کے بارے میں عرب کا یہ اعتقاد تھا کہ اس میں حوادث وآفات کا نزول ہوتا ہے۔)

جس طرح جاہلی دور میں لوگ صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور طرح طرح کے توہمات کا شکار تھے، کچھ ناسمجھ لوگ اب بھی ایسا خیال کرتے ہیں، مگر پڑھے لکھے ایک قدم آگے بڑھ کر محترم مہینہ کو بھی منحوس سمجھنے لگے۔

نحوست کے بارے میں ایک وضاحت
مذکورہ بالا روایت کے بعض طرق میں آتا ہے کہ نحوست ہوتی ہے اور اس کا اثر تین چیزوں میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت عبدالله ابن عمر رضی الله عنہما سے یہ روایت منقول ہے:”عن عبدالله بن عمر رضی الله عنہما، أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ”لا عدوی ولا طیرة؛ وانماالشؤم فی ثلاثة: المرأة، والفرس، والدار․“
ترجمہ: آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہ بیمار ی کا متعدی ہونا ہے، نہ بد فالی، بدشگونی ہے، شوم ( نحوست کا اثر) تو صرف تین چیزوں میں (ہوتا) ہے: عورت، گھوڑا او رگھر۔

اسی طرح صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت میں حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے یوں منقول ہے:”عن ابن عمر عن النبی صلی الله علیہ وسلم أنہ قال: ان یکن من الشؤم شيء حق، ففی الفرس والمرأة والدار․“
ترجمہ: آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ( یوں تو کسی چیز میں از خود سے نحوست نہیں ہوتی) اگر شوم ( نحوست، جس کا ذکر لوگ کرتے رہتے ہیں اس) میں سے کوئی بات (واقعی) سچ ہو، تو وہ تین چیزوں میں ہوگی، گھوڑا، عورت او رگھر۔

نحوست کو کسی درجہ تسلیم کر لینے کا ذکر ان روایات میں آیا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے صحیح بخاری کی شرح ” کشف الباری عن مشکلات صحیح البخاری“ میں مذکور ہے:

”بعض علماء نے فرمایا کہ درحقیقت”شؤم“ کی دو قسمیں ہیں: ایک : شوم بمعنی عدم موافقت اور دوم: شوم بمعنی نحوست، حدیث باب میں شوم بمعنی عدم موافقت اور ”لاعدوی ولا طیرہ“ میں شوم نحوست کے معنی ( میں) ہے، اس صورت میں شومِ دار کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تنگ ہو یا وہاں پڑوسی اچھے نہ ہوں، یا وہاں کی آب وہوا خراب ہو، اسی طرح شومِ مرأة کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اولاد نہ ہو، زبان دراز ہو، عفت وپاک دامنی کا خیال نہ رکھتی ہو اور شومِ فرس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہاد میں کام نہ آئے، سرکش ہو یا اس کی قیمت زیادہ ہو۔“

اسی طرح نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے زمانہ کو بُرا کہنے او رگالی دینے سے منع فرمایا ہے چناں چہ حدیث قدسی ہے:”عن النبی صلی الله علیہ وسلم: یقول عزوجل: یؤذینی ابن آدم، یسب الدھر، وأنا الدھر، بیدی الامر، اقلب اللیل والنھار․“
ترجمہ: آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے ، ( یعنی میری شان کے خلاف بات کہتا ہے اور وہ اس طرح) کہ وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے ، حالاں کہ زمانہ میں ہوں (یعنی زمانہ میرے تابع او رماتحت ہے ) میرے قبضہٴ قدرت میں تمام حالات اور زمانے ہیں ،میں ہی رات اور دن کو پلٹتا ہوں۔

مذکورہ بالا روایات او رہدایات سے معلوم ہوا کہ نحوست کی نسبت چیزوں کی طرف نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کا سبب بد اعمالیاں ہیں، ایسے ہی زمانے کو یا کسی خاص دن یا مہینے کو بُرا بھلا کہنا درست نہیں، سب زمانے، مہینے اور دن الله تعالیٰ کی تخلیق ہے ، اسی کی تقدیر سے سارے واقعات کا تعلق ہے۔

