Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1436ھ

ہ رسالہ

13 - 17
سفرِ دیوبند احساسات ومشاہدات

ضبط وترتیب: مفتی معاذ خالد
	
گزشتہ دنوں امیر جمعیت علمائے ہند حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی مدظلہ العالی کی دعوت پر پاکستان کے جید علما ء کرام کے ایک وفد نے عالم اسلام کے مشہور ادارے اور برصغیر کے مدارس کی علمی اور تاریخی بنیاد” دارالعلوم دیوبند“ کا دورہ کیا۔جامعہ فاروقیہ کراچی کے ناظم اعلی، استاد حدیث اور ماہنامہ الفاروق کے مدیر حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب، مولانا خلیل احمد صاحب ناظم تعلیمات ،جامعہ فاروقیہ اور مفتی حماد خالد استاد جامعہ فاروقیہ بھی اس وفد کے ہم راہ تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے عالم اسلام پر گہرے اور عظیم الشان علمی اثرات، بے مثال قربانیوں اور بیش بہا خدمات کی بناء پر مسلمانانِ عالم کے دلوں میں جو عقیدت موجود ہے، اس کے پیش نظر طلبائے جامعہ فاروقیہ کی دلی خواہش تھی کہ اس سفر کی روئیداد ان کے سامنے بھی آجاتی۔ چناں چہ حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے جامعہ کے طلبا کے ایک عظیم اجتماع میں اس سفر کی تفصیلات ارشاد فرمائیں۔ موضوع کی اہمیت اور دلچسپی کے حوالے سے قارئین الفاروق کو بھی اس میں شریک کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

رات کو دو بجے کے بعد دارالعلوم کے مہمان خانے پہنچے، تھوڑی دیر آرام کیا۔ پھر، فجر کے بعد دلّی کے لیے روانگی ہوئی۔ یہ روانگی بہت ہی غمناک تھی۔ بہت ہی تکلیف دہ کیفیت تھی۔ دارالعلوم کے درودیوار، وہاں کے اساتذہ اور طلبہ․․․ ان سے رخصت ہوتے وقت عجیب کیفیت تھی۔ بہرحال، واپسی تو ہونی تھی۔ اس طرح پھر واپس ہم دلّی کے لیے روانہ ہوئے۔ اور دلّی پہنچ گئے۔ بدھ کا دن اور ظہر کا وقت تھا۔ وہاں جمعیت علمائے ہند کے مہمان خانے میں سامان رکھا۔ ظہر کی نماز پڑھی۔

ظہر کے بعد ساتھیوں کی رائے یہ ہوئی، چوں کہ ہمارا سفر اگلے دن صبح ہے اور بیچ میں آج کا دن اور رات باقی ہے، اسے استعمال کرنا چاہیے۔ چناں چہ ہم نے ارادہ کیا کہ لال قلعہ جانا ہے۔ ہمارے لیے گاڑیوں کاانتظام دفتر کی طرف سے کر دیا گیا۔ہم لال قلعہ پہنچ گئے۔

لال قلعہ دریائے جمنا کے قریب ہے او ربہت بڑا ہے۔ یہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بہت عظیم الشان یاد گار ہے۔ اس دفعہ تو ہم اتنی تفصیل سے نہیں دیکھ سکے، اس سے پہلے کے سفر میں، میں نے اسے بہت تفصیل سے دیکھا ہے۔ اس میں جو ہیرے، جواہرات اور موتی دیواروں میں جڑے ہوئے تھے، انگریز نے سب نوچ لیے اس لیے کہ وہ تو ہندوستان آیا ہی نوچنے اور لوٹنے کے لیے تھا۔

