تفریح اور کھیل کود شرعی ضابطے
مفتی محمد خالد حسین قاسمی
اس کے علاوہ ادب کے نام پر ہمارے پاس جو اسلاف کے زمانے سے ذخیرے چلے آرہے ہیں․ وہ بھی کچھ نہ کچھ مزاحیہ حکایتوں پر مشتمل ہیں او راکابر کے نزدیک ان کے پڑھنے پڑھانے کا کسی نہ کسی حد تک سلسلہ رہا ہے۔ اس سلسلے میں ابو الفرج اصفہانی کی ”کتاب الأغانی“ جاحظ کی ”کتاب البخلاء“ اور عبدا لله ابن المقفع کی ” کلیلہ ودمنہ“ کا نام لیا جاسکتا ہے․ بلکہ موخر الذکر کتاب تو بہت سے مرکزی مدارس وجامعات میں داخل درس ہے۔ اسی طرح مشہور محقق عالم دین علامہ ابو الفروح ابن الجوزی نے تفریحی مضامین پر مشتمل ایک مستقل کتاب ” أخبار الحُمقیٰ والمغفلین“ کے نام سے تحریر فرمائی ہے ۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ عربی شاعری کے جو ذخیرے موجود ہیں ؛ ان میں مزاحیہ شاعری، عشقیہ شاعری، بلکہ فسقیہ وبیہودہ شاعری کا بھی ایک معتدبہ حصہ ہے۔ امرء القیس، حطّیہ اور ابوا لطیب متنبی کی شاعری اس کے لیے شاہد عدل ہے؛ لیکن محض اعلیٰ مقاصد کے لیے اسے انگیز کیا گیا ہے؛ لہٰذا حکمت ودانائی پر مبنی مزاحیہ کہانیوں کو بھی ایک حد تک انگیز کیا جاسکتا ہے؛ لیکن اگر مزاح برائے مزاح ہو، حکمت وموعظت سے خالی ہو، حقائق سے کوسوں دور ہو، غلط بیانی اور جھوٹ کی آمیزش ہو، دوسروں کی کردار کشی کی گئی ہو ، تو ایسی مزاحیہ کہانیاں نہ تو لکھنا درست، نہ اس کی خریدوفروخت درست ہے؛ اس لیے کہ الله تعالیٰ نے لہو الحدیث ( کھیل کی باتوں) کے خریدنے کی مذمت فرمائی ہے۔ درّمنثور میں روایت ہے کہ نضر بن حارث مشرکین میں سے ایک بڑا تاجر تھا اور تجارت کے لیے مختلف ملکوں کا سفر کیا کرتا تھا۔ وہ ملک فارس سے شاہانِ عجم کسریٰ وغیرہ کے تاریخی قصّے خرید کر لایا اور مکہ کے مشرکین سے کہا کہ محمد صلی الله علیہ وسلم تم کو عاد وثمود وغیرہ کے واقعات سناتے ہیں ۔ میں تمہیں ان سے بہتر رستم اور اسفندیار اور دوسرے شاہانِ فارس کے قصے سناتا ہوں، یہ لوگ اس کو شوق ورغبت سے سننے لگے؛ کیوں کہ اس میں کوئی تعلیم تو تھی نہیں؛ جس پر عمل کرنے کی محنت اٹھانی پڑے، صرف لذیذ قسم کی کہانیاں تھیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے مشرکین جو اس سے پہلے کلام الہٰی کے اعجاز و یکتائی کی وجہ سے اس کو سننے کی رغبت رکھتے تھے اور چوری چوری سنا کرتے تھے۔ ان لوگوں کو قرآن سے اعراض کا بہانہ ہاتھ آگیا۔
اگر مزاح کے پہلوؤ ں کا حال، مفید امور پر مشتمل کوئی کہانی ہو تو اسے افادیاتی نقطہٴ نظر سے انگیز کیا جا سکتا ہے۔ ایک بارآں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو عرب کی گیارہ عورتوں او ران کے شوہروں کا قصہ سنایا جو ”حدیث امّ ذرع“ کے نام سے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔
لطیفہ گوئی اور مزاح کو ذریعہٴ معاش بنانا
کبھی کبھار لطیفہ کہہ دینے یا مزاح او رتفریح کر لینے کی تو گنجائش ہے؛ لیکن مستقل لطیفہ گوئی کرنا اور اس کو ذریعہٴ معاش بنا لینا، یہ اس مقصد حیات کے بر خلاف ہے ، جو اسلام افراد او رمعاشرے میں پیدا کرنا چاتا ہے اورمستقل لطیفہ گوئی او رمزاح وتفریح میں مشغول رہنا انسان کو فکرِ آخرت، ذکر الله، عبادت اور تلاوت قرآن سے غافل کر دیتا ہے ۔ زیادہ ہنسنے ہنسانے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ انہیں اسباب کی وجہ سے شعر وشاعری کی مذمت کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انسان اپنا پیٹ پیپ سے بھرے، یہ اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے بھرے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ: شعر جب ذکر الله، قرآن کریم کی تلاوت اور علم کے اشتغال پر غالب آجائے۔ اوراگر شعر مغلوب ہے تو پھر بُرا نہیں۔ یہی حال لطیفہ گوئی او رمزاح نویسی کا ہے۔ اس کو مستقل پیشہ بنا لینا انہماک کی دلیل ہے اور ایسی چیزوں میں غالب انہماک ممنوع ہے؛ لہٰذا اس کی اجرت وصول کرنا بھی درست نہیں، از خود کوئی بطور انعام کے دے دے تو اس کے لینے کی گنجائش ہے۔
بہ تکلف قہقہہ لگانے کی مجلسوں میں شرکت
ہنسی کے مواقع پر ہنسنا او رمسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور بلا موقع اور محل تکلف سے ہنسنا اور قہقہہ لگانا فطرت کے خلاف عمل ہے۔ موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی رائے میں اگرچہ ہنسنا انسانی صحت کی برقراری اور اس کو چست ونشیط رکھنے کے لیے معاون فعل ہے ، اس کے لیے خاص طور پر ہنسنے کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں لوگ بہ تکلف قہقہہ لگاتے ہیں اور دیر تک ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں ؛ لیکن یہ عمل شرعی لحاظ سے مناسب نہیں ؛ اس لیے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا تکثر الضحک؛ فإن کثرة الضحک تمیت القلب“․ ( ترمذی، مشکوٰة:44) کہ تم زیادہ مت ہنسا کرو، اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ قہقہہ لگانا یہاں تک کہ کھلکھلا کر ہنسنا بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ( جو بالیقین ایمان والوں کے لیے ہر عمل میں بہترین اسوہ ہیں) سے ثابت نہیں؛ بلکہ آپ خوشی کے مواقع پر صرف زیر لب مسکرایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو اس طو رپرکھل کھلا کر ہنستے ہوئے کہ آپ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر آجائے، کبھی نہیں دیکھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم تو صرف تبسم فرمایا کرتے تھے ۔ (بخاری، مشکوٰة:406)
معلوم ہوا کہ اگر سلسلہٴ کلام میں کوئی تعجب خیز، حیرت انگیز یا مضحکہ خیز بات زیر تذکرہ آجائے، تو ان پر ہنسنے او رمسکرانے میں کوئی حرج نہیں ؛ بلکہ ایسے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا چاہیے؛ تاکہ دل کا بوجھہلکا اور غبار کم ہو اور موجودہ زمانے کی تحقیق کے مطابق صحت، مستعدی اور نشاط میں اضافہ ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہنسنا اور مسکرانا غافلین کا سانہ ہو، اس لیے کہ اس طرح کا ہنسنا دلوں کو مردہ کر دیتا ہے ۔ حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ حضرت عبدالله بن عمر سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ ہنسا بھی کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا: ہاں ! بے شک! وہ حضرات ہنسنے کے موقع پر ہنستے بھی تھے، لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑ سے زیادہ عظیم ہوتا تھا۔ حضرت بلال ابن سعد کا بیان ہے کہ میں نے صحابہٴ کرام کو دیکھا کہ وہ مقررہ نشانوں کے درمیان دوڑا بھی کرتے تھے او رباہم ہنستے ہنساتے بھی تھے۔ پھر جب رات ہوتی تو وہ راتوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔ ( شرح السنة، مشکوٰة:407)