اسلامی تقویم کا استعمال
محرم الحرام اسلامی تقویم ہجری کا پہلا مہینہ ہے، الله تعالیٰ نے مہینوں کو جس شکل میں پیدا کیا تھا، اس میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، مشرکین عرب مہینوں کے نام بدل دیتے تھے، پورے سال کے مہینوں کی صحیح تعیین مشکل ہو گئی تھی، مگر حجة الوداع کے موقع پر یہ تبدیلی بھی ختم ہو گئی، حقیقت میں تو کوئی مہینہ بدلانہیں جاسکتا، مگر ناموں کی تحریف کرکے اپنے خیال میں مہینہ بدل دیتے تھے، آخری حج کے موقع پر یہ تحریف وتبدیلی کا عمل درست سمت کی طرف آیا، ذوالحجہ کا مہینہ قریش کے حساب میں بھی اسی جگہ پر آیا جو اس کا اصلی اور فطری مقام تھا، اس طرح سے زمانہ رسالت سے ہی اسلامی تقویم ہجری کی بنیاد پڑ گئی، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سال بھر کے مہینوں کا درست اور واقعی حساب کے مطابق آنے کا ذکر (اعلان) فرمایا:”ان الزمان قد استدار کھیئة یوم خلق الله السموات والارض السنة اثنا عشر شھرا، منھا اربعة حرم: ثلاث متوالیات: ذوالقعدہ وذوالحجة والمحرم، ورجب مضر، الذی بین جُمادی وشعبان․“
ترجمہ: یقینا اب زمانہ اس حالت پر آچکا ہے، جس پر الله تعالیٰ نے زمین وآسمانوں کو پیدا کیا تھا ( یعنی ہر مہینہ اپنی جگہ پر آچکا ہے) سال کے بارہ مہینے ہیں، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ او رمحرم اور ( ایک) قبیلہ مضر کا نام رکھا ہوا مہینہ رجب کا ہے ، جو جمادی(الثانیہ) اور شعبان کے درمیان ہے۔

اور اس کااجرا حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے زمانے میں ربیع الاول ، سن16ھ سے ہوا، امام ابن کثیر تقویم ہجری کی بنیاد پڑنے کے اسباب اور اس کی ابتدا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”(مورخ) واقدی کا بیان ہے: اس سال یعنی سن16، ربیع الاول کے مہینہ میں حضرت عمر بن الخطاب رضی الله تعالیٰ نے ( ہجری) تاریخ کو لکھا اور وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے ہجری تاریخ کو لکھا۔ ابن کثیر کہتے ہیں، حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کی سیرت میں اس کے بنیاد پڑنے کی وجہ ہم لکھ چکے ہیں اور وہ یہ بات تھی کہ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک وثیقہ نامہ پیش کیا گیا، جس میں ایک آدمی کے ذمہ دوسرے پر قرض کی ادائیگی کے بارے میں لکھا ہوا تھا، جس کے مطابق شعبان میں اس کی ادائیگی ضروری تھی۔ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ وہ وثیقہ پڑھ کر پوچھا: کون سے شعبان میں ادائیگی ضروری تھی؟ سالِ رواں کے شعبان میں یا سالِ گزشتہ کے شعبان میں یا آئندہ آنے والے شعبان میں؟( تو مہینہ لکھا ہوا ہونے کے باوجود اس کی تعیین نہیں ہو سکتی تھی) اس وجہ سے حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا، ان سے مشورہ طلب کرتے ہوئے فرمایا: کسی ایسی تاریخ کا سلسلہ شروع کرو، جس سے لوگ اپنے قرضوں کی ادائیگی کا صحیح وقت معلوم کر سکیں۔

چناں چہ مختلف مشورے سامنے آئے، بالآخر حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ اور دوسرے چند صحابہ کی طرف سے ہجرت سے ”تقویم“ شروع کرنے کی رائے پیش کی گئی، جس کو حضرت عمر رضی الله عنہ اور دوسرے صحابہ کرام نے پسند کیا، کیوں کہ ولادت اور بعثت کی تاریخوں کے بجائے اس کی شہرت زیادہ تھی، سب کواس کی خبر تھی، اس لیے استعمال میں بھی سہولت تھی، اس کے بعد عربی سال کے مطابق محرم سے پہلا سال حساب کر لیا گیا۔

ہجری سال کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت کا واقعہ جس سال پیش آیا تھا، اس سال کے گزرنے کے بعد آنے والا فلاں سال ، تو یہ تاریخ واقعہ ہجرت کے بجائے سال ہجرت سے شمار کی جاتی ہے ، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری محرم سمیت تقریباً دو ماہ بعد ربیع الاول میں ہوئی تھی ، واقعہ ہجرت کو بتانے کے لیے مزید دو مہینوں کا اضافہ بھی شمار کیا جائے گا۔

سن16ھ کے بعد سے تمام مسلمان اپنی تاریخوں میں ہجری تقویم کو استعمال کرتے آئے ہیں، تاریخ کی کتابوں میں واقعات اسی تقویم کے مطابق ذکر ہیں، یہ تقویم قمری مہینوں کے مطابق ہے، جس کے مطابق عظیم عبادات روزہ، عیدین، قربانی، حج وغیرہ کو ادا کیا جاتا ہے اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سے بھی اس کی ترغیب ملتی ہے۔

