Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1435ھ

ہ رسالہ

6 - 15
یہود ونصاریٰ کی اسلام دشمنی

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿أَمْ تُرِیْدُونَ أَن تَسْأَلُواْ رَسُولَکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوسَی مِن قَبْلُ وَمَن یَتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السَّبِیْل﴾․(البقرہ آیت:108)
ترجمہ:” کیا تم مسلمان بھی چاہتے ہو کہ سوال کر واپنے رسول سے جیسے سوال ہو چکے ہیں موسی سے اس سے پہلے؟ او رجو کوئی کفر لیوے بدلے ایمان کے تو وہ بہکا سیدھی راہ سے“۔

تفسیر
یہودیوں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے متعلق مختلف شکوک وشبہات پیدا کر رکھے تھے، بعض اوقات سادہ لوح مسلمان ان کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایسا سوال کر بیٹھتے جس کی تہہ میں اعتراضی پہلو ہی کارفرما ہوتا۔

سوال اگر شکوک وشبہات کے ازالے کے لیے ہو تو باعث رحمت ہے، لیکن اگر وہی سوال، اعتراض برائے اعتراض اور نفسانی شرارت کے زیر اثر ہو تو باعثِ لعنت ہے ، اس لیے الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ وتہدید فرمائی ہے، قبول ایمان کے بعد اعتراض کرنا کافرانہ روش ہے ،جو کفر کا سبب بھی بن سکتی ہے ،یہی روش جس سے یہود سادہ لوح مسلمانوں کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین اسلام کے احکام پر اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں سطحی اعتراض اور منفی جذبات پیدا کرکے سادہ لوح مسلمانوں کے عقیدے پر وار کرنا اور انہیں ایمانی دولت سے محروم کرنے کی کوشش کرنا یہود کا قدیم اور تاریخی وطیرہ رہا ہے۔  جبسے امّت مسلمہ کی سیاسی وحدت پارہ پارہ ہوئی ہے اور یہود کو نصاری کی آشیر بادی سے سیاسی تحفظ حاصل ہوا ہے ، انہوں نے اپنی گستاخیوں کو ” علمی جامہ“ پہنانے کے لیے نصاری کے اتحاد سے ایک جماعت کی بنیاد رکھی، جسے”مستشرقین“ کہا جاتا ہے۔ ان کے طریقہائے واردات میں سے ایک یہ ہے کہ اولاً خوش نما الفاظ میں لپٹی ہوئی کوئی اصطلاح متعارف کراتے ہیں، مثلاً انسانی حقوق، نسوانی حقوق، امن کے لیے جنگ وغیرہ، پھر اس کا ایک خاص مفہوم گھڑتے ہیں، جس میں مذہب اسلام کا نام لیے بغیر اس سے دشمنی اور نفرت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے، پھر سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے فرمودات واعمال اور اسلام کے انفرادی، اجتماعی احکام کو ان خود ساختہ ” مسلمات“ پر پرکھ کر کسی کو انسانی حقوق، کسی کو نسوانی حقوق، کسی کو آزادی رائے وغیرہ کے حق سے متصادم قرار دے کر ناقابل فہم اورناقابل عمل قرار دیا جاتا ہے۔ اسی حربے سے اسلام کے احکام حدود وتعزیرات“ کو وحشیانہ تک قرار دیا گیا، انہیں مستشرقین نے اپنی ”تجاہل عارفانہ“ سرگرمیوں سے مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگوں کو ہم خیال بنا لیا ہے جو انہیں کے مُدّعٰی کو اپنے قلم سے ”تحقیق ومباحث“ کے علمی عنوانات سے پیش کرکے امت مسلمہ کے متفقہ اجماعی امور میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، الله تعالیٰ ان بیمار ذہنوں کی فتنہ آرائی سے امّت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ مذکورہ آیت میں بتایا جارہا ہے کہ یہود کی ایسی سرگرمیاں صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ ان ظالموں نے ماضی میں اپنے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی معترضانہ گفت گو کرکے گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔

