Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1436ھ

ہ رسالہ

12 - 17
قیدمیں دینی خدمات

مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
	
قید وبند کی صعوبتیں، قید خانہ کے دشوار کن مراحل ایک انسان کے لیے انتہائی نا گفتہ بہ ہوا کرتے ہیں، یہ وہ وقت ہوتا ہے جس میں انسان کے لیے کام کرنا تو دشوار، بلکہ انسان اس فکر میں رہتا ہے کہ کیسے یہاں وقت کی تکمیل ہوگی؟ کب اسارت گاہ سے چھٹکارہ نصیب ہوگا؟ لیکن جن دلوں میں دینی خدمت کا شوق وجذبہ پیوست ہوتا ہے، انہیں کوئی تدبیر، کوئی سازش کسی بھی لمحہ اس خدمت سے روک نہیں سکتی، موانع کی کثرت کے باوجود وہ اپنا مشن اپنا طریقہٴ کار اپنانے سے نہیں کتراتے، انہیں اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی لیے، انہیں اپنے کاز کو پھیلانے کے لیے نہ جلادوں کے کوڑے باز رکھ سکتے ہیں، نہ ہی جیل کی سلاخیں انہیں برگشتہ کرسکتی ہیں، ہم ذیل میں ان چند بر گزیدہ شخصیات کے ایام اسارت، قید میں ان کی مصر وفیات سپرد قلم کرتے ہیں تاکہ ان سے عبرت ونصیحت حاصل کی جائے۔

حضرت یوسف عليه السلام جلیل القدر پیغمبروں میں ہیں، نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوی خاندان میں پیدا فرمایا،بلکہ انہیں بھی نبوت سے سرفرازفرمایا،لیکن ایک موقعہ پر آپ عليه السلام کو بے قصور قید کر دیا گیا، حضرت یوسف عليه السلام نے جیل میں بھی اپنا مشن اور اپنا طریقہٴ کار نہ چھوڑا ،قیدیوں کو ایک اللہ کی دعوت دی، شرک وبت پرستی کی مذمت کی چناں چہ مفتی شفیع صاحب نے بڑا اچھا نقشہ کھینچا ہے، وہ فرماتے ہیں: یوسف عليه السلام جیل بھیجے گئے، جو مجرموں بد معاشوں کی بستی ہوتی ہے، مگر یوسف عليه السلام نے ان کے ساتھ بھی حسنِ خلق، حسن معاشرت کا وہ معاملہ کیا جس سے یہ سب گرویدہ ہوگئے، جس سے معلوم ہوا کہ مصلح امت کے لیے لازم ہے کہ مجرموں خطا کاروں سے شفقت وہم دردی کا معاملہ کریں، ان کو خود سے مانوس کریں، کسی قدم پر منافرت کا اظہار نہ ہونے دیں․․․․تبلیغ وارشاد کا ایک اہم اصول یہ بتلایا گیا کہ داعی اور مصلح کا فرض ہے کہ ہر وقت، ہر حال میں اپنے وظیفہٴ دعوت وتبلیغ کو سب کاموں سے مقدم رکھے، کوئی اس کے پاس کسی کام کے لیے آئے وہ اپنے اصلی کام کو نہ بھولے، جیسے حضرت یوسف عليه السلام کے پاس یہ قیدی تعبیرِ خواب دریافت کرنے کے لیے آئے تو یوسف عليه السلام نے تعبیرِ خواب کے جواب سے پہلے دعوت وتبلیغ کے ذریعہ ان کو رشد وہدایت کا تحفہ عطا فرمایا، یہ نہ سمجھے کہ دعوت وتبلیغ کسی جلسہ کسی میز یا اسٹیج ہی پر ہوا کرتی ہے، شخصی ملاقاتوں اور نجی مذاکروں کے ذریعہ یہ کام اس سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ (معارف القرآن 5/71)

