Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1435ھ

ہ رسالہ

8 - 15
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
منھ بولی اولاد اور حقیقی اولاد کے احکام
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین درج ذیل مسائل کے بارے میں :
1...متبنّی یعنی کسی معلوم النسب یا غیر معلوم النسب بچہ کو گودلینا یا دینا، او راس منھ بولے بیٹے، بیٹی کی نسبت منھ بولے باپ کی طرف کرنا کیسا ہے ؟
2...منھ بولی بیٹی کی بلوغت کے بعد منھ بولے باپ کے لیے اسسے پردہ کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
3...کیا منھ بولے باپ کے لیے بھی اسلام میں وہی احکام ہیں جو حقیقی باپ کے ہیں؟
4...کیا منھ بولے بیٹے، بیٹی کا وراثت میں حق ہے؟ بالتفصیل جواب مرحمت فرماکر ممنون فرمائیں۔

جواب… واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی کو کوئی لڑکا پسند آجاتا تھا، تو وہ اس کومتبنّی(منہ بولا بیٹا) بنا لیتا تھا او راس لڑکے کو اس کی طرف نسبت کرکے پکارا جاتا تھا اور اس کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا، یعنی اس پر وہ تمام احکامات لاگو ہوتے تھے جو حقیقی بیٹے پر لاگو ہوتے ہیں، جیسے کہ میراث میں شرکت او رمتبنّی کی بیوی کا اس آدمی پر حرام ہونا جس نے اس کو متنبی بنایا ہے وغیرہ وغیرہ، پھر الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں آیات اتار کر اس رسم کو ختم کر دیا اور یہ ارشاد فرمایا کہ: ” یہ تمہارے متبنّی تمہارے بیٹے نہیں ہیں“ اور اس متبنّی کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذا اس پر حقیقی بیٹے کے احکام جاری نہیں ہوں گے، اب جوابات بالترتیب ملاحظہ ہوں:
1...کسی بیٹے یا بیٹی کی نسبت منھ بولے باپ کی طرف کرنا جائز نہیں ہے۔
2...منھ بولی بیٹی کا منھ بولے باپ سے بلوغت کے بعد پردہ کرنا ضروری ہے۔
3...منھ بولے باپ کے لیے اسلام میں وہ احکا م نہیں جو حقیقی باپ کے ہیں ، بلکہ اسلام میں منھ بولے باپ اور منھ بولے بیٹے کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
4...منھ بولے بیٹے اور بیٹی کا منھ بولے باپ کی وراثت میں کوئی حق نہیں۔

کرکٹ کا میچ
سوال… کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عدالتوں اور میڈیا میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ قومی کرکٹر سٹے میں ملوث ہیں جس کی داستانیں انٹرنیٹ او رمختلف ویب سائٹ پر موجود ہیں، اس جرم میں انہی کھلاڑیوں کو باقاعدہ عدالتوں سے سزا ئیں ملی ہیں اور انہی قومی کرکٹر ز نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ سٹہ اور جوا کرکٹ کا لازمی حصہ ہے، جس میں تمام کھلاڑی ملوث ہیں اور ہماری سادگی ہے کہ ہم ان سٹے بازوں کو قابل نفرت اور نشان عبرت بنانے کے بجائے ان کو عزت اور شہرت کے تاج پہناتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ڈالروں کی اس لت نے وطن عزیز میں ایسے افراد کی فصل تیار کر دی ہے کہ وہ چند ڈالر کے عوض سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور قوم کے بچے بس کرکٹر ہی بننا چاہتے ہیں، تاکہ جلداز جلد ڈالروں کا ڈھیر حاصل کر سکیں۔

جن کے جیتنے پر سڑکوں پر ناچ گانا ہوتا ہے، ہوائی فائرنگ سے بے گناہ مسلمان مرتے ہیں، تعلیم روز گار سب ٹھپ ہو جاتا ہے اور مساجد میں ائمہ حضرات سے باقاعدہ قومی کرکٹ ٹیم کے سٹہ بازوں، جواریوں کی میچ میں کامیابی کے لیے دعائیں کرائی جاتی ہیں، یوں لگتا ہے کہ ان ملت فروشوں کی جیت قوم کے تمام مسائل کا حل ہے، یا امت کی زندگی او رموت کا مسئلہ ہے، لوگ لوڈ شیڈنگ ، قتل وغارت ، مہنگائی ،غرض سب کچھ بھول کر میچ میں لگ جاتے ہیں۔

