ماہ رجب اور مسلمان
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ
اسلامی دنیا میں یہ مہینہ رجب کے نام سے موسوم ہے۔ ایک ضعیف روایت یہ پھیلی ہوئی ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کی معراج اسی مہینہ میں ہوئی تھی۔ بہت سے مسلمان اسی روایت کو مان کراس مہینہ میں طرح طرح کی خوشی کرتے اور بہت سی رسمیں بجالاتے ہیں ۔ اول تو یہ روایت ہی ثبوت کو نہیں پہنچی ہے ،لیکن جو لوگ اس کے ماننے ہی پر زور دے رہے ہیں ، ذرا وہ اپنے دل میں سوچیں کہ اس کے ماننے کے بعد خوشی منانے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟ آیا وہی جس کے وہ عادی ہیں یا کچھ اور ؟ ایسا نہ ہو کہ ہم خوشی منانے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کر بیٹھیں جو ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم کا ناپسند کیا ہوا اور ہمارے خدا کی ناخوشی کا باعث ہو۔
خوشی منانے کے دنیا میں بہت سے طریقے ہیں۔ بعض قومیں خوشی کے وقت شراب پیتی ہیں، بعض آتش بازی میں اپنا روپیہ پھونکتی ہیں، لیکن مسلمان کا کام تو یہ نہیں کہ ان طریقوں سے اپنی خوشی کو ظاہر کرے۔ اس لیے کہ ہمارے سچے مذہب نے ان سب صورتوں کو ہمارے لیے منع کر دیا ہے ۔ دنیا کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ان طریقوں سے نمائشی خوشی چند لمحوں کے لیے ہو جاتی ہے، لیکن بعد کو رنج او رتکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے اور دل کی فرحت وراحت تو ایک لمحہ کے لیے بھی ان طریقوں سے نہیں ہوتی۔ مسلمان کو اتنانا سمجھ تو نہ ہونا چاہیے کہ اس کی ناسمجھی پر دوسری قومیں ہنسیں اور وہ دنیا میں بھی اپنا نقصان کرے اور آخرت میں بھی اس کو شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔
مسلمان کو معراج کا مرتبہ تو خدا کے فضل وکرم سے روزانہ حاصل ہو سکتا ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں، کم از کم پانچ بار۔ اس کی معراج نماز ہے۔ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کو معراج میں خدا کی حضوری نصیب ہوئی تھی، امّت محمدی پر خدائے کریم کی یہ حد سے بڑھی ہوئی مہربانی ہے کہ اس کے ہر فرد کو دن میں کم از کم پانچ مرتبہ خدا کے دربار میں حاضری کے موقعے ہیں، پس جو لوگ واقعہٴ معراج نبوی صلی الله علیہ وسلم کو اس مہینہ میں مان کر اس کی زیادہ عزت وعظمت کرتے ہیں انہیں تو واجب ہے کہ اس مہینہ میں وہ خود بھی اس دولت کے حاصل کرنے کی اور زیادہ کوشش کریں اور نماز کو حضور قلب اور جماعت وطہارت کے ساتھ ادا کرنے میں پوری ہمت ومستعدی کو کام میں لائیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے دنیا میں بھی ان کے قلبکو راحت ومسرت حاصل ہو گی۔ سب بھائی بھائی امن اور چین سے رہیں گے اور آخرت میں خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی خوش نودی کی دولت ہاتھ آئے گی۔
بہت سے ناواقف بھائی ( اور بہنیں) رجب کی پہلی جمعرات کو بہت سی رسمیں بجالاتے ہیں، اس مہینہ کی بعض تاریخوں میں بہت سی پوریاں پکا کر مٹھائی کے ساتھ ایک خاص مقام پر بیٹھ کر کھانا بڑا ثواب جانتے ہیں اور بعض راتوں کو خوب روشنی کرکے جلسہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بعض انسانوں نے دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی دل سے گڑھ لی ہیں ، ان میں سے کوئی شے نہ خداکی بتائی ہوئی ہے ،نہ اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اور نہ کسی صحابی کی۔ بعض بزرگوں نے اس مہینہ میں چند نمازوں کا خاص ثواب لکھا ہے ۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ رائے بھی صحیح نہیں لیکن اگر صحیح بھی ہو تو بہرحال نماز ہی کی فضیلت رہی ۔ باقیتیل ، بتی، گھی ، شکر ، میدہ وغیرہ پر روپیہ پھینکنے کا حکم کسی مستند صوفی، کسی سچے فقیر، کسی صاحب دل نے بھی کہیں نہیں دیا ہے ۔ مسلمان کا کام یہ ہے کہ بری رسموں سے دوسروں کو بچائے، نہ یہ کہ دوسروں کی بری رسمیں خود اختیار کرے۔
