Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1435ھ

ہ رسالہ

11 - 15
یہ علم وہنر کا گہوارہ ،تاریخ کاوہ شہ پارہ ہے سفرِ دیوبند احساسات ومشاہدات

ضبط وترتیب: مفتی معاذ خالد
	
گزشتہ دنوں امیر جمعیت علمائے ہند حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی مدظلہ العالی کی دعوت پر پاکستان کے جید علما ء کرام کے ایک وفد نے عالم اسلام کے مشہور ادارے اور برصغیر کے مدارس کی علمی اور تاریخی بنیاد” دارالعلوم دیوبند“ کا دورہ کیا۔جامعہ فاروقیہ کراچی کے ناظم اعلی، استاد حدیث اور ماہنامہ الفاروق کے مدیر حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب، مولانا خلیل احمد صاحب ناظم تعلیمات ،جامعہ فاروقیہ اور مفتی حماد خالد استاد جامعہ فاروقیہ بھی اس وفد کے ہمراہ تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے عالم اسلام پر گہرے اور عظیم الشان علمی اثرات، بے مثال قربانیوں اور بیش بہا خدمات کی بناء پر مسلمانانِ عالم کے دلوں میں جو عقیدت موجود ہے، اس کے پیش نظر طلبائے جامعہ فاروقیہ کی دلی خواہش تھی کہ اس سفر کی روئیداد ان کے سامنے بھی آجاتی۔ چناں چہ حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے جامعہ کے طلبا کے ایک عظیم اجتماع میں اس سفر کی تفصیلات ارشاد فرمائیں۔ موضوع کی اہمیت اور دلچسپی کے حوالے سے قارئین الفاروق کو بھی اس میں شریک کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ الله فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ونشھدان لا الہ الا الله وحدہ وحدہ لاشریک لہ ونشھدان سیدنا وسندنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ ارسلہ بالحق بشیراً ونذیراً وداعیا الی الله باذنہ وسراجا منیرا․ اما بعد فأعوذ بالله من الشیطان الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم ﴿وَالْعَصْرِ ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ، إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ صدق الله العظیم․ دورود شریف پڑھ لیں۔

آپ حضرات کو یقینا اس کا شدید اشتیاق تھا کہ ہندوستان کے اس قریبی سفر کی کا رگزاری اور اس کے حالات آپ سے بیان کیے جائیں، دورہ حدیث کے طلبہ نے بھی پرچیاں دیں اور طلبہ بھی جو ملتے جلتے رہے وہ اس خواہش کا اظہارکرتے رہے۔چنا ں چہ مختلف مجلسوں میں الگ الگ بیان کرنے سے بہتر تھا کہ اجتماعی طور پر سب حضرات کے سامنے اس کی تفصیلات اور کار گزاری آجائے۔ آپ حضرات یہ تو خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان یہ کبھی ایک ہی ملک ہوا کرتے تھے۔ جو متحدہ ہندوستان تھا۔ پھر یہ باشندگان برصغیر اورخصوصاً علمائے اسلام کی ناقابل یقین قربانیوں کے نتیجے میں 1947ء میں تقسیم ہو گیا اور ہندوستان پاکستان دو علیحدہ مملکتیں وجود میں آئیں۔ بعد میں باطل قوتوں کی سازشوں اور اپنوں کی غفلتوں کی وجہ سے1971ء میں پاکستان بھی تقسیم ہو گیا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ یہ بھی آپ کے علم میں ہے کہ ہندوستان، وہ متحدہ ہندوستان بہت قیمتی ملک تھا۔ مغلوں نے اس پر طویل عرصہ حکومت کی اور فاتح بن کر حکومت کی، لیکن ہماری ہی شامت اعمال اور مکافات عمل کے نتیجے میں مسلمانوں کی حکومت کا سقوط ہو گیا اور انگریز اس پورے خطے پر قابض ہو گیا انگریز کے آنے سے پہلے اس پورے خطے میں جونظام تھا اسے ہم سو فیصد اسلامی نظام تو نہیں کہہ سکتے لیکن اسلام کے خاصا قریب تھا، مختلف اداور میں مختلف حکومتیں رہیں مختلف بادشاہ ہوئے سب کے اپنے اپنے انداز تھے، لیکن ایک قدر مشترک بہرحال اسلام تھا سب مسلمان تھے اور آپ جانتے ہیں کہ آج سے پچاس سال پہلے کا مسلمان، آج کے مسلمان سے زیادہ اچھا تھا ۔

