Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1435ھ

ہ رسالہ

10 - 15
میرے ابّویاجو لاکھوں میں یکتا تھے

محترمہ سعدیہ مدنی
	
امیر جمعیت علما ہندفدائے ملت حضرت مولانا سیّد اسعد مدنی نور الله مرقدہ کی سب سے بڑی صاحب زادی محترمہ سیّدہ سعدیہ مدنی مدظلہا ( جو حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے صاحب زادے جناب مولانا انوارالرحمن صاحب بجنوری سے منسوب ہیں) کا یہ مضمون اپنے اندر اظہار غم کے ساتھ ساتھ بڑی نصیحتوں اور عبرتوں کو شامل ہے۔ بچیوں کے ساتھ حضرت رحمة الله علیہ کی شفقت ومحبت، ان کی تربیت کا خیال، قدم قدم پر ان کی دل جوئی اور زندگی کے ہر موڑ پر ان کی راہ نمائی یہ ایسی صفات ہیں جو آج کے دور میں ڈھونڈے سے بھی نہیں مل پائیں گی اور پھر ایسا شخص جس کی زندگی کا بیشتر حصہ ملکی، بلکہ عالمی مسائل میں گھرے ہونے کی حالت میں گزرا ہو، اس کا بچیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ یقینا لائق صدر شک ہے، بالخصوص اس مضمون کے ساتھ حضرت فدائے ملت کا اپنی صاحب زادی کے نام جو گرامی نامہ شائع ہو رہا ہے وہ تو اس قابل ہے کہ اسے ہر رخصت ہونے والی لڑکی فریم کراکے اپنے گھر میں رکھے او ربار بار اسے پڑھ کر اپنی زندگی کا م یاب بنانے کی کوشش کرتی رہے ۔ چوں کہ یہ تحریر اور گرامی نامہ صرف حضرت کی صاحب زادی ہی کے لیے نہیں ، بلکہ امّت کی ہر لڑکی کے لیے نمونہٴ عمل اور مشعل راہ ہے۔ اس لیے قارئین الفاروق کے استفادے کی خاطر ان صفحات میں شائع کیا جارہا ہے۔ الله تعالیٰ حضرت  کی قبر کو نور سے منور فرمائیں اور ہم سب کو حضرت کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے۔ آمین!

وہ حادثہ عظیم ہمارے سروں پر آہی پڑا، جس کے بارے میں اکثر ”ابویا“ ذکر کیا کرتے تھے۔ اس وقت میں سوچا کرتی تھی کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو میں کیسے برداشت کر پاؤں گی اور کیسے زندہ رہوں گی ؟ مگر الله کی مشیت کہ میں زندہ ہوں، مگر میرا دل بے قرار ہے، اے کاش! ایسا ممکن ہوتا تو میں بھی سفر آخرت میں ان کے ہم راہ روانہ ہو جاتی۔

میرے ابویا  بہنوں بھائیوں کے لیے، عزیزوں، رشتہ داروں اور تمام امّت مسلمہ کے لیے جب ہمہ وقت ہم درد، مہربان اور خیر خواہ انسان تھے، تو اپنی بیٹی کے لیے کیا چیز ہوں گے ؟ اس کا اندازہ لوگ ضرور لگا سکتے ہیں ۔ جب دوسروں کے لیے ان کی محبت، ہم دردی، ایثار وقربانی کا یہ عالم تھا، تو میرے لیے کیا ہو سکتا ہے ؟ میں کیا لکھوں او رکیا بیان کروں ، میری عقل حیران ہے ؟ نہ قلم میں تاب ہے نہ دل میں طاقت ہے ، میرے ساتھ انہوں نے کیا کیا احسانات کیے ہیں اور کس طرح مجھ کو چاہا ہے اس کا شمارکرنا اور قلم بند کرنا بالکل ناممکن ہے۔

معلوم نہیں کیا بات تھی مجھ کو ہمیشہ سے امّی کے مقابلہ میں ابویا سے زیادہ محبت تھی۔ پانچ سال پانچ ماہ پہلے جب امّی کا انتقال ہوا تو ایسا لگا جیسے امّی کا گھر خالی ہو گیا، اب اس گھر میں دل بستگی کا سامان نہیں ہے ،مگر جب ابویا سفر سے واپس آئے تو لگا جیسے دل پر مرہم آگیا اور رفتہ رفتہ وہ غم مندمل ہوتا ہوا محسوس ہوا ، اس وقت الله سے بس یہی دعا تھی یا الله! ایک نعمت سے تو ہم محروم ہو گئے، مگر اس دوسری نعمت کو قائم دائم رکھنا، دوسری نعمت سے محروم نہ کرنا، مگر حکم خدا وندی میں کسی کا کوئی دخل نہیں، اتنی جلدی الله نے دوسری نعمت سے محروم کر دیا۔ انا لله وانا الیہ راجعون․