اما م اہل سنت حضرت امام احمد بن حنبل نے جب خلقِ قرآن کے مسئلہ پر تن تنہا حکومتِ وقت سے پنجہ آزمائی کی تو امام احمد کو قید کیا گیا، انہیں طرح طرح کی تکالیف دی گئیں، انہیں کوڑے لگائے گئے انہیں انتہائی تاریک کوٹھری میں قید کر دیا گیا، لیکن ان سب کے باوجود امام احمد نے قیدیوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی، چناں چہ علامہ ذہبی رقم طراز ہیں: امام احمد کو بغداد کے اصطبل میں قید کیا گیا، قید خانہ سخت تنگ تھا، رمضان میں بیمار بھی ہوگئے تھے، اس قید خانے میں کچھ ایام رہے، اس کے بعد عام قیدخانے میں منتقل کیا گیا، جیل میں تقریباً تیس مہینے رہے، حنبل بن اسحاق وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم نے جیل خانے میں امام احمد سے کتاب الإرجاء پڑھی، حنبل بن اسحاق کہتے ہیں امام احمد قیدیوں کی امامت کرتے، حالاں کہ ان پر کڑیاں ہوتیں، قید کی کڑیوں سے نماز اورسونے کے وقت پیر نکالتے تھے۔(تاریخ الاسلام 18/69)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ،جو اپنی علمی وعملی خصوصیات وخدمات کی بناء پر معروف ومشہور ہیں، جب انہیں حکومت وقت نے قید کردیا تو ان کی قید خانے کی مصروفیات کیا اور کیسی رہیں ؟ان کے تئیں مولانا علی میاں ندوی رقم طراز ہیں: شیخ الاسلام جب جیل میں پہنچے تو دیکھا کہ قیدی لہو ولعب اور تفریحات میں مشغول ہیں اور اسی طرح اپنا دل بہلاتے اور وقت کاٹتے ہیں، شطرنج، چوسر وغیرہ پر زور ہے، نمازیں بے تکلف قضا ہوتی ہیں۔ شیخ نے اس پر اعتراض کیا اور قیدیوں کی نماز کی پابندی کرائی اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ، اعمالِ صالحہ، تسبیح واستغفار اور دعا کی طرف متوجہ کیا اور سنت کی تعلیم اور اعمال ِ خیر کی ترغیب شروع کردی، یہاں تک کہ علم ِدین کی ایسی مشغولیت شروع ہوگئی کہ یہ جیل خانہ بہت سی خانقاہوں اور مدارس سے زیادہ بارونق اور بابرکت نظر آنے لگا، لوگوں کو ان کی ذات سے ایسا تعلق اور جیل کی اس دینی وعلمی زندگی سے ایسی دلچسپی ہوگئی کہ بہت سے قیدی رہائی پانے کے بعد بھی ان کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے اور انہی کی خدمت میں رہنا پسند کرتے تھے۔ (تاریخ دعوت وعزیمت 2/88) ایک اور مقام پر مولانا ندوی آپ کی حیرت انگیز تصنیفی وتحریری زندگی کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: امام ابن تیمیہ نے جیل میں کچھ حصہ تفسیر کے متعلق لکھا ، بعض مسائل پر بھی انہوں نے رسائل وجوابات لکھے، باہر سے جو اہم اور خاص علمی سوالات اور فقہی استفسارات آتے ان کے جوابات دیے، اسی طرح، سوائے عمومی درس ووعظ کے، ان کے سب کام جاری تھے، اور کثرت تلاوت وعبادت کا اضافہ اس پر مستراد۔ ایک رسالے کی تردید کرتے ہوئے آپ نے جیل میں ایک رسالہ لکھا تو قاضی نے شکایت کی، نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ الاسلام کے لکھنے پڑھنے کا سارا سامان بحق ِ حکومت ضبط کرلیا گیا، شیخ نے اس پر بھی کوئی جزع فزع نہ کی اور مایوس نہ ہوئے اور نہ ہی حکومت سے کوئی شکایت کی، ان سے جب قلم ودوات چھین لیے گئے تو انہوں نے منتشر اوراق پر لکھنا شروع کیا، ان کے متعدد رسائل اور تحریریں کوئلہ سے لکھی ہوئی ملیں اور عرصہ تک اسی حالت میں محفوظ رہیں۔ (تاریخ دعوت وعزیمت 2/121) امام ابن تیمیہ کی علمی وعملی ذوق وخلوص کا نتیجہ ہے آج دنیا بھر میں ان کے علوم کو قدر کی نگاہوں سے دیکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہے اور ان کی آرا سے مستفید ہونے والے اور ان کی کتابوں سے فیض یاب ہونے والے کتنے ہی تعداد میں موجودہیں، مصائب وتکالیف کے باوجود رضا بقضا رہ کر دینی خدمات انجام دینے سے ان کے فیض کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔

امام سرخسی کاجلیل القدر علماء میں شمار ہے، فقہٴ حنفی مین ان کا بڑا اونچا مرتبہ ہے، ان کا کارنامہ انتہائی قابل رشک ہے، ان کے سلسلہ میں مذکور ہے: امام سرخسی عالم بھی تھے ،عامل بھی تھے اور حکام وامراء کو نصیحت بھی کرتے تھے، خاقان نے انہیں ان کی نصیحت کے سبب قید کردیا تھا، قید خانہ بھی انہیں تعلیمی مشاغل سے باز نہ رکھ سکا، انہوں نے مبسوط نامی کتاب کا املاء کروایا، جو فقہ حنفی کی طویل ترین کتاب ہے، تیس جلدوں میں مطبوعہ ہے، اس حال میں کہ وہ کنویں میں قید تھے، اسی طرح انہوں نے جیل ہی میں سیر کبیر کی بھی شرح لکھ دی۔(موسوعہ عالمیہ) امام سرخسی کوکنویں میں قید کیا گیا، انہیں کوئی سہولت حاصل نہیں تھی، انہوں نے صرف اپنے حافظہ سے فقہ حنفی کی اہم کتاب تصنیف کروائی، وہ بھی قید کی سزا اس لیے ہوئی کہ انہوں نے حاکم کو امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کیا تھا، آج مبسوط سرخسی فقہ حنفی کی معتبر ترین کتابوں میں ایک ہے، اس سے ہزارہا علماء مستفید ہوکر امت کو سیراب کررہے ہیں۔

شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندی اور مولانا حسین احمد مدنی  کو مالٹا کی جیل میں قید کردیا گیا، مالٹا کی اسارت گاہ کے تفصیلی حالات حضرت مولانا مد نی نے ”اسیرِ مالٹا“ کے نام سے کتاب میں لکھے ہیں، حضرت شیخ الہند کے قید خانے کے معمولات بھی قلم بند کیے ہیں، منظم انداز میں مالٹا کی جیل خانقاہ وتعلیم گاہ میں تبدیل کردی گئی تھی، جہاں شیخ الہند دن میں جلالین ومشکوٰة اور ترمذی کا درس دیا کرتے، وہیں قرآن کریم کا ترجمہ بھی لکھ رہے تھے، اسی طرح عوام الناس کی تربیت کا بھی بہترین انتظام تھا، کئی افراد نے حضرت سے اصلاح وتربیت پائی، کئی قیدی آپ کی صحبت سے دین دار ونمازوں کے پابند ہوگئے، حتی کہ چہرے کو بھی سنت سے مزین کر لیا، کئی قیدیوں نے ذکر واشغال کا اہتمام بھی شروع کردیا تھا۔ (اسیر مالٹا،ص:116) مولانا مدنی  نے اخیر میں لکھاہے کہ خلاصہ یہ کہ حقیقت میں مولانا کو اپنے روحانی کاروبار وباطنی ترقی اور اپنے محبوب حقیقی سے راز ونیاز کرنے کا فارغ وقت تمام عمر میں کبھی ایسا نصیب نہ ہوا تھا․․․․․․یہ ایک واقعی اور حقیقی انعام خداوندی تھا، جس میں مولانا کی معنوی ترقی کے مدارج طے کرانا تھا۔ (ایضاً،ص:18) شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی  خود اپنے سلسلہ میں فرماتے ہیں: قیام مکہ اور مدینہ کے قیام کے دوران میں نے بہت کوشش کی کہ قرآن کریم حفظ کرلوں، مگر تھوڑا ہوتا اور پھر چھوڑ دیتا، لیکن مالٹا کی جیل میں موقع میسر آیا، لہٰذا میں نے قید خانے میں قرآن کریم حفظ کر ڈالا اور شیخ الہند کو قرآن سنایا بھی اور روز انہ یاد کر کے اسے محفوظ بھی رکھا۔(اسیر مالٹا،ص:141)