﴿وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُم مِّن بَعْدِ إِیْمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِندِ أَنفُسِہِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُواْ وَاصْفَحُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ، وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّکَاةَ وَمَا تُقَدِّمُواْ لأَنفُسِکُم مِّنْ خَیْْرٍ تَجِدُوہُ عِندَ اللّہِ إِنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ َ﴾․( البقرہ، آیت:110-109)
ترجمہ:” دل چاہتا ہے بہت سے اہل کتاب کا کہ کسی طرح تم کو پھیر کر مسلمان ہوئے پیچھے کافر بنا دیں، سبب اپنے دلی حسد کے، بعد اس کے کہ ظاہر ہوچکا ان پر حق، سو تم درگز کرو اور خیال میں نہ لاؤ، جب تک بھیجے الله اپنا حکم ،بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے اور قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوٰة اور جو کچھ آگے بھیجو گے اپنے واسطے بھلائی، پاؤ گے اس کو الله کے پاس ، بے شک الله، جو کچھ تم کرتے ہو، سب دیکھتا ہے“۔

ان آیات میں مسلمانوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ یہود ونصاری تمہیں دین حق پر قائم نہیں دیکھنا چاہتے، ان کی کوشش ہے کہ تمہیں دوبارہ کفر کے اندھیروں میں دھکیل دیں ، تمہارے ایمان ویقین کی فصل بہار میں کفر ونفاق کا بیج بو دیں ، اس لیے وہ کبھی اسلامی عقائد واحکام کو تختہ مشق بناتے ہیں اور کبھی اسلامی طرز سیاست پر نکتہ چین ہوتے ہیں اور کبھی اسلامی تہذیب وتمدن پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی کافرانہ اور جاہلانہ تہذیب کو خوش نما ناموں مثلاً قومیت، وطنیت، ثقافت، آزادی رائے، حقوق انسانی، رفاہ عامہ، امن عامہ وغیرہ اور خوب صورت نعروں، پر فریب اصطلاحات کا لیبل لگا کر سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ، یہ سرگرمیاں کسی ہمدردانہ جذبات کی بنیا دپر نہیں ہوتی، بلکہ ان میں حسد کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے، جس پر ہم دردی کا خول چڑھا ہوتا ہے، جب تک جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا یہ اپنی شرارتوں میں پوری طرح مگن تھے ۔ جس سے صحابہ کرام رضی الله عنہم میں اشتعال پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا ،لیکن الله تعالیٰ کے حکم سے وہ عفو اور درگذر سے کام لیتے رہے، جب جہاد کا حکم ہوا تو قتل، غلامی ، جزیہ ، جلا وطنی ان کا نصیب ٹھہرا۔

﴿واقیموا الصلوٰة﴾ جب تک جہاد کا حکم نہ آئے تو نماز وزکوٰة کی ادائیگی او راعمال صالحہ کا اہتمام کرتے رہو، کیوں کہ مسلمانوں کی مرکزی طاقت: روحانی قوت ہے، صرف مادی ترقی سے دشمنوں پر فتح حاصل نہیں ہو سکتی ، الله تعالیٰ سے جس قدر مضبوط تعلق ہو گا اسی قدر دشمنوں پر فتح ونصرت حاصل ہو گی۔ اس آیت سے معلوم ہوا ہے کہ یہود ونصاری کی سازشوں، ذرائع وابلاغ کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اوراسلام پر کیے جانے والے تمام اعتراضات کا آخری جواب صرف اور صرف قتال فی سبیل الله ہے،جسے الله تعالیٰ نے﴿حتی یأتی الله بأمرہ﴾ سے تعبیر فرمایا ہے، یہ وہ عمل ہے، جو ان کے تمام پروپیگنڈوں کو ملیامیٹ کر دیتا ہے، ان کے پروپیگنڈوں کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا، یا مداہنت کا ارتکاب کرنا مومن کی شان نہیں ، اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد کے انتظار میں دوسرے احکامات سے غفلت کرنا درست نہیں ، نماز ، روزہ ، زکوٰة، حج ان کے علاوہ مالی اور بدنی عبادات ہر قسم کے حالات میں واجب العمل ہیں۔