میری شادی ابویا کے بچوں میں پہلی شادی تھی، کیوں کہ میں اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑی ہوں اور پھر غیروں میں ہوئی تھی اس کا ابویا پر بڑا اثر تھا۔ مجھ کو اس موقع پر ابویا نے خط لکھا، اس میں بہت ساری نصیحتیں لکھیں۔ اس میں ایک جملہ یہ تھا جو آج تک میرے دل پر نقش ہے کہ ” تمہارا خاندانی ورثہ دولت وبادشاہت نہیں ہے، تعلق مع الله ہے، اس لیے اگر تم کوئی کام اپنے باپ دادا کی طرزِ زندگی کے خلاف کروگی تو خود بھی ذلیل ہو گی اور ان کو بھی رسوا کروگی۔“ یہ ابویا کے الفاظ اور وہ تحریر ہمارے دل کے آرپار ہو گئی اور دل بہت پریشان ہوا۔ الله سے دست بہ دعا ہوں یا الله! اس دن کے لیے دنیا میں نہ رکھنا کہ میری وجہ سے میرے عظیم باپ اور دادا کے نام پر کوئی آنچ آئے، چناں چہ ابویا کی دعا اور ان کی توجہ میرے قدم بقدم ساتھ رہی، ورنہ میں کس قابل ہوں ،الحمدلله اتنی زندگی گزر گئی، خدا مزید بحسن وخوبی پوری فرما دے ( آمین) ابویا کا یہ خط مضمون کے اخیر میں ملاحظہ کریں۔

میری تربیت میں میرے ابویا کا خاص کردار ہے ، جس طرح ایک ماں اپنی لڑکی کی تربیت کرتی ہے اسی طرح میرے ابویا نے میری تربیت کی۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰة ، امور خانہ داری، مہمان نوازی، پردہ ، غرض کہ زندگی کا کون سا پہلو ہے جوانہوں نے مجھ کو نہ سکھایا ہو ، نماز کی اہمیت بچپن سے دل میں ڈالی، سفر میں جب جب میں ان کے ساتھ ہوتی گاڑی روک کے نماز کا انتظام کیا کرتے، وضو کی ضرورت ہوتی تو خود کھڑے ہو کر پردہ کے ساتھ وضو کراتے۔ اگر پردہ کی کوئی جگہ نہ ہوتی تو اپنے عباوغیرہ سے پردے کی آڑکر کے کھڑے ہو جاتے اور وضو کراتے، مگر نماز ہمیشہ وقت پر ادا کروائی۔ ابویا کے ساتھ نماز قضا ہو جائے ،اس کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ الحمدلله نماز کی ایسی عادت ہو گئی کہ قضا کرنا ناممکن ہو گیا، ایسے ہی روز ے کی عادت ڈلوائی۔ بچپن میں ہر سال عید کے دن یہ پوچھا کرتے کتنے روزے رکھے؟ ہر روزے کا ایک روپیہ انعام متعین تھا۔ اس شوق میں پورے پورے مہینے ہم روزہ رکھا کرتے تھے کہ تیس روزے ہوں گے تو تیس روپے ملیں گے، حالاں کہ ہمارے بچپن میں رمضان شدید گرمیوں کے دنوں میں آیا کرتا تھا، مگر سب روزے رکھا کرتے تھے اور عادت بھی ہو گئی، اسی طرح شادی کے بعد 1987ء میں اپنے ساتھ حج کو لے کر گئے۔ الحمدلله میں نے دو حج کیے، دونوں ابویا کے ساتھ۔ الله قبول فرمائے، آمین! دوسرا حج ابویا کے آخری حج میں، میں ساتھ تھی، یہ سعادت بھی الله نے مجھ کو نصیب فرمائی۔ سفر میں ایسا خیال رکھتے تھے کہ ایسا خیال رکھتے ہوئے میں نے کسی فرد کو نہیں دیکھا۔ گھر میں ہر کام مجھ سے کرواتے، مگر سفر میں میرا ہر کام خود کرتے تھے، اگر بچے چھوٹے ساتھ ہوتے تو اس کو اپنی ہی گود میں رکھتے، غرض کہ کن کن خوبیوں کو بیان کروں؟ ایسے اوصافِ حمیدہ ہونا کسی کے اندر بہت مشکل ہے ۔ مہمانوں کی کیا خاطر ہوتی ہے ، کیا ہونی ہے ، کیا پکنا ہے، کیسے بات کرنی ہے ؟ انتہا یہ کہ طرح طرح کے کھانے پکانے سکھائے، مجھ کو خود میرے ساتھ باورچی خانہ میں بیٹھ کر مجھ کو پکانا سکھایا، یہی وجہ ہے کہ جتنی دلچسپی مجھ کو کھانا پکانے سے ہے اتنی دلچسپی مجھ کو کسی او رکام سے نہیں ہے۔ یہ سب میرے ابویا کی دین ہے ۔ الله رب العالمین ان کو ایسا عظیم الشان اجردے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ (اللھم آمین!)