ایک بہت ہی اہم اور تعجب کی بات یہ ہے کہ دریائے جمنا لال قلعہ کی سطح سے 100 میٹر کے قریب نیچے ہے ۔ یعنی اگر پیچھے جھانکیں تو دریائے جمنا بہت نیچے بہتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس زمانے میں جب کہ بجلی نہیں تھی، موٹریں نہیں تھیں، اور کوئی ایسا جدید نظام نہیں تھا لیکن دریائے جمنا کا پانی اوپر آتا تھا۔ ایک عجیب بات تو یہ ہے، دوسری عجیب بات یہ ہے کہ اس میں ایک خاص حصہ ہے جو بادشاہ اور اس کے مقربین کے لیے ہوتا ہو گا۔ اس میں غسل خانے ہیں، ان غسل خانوں میں یہی پانی موسم سرما میں گرم ہو کر آتا تھا اور جس راستے سے آتا تھا، اس کے پیچھے ایک چراغ روشن ہوتا تھا۔ اس چراغ کی لو اور حدت سے یہ پانی گرم ہوتا تھا۔ لیکن وہ چراغ کس چیز سے روشن ہوتا تھا، یہ عقدہ کوئی حل نہیں کر سکا کیوں کہ اس میں کوئی تیل یا اس قبیل کی کوئی دوسری چیز نہیں تھی۔

چناں چہ انگریز نے اس جستجو میں کہ یہ پتا چل جائے کہ یہ کس چیز سے جلتا ہے، اسے بجھا کر دیکھنے کی کوشش کی مگر پھر اسے جلا نہیں سکے۔ یہ بھی اُس دور کے مہندسوں اور معماروں کا کمال تھا۔

لال قلعہ بہت بڑا ہے اور اس کے بالکل بالمقابل مغرب کی طرف ایک جامع مسجد ہے۔ ہمارے ہاں لاہور میں جو مسجد ہے وہ شاہی مسجد ہے اور دہلی میں جو مسجد ہے، اس کو جامع مسجد کہتے ہیں۔ یہاں لاہور میں بھی شاہی قلعہ اور شاہی مسجد ساتھ ساتھ ہیں۔ وہاں بھی لال قلعہ اور جامع مسجد آمنے سامنے ہیں اورجو جامع مسجد کی جو سیڑھیاں ہیں وہ پہلے تو میں نے نہیں گنی تھیں، اس دفعہ میں نے گنی ہیں کہ شمالی دروازے سے جو سیڑھیاں ہیں اور اس کا جو ایک قد مچہ ہے وہ تقریباً2 فٹ کا ہے اور کل 36سیڑھیاں ہیں۔

نماز عصر ہم نے وہاں پڑھی او رنماز کے بعد مشرقی دروازے سے ہم اترے تو مشرق میں 23 سیڑھیاں تھیں۔

نماز عصر کے لیے ہم نے جو وضو کیا وہ صحن میں موجود حوض سے کیا۔ نماز عصر سے فراغت کے بعد اب ہم مشرقی دروازے سے اترے۔ اب لال قلعے کا دروازہ ہمارے سامنے تھا۔ لال قلعہ سے جامع مسجد مغرب کی جانب ہے۔ جامع مسجد سے لال قلعہ مشرق کی سمت ہے۔ لال قلعہ اور جامع مسجد کا جو درمیانی علاقہ ہے وہ قیمتی علاقہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں اس سے زیادہ قیمتی علاقہ کہیں اور نہیں ہے۔ ان دونوں کے بیچ میں اب آپ دیکھئے ؟

کتنے اعزاز کی بات ہے کہ مغربی پاکستان میں جھنڈا لہروایا گیا شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ سے اور مشرقی پاکستان میں جھنڈا لہروایا گیا حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کے ہاتھوں۔ لیکن مسلمان کہنے اور کہلوانے والے حکمرانوں نے ان حضرات کے ساتھ کیا سلوک کیا، وہ آپ حضرات کو معلوم ہے۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کی قبر اسلامیہ کالج (کراچی) اورجامعہ بنوری ٹاؤن کے قریب ہے۔ میرا غالب گمان یہ ہے کہ آپ میں سے اکثر کو علم ہی نہیں ہو گا۔ یہ کون ہیں؟ جنہوں نے پاکستان بنایا۔ پاکستان کے لیے تحریک چلائی۔ انہوں نے اس کے لیے بڑی خدمات انجام دیں ۔ پھر ان کے اعزاز میں ان کے ہاتھ سے پاکستان کا جھنڈا لہروایا گیا۔ لیکن آج ان کا کوئی تذکرہ، ان کی کوئی بات ان کی زندگی کا کوئی حصہ کسی تعلیمی نصاب میں نہیں ہے۔

