Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1436ھ

ہ رسالہ

3 - 17
نافرمان بیٹے کا حالت نزع میں کلمہ نہ پڑھنا

تحقیق: مولوی سرفراز خان لوخاڑی
متخصص فی علوم الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی

بدیہی بات ہے کہ ہر علم وفن کا اپنا ایک دائرہ ہوتا ہے، جب اس کی گرم بازاری ہوتی ہے، درس وتدریس، تحقیق وتالیف کے سلسلے ہوتے ہیں، اس کے پڑھنیپڑھانے والوں کا ماحول قائم ہوتا ہے ، تو لازمی طور پر اس کے اثرات بھی محسوس کیے جاتے ہیں ، احادیث کی حفاظت ، نقل وحمل ، اس کے اصول وآداب ، ناقلین کی پہچان وتمیز اور دیگر احوال وامور سے متعلق امت مسلمہ کے ایک بڑے علمی طبقہ نے محیّر العقول فنون کی داغ بیل ڈالی تھی، علوم حدیث، اسماء الرجال اور جرح وتعدیل کے مختلف عنوانات سے بیش بہا ذخیرے تیار کیے تھے، چلتی روایت کے مطابق دوسرے بیسیوں علمی عنوانات کی طرح وہ بھی سردمہری کا شکار ہو گئے، جن علوم وفنون کی وضع وتدوین پر اُمت مسلمہ کو بجا طور پر فخر کا حق حاصل تھا، اقوام عالم پر جس کا رعب ودبد یہ تھا، جن بنیادی خطوط کی وجہ سے تمام اسلامی علوم وفنون اور تاریخ وثقافت محفوظ ہو گئی تھی، تحقیق وتنقید کے مخصوص اسلوب وانداز کو رواج ملا تھا، اسی سے بے اعنائی برتی جانے لگی، اسی کی ضرورت واہمیت کا احساس جاتا رہا، حالاں کہ زندہ قومیں کبھی ایسی چیز سے غفلت نہیں کر سکتیں جن سے ان کے امتیاز وتفاخر کا تعلق ہو، جس سے اُن کی شناخت قائم ہو۔

مذکورہ بالا گراں قدر علوم وفنون سے بے اعتنائی اور بے توجہی کی بنا پر روایت بیانی میں بیسیوں کمزوریاں درآئی ہیں، حالاں کہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے روایت بیانی میں غفلت او رکمزور طرز اختیار کرنے سے نہایت سختی کے ساتھ روکا تھا ،کیوں کہ بنی اسرائیل کے آسمانی مذاہب کو اسی افتراء، کذب اور کمزور طریقہ کار نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔

اس زمانہ میں بھی بہت ساری ایسی روایات سننے میں آتی ہیں ، بلکہ کتابوں میں بھی نظر سے گزر تی ہیں ، جن کا تعلق رسول الله صلى الله عليه وسلم سے نہیں ہوتا، ان کی نسبت آپ صلى الله عليه وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہوتا، محدثین نے اس پر کڑی گرفت کی ہوتی ہے، حسب ضابطہ ان کے بیان کرنے پر پابندی عائد کی ہوتی ہے ، مگر غفلت اور تغافل کی وجہ سے پھر بھی ان کی نسبت آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف کی جاتی ہے، بڑے بڑے مجمعوں میں ان کو بیان کیا جاتا ہے ، حالاں کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے ، یہ نسبت اس قدر معمولی نہیں کہ کسی بھی شخص کے کہنے پر اعتبار کرکے درست تسلیم کر لی جائیں ، ایسی روایات کو بیان کرنا، یا قید تحریر میں لانے سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے، کیوں کہ اس سے دین کا حلیہ بگڑ جاتا ہے اور دین کی اصل و صحیح تعلیمات خلط ملط ہو جاتی ہیں، اس کو معلوم کرنا ہی دشوار ہو جاتا ہے۔

جب کبھی رسول الله صلى الله عليه وسلم کی ذات اطہر کی طرف کسی قول یا فعل کی نسبت کرنی ہو تو اصولی بات یہ ہے کہ اس قول وفعل کو یا تو از خود تمام تر جوانب سے دیکھا جائے، اس کی سند کے راویوں کو دیکھا جائے، اس روایت کے بارے میں متقدمین اور متاخرین محدثین کی آرا کو سامنے رکھاجائے ، یا پھر ایسی شخصیت یا کتاب پراعتماد کرکے نسبت کی جائے جس شخص اور کتاب کو فنی لحاظ سے اعتماد کا درجہ حاصل ہو ، مشہور اصحاب فن نے اس کی شہادت دی ہو، اُس کا حوالہ دے کر بیان کیا جائے، اس کے بغیر نسبت کرنے کی کوئی جائز صورت نہیں۔