لہٰذا موجودہ دور کے ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق عمل کرتے ہوئے بہ تکلف قہقہے لگانے کی مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے، بلکہ بے تکلف فطری انداز میں جس قدر انسان ہنس لے ، وہی اس کی صحت وتن درستی کے لیے کافی ہے ، اس لیے کہ زیادہ ہنسنا رسول صلى الله عليه وسلم کے ارشاد کے مطابق صحت وتن درستی کا سبب نہیں، بلکہ دلوں کے مردہ ہونے کا سبب ہے۔
کھیل کود سے متعلق احکام
(الف) اصولی ہدایت، اسلام انسان کو ایک با مقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے اور کھیل وکود اور لہو ولعب پر مشتمل زندگی کی مذمت کرتا ہے۔ با مقصد زندگی جس کی اساس ہمہ وقت الله کی خوش نودی کی جستجو، تعمیر آخرت کی فکر مندی اور لہو لعب سے اعراض ہو، وہ زندگی اہل ایمان کی پہچان ہے او رجس کی بنیاد لہو ولعب پر مشتمل غفلت وبے پرواہی ہو وہ کفار کا شعار ہے۔ ارشاد الہٰی ہے:﴿وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُون﴾․ (المومنون:3) کہ اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔
لہٰذا شرعی نقطہٴ نظر سے ہر وہ کام ، قابل تعریف ہے، جو انسان کو مقصد اصلی پرگام زن رکھے۔ ہر اس کام کی اجازت ہے، جس میں دنیا وآخرت کا یقینی فائدہ ہو ۔ یا کم از کم دنیا وآخرت کا خسارہ نہ ہو ۔ کھیلوں میں سے بھی صرف انہیں اقسام کی اجازت ہے ، جو جسمانی یا روحانی فوائد کا حامل ہو۔ وہ کھیل جو محض تضیع اقات کا ذریعہ ہوں، فکرِ آخرت سے غافل کرنے والے ہوں، وہ کھیل جو دوسروں کے ساتھ دھوکہ فریب یا ضررسانی پر مبنی ہوں، ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ” کل ما یلھو بہ المرء المسلم باطل إلا رمیہ بقوسہ، وتأدیبہ فرسہ، وملاعبتہ امرأتہ، فإنھن من الحق“․(ترمذی، ابن ماجہ، فتح الباری11 91) یعنی مرد مومن کا ہر کھیل بے کار ہے، سوائے تین چیزوں کے : تیراندازی کرنا، گھوڑے سدھانا، اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، کیوں کہ یہ تینوں کھیل حق ہیں۔
(ب) لباس وپوشاک سے متعلق: لباس اور پوشاک کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ کھلاڑی کھیل کے درمیان ایسا لباس پہنے، جو ساتر ہو، یعنی جسم کا وہ حصہ چھپ جائے، جن کا چھپانا واجب ہے ، یعنی مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک اور عورت کے لیے ہتھیلی اور چہرہ کو چھوڑ کر پورا جسم ستر میں داخل ہے ، ان کا ڈھکا ہوا ہونا واجب ہے ۔ لباس اتنا باریک اور چست بھی نہ ہو کہ جسم کے اعضا نمایاں ہوں۔ اسی طرح اس لباس میں کفار کے ساتھ ایسی مشابہت نہ ہو کہ اس لباس کو دیکھنے سے کوئی خاص قوم سمجھ میں آتی ہو۔ اور نہ اس لباس کا تعلق غیر اسلامی شعار سے ہو۔ مردوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ لباس ٹخنوں سے نیچے نہ ہو ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”ما أسفل من الکعبین من الإزار فی النار“․ ( بخاری، مشکوٰة:373) کہ جو شخص بھی ٹخنوں سے نیچے پاجامہ پہنے گا، اسے جہنم کی آگ میں جلنا پڑے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبدالله بن عمروبن العاص کہتے ہیں کہ: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ کو زعفرانی رنگ کا کپڑا پہنے دیکھا، تو آپ نے فرمایا: یہ کفار کا لباس ہے، اس لیے اسے مت پہنو۔ ( مسلم، مشکوٰة:374) حضرت عبدالله بن عمر بن خطاب سے منقول روایت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”من تشبہ بقوم فھو منھم“․ (احمد، ابوداؤد، مشکوٰة:374) کہ جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی اس کا تعلق اسی قوم کے ساتھ سمجھا جائے گا۔
