Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1436ھ

ہ رسالہ

14 - 17
تقدیر بدلو، مگرکیسے؟

مفتی عطاء الله علوی
	
پاکستان میں دہشت گردی کاکھیل جاری ہے ، علمائے کرام کوشہید کیاجارہاہے، عوام کوقتل کرنے والے دندنارہے ہیں، موت کارقص پاکستان کے کونے کونے میں عوام کودکھایاجارہاہے۔ آئے روز انسانیت کاخون ارزاں اورسستا کیاجارہاہے، انسانیت کی تذلیل سربازار کی جارہی ہے، وہ انسانیت جس کو اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوقات میں بلندمقام عطافرمایا، وہ انسانیت جس کے لیے فرشتوں کوسجدے کروائے ، وہ انسانیت جس کوبہترین سانچے میں پیداکیاگیا، مگراس کے باوجود پاکستان میں انسانیت کاوقار بحال نہ ہوسکا، ہم اس کا حقیقی مقام اور مرتبہ کھوچکے ہیں، انسانیت کی صفات ختم ، درندوں اوروحشیوں کے اوصاف نے ہمارے اندر گھرکرلیاہے، ہم مسلمان کی جان سے کھیل جاتے ہیں، جس کی حرمت کواللہ کے نبی نے کعبہ کی حرمت سے زیادہ معززبنایاہے۔

ہماری سڑکوں پر تڑپتی لاشوں کودیکھ کرانسانیت بھی شرمارہی ہوتی ہے ۔ پھرہماری بے حسی اور بے شعوری کاعالم یہ ہے کہ ہم طبقاتی تفریق ، استحصالی نظام ، کھوکھلے انسانی دعوے اور ظالمانہ سماج کے ساتھ سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک کاکونہ کونہ ، چپہ چپہ انسانیت کے خون سے رنگین ہوچکاہے ، سڑکوں پر انسانیت کوسسکتی آہوں کے ساتھ خون میں لت پت چھوڑکرجانے والے قاتل بھی اسی ملک کے باشندے اور ہسپتالوں میں گولیوں کی تاب نہ لاکر موت کی آغوش میں جانے والے بھی اسی ملک کے باسی ہیں۔ مگرپاکستانی عوام کو ابھی تک انسانیت کی قدر وقیمت سمجھ نہیںآ ئی ۔

آخرکیوں؟کیا ہم ابھی تک سن شعور کو نہیں پہنچے؟کیاہمارے معاشرے میں تعلیم کافقدان ہے ؟کیاہم حقیقی اسلامی تعلیمات کوپانے میں ناکام ہیں؟کیا ہمارے ملک کی عوام کا لہو سیاسی اور مذہبی پارٹیاں بدلنے سے بدل جاتاہے؟کیاہم اچھے اور برے ، دوست اور دشمن ، کام یاب اور ناکام کی تمیز کھوچکے ہیں؟ہاں ! ہمارے ملک میں تعلیم کافقدان ہے، سیاست چند بااثر وڈیروں کے گھرکی لونڈی ہے ، قوم کی تقدیر بدلنے والے قومی مسائل سے ناواقف ہیں ، ہمارے ملک کے بااثر افراد ماتحتوں کو جانوروں سے زیادہ کا درجہ نہیں دیتے ،ہم اچھے اور برے کی تمیز کھوچکے ہیں،تب ہی تو ہمارے ملک کے کونے کونے میں دہشت گردی کاراج ہے، فرقہ وارانہ فسادات ہیں ،شاید ثواب سمجھ کر قتل وغارت گری سلسلہ بھڑکایاجارہاہے، سیاسی انتشار اور دنگل پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں، اسلام دشمن عناصر اس ملک کوتوڑنے کے لیے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہناچکے ہیں۔

قائداعظم کے آشیانے میں قتل وخون ریزی ، بغاوت اور ہٹ دھرمی کی سیاست خوب جاری ہے ، ملک دشمن عناصر بیرون ممالک سے آکر عوام میں بغاوت پھیلانے کے بعد گراف امن کو پست کررہے ہیں۔ بااثر مافیا ان پڑھ عوام کو خرید کراپنے مقاصد میں استعمال کررہاہے۔اعلیٰ کوالیفائیڈ افراد کامستقبل جاہل سیاست دانوں کے دامن سے وابستہ ہوچکاہے ، زیور تعلیم سے آراستہ افراد کاسہ گدائی لے کر انہیں جہلاء کے سامنے گردش کرتے اورسفارش کی بھیک مانگتے نظرآتے ہیں۔ملک کے کونے کونے میں آگ بھڑکاکر عدم استحکام پیداکرنے والے آگ لگاکر اپنے اپنے ممالک کوواپس چلے جائیں گے۔ ایسے وقت میں پاکستانی عوام کی ذمہ داری کیاہے ؟میری دانست کے مطابق پاکستانی عوام ان لوگوں کی طرح جدوجہد کرنی چاہیے جن کی عمارت میں چند شریروں نے آگ بھڑکائی ۔ پھرخود نکل کربھاگ کھڑے ہوئے ۔آگ جب پوری عمارت کواپنی لپیٹ میں لے رہی تھی تواس وقت مزیدافراد بھی پھرتی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان بچانے میں کام یاب ہوگئے۔ مگر عمارت میں ایک لنگڑااور ایک نابینا بچ گئے۔ چلنے سے معذور اور بینائی سے محروم آدمی واقعی کدھرجاسکتاہے؟ مگرعقل کی دولت استعمال کریں توکیاکچھ نہیں ہوتا؟ انھوں نے سرجوڑکر مشورہ کیاکہ آگ سے جان کیسے بچائی جائے؟ تب اندھے نے کہامیں دیکھ تونہیں سکتا،البتہ دوڑتوخوب سکتاہوں۔لنگڑے نے کہامیں چل نہیں سکتالیکن دیکھ توسکتاہوں اور راستے کی راہ نمائی توکرسکتاہوں۔ کیوں نہ ایساکرلیاجائے کہ میں تمہارے کندھے پر سوار ہوجاؤں اور تمہاری اوپرسے درست راستے کی راہ نمائی کروں اور تو مجھے ادھرلے کر دوڑے جدھرکی میں راہ نمائی کروں، چناں چہ ایساہی کیاگیا۔ اس طرح دونوں آگ سے جان بچاکرنکلنے میں کام یاب ہوگئے۔ آپ اس کوایک لطیفہ ہی سمجھ لیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جوآگ بھڑک رہی ہے ، آگ لگانے والے کچھ باہر جاچکے ہیں، کچھ جانے والے ہیں ، کچھ مضبوط اعضاء وجوارح والے ہیں، وہ بھی جان بچانے میں کام یاب ہوجائیں گے، البتہ ملک کی غریب اور کمزور عوام ہی بچ جائے گی ۔ جن کے پاس باہرجانے کے لیے سرمایہ ہی نہیں،بلکہ ملک میں رہتے ہوئے جان بچانے کی طاقت اور قوت بھی نہیں۔

ایسے وقت میں عوام کے جان بچانے کاایک ہی راستہ ہے کہ ہم نابینااور لنگڑے معذور شخص کی طرح ایک دوسرے کادست وبازو بنیں ، آپس کے معمولی اختلافات کو مٹاکر دین کے جھنڈے تلے جمع ہوں، اگرہم ایساکرنے میں کام یاب ہوگئے توہم کام یاب ہیں اور اگرہم ایسانہ کرسکے تو کبھی کام یابی کاتصور بھی نہیں کرسکتے۔

Flag Counter