اسلام میں عورت کے حقوق
طالب علم محمد عادل ، جامعہ فاروقیہ کراچی
اسلامی معاشرہ میں جس طرح مردوں کو حقوق حاصل ہیں اسی طرح عورتوں کو بھی حاصل ہیں اور جس طرح مردوں پر فرائض عائد ہوتے ہیں اسی طرح عورتوں پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں بحیثیت شہری کے مسلم مرد اور مسلمہ عورت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ لیکن دونوں کے حقوق وفرائض کی نوعیت میں کچھ فرق ہے۔
اسلام مساوات مردوزن کے اس مغربی نظریہ کو تسلیم نہیں کرتا جو عورت اور مرد کی صلاحیتوں میں سرے سے کوئی فرق ہی نہیں کرتا اور دونوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں بالکل یکساں استعمال کرنا چاہتا ہے، اسلام جس مفہوم میں مرد وعورت کی مساوات کا داعی ہے وہ یہ ہے کہ جس نفس واحدہ سے الله تعالیٰ نے مرد کو پیدا کیا ہے اسی نفس واحدہ سے عورت کو پیدا کیا ہے، جس طرح مرد اس نظام کائنات کا ایک ضروری عنصر ہے اور قدرت نے ایک خاص مقصد سے اس کو تخلیق بخشی ہے، اسی طرح عورت بھی اس کائنات کی مشین کا ایک ضروری پرزہ ہے اور قدرت نے اس کی تخلیق سے بھی ایک ضروری غرض وابستہ کر رکھی ہے ، جس طرح مرد قدر واحترام کا مستحق ہے اسی طرح عورت بھی قدرواحترام کی حق دار ہے، جس طرح مرد کچھ خاص صفات اور صلاحیتیں لے کر آیا ہے۔ اسی طرح عورت بھی کچھ مخصوص قوتیں اور قابلیت لے کر پیدا ہوئی ہے۔ جس طرح مرد کچھ خاص جذبات وعواطف اور کچھ فطری مقتضیات ومطالبات رکھتا ہے، اسی طرح عورت بھی اپنے کچھ خاص رحجانات ومیلانات اور کچھ فطری مطالبات ومقتضیات رکھتی ہے، اس لیے عورت ومرد کو اپنے اپنے فطری رحجانات ومیلانات کے مطابق سورج وچاند کی طرح اپنے اپنے دائروں میں قدرت کے منشا کی تکمیل میں سر گرم رہنا چاہیے۔
معاشرے کے اندر دونوں پر ان کی فطری صلاحیتوں کے لحاظ سے ذمہ داریاں ہونی چاہییں اور ان کی ذمہ داریوں کے اعتبار سے ان کو حقوق ملنے چاہییں۔
معاشرے میں عورت ومرد کی مساوات کا اعلان قرآن مجید ان واضح الفاظ میں کرتا ہے:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباً﴾․ (النساء، آیت:1)
ترجمہ:” اے لوگو! تم ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مردوعورتوں کو پیدا کیا…۔“
اس آیت نے عورت کی کمتری اور حقارت سے متعلق ان تمام تصورات کا خاتمہ کر دیا جو قدیم مذاہب اور تہذیبوں میں پائے جاتے تھے، دونوں اس معاشرے کے رکن ہیں ،اس کی بقا او راس کا تسلسل ان دونوں میں کسی ایک ہی پر منحصر نہیں ہے، بلکہ اس پہلو سے دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ البتہ جہاں تک مرد وعورت کی خصوصیات اور ان کی صلاحیتوں کا تعلق ہے تو قرآن نے بتایا کہ یہ دونوں الگ الگ صلاحیتیں لے کر آئے ہیں، لیکن اس فرق کی بنا پر ان میں سے کسی کے لیے بھی نہ اپنی خصوصیات پر مغرور ہونا یا ان کے سبب سے اپنے کو حقیر سمجھنا زیبا ہے او رنہ ایک دوسرے کی خصوصیات پر حسد کرنا جائز ہے۔ اسی مضمون کو قرآن مجید نے اس انداز سے بیان کیا ہے: ﴿وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّہُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللّہَ مِن فَضْلِہِ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْما﴾․ (النساء، آیت:32)
ترجمہ:” اس کے لیے ارمان نہ کرو جو الله تعالیٰ نے تم میں سے ایک دوسرے (مرد وعورت) کو فضیلت دی ہے ، مرد حصہ پائیں گے اس میں سے جو وہ کمائی کریں گے اور عورتیں وہ حصہ پائیں گی اس میں سے جو وہ کمائی کریں گی، لہٰذا الله سے اس کی بخشش میں حصہ مانگو، الله ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“