ہمارے دشمن بھی اس چیز سے خوب واقف ہیں، تو جب بھی انہیں کوئی کارروائی یا ضرب لگانا ہوتی ہے تو وہ ہم کو ٹی ٹونٹی، ایشیا کپ ، شارجہ سیریز، ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں میں الجھا دیتے ہیں، ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو ممالک ان کھلاڑیوں کو لاکھوں ڈالر دیتے ہیں انہی ممالک کی اپنی کرکٹ ٹیم نہیں، مثلاً :امریکا، یورپ، جرمنی، جاپان وغیرہ کسی ملک کی کرکٹ ٹیم نہیں ہے ،تو یہ ہمیں کرکٹ میں کیوں الجھائے رکھتے ہیں؟ او ران کے لیے لاکھوں ڈالر کیوں خرچ کرتے ہیں؟
1...تو سوال یہ ہے کہ ان کرکٹر حضرات کے لیے مساجد میں اجتماعی دعا کرنا یا کرانا کیسا ہے؟
2...کرکٹ کا ٹی وی پر دیکھنا اور شرط لگا کر کھیلنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ جب کہ پیسہ اور سامان جیتنے والے کو ملتا ہے؟
3...کرکٹ کی جیت کی خوشی میں منعقد ہونے والی ناچ گانے اورشراب کی محفلوں اور ہوائی فائرنگ سے بے گناہ مسلمانوں کے مرنے کا گناہ کس کے سر ہے؟ اور دیگر مفاسد مثلاً: لوگوں کا ترکِ نماز اورایذائے مسلم وغیرہ ان سارے مفاسد میں کون کون حصہ دار ہے؟
4...کیا گناہ میں ملوث شخص سے تعلق یا محبت رکھنا جائز ہے، جبکہ وہ بڑے بڑے اور کھلم کھلا گناہ کاارتکاب بھی کرتا ہو؟
5...کسی مسلمان کو گناہ سے روکنے یا برائی سے منع کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟
6...او رجب نوجوان لڑکوں کو لڑکیوں سے بات چیت او رتعلق سے منع کرتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو دین اور نیک کام کی دعوت دے رہے ہیں ،کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ بعض علماء بھی تو ادا کاروں اور فلمی ہیروئنوں کو دین کی دعوت دینے کے لیے ان سے بات کرتے ہیں، تو کیا یہ طریقہ تبلیغ جائز ہے؟
7...اور جو شخص کافروں سے مال اور سامان عیش حاصل کرکے مسلمانوں کو کسی طور بھی ایذاء پہنچائے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب… واضح رہے کہ کھیل برائے کھیل جس سے کوئی دنیاوی یا اخروی فائدہ حاصل نہ ہو، مکروہ تحریمی ہے اور وہ کھیل جس میں کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت ہومگر اس کی ممانعت قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہووہ بھی ناجائز ہے، البتہ ایسے کھیل جس سے جسمانی ورزش مقصود ہو اور قرآن وحدیث میں اس کی ممانعت بھی نہ آئی ہو فی نفسہ مباح ہیں، جب کہ وہ کسی معصیت پر مشتمل نہ ہوں، اور نہ ہی اس میں انہماک سے انسان کے دینی اور دنیاوی واجبات میں خلل آتا ہو ،ا س وضاحت کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں
1.  درست نہیں.  2.   ناجائز اورحرام ہے.  3.   جو لوگ براہِ راست ان گناہوں کاارتکاب کرتے ہیں وہ بھی گناہ گار ہیں او رجو لوگ ان گناہوں کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور ان کا سبب بنتے ہیں وہ بھی گناہ گار ہیں۔ 4.  گناہ گار شخص سے بھی تعلق رکھا جائے اور اس کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کی جائے، البتہ اس کے ساتھ گناہوں میں شرکت سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ 5.  حکمت اور بصیرت سے سمجھائے، اگر ہاتھ سے روکنے کی قدرت ہو تو ہاتھ سے روک دے اور اگر اتنی مقدرت نہیں تو زبان سے منع کرے، اور اگر اس پر قدرت نہیں رکھتا تو دل سے اس کو بُرا جانے، اس سے کم درجہ ایمان کا نہیں۔  6.  نوجوان لڑکوں کا غیر محرم لڑکیوں سے بات چیت اور تعلق حرام اور ناجائز فعل ہے ، پھر اس حرام فعل کو دین اور نیک کام کی دعوت کا نام دینا بہت بڑا گناہ ہے ، لہٰذا اس پر توبہ واستغفار کریں اور اس سے مکمل اجتناب کریں اور بعض علماء کے فعل کو پیش کرنا ( اگرچہ وہ دلیل پر مبنی ہو) ان کے حرام فعل کے لیے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔   7.      ناجائز اور حرام ہے۔