﴿وَقَالُواْ لَن یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَن کَانَ ہُوداً أَوْ نَصَارَی تِلْکَ أَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُواْ بُرْہَانَکُمْ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ،بَلَی مَنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلّہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہُ أَجْرُہُ عِندَ رَبِّہِ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون﴾․( البقرہ،آیت:112-111)
ترجمہ:”اور کہتے ہیں کہ ہر گز نہ جاویں گے جنت میں مگر جو ہوں گے یہودی یا نصرانی۔ یہ آرزوئیں باندھ لی ہیں انہوں نے۔ کہہ دے لے آؤ سند اپنی، اگر تم سچ ہوo کیوں نہیں، جس نے تابع کر دیا منھ اپنے الله کے اور وہ نیک کام کرنے والا ہے تو اسی کے لیے ہے ثواب، اس کا اپنے رب کے پاس اور نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گےo۔“

یہودی کہتے ہیں جنت میں داخل ہونے کا حق صرف اور صرف یہودیوں کو ہے ۔ عیسائیوں کا دعوی ہے کہ یہ حق صر ف عیسائیوں کو حاصل ہے ۔ یہود ونصاری کے یہ دعوے خود فریبی کی عمارت پر قائم ہیں، اگر یہ اپنے دعوؤں میں سچے ہیں تو اس پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل پیش کریں۔

جنت کی نعمتیں کسی خاص گروہ، قبیلے اور فرقے سے مشروط نہیں، بلکہ جو شخص بھی اپنے ظاہر وباطن کو منافقت کے عیب سے بچا کر احکام خدا وندی کے سامنے جھکا دے وہ جنت میں داخل ہونے کا استحقاق رکھتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا فرماں بردار گروہ کون سا ہے؟ یہودونصاری تو فرماں بردار نہیں کہلا سکتے؛کیوں کہ انہوں نے الله تعالیٰ کے نازل کردہ دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیااو رمنسوخ شدہ مذہب کو لے کر بیٹھ گئے ، یہ شان تو مسلمانوں کی ہے، جنہوں نے دین اسلام قبول کرکے بندگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے ۔ پس جنت میں بھی یہی لوگ داخل ہوں گے، کفار اور منافقین کو یہ نعمت نصیب نہیں ہو سکتی۔

آیات
﴿وَقَالَتِ الْیَہُودُ لَیْْسَتِ النَّصَارَی عَلَیَ شَیْْء ٍ وَقَالَتِ النَّصَارَی لَیْْسَتِ الْیَہُودُ عَلَی شَیْْء ٍ وَہُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ فَاللّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْمَا کَانُواْ فِیْہِ یَخْتَلِفُون﴾․(سورہ البقرہ،آیات:113)
ترجمہ:”اور یہود تو کہتے ہیں کہ نصاریٰ نہیں کسی راہ پر اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود نہیں کسی راہ پر۔ باوجودیہ کہ سب پڑھتے ہیں کتاب، اسی طرح کہا ان لوگوں نے جو جاہل ہیں انہی کی سی بات،اب اللہ حکم کرے گا ان میں قیامت کے دن جس بات میں جھگڑتے تھے۔“

