Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1436ھ

ہ رسالہ

2 - 17
محرم الحرام اور عاشورہ کا روزہ

مولانا محمد نجیب قاسمی
	
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، یعنی محرم سے ہجری سال کا آغاز اور ذو الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والے مہینے قراردیا ہے۔ اس ماہ کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ تعالیٰ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے ۔ (ترمذی ج1 ص157) حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے ماہ محرم الحرام کے روزے ہیں ۔ (صحیح مسلم)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا یا رسول اللہ ! رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو، اس لیے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے ۔اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی ج1 ص 157)

جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ قوم بنی اسرائیل ہے، جیساکہ اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی۔

عاشورہ کا روزہ
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ اس دن میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے روزہ رکھا تھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پہلے تو یہ روزہ واجب تھا، پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو مسلمانوں کو اختیار دے دیاگیا کہ چاہیں یہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں، البتہ اس کی فضیلت بیان کردی گئی کہ جو روزہ رکھے گا اس کے سال گذشتہ کے چھوٹے گناہ معاف کردیے جائیں گے ۔پہلے یہ روزہ ایک دن رکھا جاتا تھا، لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لیے آخر میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو انشاء اللہ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا، لیکن اس خواہش پر عمل کرنے سے قبل ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔

عاشورہ کے روزہ سے متعلق احادیث
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور عاشورہ کے دن بیت اللہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔جب رمضان فرض ہوا تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ص 217)

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی روزہ رکھا اور اس روزہ کا بھی حکم دیا ۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے روزے کا حکم) چھوڑ دیا گیا، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے ۔ (صحیح بخاری ص 254، ص 268)

حضرت رُبیع بنت مُعوِذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح کو کھاپی لیا ہو وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے )اور جس نے ابھی تک کھایا پیا نہیں ہے وہ روزہ رکھے ۔ فرماتی ہیں کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لیے اون کا کھلونا بناتی تھیں ۔جب کو ئی بچہ کھانے لیے روتا تویہ کھلونا اس کو دے دیتیں ،یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوتا۔ (صحیح بخاری ج1 ص 263، صحیح مسلم ج 1 ص 360)

حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن ایک آدمی کو بھیجا، جو لوگوں میں یہ اعلان کررہا تھا کہ جس نے کھالیاوہ پورا کرے یا فرمایا بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہیں کھایا وہ نہ کھائے ( یعنی روزہ رکھے )۔ (بخاری ج 1 ص257)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کام یابی عطافرمائی، ہم اس دن کی تعظیم کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج1 ص 268)

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ یہودی عاشورہ کی تعظیم کررہے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں، اس کو عید بنارہے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہم اس روزہ کے زیادہ حق دار ہیں۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص 268،562)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو کسی دن کے روزہ کا اہتمام اور قصد کرتے ہوئے نہیں دیکھا، سوائے عاشورہ کا روزہ اور رمضان کے مہینے کا۔ (بخاری ج1 ص 268) یعنی ان روزوں کا آپ صلی الله علیہ وسلم بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لیے تشریف لائے تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے منبر پر عاشورہ کے دن (کھڑے ہوکر) فرمایا: اے اہل مدینہ! کہاں ہیں تمہارے علما؟ میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ یہ عاشورہ کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا ہے، میں روزے سے ہوں، جو چاہے روزہ رکھے جوچاہے روزہ نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ج ۱ ص 262)

عاشورہ کے روزہ کا ثواب
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ سال گزشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (ترمذی ج 1 ص 151) ان احادیث میں گناہ سے صغائر گناہ مراد ہے، کبائر گناہ کے لیے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

عاشورہ کا روزہ رکھنے کا طریقہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہودونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر آئندہ سال زندہ رہا تو ان شاء اللہ نویں کو (بھی) روزہ رکھوں گا، لیکن آئندہ سال آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔ (مسلم ج1 ص 359)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد ج 1 ص 241) یہ حدیث بعض نسخوں میں او کی جگہ و اوکے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ اگر واو (یعنی اور) کے ساتھ روایت ثابت مان لی جائے تو پھر تین روزہ رکھنا ثابت ہوگا۔ اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے کی 4 شکلیں بنتی ہیں :9 ،10 اور 11 تینوں دن روزے رکھ لیں۔ 9 اور10 دو دن روزہ رکھ لیں۔ 10 اور 11 دو دن روزہ رکھ لیں۔ اگر کسی وجہ سے 2 روزے نہیں رکھ سکتے تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔

خلاصہٴ کلام
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا، آپ صلی الله علیہ وسلم روزہ رکھتے ، لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ 10 محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہلکی سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے، اِس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ 9یا 11 محرم الحرام کو رکھوں گا،تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے ہی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوگیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں‘ صحابہٴ کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ 9یا 11 محرم الحرام کا ایک روزہ ملاکر رکھنے کا اہتمام فرمایا اور اسی کو مستحب قرار دیا اور صرف عاشورہ کاروزہ رکھنا خلافِ اولیٰ قرار دیا ۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اس کو عاشورہ کا ثواب ملے گا، لیکن چونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خواہش2 روزے رکھنے کی تھی، اس لیے اس خواہش کے تکمیل میں بہتر یہی ہے کہ ایک روزہ اور ملاکر دو روزے رکھے جائیں۔

وضاحت
بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً 50سال بعد 61 ہجری میں نواسہ ٴرسول صلی الله علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس دن کی اہمیت ہوئی ہے، حالاں کہ اس دن کی فضیلت واہمیت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وعمل کی روشنی میں پہلے ہی سے ثابت ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وعمل کی روشنی میں ذکر کیا گیا، ہاں! حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت کے لیے اللہ تبارک نے اس بابرکت دن کاا نتخاب کیا ،جس سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کی مزید اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

Flag Counter