ایس ایم ایس کے ذریعہ طلاق دینے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا داماد گزشتہ دنوں ہماری بیٹی کو ہمارے گھر پر لینے آیا تھا اور بہت غصہ میں تھا اور غصہ میں ہماری بیٹی کو اول فول بکنے لگا اور کہنے لگا کہ اسی وقت میرے ساتھ گھر چلو، بچی ڈر گئی او رکہنے لگی کہ یہ غصہ میں ہیں، گھر پر جاکر مجھے ماریں گے، تو اس کی والدہ نے کہا کہ آپ شام کو آکر لے جانا یا پھر کل آکر لے جانا اس پر وہ گھر سے چلا گیا، مگر وہ جاتو نہیں رہا تھا میری بیٹی نے جب ان کی ماں سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے فون پر اپنے بیٹے کو سمجھایا اور اسے واپس آنے کو کہا، تو وہ اپنی ماں سے کہنے لگا (امی میں اسے طلاق دے دوں، میں اسے طلاق دے دوں) دو مرتبہ اس نے میرے سامنے اپنی والدہ سے فون پر کہا اور اس کے بعد فون بند کرکے چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد اس کا ایک ایس ایم ایس میرے فون پر آیا، جب میں نے دیکھا، اس میں لکھا تھا (میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ) یہ جملہ اس نے چارمرتبہ لکھا تھا، میں آپ سے اس بارے میں فتوی چاہتا ہوں کہ کیا ایس ایم ایس کے ذریعہ یہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں اور عدت کا حکم بھی بیان فرمائیں، آپ ہمیں صحیح طور پر اور تحریری طور پر فتویٰ صادر فرمائیں۔

جواب… صورت مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی مرضی سے بغیر کسی جبر واکراہ کے میسج کرکے طلاق دے دی ہے تو تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں،جن کی وجہ سے عورت حرمت مغلظہ کے ساتھ شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہٰذا اب حلالہ شرعیہ کے بغیر نہ تو رجوع ممکن ہے اور نہ ہی تجدید نکاح، حلالہ شرعیہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے شوہر کے طلاق دینے کے بعد عدت گزر جائے، پھر دوسرے شخص کے ساتھ نکاح صحیح کر لیا جائے اور وہ دوسرا شوہر ہم بستری کرنے کے بعد اپنی رضا مندی سے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے اور طلاق یا وفات کی عدت پوری ہو جائے، پھر با ہمیرضا مندی کے ساتھ نکاح کرنے کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی، نیز صورت مذکورہ میں ایس ایم ایس لکھنے کے وقت سے ہی عدت شمار ہو گی اور عدت تین ماہواریاں ہو گی۔