او روہاں ہندوستان میں کیا ہوا؟ وہاں جامع مسجد اور لال قلعے کا درمیانی علاقہ جو شاید پورے ہندوستان کا سب سے قیمتی علاقہ ہے۔ ہندوؤں نے حضرت مولانا ابو الکلام آزاد رحمة الله علیہ کو یہ اعزاز دیا کہ لال قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان کی جگہ اُن کی قبر کے لیے مختص کی گئی، بہت ہی عظیم الشان جگہ ہے․․․ چار دیواری، اندر باغیچہ اور اس کے اندر بہت خوب صورت پانی کے فوارے، تالاب۔ پھر حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی قبر ۔ قبر بالکل ظاہر ہے، لیکن پیچھے ستون ہے اور جیسے سائبان ہوتا اسی طرح سے اور وہاں باقاعدہ گارڈ او رحکومتی انتظام موجود ہے۔

ایک بڑا عجیب لطیفہ یہ ہے کہ حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمة الله علیہ کو ہندوستان بننے کے بعد ہندوستان کا سب سے پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ یہ اعزاز کس نے دیا؟ ہندووں نے! ابوالکلام آزاد رحمة الله علیہ ہندوستان کے سب سے پہلے وزیر تعلیم ہیں، کیوں کہ بہت بڑے آدمی تھے۔

پنڈت جواہر لال نہرو جو اُس وقت وزیراعظم تھے اور ابوالکلام آزاد ان کی کابینہ میں وفاقی وزیر تعلیم تھے۔ پنڈت جی نے مولانا کو دوپہر بارہ بجے فون کیا اور کہا کہ میں آپ سے ملنے کے لیے آنا چاہتا ہوں۔ حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمة الله علیہ نے فرمایا، ہر گز نہیں بارہ بجے سے دو بجے تک میرے آرام کا وقت ہے۔ اس میں ملاقات کسی سے بھی نہیں کرتا۔ یہ جواب کس کو دے رہے ہیں؟ وزیراعظم کو۔ چناں چہ پنڈت جی نے اسی وقت فرمان پورے ملک میں جاری کر دیا کہ آج کے بعد کوئی سرکاری افسر اور وزیر مولانا ابوالکلام آزاد سے بارہ بجے سے دو بجے تک ملاقات کی کوشش نہ کرے، اس لیے کہ یہ اُن کے آرام کا وقت ہے۔

ابھی لطیفہ ختم نہیں ہوا۔ مولانا کا تو انتقال ہو گیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ حکومت ہند نے ان کے انتقال کے بعد فرمان جاری کیا اور وہ لکھا ہوا موجود ہے کہ حضرت مولانا کی قبر پر کوئی شخص بارہ بجے سے دو بجے تک نہیں جاسکتا، کیوں کہ یہ اُن کے آرام کا وقت ہے۔ کتنا ہی بڑا آدمی ہو، باہر انتظار کرو، دو بجے کے بعد آنا، کیوں کہ یہ اُن کے آرام کا وقت ہے۔ یہ ہے اعزاز!

بہرحال، ہم حضرت مولانا کی قبر پر حاضر ہوئے۔ یہاں سے فراغت کے بعد جامع مسجد کا شمالی دروازہ تھا جس سے ہم داخل ہوئے تھے۔ یہاں 36 سیڑھیاں تھیں۔

اب ہم جامع مسجد کے جنوبی دروازے کی جانب سے اترے تو سامنے اُردو بازار ہے۔ یہ مسلمانوں کا علاقہ ہے۔ دینی اور اردو بولنے والوں کی سب سے زیادہ وافر مقدار یہیں ملتی ہے۔ اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے محلے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ جامع مسجد کے اردگرد جتنے بھی علاقے ہیں، سب سو فیصد مسلم علاقے ہیں ۔ یہاں کوئی ہندو نہیں رہتا۔