اس آیت سے یہ بات صاف ہو گئی کہ قدرت کی طرف سے جو خصوصیات عورت ومرد کو عطا ہوئی ہیں ان میں فضیلت کا پہلو کسی ایک ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ دونوں برابر کے حصہ دار ہیں۔ دوسرے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ عورت ومرد دونوں کی سعادت و کام یابی اس بات میں ہے کہ ایک دوسرے کی خصوصیات میں رشک کرنے کے بجائے ہر ایک اپنے اپنے حصہ کی نعمتوں کے لیے شکر گزار رہے اور ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔
اس حقیقت کی ایک بہت بڑی شہادت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کے ایک واقعہ سے ملتی ہے ۔ اسماء بنت یزید انصاریہ رضی الله عنہا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ مجھے عورتوں نے بھیجا ہے ،ان کی طرف سے عرض کرنے آئی ہوں ۔ عرض یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے آپ کو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے رسول بنا کر مبعوث فرمایا ہے، چناں چہ ہم آپ پر ایمان لائیں اور ہم نے آپ کی پیروی کی، لیکن ہم عورتوں کا حال یہ ہے کہ ہم پردوں کے اندر رہنے والی گھروں کے اندر بیٹھنے والی ہیں ۔ ہمارا کام یہ ہے کہ مرد ہم سے اپنی خواہش پوری کر لیں اور ہم ان کے بچے لادے لادے پھریں، مرد جمعہ، جماعت، جنازہ، جہاد ہر چیز کی حاضری میں ہم سے سبقت لے گئے او رجب جہاد میں جاتے ہیں تو ہم ان کے گھر بار کی حفاظت کرتی ہیں او ران کے بچے سنبھالتی ہیں تو کیا اجر میں بھی ان کے ساتھ ہم کو حصہ ملے گا؟
آں حضر ت صلی الله علیہ وسلم ان کی یہ فصیح وبلیغ تقریر سننے کے بعد صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم نے ان سے بھی زیادہ کسی عورت کی عمدہ تقریر سنی ہے جس نے اپنے دین کی بابت سوال کیا ہے؟ تمام صحابہ نے اقرار کیا کہ نہیں یا رسول الله! اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم حضرت اسماء رضی الله عنہا کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے اسماء! میری مدد کرو اور جن عورتوں نے تم کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ان کو میرا یہ جواب پہنچا دو کہ تمہارا اچھی طرح خانہ داری کرنا، اپنے شوہروں کو خوش رکھنا اور ان کے ساتھ ساز گاری کرنا مردوں کے ان سارے کاموں کے برابر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں۔ حضرت اسماء رضی الله عنہا حضور صلی الله علیہ وسلم کی یہ بات سن کر خوش خوش الله کا شکرادا کرتی ہوئی واپس چلی گئیں۔
اگر ہم مزید اسلام کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ الله تعالیٰ نے عورت کو ظلم وستم کی کن کن گہرائیوں سے نکا ل کر عزت وناموس اور شرف کی کن کن بلندیوں پر لاکھڑا کر دیا، الله تعالیٰ نے ماں کو صحیح صحیح ماں کا حق دلوایا ہے اور فرمایا کہ ﴿ولا تقل لھما أُف﴾ن کو اف تک کہنا حرام ہے۔ جنت کو ان کے قدموں کے نیچے رکھا۔ بیٹی جو پہلے دفنائی جاتی تھی، اس کو صرف حیات ہی نہیں بخشی، بلکہ اس کو ایک معزز خاتون اور بیٹی بنا دیا۔ بیوی جس کو پہلے زیادہ سے زیادہ جنسی خواہشات کی تسکین کے لیے استعمال کیا کرتے تھے اب وہ صرف اس مقصد کے لیے گھر میں نہیں لائی جاتی ہے ۔ وہ ایک لونڈی اور خادمہ نہیں ہے، بلکہ ایک معزز انسان، بلکہ یہ کہیے کہ گھر کی ملکہ اور شہزادی ہو گئی ہے۔
یوں تو اسلام نے ہر انسان کے ساتھ بن کررہنے کی تلقین فرمائی ہے او رمسلمانوں کے الگ سے حق مقرر فرمائے ہیں۔ اقربا کے حقوق ان سے بھی بالکل اعلیٰ درجے کے مقرر فرمائے ہیں ۔ انہی عورتوں کے متعلق اعلان فرمایا﴿وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾سورہ نساء، آیت:19) کہ ” عورتوں کے ساتھ معقول برتاؤ کرو۔“