اسلامی جنتری میں ساتواں مہینہ رجب کا کہلاتا ہے۔ ہندوستان میں اس کی خاص شہرت اس بنا پر ہے کہ اس مہینہ کی چھٹی تاریخ کو یہاں کے ایک مشہور ولی خواجہ معین الدین حسن چشتی نے اس دار فانی سے رحلت فرمائی تھی اور اسی مہینہ کے ابتدائی عشرہ میں ان کا عرس بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ عرس کے موقع پر جو بہت سی مخالف شرع رسمیں انجام دی جاتی ہیں ، ان پر بے شبہ ماتم کیجیے کہ آج کوئی بھی اسلامی شعار اپنی اصلیت پر نہیں قائم ہے ،لیکن کیا آپ کو نفس واقعہ کی اہمیت سے انکار ہے ؟کیا خواجہ کی شخصیت کی عظمت آپ کے دل میں نہیں؟ کیا خواجہ کی زندگی اور موت دونوں کے بابرکت ہونے میں آپ کو شبہ ہے؟ الله کے نیک اور بزگزیدہ بندوں کی زندگی او رموت دونوں بابرکت ہوتی ہیں، کیا خواجہ کی شخصیت اس قانون سے مستثنیٰ ہے؟
وہ ایک شخص تھا جس نے اپنا رشتہ ماسوا سے توڑ کر الله سے جوڑ رکھا تھا۔ وہ ایک شخص تھا جس کی عمر کی ایک ایک گھڑی طاعت الہٰی میں بسر ہوتی تھی۔ وہ ایک شخص تھا جس کی زندگی صدق وصفا، زہد وتقویٰ ، عبادت وطہارت کی عملی تفسیر تھی، وہ ہندوستان میں آیا اور تن تنہا ایسے وقت آیا جب سارا ملک گم راہی وجہالت سے گونج رہا تھا، اس اکیلے نے بے یارومددگار اس کفروشرک کی سر زمین پر توحید کا جھنڈا بلند کیا۔ اس کی تبلیغ ہماری انجمنوں کی طرح نمائشی نہ تھی، اس کی تبلیغ سچی تبلیغ تھی۔ اس کے سینہ سے جو سانس نکلتی تھی تبلیغ کرتی تھی۔ اس کے جسم کارُواں رُواں دعوت اسلام کا کام کررہا تھا۔ اس پر بلائیں آئیں، آفتیں ٹوٹیں، مصیبتیں امڈیں، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اس سر زمین پر اسلام وتوحید کا پودا لگا دیا۔ اس کے پاس نہ کوئی سرمایہ تھا نہ خزانہ ، نہ فوج تھی نہ سپاہی، نہ توپ تھی نہ تلوار، نہ لیکچر تھے نہ رسالے، البتہ سچائی کا سرمایہ تھا، خلوص کی فوج تھی اور صداقت کی تلوار تھی، وہ اس سچے سرکار صلی الله علیہ وسلم کا سچا سپاہی تھا، جو ساری دنیا کے لیے اتھاہ پریم کاسا گر بن کر آیا تھا، اس نے اپنے اسی پریم کے بل سے سب کے دلوں کو موہ لیا۔
بڑ ے بڑے راکشس اس کے مٹانے اور دبانے کو جھپٹے، پر آپ ہی اس سے ٹکڑا کر چکنا چور ہو کر رہ گئے ۔ کیا خواجہ کے زمانہ میں بھی مسلمانان ہند کی تعداد سات کروڑ تھی؟ کیا خواجہ کے پاس بھی کسی تبلیغی انجمن کا کوئی بڑا دفتر تھا؟ کیا خواجہ بھی پوسٹروں کے ذریعہ سے تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے؟ پھر یہ کیا ہے کہ خواجہ ، باوجود اس بے سروسامانی کے، باوجود اپنی تنہائی کے، باوجود بے یارومددگار ہونے کے کام یاب ہو گئے اور ہم باوجود اپنے ذرائع وسائل کے، باوجود اپنے اخبار ورسائل کے،باوجود اپنی انجمنوں اوراپنے دفتروں کے، باوجود اپنی کثرت تعداد کے قدم قدم پر ناکام ہو رہے ہیں؟ کیا خواجہ کی زندگی سے ہم کوئی سبق اور ہدایت نہیں حاصل کرسکتے؟ آپ کہتے ہیں کہ خواجہ کے مزار پر جانا ناجائز ہے، اس لیے کہ وہاں بہت سے مراسم شرک ادا کیے جاتے ہیں، لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ خواجہ کے مزار پر جاکر بجائے ان سے اولاد مانگنے کے، بجائے ان سے مقدمہ میں اپنی جیت چاہنے کے ، بجائے ان سے کسی بڑے عہدہ کی طلب کرنے کے ، محض یہ تصور جمائیں، دل میں یہ نقشہ قائم کریں ، دماغ کے اندر یہ سبھار چائیں کہ جس قادر مطلق نے بے یارومدد گار، یک وتنہا معین الدین حسن سنجری سے بت کدہٴ ہند میں اشاعت اسلام ودعوت توحید کا کام لیا، وہی ہماری نیتوں میں خلوص، ہمارے دلوں میں ایمان، ہماری ہمتوں میں استقامت نصیب کرے اور جو فیضان الہٰی اجمیر کے اس اچھے اور سچے بندے کے حصہ میں آیا تھاکاش! اس کا عشر عشیر ،اس کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی ہم بدکار وخطا شعار بندوں کے حصہ میں آجائے ! کیا یہ تصور بھی مشرکانہ ہے؟ کیا دل میں اس آرزو کا پیدا ہونا اور لب پر اس دعا کا آنا بھی کوئی جرم، کوئی معصیت ہے؟!