(ج) پسندیدہ کھیل:
تیر اندازی او رنشانہ بازی: اصول شریعت کی روشنی میں مروّجہ کھیلوں میں مندرجہ کھیل مستحب اور پسندیدہ ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے بعض کی اہمیت وجوب تک پہنچ جاتی ہے۔ نشانہ بازی چاہے وہ تیر کے ذریعہ ہو یا نیزہ، بندوق اور پستول یا کسی اور ہتھیار کے ذریعہ ہو۔ احادیث میں اس کے فضائل بیان کیے گئے ہیں او راس کے دیکھنے کو باعثِ اجروثواب قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ یہ کھیل انسان کے ذاتی دفاع او رملکی دفاع کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ کھیل جہاں جسم کی پھرتی، اعصاب کی مضبوطی اور نظر کی تیزی کا ذریعہ ہے۔ وہیں یہ خاص حالات میں، مثلاً بھیڑ کے وقت یا جہاد کے موقع پر دشمنوں سے مقابلہ آرائی کے کام آتا ہے۔ قرآن کریم میں باضابطہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے:﴿واعدولھم ما استطعتم من قوة﴾․ (الانفال) کہ اے مسلمانو! تمہارے بس میں جتنی قوت ہو ، اسے کافروں کے لیے تیا رکرکے رکھو۔ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس ”قوة“ کی تفسیر رمی ( تیر اندازی) سے کی ہے۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ”الا ان القوة الرمی“ یعنی سنو” قوة“پھینکنا ہے۔ ( مسلم، مشکوٰة336) اس پھینکنے میں جس طرح تیر کا پھینکنا داخل ہے، اسی طرح اس میں کسی بھی ہتھیار کے ذریعہ مطلوبہ چیز کو نشانہ بنانا، راکٹ، میزائل وغیرہ کو ٹھیک نشانہ تک پہنچانا بھی داخل ہے اور ان میں سے ہر ایک کی مشق جہاں جسمانی لحاظ سے بہترین ورزش ہے، وہیں باعث اجر وثواب بھی ہے۔ (بذل المجہود:428/11) ایک حدیث میں آں حضرت نے ارشاد فرمایا: بے شک ایک تیر کے ذریعہ الله تعالیٰ تین افراد کو جنت میں داخل کر دیتا ہے ۔ ایک تیر بنانے والا، جب کہ وہ تیر بنانے میں ثواب کی نیت رکھے۔ دوسرا تیر پھینکنے والا او رتیسرا پکڑنے والا، پس اے لوگو! تیر اندازی سیکھو۔ (سنن دارمی، مشکوٰة:337)
سواری کی مشق، یہ کھیل بھی اسلام کا پسندیدہ کھیل ہے، اس سے بھی جسم کی پوری ورزش کے ساتھ انسان میں مہارت ، ہمت وجرأت اور بلند حوصلہ جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں اور سفر میں اور جہاد میں بھی خوب کام آتا ہے ، اگرچہ قرآن وحدیث میں عام طور پر گھوڑے کا ذکر آیا ہے، مگر اس میں ہر وہ سواری مراد ہے ، جو جہاد میں کام آسکے۔
جہاد کے اس اعلیٰ مقصد کے پیش نظر جو شخص گھوڑا پالے اس کے لیے بڑی بشارتیں ہیں۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جس نے الله کے راستے میں گھوڑا باندھ کر رکھا، الله تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے، اس کے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے، تو اس گھوڑے کا تمام کھانا پینا، حتی کہ گوبر، پیشاب قیامت کے دن اس شخص کے نامہ ٴ اعمال میں نیکی کے طور پر شمار ہو گا۔ (بخاری، مشکوٰة:330)