کوئی بھی اچھا خطیب ، مقرر یا اردو عربی کی تحریر حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف نسبت کرنے میں آخری حوالہ نہیں ہو سکتی، اصحاب فن کی شہادت کے بغیر اعتماد کا درجہ نہیں پا سکتی، فن شہادت واعتماد کا مقام معلوم کرنے کے لیے ضروری علوم وفنون کو سرد خانے کی نذر کرنے کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں، اصحاب فن کی صحبتوں میں بیٹھنے سے ہی اس کا بہتر ازالہ کیا جاسکتا ہے، جیسے کچھ لوگوں کو یہ خیال گزرنے لگتا ہے کہ یہ روایت تو شیخ المشائخ سیدنا عبدالقادر جیلانی المتوفی561ھ رحمہ الله تعالیٰ کی کتاب ” غنیة الطالبین“ میں ہے، یا حجة الاسلام امام غزالی المتوفی505ھ رحمہ الله تعالیٰ کی کتاب ” إحیاء علوم الدین“ یا فقیہ ابو اللیث سمر قندی373ھ رحمہ الله تعالی کی کتاب”تنبیہ الغافلین“ میں ہے،یہ کیسے موضوع ہو سکتی ہے ؟ اس قسم کی ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے یگانہ، روز گار محقق علامہ عبدالعزیز پرہاڑوی، صاحب ” النبر اس“ المتوفی1239ھ رحمہ الله تعالیٰ اپنی کتاب ”کوثر النبی وزلال حوضہ الروی“ میں لکھتے ہیں۔

کثیراً ما یقع الموضوعات فی مؤلفات المشایخ العظام من المتکلمین والمفسرین والفقہاء والصوفیة الکمل کالکشاف و” البیضاوی“ و”تفسیر الإمام الزاھد“ و” الثعلبی“، وکذا ”إحیاء العلوم“ للإمام حجة الإسلام الغزالی و” عین المنتخب“ منہ، وکذا ” شرعة الإسلام“ و”الکفایة الشعبیة“․

وکذا” غنیة الطالبین“ المنسوبة إلی سیدنا ومرشدنا الغوث الأعظم، قدس سرہ، لکن النسبة غیر صحیحة، وکذا کتب الأوراد المنسوبة إلی کبار الصوفیة․

بسا اوقات متکلمین، مفسرین ، فقہاء اور بڑے بڑے مشائخ، اسی طرح کا ملین صوفیائے کرام کی کتابوں میں من گھڑت روایتیں درآتی ہیں، جیسے تفسیر کشاف، تفسیر بیضاوی، تفسیر امام زاہدی اور تفسیر ثعلبی، ایسا ہی حجة الاسلام امام غزالی رحمہ الله تعالی کی ”إحیاء علوم الدین“ اور اس کی منتخب ”عین المنتخب“ اسی طرح ” شرعة الاسلام“،” کفایہ شعبیہ“ اور ”غنیة الطالبین“ بھی، جس کی نسبت سیدنا ومرشدنا حضرت غوث اعظم قدس سرہ کی طرف کی جاتی ہے ، مگر یہ نسبت درست نہیں او رایسی ہی اوراد کی کتابیں، جو بڑے صوفیائے کرام کی طرف منسوب ہیں ، ان تمام کتابوں میں بکثرت موضوع روایتیں درآئی ہیں۔

حضرت علامہ پرہاڑوی رحمہ الله تعالیٰ خود اعلیدرجہ کے روحانی مقام پر فائز تھے، سلسلہ چشتیہ میں حضرت نور محمد مہاروی رحمہ الله تعالیٰ کے خلیفہ حضرت حافظ شاہ جمال الله ملتانی رحمہ الله تعالی سے ارادت وخلافت کا شرف رکھتے تھے، مگر اس کے ساتھ وہ بلند پایہ محقق بھی تھے اور حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف کسی بات کی نسبت کو بہت گراں بار سمجھتے تھے، جس کا اظہار موصوف کی تعبیرات سے ہوتا ہے ، مذکورہ بالا بلند پایہ کتابوں اور اسی طرح سلف صالحین کی دوسری عظیم الشان کتابوں میں موضوع روایات در آنے کے کئی اسباب، ووجوہات ہیں، چند ایک کو علامہ پرہاڑوی رحمہ الله تعالی نے بھی بیان کیا ہے ، چناں چہ موصوف رقم طراز ہیں:

”والسبب أنہ قل اشتغالھم بصناعة الحدیث، وأنھم اعتمدوا علی المشہور فی الألسنة من تحسین الظن بالمسلم، وأنھم انخدعوا بالکتب الغیر المنقحة الحاویة للرطب والیابس، وأنہ لم یبلغھم وعید التھاون فی روایة الحدیث، وأیضاً منھم من یعتمد علی کل ما أسند من غیر قدح وتعدیل فی الرواة․ قال ابن حجر العسقلانی: اکثر المحدثین من سنة ماتین إلی الأن إذا ساقوا الحدیث بإسنادہ اعتقدوا انھم برؤا،من عھدتہ، انتھی․ وبالحملة إیراد الموضوعات خطأ فی الاجتھاد منھم، وذالیس مستغرباً ولا موجباً للقدح․

(موضوعات درآنے کی ایک ) وجہ یہ ہے کہ خاص فِن حدیث میں ان حضرات کا اشتغال کم تھا، ( دوسری وجہ ) یہ کہ انہوں نے مسلمان بھائی پر ( حسن ظن کرنے کے شرعی قاعدہ واصول کا سہارا لے کر ) از راہ حسن ظن اُن کی زبان زد روایتوں پر اعتماد کیا، ( تیسری وجہ ) یہ کہ ان حضراتِ صدق وصفا کو رطب ویابس سے بھرپور غیر منقح کتابوں سے دھوکہ لگا ، (چوتھی وجہ) یہ کہ ان مشائخ تک روایتِ حدیث کے معاملہ میں تساہل سے کام لینے پر جو وعیدیں منقول ہیں نہ پہنچ سکیں ، ( پانچویں وجہ یہ) کہ ان میں سے بعض حضرات کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر اُس روایت پر اعتماد کر بیٹھتے جو سند کے ساتھ بیان ہوتی، اُس کے راویان میں جرح وتعدیل کی ( زیادہ) ضرورت نہیں سمجھتے۔ ( شاید اُس بات سے دھوکہ کھا گئے، جس کا ذکر حافظ صاحب نے کیا ہے )

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں کہ دوسری صدی سے اب تک اکثر محدثین جب روایت کو سند کے ساتھ ذکر کر تے ہیں ، تو وہ اپنے کو بری الذمہ سمجھتے ہیں ( کہ انہوں نے بیان کرنے والوں کے نام بتا کر گلو خلاصی کر لی، عمل کرنے والا خود ہی چھان بین کر لے)۔

خلاصہ کلام یہ ہے ، کہ ان حضرات کا پنی کتابوں میں موضوع روایات کو لانا ان کی اجتہادی غلطی ہے ( اور اجتہادی غلطی پر الله تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ نہیں ہوتا) اجتہادی غلطی ہو جانا کوئی عجیب اور ناقابل توقع بات نہیں اورنہ ہی قابل جرح وقدح۔

علامہ پرہاڑوی رحمہ الله تعالی کے بیان کے مطابق یہ ایک اجتہادی غلطی ہے ، جس پر زیادہ گرفت نہیں ہوتی، مگر کسی کے لیے یہ ہر گز درست نہ ہو گا کہ وہ ثابت شدہ اجتہادی خطا کی اتباع وتقلید کرنے لگ جائے، مذکورہ وجوہ کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان روایات کا موضوع ہونا ان کے علم میں نہیں ہو گا۔

اکابر علمائے دیوبند جمہور اہل سنت والجماعت کے ترجمان تھے، انہوں نے کسی موڑ پر اُن کی روش سے ہٹ کر کوئی راستہ قبول نہ کیا، موضوعات کے حوالے سے ان کا موقف علمی اور تحقیقی ہے ،وہ بات بات پر ضعیف وموضوع کارٹا نہیں لگاتے پھرتے، نہ ہی بزرگوں کی شطحیات کو قابل تقلید وعمل سمجھتے ہیں ، دلیل سے بات کرتے ہیں او رجمہور علمائے امت کے طرزوانداز پر مدلل بات کو پسند کرتے ہیں ، قبول کرتے ہیں ،جب کبھی کسی روایت کا موضوع ہونا ثابت ہو چکا اور اصولی طور پر اس کو قبول کرنا چاہیے تھا، انہوں نے تسلیم کرنے میں دیر نہ کی، حکیم الامہ حضرت علامہ تھانوی رحمہ الله تعالی نے زبان زد عوام وخواص کئی روایات پر اپنی آخری کتاب ”بوادر النوادر“ میں ناقدانہ کلام کیا ہے۔