ہاں!اسلام میں اتنا ضروری ہے کہ جہاں جہاں عورتوں کی صلاحیتیں کار گر ومفید نہ ہو سکتی ہوں اور عورت کے بس سے معاملہ باہر ہو وہاں اسلام نے وہ معاملات عورت کے سپرد نہیں کیے ہیں، جیسے، امامت، اسی طرح سیاست او رنان ونفقہ کی فراہمی کے لیے سعی، جو دل گردے کا کام ہے اورعورت کے بس سے حقیقتاً باہر بھی ہے ۔ خصوصاً اسلام میں عورت کے سر سے نان نفقہ کے حصول کابارِ گراں ہٹا دیا گیا اور مرد پر پوری ذمہ داری ڈال دی گئی۔ اس سے عورت کے وقار اور احترام کا کافی اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہر انسان اس تکلیف سے کسی نہ کسی طرح جان چھڑانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور بادشاہ وہ سمجھا جاتا ہے کہ حصول رزق کے لیے اس کو زیادہ ہاتھ پاؤں مارنے کی قطعی ضرورت نہ پڑے، باہر گرمی سردی ، جنگ وجدل کی تکلیف سے یکسو ہو کر تمام ضروریات پوری کرنے والے نوکر چاکر لگے ہوئے ہوں۔ بس اشارے کی ضرورت ہو۔
اور عورت کے لیے گھر میں صرف خوشیوں کا ماحول بنانے کا وظیفہ مقرر کیا گیا ہے، مرد جب باہر سے تھکاوٹ پریشانی لے کر گھر میں داخل ہو تو اس کا استقبال کرے ،اس پر خوشیاں نچھاور کرکے اس کے غموں کا مداواکرے، اس کے لیے ایسے آرام کا سامان مہیا کرے جس سے وہ تھکاوٹ کا بوجھ اٹھاسکے۔ اور وہ تھوڑے ہی عرصے میں ایک نئی جان لے کر دوبارہ دنیا کے سامنے نکل آئے اور خارجی معاملات میں وہ اطمینان اور یکسوئی سے لگ جائے۔
یہ کیا امور خانہ داری او رکیا زندگی ہو گی جس میں خارجی امور اورپریشانیوں اور تھکاوٹوں کے لیے مرد اور عورت دونوں کمر کس کر نکل جائیں اور واپسی پر گھر کی دیواروں سے خوشیاں مانگنے کی کوشش کریں، ظاہر ہے ایسے میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے ذریعہ سکون ہر گز نہیں بن سکتے ہیں، ان کے لیے یہ امر لازمی ہے کہ وہ اپنے آرام اور سکون کی تلاش کے لیے ایسے ذرائع استعمال نہ کریں جو خلاف فظرت اور خلاف معاشرت ہو۔ جس کا نتیجہ عائلی زندگی کی بربادی اور تباہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں نکل سکتا ہے۔
غرض یہ کہ اسلام نے عورت کو بہت کچھ دیا، اگر وہ اپنی اس عزت اور شرافت کی قدر جان سکے اور یہ معلوم کرسکے کہ دنیا کی نظر میں ہم پہلے کیا تھیں او راسلام نے ہمیں کیا بنایا ہے ۔ لوگ ہمیں شروفساد کا منبع سمجھتے ہوئے زہریلے درخت سے تشبیہ دیا کرتے تھے ۔ اور اسلام نے ہمیں ایک محبوب اور پسندیدہ چیز قرار دیا ہے۔
آج یورپ او رامریکا کا اس بات پر یقین پختہ ہوتا چلا جارہا ہے کہ مرد اور عورت کو فطری طور پر جسمانی خواہشات اور جنسی لذت اٹھانے کی پوری طرح سے کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ ان کے نزدیک توسفلی جذبات کی تسکین کے لیے تنہا لڑکے لڑکیوں کا ملنا چنداں معیوب نہیں، خواہ یہ ملاپ بصورتِ زنا ہی کیوں نہ ہو ۔ دوسری طرف اسلام ہے ،جو لباس تک پر کڑی پابندیاں عائد کرتا ہے اور بیوی کو شوہر کے گھر میں یا باہر شوہر کے علاوہ کسی اور سے ملنے ملانے سے سختی سے منع کرتا ہے۔ جب کہ نئی تہذیب دن رات او رخشکی اور تری میں شہوتوں کو بھڑکاتی اور ساکن جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے، تاکہ جتنا ہو سکے جائز، ناجائز فائدہ اٹھانے سے دریغ نہ کیا جائے۔ یہ وہ نام نہاد تہذیب ہے جو لذت کو سب کچھ سمجھتی ہے اور اس پرحرام لذت کا بھوت سوار ہے اور ان پر الله تعالیٰ کا یہ ارشاد بالکل صحیح صادق آتا ہے:﴿إِنَّ ہَؤُلَاء یُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَیَذَرُونَ وَرَاء ہُمْ یَوْماً ثَقِیْلاً﴾․ سورہ دہر ، آیت:27)
