Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1436ھ

ہ رسالہ

17 - 17
مبصر کے قلم سے

ادارہ
	
تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)

ریاض الصالحین من کلام سید المرسلین
تالیف: الامام ابو زکریا محیی الدین یحییٰ بن شرف نووی
صفحات:580 سائز:20x30=8
ناشر: زمزم پبلشرز، اردو بازار، کراچی
امام نووی رحمة الله علیہ کی تصنیفات وتالیفات کو جو شرف قبولیت حاصل ہوا ہے وہ اہل علم پر مخفی نہیں ، حدیث، فقہ، لغت وغیرہ، مختلف موضوعات پر ان کی ضخیم کتابیں موجود ہیں اور علوم دینیہ کا طالب علم ان کے علمی ذخیرے سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ زیر نظر کتاب ”ریاض الصالحین“ بھی ان کے مآثر علمیہ میں سے ہے، جس میں ظاہری وباطنی آداب، ترغیب وترہیب کے مضامین، زہد وریاضت نفس، تہذیب اخلاق، طہارت قلوب، اعضاء وجوارح کی حفاظت اور ظاہروباطن کی اصلاح وغیرہ سے متعلق حدیث کی معروف ومستند کتابوں سے صحیح روایات کو جمع کیا گیا ہے۔

کتاب کے ہر باب کو قرآنی آیات سے شروع کرنے کا التزام کیا گیا ہے اور مشکل الفاظ کے اعراب کا ضبط او رمعنی کی تشریح کی گئی ہے۔ امام نووی رحمة الله علیہ کی دیگر کتابوں کی طرح زیر نظر مجموعہ کو بھی الله تعالیٰ نے قبولیت عطا کی، چنا ں چہ مدارس وجامعات کے نصاب کا حصہ ہونے کے ساتھ دعوت وتبلیغ کے حلقوں میں بھی اس کی تعلیم ہوتی ہے اور ظاہری وباطنی آداب، تہذیب اخلاق اور اصلاح نفس کے حوالے سے عوام وخواص سب اس سے خوب مستفید ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ”ریاض الصالحین“ کا زیر نظر ایڈیشن شیخ مصطفی محمد عمارہ کی تحقیق وتعلیق کے ساتھ ہے اور اسے زمزم پبلشرز کراچی نے رنگین کتابت اور مکمل اعراب کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ کتاب کے سرورق پر شیخ مصطفی محمد عمارہ کے متعلق لکھا گیا ہے کہ ”حقق نصوصہ وخرّج أحادیثہ وعلّق علیہ“ جب کہ کتاب میں احادیث کی تخریج کا اہتمام نہیں ہے، حواشی میں صرف الفاظ کی تحقیق وتشریح اور معانی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کتاب کے بعض مقامات پر اعراب کی غلطیاں بھی موجود ہیں اور اس حوالے سے مزید نظر ثانی کی ضرورت ہے، اسی طرح حواشی پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے کہ صفحہ166 پر اوپر متن میں حاشیہ نمبر5،6 موجود ہے جب کہ نیچے یہ حواشی موجود نہیں ہیں۔ مجموعی اعتبار سے بہرحال یہ ایک لائق ستائش کاوش ہے جو عمدہ ورق، معیاری طباعت اور خوب صورت کمپوزنگ کے ساتھ منظر عام پر لائی گئی ہے۔