ربط
اس آیت میں اللہ جل شانہ نے یہود کی شناعتوں میں سے ایک کا تذکرہ فرمایا ہے، جس میں ان کے ساتھ نصاریٰ اور مشرکین بھی شامل ہیں۔وہ یہ کہ کسی موقع پر عیسائیوں اور یہودیوں نے جمع ہو کر مذہبی مباحثہ کرنا شروع کیا، اس میں دونوں فریقین بے جا تعصب پر اتر آئے۔پس یہود تو شروع ہی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوّت اور انجیل کے کتاب اللہ ہونے کے منکر تھے۔لیکن ان کے تعصب کے نتیجے میں عیسائیوں نے بھی تعصب برتتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوّت اور توریت کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کردیااور مشرکین نے بھی اس نظریے کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا کہ ہم ہی حق پر ہیں ،ہمارے علاوہ دیگر لوگ حق پر نہیں۔

مفسرین کرام نے روایت نقل کی ہے کہ یہ مناظرہ وفد نجران (عیسائیوں کا وہ وفد جو نویں صدی ھجری میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا تھا)اور مدینہ کے یہودیوں کے درمیان ہواتھا۔(تفسیر ابن کثیر:”عن ابن عباس قال: لما قدم اھل نجران من النصاریٰ …“۔سورہ بقرہ:الایة:113)۔

تفسیر :یہود ونصاریٰ کی باہمی دین دشمنی
﴿وَقَالَتِ الْیَہُودُ لَیْْسَتِ النَّصَارَی عَلَیَ شَیْْء ٍ وَقَالَتِ النَّصَارَی لَیْْسَتِ الْیَہُودُ عَلَی شَیْْء ٍ وَہُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ ﴾․
(اور یہودتو کہتے ہی کہ نصاریٰ نہیں کسی راہ پر اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود نہیں کسی راہ پر،باوجودیکہ سب پڑھتے ہیں کتاب، اسی طرح کہا ان لوگوں نے جو جاہل ہیں انہی کی سی بات)۔

یعنی شریعت موسیٰ و عیسیٰ علیھما السلام اگر چہ دین اسلام کی وجہ سے منسوخ ہوگئیں اور اب ناقابل اتباع ہیں، لیکن انہیں ناحق کہنے کو شناعت کے طور پر اس لیے ذکرکیا گیا کہ ان دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کی بنیاد ہی کو غلط قرار دیا تھا ،حالاں کہ دونوں مذاہب آسمانی کتابوں کی تلاوت بھی کرتے ہیں۔پس عیسائیوں کی کتاب انجیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوّت اور توریت کے کتاب اللہ ہونے کی تصدیق موجود ہے، جب کہ یہودیوں کی توریت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد اور انجیل کی پیش گوئی اور تصدیق موجود ہے ۔(دیکھیے سورہ حشر کی آیت نمبر5)۔اس کے باوجود ایک دو سرے کو باطل کہنا انتہائی شنیع جرم ہے۔

﴿الذین لا یعلمون﴾سے مشرکین مراد ہیں۔(فی معالم التنزیل:”وقال مقاتل(الذین لا یعلمون) یعنی ”مشرکي عرب“ (سورة البقرة، الایة:113)یعنی یہود ونصاریٰ کی طرح اس برائی کا ارتکاب مشرکین بھی کرتے تھے، کیوں کہ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ صرف ہم ہی حق پر ہیں،باقی سب لوگ باطل و بے بنیاد ہیں۔

﴿فَاللّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْمَا کَانُواْ فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ﴾․
”اب اللہ حکم کرے گا ان میں قیامت کے دن جس بات میں جھگڑتے تھے“۔

یعنی دنیا میں تو دلائل و براہین کے ذریعے سے قوی فیصلہ ہو چکا ہے۔بایں طور کہ اللہ نے اپنی تمام کتب میں گذرے ہوئے اور آنے والے تمام انبیاء کی تصدیق فرمائی ہے،پس اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنے پر اللہ قیامت کے دن اہل حق کو جنت اور اہل حق کو دوزخ میں بھیج کر عملی فیصلہ بھی فرمادیں گے۔

﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّہِ أَن یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ وَسَعَی فِیْ خَرَابِہَا أُوْلَئِکَ مَا کَانَ لَہُمْ أَن یَدْخُلُوہَا إِلاَّ خَآئِفِیْنَ لہُمْ فِیْ الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ، وَلِلّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ إِنَّ اللّہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾․ (البقرہ:115-114)
ترجمہ:”اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے منع کیا الله کی مسجدوں میں کہ لیا جاوے وہاں نام اس کا اور کوشش کی ان کے اجاڑنے میں، ایسوں کے لائق نہیں کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہےo اور الله ہی کا ہے مشرق ومغرب، سو جس طرف تم منھ کرو وہاں ہی متوجہ ہے الله، بے شک الله بے انتہا بخشش کرنے والا، خوب جاننے والا ہےo۔“

ربط:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی ایک اور بد عملی کا تذکرہ فرمایا ہے۔اس برائی میں یہود کے ساتھ نصاریٰ اور مشرکین بھی شامل ہیں۔

تفسیر الله تعالیٰ کے گھروں کو ویران کرنا کفار کا وطیرہ ہے
خدا کی مسجد میں خدا کا ذکر ہونے سے روکنا اور مساجد کی ویرانی میں لگے رہنا بہت بڑا ظلم ہے اور یہود و نصاریٰ اور مشرکین برابر اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔یعنی یہود تو اس جرم کے مرتکب اس طرح ہوئے کہ جب نماز میں تحویل قبلہ کا حکم ہوا تو انھوں نے مسلمانوں پر خوب اعتراضات کیے، جو مسلمانوں کو نماز سے روکنے اور مسجدوں (خاص کر مسجد نبوی)کو ویران کرنے کی بہت بڑی کوشش تھی ۔کیوں کہ اگر یہود کے اعتراضات مسلمانوں کے دلوں پر اثر کرتے تواس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے منکر ہو کر تارک صلوٰة بن جاتے ۔(بیان القرآن ،سورة البقرة،الایة:114)۔

اور عیسائی ویرانی مساجد میں اس طرح ملوث ہوئے کہ ایک زمانے میں عیسائیوں کے بادشاہ طیطس نے شام کے یہودیوں پر حملہ کیا، جس کی بنا پر خوب بدامنی ہوئی، اس دوران بعض جاہلوں کے ہاتھوں بیت المقدس کی بے حرمتی بھی ہوئی، جس کی وجہ سے وہاں نماز اور اللہ کا ذکر جاری نہ رہ سکا،اگر چہ نصاریٰ بیت المقدس کی تعظیم کیا کرتے تھے ،لیکن ان واقعات میں چوں کہ یہودیوں کی تذلیل ہوئی تھی، اس لیے نصاریٰ اس پر خوش تھے، دورنبوی کے عیسائی بھی اپنے اسلاف کے ان افعال کو مذموم نہیں سمجھتے تھے… لہٰذا تمام عیسائیوں کو من حیث القوم اس جرم کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔(بیان القرآن، سورة البقرة ،الایة:114)

اور مشرکین عرب حدیبیہ کے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو مسجد حرام سے روک کر اس جرم میں ملوث ہوئے۔(بیان القرآن، سورة البقرة،الایة:114)

لہٰذا آیت میں تینوں گروہوں کی مذمت کی گئی ہے
﴿أُوْلَئِکَ مَا کَانَ لَہُمْ أَن یَدْخُلُوہَا إِلاَّ خَآئِفِیْنَ لہُمْ فِیْ الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْم﴾
”ایسوں کو لائق نہیں کہ داخل ہوں، ان میں مگر ڈر تے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔“

یعنی چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ جب مسجد میں داخل ہوتے خشیت وخوف خداوندی سے ان کے دل لبریز ہوتے، مبادا کہیں مقام مقدس کی بے حرمتی نہ ہو جائے ،مسجدوں کو ویران کرنا اور ان میں ذکر خداوندی سے روکنا تو دور کی بات تھی۔

پس ان لوگوں کی دنیا میں تو رسوائی اس طرح ہوئی کہ یہ قومیں ذلیل ہو کر سلطنت اسلام کی رعایا بنیں اورآخرت میں ان لوگوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