چناں چہ صحیح مسلم میں روایت ہے:”عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” انما الشھر تسع وعشرون، فلا تصوموا حتی تروہ، ولاتفطروا حتی تروہ، فان غم علیکم فاقدروا لہ․“
ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مہینہ انتیس دن کا ( بھی) ہوتا ہے، پس تم (شعبان کی انتیس کے بعد) روزہ نہ رکھو، یہاں تک کہ چاند کو دیکھ لو اور (رمضان کی انتیس کے بعد ) روزہ افطار نہ کرو ، یہاں تک کہ چاند کو دیکھ لو، اگر کہیں بادل چھا جائیں تو پھر اس کے لیے ( تیس دن کا ) حساب کا اندازہ کر لو۔

کتنے پڑھے لکھے، دین دار لوگ ہیں جن کو اسلامی تقویم کا پتہ نہیں ، اسلامی مہینوں کے نام نہیں آتے، ہر روز کی تاریخ معلوم نہیں کرتے، اس کے برخلاف شمسی تقویم، اس کے مہینوں کے نام وتاریخ ہر کسی کو معلوم ہوتی ہے۔ جب جنوری کا مہینہ آتا ہے تو ” نیو ایئر نائٹ“ پر وہ بھی خوشیاں مناتے ہیں، نئے سال کا آغاز سمجھتے ہیں، حالاں کہ ہمارا نیا سال تو محرم الحرام کے بابرکت مہینہ سے شروع ہوتا ہے ، ہماری تہذیب مستقل ہے، ہم کسی کے بھکاری نہیں، کسی سے لینے کی ضرورت نہیں، ہم ہی ساری دنیاکو تہذیب وشائستگی کے آداب وطریقے سکھانے والے ہیں۔

اگر چہ دوسری تاریخوں او رکیلنڈروں کااستعمال گناہ نہیں ہے، اس کی اجازت ہے ، تاہم اسلامی تقویم ہجری کی حفاظت کرنا سب مسلمانوں کا فرض ہے اور اس کے استعمال میں ثواب ہے، جس سے محروم نہیں ہونا چاہیے، ضرورت یا مشکل نہ ہو تو اپنی شناخت کو باقی رکھنا بھی ایک غیرت مند مسلمان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے، اس کی بہتر شکل قمری تاریخ کو دوسری تقویم کے بغیر استعمال کرنا ہے۔

حضرت حکیم الأمت رحمہ الله تعالیٰ اپنی بے نظیر تفسیر”بیان القرآن“ میں رقم طراز ہیں:
”…البتہ چوں کہ احکام شرعی کا مدار حسابِ قمری پر ہے، اس لیے اُس کی حفاظت فرض علی الکفایہ ہے، پس اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنالیوے، جس سے حساب قمری ضائع ہو جاوے، سب گنہگارہوں گے او راگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے، لیکن خلاف سنتِ سلف ضرور ہے اور حسابِ قمری کا برتنا بوجہ اُس کے فرض کفایہ ہونے کے لابد افضل واحسن ہے۔“

تاریخیں لکھتے ہوئے اسلامی سال او رمہینہ کی تاریخ بھی ضرور لکھنی چاہیے۔ ہمیں ہر مہینے کی ابتدا دعاؤں، اذکار او رعبادات کے ذریعے کرنی چاہیے، سال کی ابتدا کے بارے میں احادیث میں کوئی خاص عمل منقول نہیں، البتہ نیا چاند دیکھنے پر دعاؤں کا ذکر ہے، انہی دعاؤں میں برکت ، حفاظت اور ثواب ہے، مسلمانوں کو فضول خرافات کے بجائے اسی کا اہتمام کرکے سچے پیروکارہونے کا ثبوت دینا چاہیے اور یہ دعائیں سال کی ابتداء کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ ہر قمری مہینہ میں مانگے جانے کی ہیں۔

امام ابن السنی نے مہینہ کی ابتدا کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت وعادت شریفہ کا یوں ذکر فرمایا ہے:”أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کان اذا رأی الہلال قال:”اللھم اجعلہ ھلال یمن وبرکة․“
ترجمہ: حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب پہلی کے چاند کو دیکھتے تو یوں دعا مانگتے : اے الله ہمارے لیے اس چاندکو خیر وبرکت والا بنا۔

ایک دوسری روایت میں ہے:”اللھم أھلّہ علینا بالأمن والایمان والسلامة والاسلام، ربی وربک الله تعالی․“
ترجمہ: اے الله! اس پہلی کے چاند کو امن وسلامتی او رایمان واسلام کے ساھ ہم پر طلوع کر (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب الله تعالیٰ ہی ہے۔

ہمیں بھی مہنیے کی ابتدا اُسی طرح کرنی چاہیے، جیسا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ تھا، تاکہ برکت ہو، چہ جائیکہ ہم رسوم وبدعات اور نوحہ خوانی سے ابتدا کریں۔