مقاصد کے لحاظ سے گھوڑا رکھنے کی متعدد شکلیں ہو سکتی ہیں: ایک روایت میں اس پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے: ” آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں ، بعض کے لیے ثواب ، بعض کے لیے باعث تحفظ ، بعض کے لیے وبال۔ باعث ثواب تو وہ گھوڑے ہیں، جنہیں آدمی راہ خدا میں استعمال کرنے کے لیے تیار رکھتا ہے ۔ ایسے گھوڑے اپنے پیٹ میں جو کچھ بھی اتارتے ہیں ، ا لله تعالیٰ اس کے عوض مالک کے لیے ثواب لکھ دیتا ہے … اور باعث تحفظ وہ گھوڑے ہیں جنہیں آدمی اپنی عزت کو برقرار رکھنے او رالله کی نعمت کے اظہار کے لیے رکھتاہے اور گھوڑے کی پشت اور شکم سے متعلق جو حقوق وابستہ ہیں، انہیں فراموش نہیں کرتا۔ خواہ تنگی ہو یا فراخی او رباعثِ وبال وہ گھوڑے ہیں ،جنھیں مالک نے ریا، غرور، تکبر اوراترانے کے لیے رکھا ہو، ایسے گھوڑے مالک کے لیے وبال ہیں۔ ( مسلم کتاب الزکوٰة:60/2)
احادیث طیبہ میں اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے اگرچہ گھوڑوں کے فضائل مذکور ہیں، مگر اشتراکِ علت کے پیش نظر ہر وہ سواری جو جہاد میں کام آتی ہو، یا ذاتی تحفظ او راچھے مقاصد کے لیے آمدورفت کے کام آتی ہو۔ اگر اسے بھی اچھی نیت سے چلانے کی مشق کی جائے ، تو وہ بھی اس حکم میں داخل ہو گی ۔ جیسے: ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز، بحری جہاز، لڑاکا طیارہ، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، جیپ، کار، بس، موٹر سائیکل، سائیکل وغیرہ۔ ان سب سواریوں کے چلانے کی مشق اور ٹریننگ اسلامی نقطہٴ نظر سے پسندیدہ کھیل ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ جائز او رنیک مقاصد کے لیے انہیں سیکھا جائے اور استعمال کیا جائے۔
دوڑ لگانا، اپنی صحت اور توانائی کے مطابق، ہلکی یا تیز دوڑ بہترین جسمانی ورزش ہے۔اس کی افادیت پر سارے علماء اور ڈاکٹر متفق ہیں۔ احادیث سے بھی اس کا جواز، بلکہ استحباب مفہوم ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: الله تعالیٰ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لہو لعب ہے، سوائے چار چیزوں کے آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، اپنے گھوڑے سدھانا، دو نشانوں کے درمیان پیدل دوڑنا، تیرا کی سیکھنا سکھانا۔ ( کنز العمال:211/15، الجامع الصغیر:23/5)
پیدل دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابہٴ کرام عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے او ران میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ سابق میں مشکوٰة المصابیح کے حوالہ سے شرح السنہ کی یہ روایت آچکی ہے کہ بلال بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں ! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے۔ (مشکوٰة:407)
پیدل دوڑ میں مثالی شہرت رکھنے والے صحابی حضرت سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں چلے جارہے تھے، ہمارے ساتھ ایک انصاری نوجوان بھی تھا، جو پیدل دوڑ میں کبھی کسی سے مات نہ کھاتا تھا، وہ راستہ میں کہنے لگا، ہے کوئی جو مدینہ تک مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کرے؟ ہے کوئی دوڑ لگانے والا؟ سب نے اس سے کہا: تم نہ کسی شریف کی عزت کرتے ہو اور نہ کسی شریف آدمی سے ڈرتے ہو ۔ وہ پلٹ کر کہنے لگا ہاں! رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ مجھے کسی کی پروا نہیں ۔ میں نے یہ معاملہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رکھتے ہوئے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)! مجھے اجازدت دیجیے کہ میں ان سے دوڑ لگاؤں۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، اگر تم چاہو، چناں چہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑ لگائی او رجیت گیا۔ ( صحیح مسلم)