یہود ،عیسائی اور مشرکین کی ان مشترکہ شناعتوں اور ان پر دنیاوی رسوائی اور عذاب آخرت کا ترتب ذکر کرنے سے ایک لطیف پیرایہ میں ان کے دعویٰ کی تردید بھی کردی گئی کہ تم عنداللہ مقبول ہونے کے مدعی ہو! جب کہ تم ان عظیم جرائم کے مرتکب بھی ہو؟ پس تمہارا یہ داغ دار کردار ہی تمہارے دعوے کی تردید کے لیے کافی ہے۔(بیان القرآن ،سورة البقرة، الایة:114)

اشکال
مذکورہ آیت میں مساجد سے لوگوں کو روکنے اور ان کو ویران کرنے والے کو سب سے زیادہ ظالم کہا گیا ہے۔حالاں کہ آیت ﴿ومن اظلم ممن کتم شہادة عندہ من اللہ﴾(سورة بقرہ:الایة:14)میں گواہی چھپانے والے کو سب سے زیادہ ظالم کہا گیاہے اور آیت﴿فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن کَذَبَ عَلَی اللَّہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاء ہ الخ﴾․(سورة الزمر، الایة:32) میں اللہ پر بہتان باندھنے اور سچ کو جھٹلانے والے کو سب سے زیادہ ظالم کہاگیا ہے۔لہٰذا سب سے بڑے ظالم شخص کے بارے میں آیات میں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں سب سے بڑے ظالم شخص کی تعیین مقصود نہیں، بلکہ مذکورہ اوصاف کے حامل افراد کے ظلم کی شدت بتلانا مقصود ہے کہ ان برائیوں کے حامل ایسے تمام لوگوں سے بڑھ کر ظالم ہیں جن میں ذکر کردہ اوصاف موجود نہیں۔لہٰذا آیات میں باہم تعارض کا اشکال ختم ہوگیا۔

احکام
مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص خشوع و خضوع کے ساتھ مسجد کے تمام آداب کا لحاظ کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوتو اسے روکا نہیں جائے گا ،خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔(یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے، ائمہ ثلاثہ کے نزدیک کفار کو مسجد میں داخل ہونے سے روکا جائے گا۔اس کی تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ فرمائیں۔

قال العلامة الکاسانی:”ولا باس بدخول اھل الذمة المساجد عندنا․ وقال مالک والشافعی: لا یحل لہم دخول المسجد الحرام…ولنا ان المشرکین من وفود العرب وغیرھم کانوا یدخلون المسجد علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فانہ روی ان أبا سفیان دخل المسجد عام الحدیبیة، وکذا وفد ثقیف دخلوا المسجد…۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب الاستحسان،5/128،دارالکتاب العربی، بیروت)

﴿وَلِلّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ ﴾․
(اور اللہ ہی کا ہے مشرق اور مغرب ،سو جس طرف تم منھ کرو وہاں متوجہ ہے اللہ)

ربط
اس آیت میں یہود کی طرف سے (تحویل قبلہ پر کیے جانے والے اعتراض)کی طرف اشارہ ہے اور اس کا جواب ذکر کیا جارہا ہے۔

تفسیر (اللہ تعالیٰ کی ذات زمان ومکان کی حدود سے بالاتر ہے)
آیت میں مذکورہ جواب کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مکان کی حدود و قیود سے بالا تر ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی ذات نعوذ باللہ کسی خاص مکان میں موجود ہوتی تب تو ضروری تھا کہ مسلمان صرف اسی جہت میں رخ کر کے نماز پڑھتے اور اس جہت کو بدلنا یقینا باطل ٹھہرتا ،لیکن وجود باری تعالیٰ کسی بھی مکان کی حدود سے منزہ ہے، بلکہ تمام موجودات کو محیط ہے۔ پس خدا کی عبادت کے لیے اصلاً کسی خاص رخ کی ضرورت نہیں، بلکہ جس طرف بھی رخ کر کے نماز پڑھی جائے وہیں اللہ کا رخ ہے۔