اس گلی میں اندر داخل ہوئے تو پہلے”چتلی قبر“ بازار ہے۔ اس بازار میں داخل ہوئے تو آگے ایک ”مٹیا محل“ محلہ ہے، اس میں ایک مسجد ہے۔ اس مسجد کا نام ہے حسین بخش۔ یہ مسجد حسین بخش اور اس میں موجود مدرسہ دارالعلوم دیوبند سے بھی بہت پرانا ہے۔ چناں چہ اس مدرسہ حسین بخش میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة الله علیہ نے بھی تعلیم حاصل کی ہے، حضرت گنگوہی رحمة الله علیہ نے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ اسی طرح اس مدرسے میں الطاف حسین حالی نے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ اسی مدرسے میں علی گڑھ کے سرسید احمد خاں نے بھی تعلیم حاصل کی۔

مسجد حسین بخش میں ہم نے مغرب کی نماز پڑھی اور وہاں کے اساتذہ اور طلباء سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے ساتھیوں سے کہا کہ اب ایک بہت بڑا کام باقی رہ گیا ہے․․․ مدرسہ امینیہ، دہلی دیکھنے کا۔ یہ مدرسہ حضرت مولانا امین الدین رحمة الله علیہ نے قائم کیا اور انہی کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں آپ کو حضرت مولانا مفتی کفایت الله صاحب رحمة الله علیہ کے آثار ملیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ مفتی اعظم ہند تھے جن کی ”کفایت المفتی“ پر یہاں جامعہ فاروقیہ کراچی میں عظیم الشان کام ہوا ہے۔

مدرسہ امینیہ میں حاضری ہوئی۔ اسی طرح اور دیگر حضرات سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔

اس کے بعد ہم لوگ جمعیت کے مہمان خانے آگئے۔ رات خاصی بیت چکی تھی اور اگلے دن ریل ”شتاب دی“ پر دلّی سے امر تسر جانا تھا۔ چناں چہ فجر کے بعد ہم اسٹیشن آئے وہاں ہمیں تمام حضرات رخصت کرنے آئے۔ ظہر کے وقت امر تسر پہنچے۔ امرتسر میں پھر وہی پنجاب کے، ہما چل پردیش کے، چندی گڑھ کے علماء استقبال کے لیے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے۔

چوں کہ دو بجے امرتسر پہنچے تھے اور بارڈر چار بجے تک کھلا رہتا ہے، چار بجے بند ہو جاتا ہے تو اسٹیشن سے اتر کر گاڑیوں پر سامان رکھنا، گاڑیوں پر بیٹھنا، پھر تیئس کلو میٹر کا سفر اور پھر آگے کے مراحل․․․ بس آپ یہ سمجھئے کہ بھاگتے دوڑتے سب سلسلے ہوئے۔ ٹھیک چار بجے ہم پاکستان کی سرحد میں داخل ہو گئے اور وہاں لکھا ہوا تھا، پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا الله“

اس طرح پھر لاہور․․․ اور آگے کراچی تک کا سفر․․․ چوں کہ یہ سفر لذیذ بھی بہت تھا اور شیریں بھی تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ چوں کہ بشریت ہے تو ہم تھک کر چور ہوچکے تھے۔ ہم جمعرات کو پاکستان میں شام چار بجے داخل ہوئے تھے۔ ہم چاہتے تو شام یا رات کی کسی پرواز سے کراچی آسکتے تھے۔ لیکن ہمت نہیں ہوئی اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ رات اور اگلا دن لاہورمیں آرام کیا جائے اور جمعہ کی شام کو کراچی واپسی ہو۔

چناں چہ جمعہ کو الله تعالیٰ نے خیریت کے ساتھ کراچی جامعہ فاروقیہ پہنچا دیا۔ الله تعالیٰ آپ کو اس سمع خراشی پر جزائے خیر عطا فرمائے۔ یہ داستانِ سفر طویل تو ہے، لیکن چوں کہ مجھے بھی سنانے میں مزہ آرہا تھا اور مزہ لے لے کر سنائی اور الله کرے کہ آپ کو بھی اس میں مزہ آیا ہو، اس لیے یہ طوالت بوجھ نہیں بنی۔

ا لله تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف اور بالخصوص علمائے دیوبند سے عقیدت اور احترام کی توفیق عطافرمائے․․․ اور وہ مزاج، وہ فکر اور وہ جہد مسلسل جو اُن حضرات نے فرمائی، الله تعالیٰ ہم سب کو بھی عطا فرمائے۔ آمین !

Flag Counter