اہل میت کو اپنے گھر بلاکر کھانا کھلانے اور تعزیت میں مروّجہ طریقوں کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں حضرات علماء کرام ومفتیان عظام اس رواج کے بارے میں کہ  1..  ہمارے علاقے میں رواج ہے کہ تدفین کے بعد قبرستان میں چھوہارے تقسیم کیے جاتے ہیں، کیا یہ شرعاً جائز ہے؟  2..  میت کے دوسرے رشتے دار دوست، پڑوسی وغیرہ اہل میت کو کھانا پہنچانے کے بجائے اپنے گھربلاتے ہیں اور کئی کئی دنوں تک بلکہ کبھی مہینے تک ان کو کھلاتے ہیں او راہل میت اپنے ساتھ دوسرے عزیز واقارب، ہمسایہ وغیرہ کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں ،اس طرح پوری ایک جماعت ہوتی ہے اور بعض اوقات دوسرے علاقے کے رشتہ دار بھی اہل میت کو مذکورہ بالا طریقے سے بلاتے ہیں ،اس میں ادلہ بدلہ ہوتا ہے، حتی کہ اگر کسی نے گوشت پکایا تھا تو بدلے میں گوشت پکاتے ہیں او راگر کسی نے بکرا ذبح کیا تھا تو بدلے میں پھر بکرا ذبح کرتے ہیں، ورنہ ناراضگی کا خطرہ ہوتا ہے اور اس کی پابندی اور التزام ایسا ہے کہ گنجائش نہ ہونے کے باوجود اس کو کرتے ہیں پوچھنایہ ہے کہ:
(الف) اہل میت کو کھانا بھیجنا شرعی طریقہ ہے یا اپنے گھر بلاکر کھلانا؟ (ب) اہل میت کو کتنے دن تک کھلانا جائز ہے؟ (ج) اہل میت کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کے لیے یہ کھانا کھانا جائز ہے؟
3..اہل میت دریاں تکیے لگا کر گھر میں اہتمام کے ساتھ تعزیت کے لیے بیٹھ جاتے ہیں، جو بھی شخص تعزیت کے لیے پہنچتا ہے تو وہاں قاری صاحب فوراً قرآن مجید کی تلاوت شروع کردیتا ہے او رپھر اجتماعی طور پر سب ہاتھ اٹھ کر دعا کرتے ہیں اور پھر چائے پیش کی جاتی ہے، اس طرح دو تین دن تک صبح تا شام اہل میت سینکڑوں مرتبہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تعزیت ہو گئی اور بعض مقامات پر گھر میں جگہ نہ ہونے کی صورت میں یہی ساری رسم مسجد، مدرسہ، گلی میں ادا کی جاتی ہے، پوچھنا یہ ہے کہ :
(الف) تعزیت کی مجلس میں قرآن مجید پڑھنا شرعاً جائز ہے؟
(ب) تعزیت کی مجلس میں اہتمام کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اور اس کی التزام کے ساتھ پابندی کرنا جائز ہے؟ (ج) تعزیت کرنے والوں کوچائے پیش کرنا جائز ہے؟ (د) مروجہ طریقے پر مسجد، مدرسہ یا گلی وغیرہ میں تعزیت کے لیے بیٹھنا جائز ہے؟

قرآن وحدیث وفقہ حنفیہ کی کتابوں سے جواب مطلوب ہے۔

جواب… 1.. شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، لہٰذا ان کا یہ فعل ناجائز ہے.  2..    (الف) چونکہ اس دن اہلِ میت مشغول ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے گھر کھانا پہنچایا جائے (ب) ایک دن اور ایک رات (ج) وہ رشتہ دار جو قرب وجوار میں رہتے ہوں ان کو چاہیے کہ تعزیت وغیرہ کرکے اپنے گھروں کو چلے جائیں، باقی وہ رشتہ دار جو دور دراز سے آئے ہوں، تو ان کے لیے اہلِ میت کے ہاں کھانے کی گنجائش ہے (چاہے کھانا پڑوسیوں، رشتہ داروں نے بھیجا ہو یا اہل میت نے اپنا بنایا ہو)۔
3.. (الف۔ج) واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں تین دن تک اہل میت سے تعزیت کرنا صرف جائز نہیں بلکہ امر مستحسن ہے اور اہلِ میت کا تین دن تک گھر میں تعزیت کے لیے بیٹھنے کی بھی شرعاً گنجائش ہے، لیکن یہ اس وقت ہے جب تعزیت شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہو اوروہ یہ ہے کہ تعزیت میں پسما ندگان کو صبر کی تلقین کی جائے اور ہاتھ اٹھائے بغیر میت کے لیے دعاء مغفرت کی جائے اور تعزیت صرف ایک بار کی جائے، ایک سے زائد مرتبہ تعزیت کرنا مکروہ ہے، باقی صورت مسئولہ میں جو طریقہ تحریر کیا گیا ہے شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں لہٰذا اس سے احتراز ضروری ہے (د) مسجد ومدرسہ میں تعزیت کے لیے بیٹھنا مکروہ ہے اور راستوں اور گلیوں میں تعزیت کے لیے بیٹھنا ناجائز ہے۔

Flag Counter