ہاں! اگر کچھ۔ حِکَم و مصالح کسی خاص جہت میں رخ کرنے کا تقاضا کریں تو ذات خداوندی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس جہت کا تعین کردے، کیوں کہ مشرق و مغرب سمیت تمام جہات اسی کی مملوک ہیں ۔اس سے اس بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کرسکتا، چاہے تو مشرق کو قبلہ بنا دے، چاہے تو مغرب کو قبلہ بنا دے ۔لہٰذا جس جہت کے بارے میں حکم خداوندی ہو وہیں رخ کر کے نماز پڑھی جائے، کیوں کہ اس صورت میں حکم خداوندی پر بھی عمل ہوگا اور یہ تو معلوم ہو ہی چکا کہ وہاں بھی اللہ کا رخ ہے ۔(ہاں! اگر قبلہ کی طرف رخ کرنا ممکن نہ ہوتو کسی بھی طرف رخ کیا جاسکتا ہے ،مثلاً:حالت جنگ ،سفر، یاجہت نامعلوم ہونے کی صورتیں)

رہی یہ بات کہ وہ حکمتیں کون کونسی ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ایک جہت میں رخ کرنے کا حکم دیا؟سو انسان کے شعور و ادراک کی تمام تر جولانیاں ان حکم و مصالح خداوندی کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔

البتہ اس مسئلہ میں دیگر مصالح خفیہ کے علاوہ ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ عبادت کے لیے یکسوئی انتہائی ضروری ہے اور ایک خاص جہت کا تعین یکسوئی اور دلجمعی کے لیے کافی حدتک معاون ثابت ہوتا ہے۔پس اس مقصد کے حصول کے لیے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا۔

اس کے علاوہ اور بھی کئی مصلحتیں علم الہٰی کے خزانہ لا متناھیہ میں ہیں، لیکن ہمارے ناقص شعور کی اڑان ان کی بلندیوں کو چھونے سے قاصر ہے۔

﴿ إِنَّ اللّہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾
(بے شک اللہ بے انتہا بخشش کرنے والا، خوب جاننے والا ہے)

یعنی اللہ کی رحمت تمام جہات کو محیط ہے اور وہ اس خاص جہت کی حکمتیں اور فوائد کو خوب جاننے والا ہے۔

مخالفین اسلام کا اعتراض کہ مسلمان بھی کعبہ کے پجاری ہیں
بعض مخالفین اسلام مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کعبہ پرست ہیں۔ لہٰذا ن میں اور بت پرستوں میں فرق نہیں ۔کیوں کہ جس طرح مشرکین بت کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے ہیں، اسی طرح مسلمان کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا لازمی سمجھتے ہیں اور اگر کعبہ سے رخ پھر جائے تو مسلمانوں کی نماز ادا نہیں ہوتی ۔

جواب:
اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً:شرک اسے کہتے ہیں کہ غیراللہ کی عبادت کی جائے یا کم از کم غیر اللہ سے خدا والا معاملہ کیا جائے ،یعنی غیر اللہ سے ایسے امور میں مدد طلب کی جائے جو اسباب عادیہ سے ماورا ہوں، جیسے اولاد مانگنااور برسات مانگنا وغیرہ،جب کہ قبلہ کی طرف رخ کرنے میں ایسی کوئی بات نہیں ،جب کہ حق جل شانہ کا واضح دو ٹوک اعلان ﴿فلیعبدوا رب ھذا البیت﴾(سورة القریش،الایة:3)یعنی اس گھر (کعبہ)کے مالک کی عبادت کریں) ہے۔

ثانیا :یہ کہ نماز کے اذکار میں از اذان تا سلام کہیں بھی کعبةاللہ سے استعانت تو کجا، بلکہ اس کا ذکر تک نہیں ملتا ،اگر مسلمان کعبہ پرست ہوتے تو کسی نہ کسی مقام پر کعبہ سے ضرور مدد طلب کرتے۔