ظہور امام مہدی وفتنہٴ دجال، کب اور کیسے؟
تالیف: مولانا محمد بشیر احمد حامد حصاری
صفحات:162 سائز:23x36=16
ناشر: مکتبہ الفیض، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور
مولانا محمد بشیر احمد حامد حصاری کا شمار حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمة الله علیہ کے ممتاز تلامذہ میں ہوتا ہے اور یہ ان دو طالب علموں میں سے ایک ہیں جن پر جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن جیسی عظیم الشان دینی درس گاہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اب قریب ہی میں ان کاانتقال ہو گیا ہے ، الله تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ انہوں نے مختلف دینی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور بہت ہی خوب اٹھایا ہے۔ ان کی زیر نظر تالیف بھی ایک اہم دینی موضوع سے متعلق ہے جو قیامت کی اہم نشانیوں سے متعلق ہونے کی بنا پر عوام وخواص سب حلقوں میں نہایت اہمیت کی حامل ہے اور اس موضوع کو خصوصاً دور حاضر کے حالات و واقعات کے تناظر میں غوروفکر اور دلچسپی سے پڑھا گیا ہے کہ ایک طویل عرصے سے امّت مسلمہ دنیا کے چپے چپے میں ظلم واستبداد کی شکار ہے اور خون مسلم کی ارزانی کا قیامت خیز منظر لوگوں کو قرب قیامت کی ان اہم نشانیوں کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ کتاب کے عنوان میں موجود دونوں موضوع یعنی امام مہدی کا ظہور اور فتنہٴ دجال کے مختلف پہلوؤں پراحادیث نبویہ کی روشنی میں سیر حاصل گفت گو کی گئی ہے ۔“

آغاز سخن میں کتاب کے متعلق لکھا گیا ہے کہ :
”مسلم دنیا پر مغربی قزاقوں کی دہشت گردی اور احادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم “یہ مقالہ 1990ء میں اس وقت لکھا گیا تھا جب مغربی فوجوں نے عراق پر بارود کی بارش کر دی تھی، چوں کہ جزیرة العرب میں مغربی فوجوں کا نزول فرمودات نبوی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق خوف ناک عالمی جنگ کا آغاز ہے اس لیے اس بہیمانہ جنگ سے متعلق متعدد احادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم مناسب تشریح کے ساتھ اس مقالہ میں شامل کی گئی تھیں۔ اب تک کے حالات اور حالات کا آئندہ رخ فرمودات نبوی صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ بعض امور ایسے تھے جو اس وقت پردہٴ غیب میں تھے لیکن اب واضح ہو کر منظر عام پر آگئے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم کا مصداق مزید واضح ہو تا جارہا ہے، لہٰذا ضرورت محسوس ہوئی کہ مقالہ مذکورہ از سر نو ترتیب دیا جائے اور احادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں آنے والے فتنوں کو مزید وضاحت سے بیان کیا جائے ۔لہٰذا نئی طباعت میں مذکورہ کتاب کا نام ہے” ظہورمہدی وفتنہٴ دجال کب اور کیسے ؟ “ طوالت سے بچنے کی خاطر اکثر احادیث کا ترجمہ نقل کیا جائے گا ۔ ہر حدیث کے ترجمہ پر حدیث کا حوالہ درج ہو گا تاکہ جو اصل ماخذ کی طرف رجوع کرنا چاہے تو اس کے لیے آسانی ہو۔“

کتاب کی ترتیب میں بخاری، مسلم، ترمذی،مسند احمد، کنز العمال، مجمع الزوائد وغیرہ کے علاوہ جن بعض مخصوص مصادر سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ابتدائیہ میں ان میں سے ایک کے متعلق مؤلف لکھتے ہیں کہ:

”نعیم بن حماد کی کتاب ”الفتن“ بہت مشہور کتاب ہے ، فتنوں پہ لکھنے والے تمام مصنفین اس سے استفادہ کرتے ہیں یہ کتاب دوسری صدی ہجری کے آخر میں یا تیسری صدی کے شروع میں لکھی گئی تھی، کیوں کہ نعیم بن حماد کی وفات 229ھ میں ہوئی ہے، گویا تبع تابعین کے دور کا اختتام ہے اور خلافت بنو عباس کے عروج کا زمانہ ہے ۔ متقدمین میں اس کتاب کو پذیرائی حاصل نہیں ہوئی، کیوں کہ ضعیف سندوں سے منقول ناقابل فہم روایات ان کے نزدیک خیالی خوابوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ لیکن جب فتن کا دور شروع ہوا تو وہ خیالی خوابوں جیسی باتیں حقیقت بن کے سامنے آنے لگیں، لہٰذا اس کتاب کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو تا چلا گیا، چناں چہ بعد کے مصنفین نے ان کی کتاب سے بہت استفادہ کیا ہے ۔دور حاضر میں یہ موضوع ایک ایسی شکل اختیار کرتا جارہا ہے جسے عوامی حلقے”دجالیات“ کہنے لگے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر، مذہبی موضوعات پر ذہنی جگالیاں یا یوں کہیے خوش گپیاں کرنے والوں میں بے حد مقبول ہے۔ معدودے چند سنجیدہ علمائے حق کو چھوڑ کر اس موضوع میں پڑنے والے اسے محض وقت گذاری اور اپنے جیسوں کو مرعوب کرنے کا ایک ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔

احادیث میں دجال کے اختیارات ، تباہ کاریاں، اوصاف وخصائل اور قرب قیامت کی دیگر جو نشانیاں بیان کیگئی ہیں اگر ان سے مجاز واستعارہ مراد لے کر ان کا کوئی مصداق بیان کرنا ہو توصرف احتمال کے درجے میں بیان کرنا چاہیے، کسی چیز کو ان کا حتمی مصداق نہیں بنانا چاہیے۔

مولانا عبدالماجد دریا آبادی کے ہفتہ وار ”سچ“ میں ظہور مسیح ودجال اور خروج یاجوج وماجوج سے متعلق ایک مضمون چھپتا رہا تھا جس میں یہ دکھایا جارہا تھا کہ پیش گوئی تمثیل ومجاز کے پردہ میں ہوتی ہے۔ مولانا کو کافی عرصہ بعد خیال آیا او رانہوں نے ڈیڑھ سال کے پرچے حضرت تھانوی کی خدمت میں رائے کے لیے بھیج دیے۔ حضرت تھانوی نے اس کو چھاپنے سے منع فرما دیا اور اس سلسلے کی کچھ اصولی باتیں لکھ کرکے بھیج دیں، وہ اصول اس موضوع پر کام کرنے والوں کے پیش نظر ہوں تو مفید وبہتر ہو گا، اس کی تفصیل مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی تالیف ”حکیم الامّت نقوش وتأثرات“ میں موجود ہے اور ان میں سے چند ایک اصولوں کو موضوع کی مناسبت سییہاں ذکر کر دیا جاتا ہے :

1...”نصوص کا اپنے ظواہر پر محمول کیا جانا، اجماعی منقولی مسئلہ ہے اور معقولی بھی، ورنہ تمام نصوص اور تمام قوانین سے امن مرتفع ہو جاتا ہے ، البتہ اگر کوئی عقلی یا نقلی صارف ہو تو بہ ضرورت غیر ظاہر پر محمول کر لیا جائے گا، مگر صارف کا محض خیالی یا ذاتی ہونا کافی نہیں ورنہ ہر فرقہ قرآن وحدیث کا تحریف کرنے والا ایسے خیال یا ذوق کا مدعی ہو سکتا ہے، اور صوفیہ کی تاویل اس سے مستثنی ہے، کیوں کہ وہ ان معانی کے مدلول نص ہونے کے مدعی نہیں بلکہ اصل مدلولات کو قبول کرکے ان مدلولات کے مشابہ کو بہ طور اعتبار کے ظاہر کرتے ہیں۔

2... احادیث متضمنہٴ خروج دجال ویاجوج وماجوج کو جو صحیحین میں بھی مذکور ہیں جو شخص خلو ذہن کے ساتھ پڑھے گا، اس کے ذہن میں بے تکلف جو معانی آئیں گے وہی ان احادیث کے مشہور اور صحیح محمل ہیں۔