میری شادی کو 23 واں سال ہے۔ اس اثناء میں میں نے اپنے آپ کو کسی کا محتاج اور بے سہارا نہ محسوس کیا۔ ابویا کی اس قدر تقویت اورڈھارس تھی کہ میں نے اپنے کو شوہر کا بھی محتاج نہ سمجھا، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ میں بالکل بے سہارا ہو گئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کوئی بیماری کا یا بچوں کی پیدائش کا سلسلہ ہوا، ابویا نے مجھ کو فوراً بلوالیا، دہلی لے گئے ، دِکھلانے کا اور علاج کا ہر طرح کا انتظام کروایا، پوری توجہ کے ساتھ او ربہت سے احسانات میرے ساتھ کیے ہیں ،ان کو قلم بند کرنا مشکل محال کام ہے۔ ایک ایک بات ایک ایک واقعہ یاد آتا ہے اور دل روتا ہے ۔ نگاہیں ڈھونڈتی ہیں ،ساری زندگی یاد کروں گی مگر ایسا محسن نہ پاؤں گی۔ بعض اوقات دل ایسا تڑپتا ہے یا خدا! میں اپنے ابویا کو کہاں سے ڈھونڈ لاؤں؟ بس الله سے دعا ہے الله ربّ العالمین نے جیسے دنیا میں مجھ کو ان کے اتنا قریب کیا ان کی اولاد میں مجھے شامل کیا، یہ میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے، ایسے ہی میرے اوپر کرم فرماکر آخرت میں بھی ان کے ساتھ رہنا نصیب فرمائے۔ (آمین!)

اس دفعہ رمضان میں اعتکاف میں جانے سے پہلے ابویا سے ملنے گئی تو ظہر کے بعد مجھ کو اور چھوٹی بہن ذکیہ ہم دونوں کو روپے دیے۔ میں نے کہا ابویا! دعا میں یاد رکھیے، اس کی کیا ضرورت ہے ؟ کہنے لگے ” بٹیا! اب ہماری کتنے دن کی زندگی ہے، جب تک ہم ہیں ، دے دیتے ہیں ،پھر کون دے گا؟“ میں نے کہا ابویا ایسی باتیں آپ کیوں کرتے ہیں ؟ امی تو ہیں نہیں، ہم لوگوں کا آنا جانا تو آپ ہی کے دم سے ہے۔ تو کہنے لگے ” کس کے ماں باپ بیٹھے رہتے ہیں ، ہماری والدہ ہم کو اتنے ذرا سے کو چھوڑ کر چلی گئیں، حضرت والد  چھوڑ کر چلے گئے۔“ یہ کہہ کر اس قدر روئے کہ ہم لوگ بھی رونے لگے۔ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی ابویا کو اس طرح روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ، بس رمضان سے یہ دیکھ کر میرا دل ودماغ بے حد متاثر تھا، نہ رمضان کا مزہ تھا، نہ عید کا مزہ تھا، عید کے دن صبح سویرے میرا معمول تھا۔ ابویا کو فون کرنا، عید کی مبارک باد دینا، معمول کے مطابق میں نے فون کیا اور عید کی مبارک بادی دی۔ طبیعت پوچھی، کہنے لگے ٹھیک ہے، مگر یہ لوگ آج ہی دہلی جانے کی بات کر رہے ہیں اور میں جانا نہیں چاہتا ہوں۔ غرض کہ عید سے اگلے دن شام کو منؤ ( محمد مدنی) کا فون آیا کہ ابویا گر گئے، سر میں چوٹ آئی ہے ، بیہوش ہو گئے ہیں، دہلی لے جارہے ہیں، یہ اندوہ ناک حادثہ ہونا تھا، اس لیے رمضان سے ہی ساری خوشی اور رونق غائب تھی۔ زندگی بے کیف ہو چکی تھی، خود کا تعلق تھا، سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا، مگر دنیا اُداس ہو چکی تھی، بعد میں سمجھ میں آیا کہ ماجرا یہ تھا۔ انا لله واناالیہ راجعون․

Flag Counter