ثالثا:ہرمقصوداصلی کے ساتھ مقصود تبعی بھی ہوا کرتا ہے۔ جومقصود اصلی کے لیے ذریعہ اور آلہ بنتا ہے۔جیسے: علم کے حصول کے لیے حروف ابجدکا سیکھنا لازمی ہے، یا اپنے دفاع کے لیے اسلحہ کا اٹھانا لازمی ہے ،ان مثالوں میں حصول علم اور دفاع نفس مقصود اصلی ہے، حروف ابجد سیکھنا اور اسلحہ اٹھانا مقصود تبعی ہے، پس اسی طرح یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ عبادت کی ادائیگی کے لیے تعیین قبلہ ضروری ہے،تاکہ جس طرح مسلمانوں میں معنوی اتحاد ہے، اسی طرح صورتاً بھی اتحاد قائم رہے، اسی وجہ سے نماز باجماعت کو واجب قرار دیا گیا۔

لہٰذا مقصود اصلی اورصرف یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا ہے اور اس کے حصول کے لیے قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا۔

رہی یہ بات کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ توجہ الی الکعبہ (کعبہ کی طرف رخ کرنے)کا حکم مقصود تبعی ہے، مقصود اصلی نہیں، سو اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمات اسلامیہ کا تفصیل کے ساتھ تبتع کیا جائے، تب بھی ہرگز کعبہ کی عبادت یا اس سے استعانت کا کوئی حکم نہیں ملے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہ مقصود تبعی ہے ،اصلی نہیں۔

اس کے لیے یہ قرینہ بھی موجود ہے کہ اگر بالفرض کعبہ اپنی جگہ سے ختم کردیا جائے تب بھی تمام مسلمانان عالم اسی جہت میں نماز پڑھیں گے،کوئی بھی مسلمان اس جہت سے انحراف نہیں کرے گا ،اس کے علاوہفقہی کتب میں کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنے کے مسائل بھی موجود ہیں۔ (کیا کوئی اپنے معبود پر بھی کھڑے ہو کر اس کی عبادت کرتا ہے ؟ دیکھیے بدائع الصنائع،کتاب الصلاة،فصل: شرائط ارکان الصلاة،1/473۔اور العنایة شرح الھدایة،صلاة،باب الصلاة فی الکعبہ،3/42)ان مسائل کے تذکرے کے باوجود علماء نے اسے توہین کعبہ شمار نہیں کیا۔

ان قرائن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں مسلمان کعبہ کی جہت کو پرستش کعبہ کی وجہ سے نہیں اپناتے، بلکہ مقصود تبعی کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔کیوں کہ اگر خانہ کعبہ کی عبادت کی جاتی تو اس کے منہدم ہونے کی صورت میں مسلمان اس کی جہت میں نماز نہ پڑھتے اور فقہاء خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنے کو توہین کعبہ شمار کرتے۔ان دلائل کے باوجود اگر مخالفین اسلام یہی اعتراض کریں کہ مسلمان کعبہ پرست ہیں، ضیاع وقت کے سوا کچھ نہیں ۔اور اگر یہ کہا جائے کہ نماز میں یکسوئی کے لیے کعبہ کے علاوہ کسی بھی جہت کا تعین کافی تھا، اس جہت کعبہ ہی کی کیا ضرورت تھی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ کعبہ کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رکھی، جنہوں نے تن تنہا علم توحید بلند کر کے راہ توحید میں حائل شرک و کفر کی بڑی بڑی چوٹیوں پر اپنے عزم آھنی سے ضرب لگائی اور اپنے نور بصیرت سے معاشرے میں پھیلی شرک کی مسموم تاریکیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔پس ظلمت و جہالت کے خلاف استقلال ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کے لیے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا۔واللہ اعلم۔ (جاری)

Flag Counter