حضرت عبدالله بن عمر کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق اور زبیر بن العوام میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت زبیر آگے نکل گئے تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم! میں جیت گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ دوڑ کا مقابلہ ہوا، تو حضرت عمر فاروق آگے نکل گئے، تو انہوں نے وہی جملہ دہرایا، رب کعبہ کی قسم! میں جیت گیا۔ (کنزالعمال:224/15)
بیوی کے ساتھ بے تکلفانہ کھیل، مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ مختلف بے تکلفی کا کھیل بھی اسلام کی نظر میں مستحسن ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ میں نے آپ سے دوڑ لگائی اور آگے نکل گئی۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک سفر میں، میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دوڑ لگائی، اب میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا تھا تو آپ مجھ سے آگے نکل گئے اور آپ نے فرمایا یہ اس کے بدلہ میں ہے۔ (سنن ابی داؤد)
مذکورہ حدیث نبوی سے بیوی کے ساتھ تفریح کرنے اور دوڑ لگانے دونوں کی افادیت سمجھ میں آتی ہے ، لیکن واضح رہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے یہ دونوں واقعہ اس وقت کے ہیں ، جب قافلہ آپ کے حکم سے آگے جاچکا تھا اوروہاں آں حضور صلی الله علیہ وسلم اور حضرت عائشہ کے علاوہ کوئی نہ تھا، وہ تنہا تھے۔ کسی اور کی موجودگی میں ایسا نہیں کیاجاسکتا، کیوں کہ یہ حیا کے خلاف ہے۔
نیزہ بازی، نیزہ بازی او ربھالا چلانا ایک مستحسن کھیل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم! میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا آپ میرے حجرے کے دروازہ پر کھڑے ہو گئے، جب کہ کچھ حبشی نیزوں کے ساتھ مسجد کے باہر صحن میں نیزوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مجھے اپنی چادر سے چھپا رہے تھے او رمیں آپ کے کان اورکندھوں کے درمیان حبشیوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی۔ (صحیح بخاری مع الفتح)
تیراکی، تیرنے کی مشق ایک بہترین او رمکمل جسمانی ورزش ہے، جس میں جسم کے تمام اعضا وجوارح کی بھرپور ورزش ہوتی ہے ، یہاں تک کہ سانس کی بھی ورزش ہوتی ہے ۔ سیلاب آنے کی صورت میں ایک ماہر تیراک انسانیت کی بہترین خدمت کر سکتا ہے ۔ نشیبی علاقوں میں عام طور پر قریب میں ندی نالے تالاب وغیرہ ہوتے ہیں او ران میں ڈوبنے کے واقعات بھی عام طور پر پیش آتے رہتے ہیں ۔ ایسے حادثاتی مواقع پر ماہر تیراک لوگوں کی جان بچانے کی کام یاب کوشش کرسکتا ہے۔ اس سے جہادی تربیت کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ کسی بھی جنگ میں ندی نالے، تالاب اور دریا کو عبور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ یہ ایک طبعی امر ہے۔ آج کل کی جنگوں میں سمندر کی ناکہ بندی کو دفاعی نقطہٴ نظر سے بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ لہٰذا تیراکی جہاں تفریح طبع او رجسمانی ورزش کاعمدہ ذریعہ ہے، وہیں بہت سے دیگر سماجی ودماغی فوائد کاحامل بھی ہے۔ اسی لیے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کا بہترین کھیل تیراکی ہے اور عورت کا بہترین کھیل سوت کاتنا۔ (کنزالعمال:211/15) اس لیے صحابہٴ کرام نہ صرف یہ کہ تیراکی کے ماہر تھے، بلکہ بسا اوقات تیراکی کا مقابلہ بھی کرتے تھے۔ حضرت عبدالله بن عباس فرماتے ہیں کہ ہم حالت احرام میں تھے کہ مجھ سے حضرت عمر کہنے لگے آؤ! میں تمہارے ساتھ غوطہ لگانے کا مقابلہ کروں، دیکھیں ہم میں سے کس کی سانس لمبی ہے ۔ (عوارف المعارف للسہروردی)