محرم الحرام کی فضیلتیں
محرم الحرام کے سلسلے میں احادیث میں فضائل وارد ہوئے ہیں، ان میں سے ایک عمل دسویں تاریخ یعنی عاشورا کا روزہ رکھنا ہے۔

یوم عاشورا
چناں چہ مسلم شریف کی حدیث میں وارد ہے:”افضل الصیام بعد رمضان ، شھر الله المحرم، وافضل الصلاة بعد الفریضة صلوة اللیل․“
ترجمہ:رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل الله کے مہینہ محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز(تہجد) ہے۔

اہل وعیال پر خرچ کرنا
محرم الحرام میں دوسری چیز وہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا ہے، اس کی خاص فضیلت وارد ہے، اگرچہ اس کی سندوں پر کلام ہے، مگر محدثین نے تصریح کی ہے کہ اس روایت کی مختلف سندوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے سے قوت پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے اس کو بیان کرنے میں کوئی بڑا اشکال باقی نہیں رہتا۔

چناں چہ حضرت ابن مسعود، حضرت ابو سعید الخدری، حضرت ابوہریرہ او رحضرت جابر رضی الله تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من وسع علی عیالہ فی یوم عاشوراء، وسع الله علیہ السنة کلھا․“
ترجمہ: جو شخص عاشورا کے دن اپنے گھر والوں پر خرچ کرنے میں وسعت ، فراخی کرے، الله تعالیٰ سارا سال اس پر (رزق میں) وسعت فرمائے گا۔

محرم الحرام کے مہینہ میں مختلف مضامین پر مشتمل روایات فضائل کہہ کر بیان کیے جاتے ہیں، جن کا ثبوت ذخیرہ احادیث میں ملتا ہے نہ ہی سلف صالحین سے اس کی کوئی مستند نقل ہوتی ہے، ایسی روایات کا بیان کرنا گناہ کبیرہ ہے، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بہت سخت تاکید کرکے اس ”جرم“ کا ارتکاب کرنے سے باز رہنے کا حکم فرمایا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من کذب علي متعمداً فلیتبوء مقعدہ من النار․“
ترجمہ: جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔

محرم الحرام میں تعزیہ بنانا، جلوس نکالنا، شربت پلانا درست نہیں ہے، ان چیزں و کا وجود خیر القرون میں نہیں تھا، منافقوں اور روافض نے اسلام کی صحیح شکل کو بگارنے کے لیے یہ خود ساختہ چیزیں رواج دی ہیں، اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں میں صحیح عقیدہ، اتباع سنت اور حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین سے عشق ومحبت کی جڑیں کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یاد رکھیں کہ ان رسومات میں شرکت کرنا عقیدہ اور اتباع سنت کے خلاف کھلم کھلی حمایت ہے، اہل باطل کی افرادی قوت میں اضافہ کرنے کی جسارت ہے۔

محرم الحرام کو شہر الله کہا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”افضل الصیام بعد رمضان شھر الله المحرم… الحدیث․“
ترجمہ:رمضان کے روزں کے بعد سب سے افضل الله کے مہینہ محرم کے روزے ہیں… الحدیث

محرم ان چار مبارک مہینوں میں سے ہے جس میں لڑائی، جھگڑوں او رفساد وگناہوں سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے ، جاہلی دور میں بھی لوگ ان مہینوں کا کسی قدر احترام کرتے تھے، اگرچہ دشمنی اور انتقام کی خواہش پوری کرنے کے لیے وہ مہینوں کے نام بدل دیتے، مگر محرم کو محرم کہہ کر او رتسلیم کرکے وہ اپنے خونی دشمن سے بھی کچھ نہیں کہتے تھے۔

ہمارے ملک، شہر میں اس وقت ہر طرف تعصب کی بدبوُ پھیلی ہوئی ہے، مسلمان ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہیں، اس تعصب ، قوم پرستی او رانتقام کے ناپاک جذبوں میں مبارک مہینوں کا بھی پاس نہیں رکھا جاتا، جہاں فضیلتیں ہوں وہاں پر گناہ کرنا اس گناہ کی شناعت، برائی میں اور اضافہ کر دیتا ہے ، اس مہینے کو ہمیں امن وعافیت بھائی چارے والا بنانا ہے۔ محرم الحرام سمیت چار مہینوں میں تو اگر کافر لوگ پہل نہ کریں تو ان سے بھی تعرض نہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، چہ جائیکہ مسلمان مسجدوں میں آنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں، ایک دوسرے کی بے عزتی کرنے کے درپے ہو جائیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے :”سباب المؤمن فسوق، وقتالہ کفر․“
ترجمہ: (اپنے)مؤمن ( بھائی) کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

Flag Counter