اسی طرح مولانا عنایت اللہ صاحب، جن کو جزیرہٴ انڈمین میں قید کردیا تھا، اس قید خانے میں بھی انہوں نے اپنی علمی مصروفیات ترک نہ کیں، بلکہ انہوں نے قید خانہ میں علم صرف کی بہترین کتاب لکھی ،جو ”علم الصیغہ“ کے نام سے معروف ومشہور ہے، جس کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج تک اس کتاب کو درسِ نظامی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے، اور اس کی تدریس پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کو جب نظر بندی کے ایام گذارنے پر مجبور ہونا پڑا تو اس زمانے میں انہوں نے اپنے حافظے کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی کتابیں تصنیف کیں، جن میں ایک مشہور ”تذکرہ“ ہے جو پُرمغز اور مواد سے پُرکتاب ہے، جو کئی علمی اشکالات کے لیے انتہائی مفید ہے، جس پر انہوں نے اپنے حافظے کے ذریعہ اکابر علماء کے اقوال پر نقد وتبصرہ کیا ہے۔

اسی طرح انہوں نے حضرت مجدد الف ثانی  کے حالات زندگی پر کتاب لکھی، جو طبع نہ ہوسکی، اس کے علاوہ اور تصنیفات بھی انہوں نے نظر بندی کے ایام میں کیں، مولانا محمد علی جوہر کوجب قید کیا گیا تو اپنی اسارت گاہ میں تصنیف کو اختیا رکیا، ان کی ذاتی ڈائری قابل مطالعہ ہے۔

اخیر میں ہم امیر ملت اسلامیہ حضرت مولانا محمد حمیدالدین حسامی عاقل کے ایام اسارت کو لکھتے ہوئے بات کو ختم کرتے ہیں،ظالم حکومت نے جب ملک بھر میں نس بندی کی لہر چلائی او رمسلمانوں کو زبردستی نس بندی پر مجبور کیا جانے لگا تو ایسے میں کتنے ہی افراد ایسے تھے جن کی دینی غیرت جواب دے چکی تھی، جن کی ایمانی حمیت رخصت ہوچکی تھی، صرف چند ہی لوگ ایسے تھے جو ملک میں تحفظ شریعت کی خاطر، ملک میں مسلمانوں کی نسل کی بقا کے لیے حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوکر میدان عمل میں آئے اور حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے لگے اور حکومت کے نعرے کے خلاف نعرے لگائے، ان میں امیر ملت سر فہرست رہے، آپ کو گرفتار کیا گیا ؛لیکن جس میں جولانی طبع ہو، مستی گفتار ہو، بلندی کردار ہو، وہ آزاد رہ کر تو آزاد ہی ہے ،قید ہو کر بھی آزاد ہے۔

چناں چہ آپ نے قید خانے میں وعظ وتذکیر کا نورانی سلسلہ شروع کیا، قیدیوں کی زندگی کو ذکر واذکار سے معطرکردیا، جس کا اثر یہ ہوا کہ کئی قیدی اپنی سابقہ زندگی سے تائب ہوگئے، کئی ایک نے اپنی زندگی اسلامی سانچے میں ڈھال لی، حتی کہ آپ کی محنت کا حیرت انگیز اثر یہ بھی ہوا کہ آپ کے دست ِ حق پرست پر جیلر نے بھی اسلام قبول کرلیا، ان چنندہ افراد کے واقعات سے ان افراد کو درس عبرت لینے کی ضرورت ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے فرصت کے اوقات عنایت فرمائے ہیں، وہ اپنے اوقات کو یونہی ضائع کررہے ہیں اور دینی خدمات کا جذبہ ان کے اندرون میں پیدا نہیں ہورہا ہے، یہ بزرگانِ کرام جب قید ہوکر دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں تو ہم آزاد رہ کر دینی خدمات میں کیوں منہمک نہیں ہوسکتے؟

Flag Counter