3... ان معانی کا امتناع نہ کسی دلیل عقلی سے ثابت ہے او رنہ کسی دلیل نقلی سے، مثلاً کسی دوسری ایسی ہی صحیح حدیث میں اس کے خلاف آیا ہو یا حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ان کے خروج کا کوئی زمانہ متعین فرمایا ہو اور وہ زمانہ گذر گیا ہو مگر ایسا بھی نہیں ہوا، بلکہ ایک حدیث صحیح میں تصریح ہے کہ آپ کو دجال کے متعلق یہ بھی احتمال تھا کہ شاید میرے ہی زمانہ میں ظاہر ہو جائے، تو ایسی صورت میں حقیقت کو چھوڑ کر مجاز مراد لینا کیسے صحیح ہو گا۔

4... اسی لیے علمائے امّت میں سے خصوصاً سلف خیر القرون میں سے کسی کو ایسے معانی کا احتمال بھی نہیں ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وقوع سے پہلے حقیقت سمجھ میں نہیں آتی۔ اول تو یہ بات غلط ہے، جب حقیقت واضح ہے سمجھ میں نہ آنے کی کوئی وجہ نہیں، پھر اس میں کلام ہے کہ جس کو وقوع کہا گیا ہے ، یہ وقوع ہے یا نہیں، ممکن ہے وقوع اسی طور پر ہو جیسا مدلول متباد رہے۔

5... پھر اگر ایسی ہی تاویلات کا باب مفتوح ہو تو اس کی کیا دلیل ہے کہ جو اس وقت سمجھا گیا وہی مراد ہے، ممکن ہے دوسری قوم اور دوسرے واقعات مراد ہوں ، جو واقع ہو چکے ہوں، یا آئندہ واقع ہوں، او راس حالت میں مرزا کی تاویل پر بھی حتی کہ دعویٰ نبوت میں بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا حالاں کہ اس پر اعتراض کیا گیا ہے ، اس تحریر میں اس نے بھی ایسی ہی تطبیق کی کوشش کی ہے ، یہ دوسری بات ہے کہ دونوں تطبیقوں میں ، تعداد احادیث کی کمی وبیشی کا تفاوت ہو ۔“ ( ص:106،108، سعید بکڈپو، وصی آباد، الہٰ آباد)

اس کتاب میں مصنف نے ان کے علاوہ بھی جدید مصنفین کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے ۔ جن کی تحریریں کہیں کہیں حالات حاضرہ اور ان کی وابستگیوں سے متاثر بھی ہو جاتی ہیں۔

حضرت حکیم الامت  کی طرف سے محتاط طرز عمل اختیار کرنے کی نصیحت کے بعد اب چند مثالیں ملاحظہ کر لیں:
کتاب کے صفحہ نمبر12 پر آخری پیرا گراف میں مندرجہ ذیل جملہ قابل غور ہے:” لیکن فتنہ مغرب تو دو صدی سے اُمّت کے گلے میں غلامی کا طوق ڈالے اور اس پر ظلم کے پہاڑ ڈھارہا ہے، اس کی جفاکاری کہیں تھمنے کا نام نہیں لیتی، لہٰذا فتنہ الحارقہ کہلانے کا حق دار یہی ایک فتنہ ہے۔“

صفحہ نمبر66 پر چھٹی سطر میں مندرجہ ذیل جملہ بھی قابل غور ہے۔
” اس میں شک نہیں کہ چاروں سفیانی پہلا وہ جوبنو عباس کی خلافت کے آخر میں آیا  دوسرا عراق کا حکمران صدام حسین شہید، تیسرا جو ملحمة الکبریٰ کے بعد ابھرے گا، چوتھا جو مہدی کو خلافت سپرد کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کرے گا۔ یہ چاروں تاریخ ساز شخصتیں ہیں۔“

صفحہ نمبر74 پر چھٹی سطر میں لکھا ہے:” لہٰذا معلوم ہوا کہ 1990 کے آخر میں بش سینئر کے ہاتھوں شروع ہونے والی جنگ در حقیقت الفتنة الرابعة ہے۔

کتاب کی جلد بندی مضبوط اور طباعت واشاعت درمیانے درجے کی ہے۔

Flag Counter