کُشتی اور کبڈی، اس کھیل میں ورزش کا بھرپور سامان ہے۔ اگر ستر کی رعایت اور انہماک کے بغیر کھیلا جائے، تو جائز ہوگا ، بلکہ نیک مقصد کے لیے مستحسن قرار دیا جائے گا۔ عرب کے ایک مشہور پہلوان رُکا نہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کشتی ٹھہرائی ، تو آپ نے اس کو کشتی میں پچھاڑ دیا۔ (ابوداؤد فی المراسیل) مذکورہ تمام کھیل چوں کہ احادیث وآثار سے ثابت ہیں، اس لیے ان کے جواز، بلکہ استحباب میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا اور کبڈی کا حکم بھی کشتی کی طرح ہے۔
ناپسندیدہ کھیل
ان کے علاوہ جو کھیل کو درائج ہیں، ان کی شرعی حیثیت کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ جن کھیلوں کی احادیث وآثار میں صریح ممانعت کی گئی ہے، وہ سب ناجائز ہیں: جیسے نرد، شطرنج، کبوتربازی اور جانوروں کو لڑانا۔
نرد، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے نرد یعنی چوسر کھیلنے سے سختی سے منع فرمایا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے نرد شیر کا کھیل کھیلا، تو گویا اس نے اپنے ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون سے رنگ لیے۔ (مسلم، مشکوٰة:386) ایک دوسری روایت میں آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جس نے نرد یعنی چوسر کھیلا اس نے الله اور رسول صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی کی۔ ( ابوداؤد)
شطرنج، صحابہٴ کرام نے شطرنج کھیلنے سے صراحتاً منع فرمایا اور ظاہر ہے کہ صحابہٴ کرام نے شطرنج کی ممانعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو گی۔ ( مرقاة المصابیح:387) حضرت علی فرماتے ہیں کہ شطرنج عجمیوں کا جوا ہے ۔( بیہقی، مشکوٰة:387) حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ : شطرنج گناہ گاروں کا کھیل ہے۔ انہی سے ایک شخص نے شطرنج کھیلنے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے فرمایا: یہ باطل ( بیکار کھیل) ہے اور الله تعالیٰ باطل کو پسند نہیں فرماتے۔ ( بیہقی، مشکوٰة:87) انہی آثار وروایات کی وجہ سے حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک او رامام احمدبن حنبل اس کے کھیلنے کو ناجائز کہتے ہیں ۔ امام شافعی کی طرف اگرچہ جواز کی نسبت ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ان کے نزدیک بھی مکروہ ہے۔ علامہ نووی نے شرح مسلم میں صراحت فرمائی: ”اما الشطرنج فمکروہ عندنا، لا حرام“ اور یہ کراہت بھی مشروط ہے، چند شرائط کے ساتھ کہ نماز اور جواب سلام سے غافل نہ کرے اور بہت نہ کھیلے۔ ( التفسیر الأحمدی، بحوالہ امداد الفتاویٰ:241/4)
کبوتر بازی، احادیث کی روشنی میں یہ بھی ممنوع ہے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھا، تو فرمایا: ”شیطان یتبع شیطانة“ کہ ایک شیطان دوسرے شیطان کے پیچھے دوڑا جارہا ہے۔ (ابوداؤد) (جاری)