بہرحال دوسرے پختہ کار محدثین کی تصریح کے بعد کسی موضوع روایت کو بعض بزرگوں کے محض عمل کی بنا پر سہارا نہیں دیا جاسکتا، جب کہ خود ان بزرگوں کے طرز عمل میں مذکورہ بالا کئی توجیہات ہو سکتی ہیں ، ہمارے زمانہ میں چوں کہ علوم حدیث کے فنی تقاضوں سے بے گانگی اور اجنبیت کافی بڑھ گئی ہے، اس لیے تنبیہ کیے بغیر کوئی ایسی روایت بیان کرنا یا قید تحریر میں لانا درست نہ ہو گا ،جس کے لیے قابل اعتماد فنی سہارا موجود نہ ہو، کیوں کہ اب سننے والوں یا پڑھنے والوں سے یہ توقع رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ خود سے تحقیق کر لیں گے۔

علامہ پرہاڑوی رحمہ الله تعالی ان لوگوں کی روش پرتعجب کا اظہارکرتے ہیں ، جو فنی لحاظ سے اپنی جہالت کا اقرار کرنے کے بجائے پختہ کار محدثین ہی کی رائے سے روگردانی کرنے لگتے ہیں: العحب من الجاھلین بعلم الحدیث یتعصبون علی المحدثین فی ذلک ویستوجبون الوعید العظیم الوارد علی روایة الحدیث الموضوع، بعد ما أوضحنا لھم الحق من الباطل، ولا یخلصون عن تقلید الآباء، ﴿وإذا قیل لھم اتبعوا ما أنزل الله قالوا بل نتبع ما ألفینا علیہ آبائنا أولو کان آبائھم لا یعقلون شیئاً ولا یھتدون﴾․

ان لوگوں کی روش پر تعجب ہے جو علوم حدیث سے بالکل ناواقف ہیں ( اس کے باوجود حدیث کے معاملہ میں محدثین کا سہارا لینے کے بجائے) ان کے ساتھ تعصب کارویہ رکھتے ہیں، ( جس کا اثر یہ ہے ) کہ وہ موضوع روایات بیان کرنے میں مبتلا ہوتے ہیں ، اس کی وجہ سے احادیث نبویہ میں وارد بہت بڑی وعید کے مستحق بن جاتے ہیں ، حالاں کہ ہم نے حق وباطل کو الگ الگ سمجھادیا ہے، اس کے بعد بھی یہ اپنے ( جاہل آباؤاجداد کے غلط طرز عمل کی پیروی کرنے سے چھٹکارہ نہیں پاتے ، ( ایسے ہی لوگوں کی ایک نوع کے بارے میں ارشاد ربانی ہے ) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ الله تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے احکامات کی پیروی کرو ، تو یہ لوگ جواب میں کہنے لگتے ہیں: نہیں بلکہ ہم تو اس رسم ورواج کی پیروی کر یں گے جن پر ہم نے اپنے آباؤ واجداد کو دیکھا تھا ( یہ لوگ ایسا کرنے پر بضد ہیں) اگر چہ ان کے آباؤ اجداد کچھ نہ سمجھتے تھے اور نہ ہی راہ راست پر تھے۔

روایات کا ایک بڑا ذخیرہ ہے، جو آج بھی زبان زد عوام وخواص ہے، جس کے بارے میں محدثین نے تصریح کر دی ہے کہ اس کو بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے، مگر کسی فنی دلیل کا سہارا لیے بغیر اسے بیان کیا جاتا ہے، قید تحریر میں لایا جاتا ہے، جو حضرت رسول الله ا کی نہایت مؤکد تعلیم وتنبیہ کے سراسر خلاف ہے، ہر زمانے میں اصحابِ فن نے اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کی ہیں اور موضوع، من گھڑت روایات کی نشان دہی کرکے امت مسلمہ کو خبردار کیا ہے ہندوستان کے اکابر علماء بھی اس میدان میں اتر کر اپنا حصہ ڈال چکے ہیں، گیارہو صدی ہجری کے محدث علامہ محمد طاہر پٹنی صاحب ”تذکرة الموضوعات“ اور ”قانون الموضوعات“ اسی طرح تیرھویں صدہی ہجری کے علامہ عبدالعزیز پرہاڑوی متوفی1239ھ صاحب ” کوثر النبی وزلال حوضہ الروی“ اور علامہ جعفر سندھی بوبکانی ایسے ہی علامہ عبدالحئی لکھنوی متوفی 1304ھ سر زمین ہندوستان کی ان نام ور شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اس ضرورت کا شدت سے احساس کرتے ہوئے موضوع ومن گھڑت روایات کی اپنے طور سے نشان دہی کی کوشش کی اور اس سے اجتناب اختیا رکرنے کی صدا بلندی کی۔ (جاری)

Flag Counter