ترجمہ:” یقینا یہ لوگ دنیا سے محبت رکھتے ہیں اور قیامت کوپسِ پشت ڈالتے ہیں، جو بڑا بھاری دن ہے۔“
بہرکیف نسوانیت محض جسم کا نام نہیں۔ نسوانیت ابتدا سے بے لوث محبت، حسن وجمال ، آراستہ اور شائستہ جذبات اور از حدِ معزز اور استوارِ تعلق کا جیتا جاگتا مجسمہ ہے۔ قرآن مجید میں یہ اشارہ موجود ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان تعلق محض اس قدر نہیں کہ وہ ایک ساتھ ایک جگہ سوتے ہیں، بلکہ ان کا آپس کا تعلق میل ملاپ اور شفقت ومحبت کا تعلق ہے اور کسی عورت کی ہستی کے اعزاز اور اس کے بلند مقام پر فائز ہونے کی اس سے بڑی علامت کیا ہو سکتی ہے؟،
حضور علیہ السلام کی پسندیدہ چیزیں نماز، خوش بو، عورت تھیں، بالکل آخری سانسوں میں بھی عورتوں کے حقوق کی رعایت اور نماز کی پابندی کو فرمایا۔اس سے عورت اپنا مقام بآسانی پہچان سکتی ہے۔
ایک موقع پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے الله کے راستے میں روزہ رکھ کر جہاد کرنے، رات کو عبادت کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا، جس طرح بچے کے پیدا ہونے کی تکلیف کو کوئی مخلوق نہیں جان سکتی جو زچہ کو ہوتی ہے ،اسی طرح اس کے اجر کا احاطہ کرنا بھی مخلوق کی عقل سے باہر ہے اور اس کو صرف الله ہی جانتا ہے ۔ حمل سے لے کر دودھ چھڑانے تک بچہ کی ماں کو مثل جہاد کرنے والوں کے ثواب ملتا ہے ، اگر اس دوران میں وہ مر گئی تو اس کے لیے شہید کا ثواب ہے۔
اسی طرح آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے، فرمایا: مبارک ہے وہ عورت جس کے پہلے وہلے (حمل) سے لڑکی پیدا ہو۔ فرمایا جس عورت نے اپنے رب کی اطاعت کی اور شوہر کا حق ادا کیا اور شوہر کی خوبیاں بیان کرتی ہے۔ اس کی جان ومال میں خیانت نہیں کرتی ہے تو ایسی عورت کا اور شہید کا ایک ہی درجہ ہو گا۔
حضور علیہ السلام نے عورتوں کے بارے میں اپنے جن تاثرات کا اظہار فرمایا ہے ان کا اثر ان کی شریعت پر ہونا ناگزیر تھا، آپ نے فرمایا: مجھے خوش بو اور عورتیں پسند کرائی گئی ہیں او رمیری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔ یہ حدیث بہت معنی خیز ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ نے خوش بو کے ساتھ عورتوں کا ذکر کیا اس سے عورت کی جمالیاتی او رمعصوم فطرت کی طرف اشارہ ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ محبوبیت اور پسندیدگی خدائی اشارے کے ماتحت ہوئی۔ اس سے عورت کی روحانیت پر روشنی ڈالی گئی۔
حاصل کلام یہ کہ اسلام نے عورت کی حیثیت عرفی بحال کی اور مرد کے دوش بدوش لاکھڑا کر دیا۔ سب سے پہلے اس کی انسانی حیثیت کو واضح کیا گیا کہ وہ اپنی انسانیت اور آدمیت میں ناقص نہیں ہے۔ قرآن مجید میں پوری تفصیل سے گنایا گیا کہ زندگی کے ہر مرحلے میں مرد جو کمال حاصل کرسکتا ہے وہ عورت بھی کر سکتی ہے ۔ ثواب آخرت کا جو حصہ مرد کو مل سکتا ہے وہ عورت کو بھی مل سکتا ہے۔ انسان کے جو حقوق وفرائض ہیں ان میں عورت بھی پوری طرح شریک ہے۔ ماں کی خدمت کو جہاد پر فضیلت دی گئی۔ بیویوں کے بارے میں کہا گیا کہ خانہ آبادی کی بنیاد ہیں اور رزق ان کے نیک قدموں سے بڑھتا ہے، میراث میں عورت کو شامل کیا گیا اور عورت کے ساتھ مرد کے لیے جتنے رشتے ہو سکتے ہیں اسلام نے سب میں عظمت ومحبت کی شان پیدا کر دی۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مسلمان عورتوں کے بارے میں اسلامی تعلیم پر لفظ بلفظ عمل کریں تو عورتوں کو ان حقوق سے بہت زیادہ حقوق مل جائیں، جن کا وہ آج اپنے لیے مطالبہ کر رہی ہیں۔