تو آپ سوچیے کہ ڈیڑھ سو سال پہلے کا مسلمان اور اچھا ہو گا۔ دو سو سال پہلے کا مسلمان اور اچھا ہو گا۔ چناں چہ ان مسلمان حکم رانوں نے اس پورے خطہ میں جو تعلیمی نظام نافذ کیا تھا ،وہ ایک تعلیمی نظام تھا، وہاں دو یا تین یا چار نظام نہیں تھے، آج ہم اپنے ملک میں اس مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں کہ یہاں ایک دو تین نہیں بلکہ یہاں تو درجنوں قسم کے نظام تعلیم چل رہے ہیں اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ انتشار اور افتراق ہے اور ملک کسی صحیح رخ پر نہیں ، ماشا ء الله، آپ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں اور الله تعالیٰ کا یہ فضل ہے اس کا یہ کرم ہے اپنے بزرگوں کو اور بالخصوص حضرت والدماجد شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب زیدمجدہم کو ہم سب دعائیں دیں کہ الحمدلله ہمارے یہاں پاکستان وہ واحد ملک ہے، جس میں دینی تعلیم کا نظام بالکل ایک ہے، جو بچہ کراچی میں پڑھ رہا ہے، وہی نصاب گلگت والا بچہ پڑھ رہا ہے، وہی کشمیر میں پڑھایا جارہا ہے، وہی بلوچستان میں پڑھایا جارہا ہے۔ پورے ملک میں سب کے سب ایک ہی نصاب پڑھ رہے ہیں ۔

چناں چہ اس کا نتیجہ کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ حضرات میں آپس میں یکجہتی ہے اور اگر مدرسے سے آپ باہر نکل جائیں تو کہیں لال رنگ کا نصاب ہے،کہیں پیلے رنگ کا نصاب ہے، کہیں سفید رنگ کا نصاب ہے، کہیں کالے رنگ کا نصاب ہے، کسی کو پڑھ کر کوئی جرنیل بنتا ہے تو کسی کو پڑھ کر کوئی سول افسر بنتا ہے۔ کسی کو پڑھ کر کوئی اور بنتا ہے۔ سب طبقاتی سلسلے ہیں۔ میں عرض کر رہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے زمانہ میں ایک نظام تعلیم ایک نصاب تعلیم تھا ۔چناں چہ اس میں بنیادی بات یہ تھی کہ سب سے پہلے عالم بنتا تھا اور عالم بننے کے بعد پھر مختلف قسم کے اختصاصات تھے۔ اگر کسی کو قاضی اور جج بننا ہے تو وہ قضا کا اختصاص حاصل کر لیتا تھا اور کسی کو اگر منشی اور اکاؤنٹنٹ بننا ہے تو وہ اس کااختصاص حاصل کر لیتا تھا، لیکن ایک سطح ایسی تھی، جہاں سب بالکل برابر تھے۔ اس کے بعد پھر اپنے اپنے اختصاصات تھے ، آپ حیران ہوں گے کہ اس دور کی جو تعلیم تھی وہ اتنی بے مثال، بے نظیر اور شان دار تھی کہ آدمی کی عقل حیران، آج بھی عقل حیران ہے حالاں کہ سائنس نے کتنی ترقی کرلی اور آج جو وسائل اور ایجادات ہیں وہ آج سے دو سو سال پہلے کے مقابلیمیں بہت زیادہ ہیں، لیکن اس تعلیم کا مقابلہ نہیں ۔

میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں ایک مثال تو یہ ہے کہ وائسرائے ہند جو برطانیہ سے مقرر ہوتا تھا اور ہندوستان کا انگریزبادشاہ ہوتا تھا، وہ بیمار ہو گیا۔ اسے نزلہ ہو گیا اور وہ نزلہ بہت شدید ہوا۔ بڑے اس نے علاج کروائے لیکن وہ نزلہ ٹھیک نہیں ہوا۔ مہینوں گزر گئے تو کسی نے کہا کہ ایک حکیم صاحب دلی میں ہیں ان کا نام ہے، حکیم محمد اجمل خان اور آپ جانتے ہیں کہ ان کو مسیح الملک کا خطاب بھی ملا تھا ، ان کی بہت شان دار کتاب بھی ہے، جس کا نام ہے ”حاذق“۔ اگر آپ میں سے کسی کو موقع ملے تو اسے ضرور اپنے کتب خانہ میں اپنی کتابوں میں شامل کریں اور کبھی کبھی اس کا مطالعہ کر لیاکریں، شاید ہمدرد والے یہاں پاکستان میں شائع کرتے ہیں۔

حکیم محمد اجمل خان کے بارے میں وائسرائے کو بتایا گیا کہ وہ ایک حکیم ہیں، ان کو آپ دکھائیں ۔ چوں کہ وہ تو وائسرائے تھا بادشاہ تھا اور پھر فاتح تھا ، اس نے آدمی بھیج دیے حکیم صاحب کے پاس کہ وائسرائے صاحب آپ کو طلب فرما رہے ہیں۔ حکیم صاحب نے پوچھا کہ کیوں طلب فرمارہے ہیں، آنے والوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہیں۔

حکیم صاحب نے کہا کہ بیمار کے لیے میرا قاعدہ یہ ہے کہ اس کو میں اپنے مطب میں دیکھتا ہوں ،کہیں جا کر نہیں دیکھتا ۔اگر ان کو ضرورت ہے تو وہ آجائیں، دیکھ لوں گا۔چناں چہ وہ وائسرائے صاحب آئے ، حکیم صاحب نے ان کی نبض دیکھی اور نبض دیکھنے کے بعدان سے کہا کہ آپ اوپر چھت کی طرف دیکھیں۔ جب انہوں نے چھت کی طرف دیکھا تو حکیم صاحب نے ان کی ناک کے اندر کا معائنہ کیا ،بغیر ٹارچ کے۔ اس کے بعد اپنے معاون سے حکیم صاحب نے کہا کہ باریک والی چمٹی جس سے بعض لوگ ناک کے بال بھی کھینچتے ہیں وہ باریک والی چمٹی لے کر آؤ۔ چناں چہ وہ باریک چمٹی لائی گئی اور حکیم صاحب نے وائسرائے سے کہا کہ پھر اوپر دیکھیں پھر اوپر دیکھا تو انہوں نے چمٹی ناک میں داخل کی اور اسے کھینچ لیا اور کہا لیجیے آپ کا علاج ہو گیا۔ وائسرائے بڑا حیران ہوا۔ اس نے کہا ،کیا علاج ہو گیا؟ حکیم صاحب نے کہا کہ میں نے آپ کی نبض دیکھی تو اس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ آپ کی ناک میں ایک بال ہے، جو مخالف سمت میں بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ سے آپ کو نزلہ ہے۔ میں نے وہ بال نکال دیا ہے، اب آپ ٹھیک ہیں۔ دو تین دن بعد اپنی کیفیت بتائیے گا۔ اگر آپ ٹھیک ہیں تو الحمدلله، نہیں ہیں تو پھر آجائیے گا، پھر دیکھ لیں گے۔ چناں چہ وہ ٹھیک ہو گئے ان کا جو مسئلہ تھا وہ حل ہو گیا۔

اب آپ مجھے بتائیے کہ آج کے دور میں ایسا کوئی ڈاکٹر ہے؟ آج تو آپ کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ سب سے پہلے فلاں فلاں ٹیسٹ کرواتا ہے، اس کے بغیر وہ آگے بڑھتا ہی نہیں۔ (جاری)

Flag Counter