کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
نظر لگنے کی حقیقت اور اس کا شرعی حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں :
1... ہمارے دین میں”نظر“ کی شرعی کیا حیثیت ہے؟
2... جب ہمارے ہاں کسی کو ”نظر“ لگ جائے تو لال والی سات عدد مرچیں لیتے ہیں اور اس پر چار قل پڑھتے ہیں اور جس کو ”نظر“ لگی ہوتی ہے اس کی جسم یا سر یا چہرے کے ساتھ ملتے ہیں اور پھر اسے آگ پر جلا دیتے ہیں اور بظاہر جس کو نظر لگی ہوتی وہ صحیح ہو جاتا ہے، یہ سلسلہ ہمارے خاندان میں بہت پُرانا چلا آرہا ہے۔
3... ”نظر“ کا لگنا بظاہر خوبصورتی کی وجہ یا اچھا لگنے کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن دیکھا جائے تو انگریزوں کے بچے بھی خوب صورت ہوتے ہیں تو ان کو اگر نظر لگتی ہے تو وہ کوئی ایسا عمل نہیں کرتے پھر بھی وہ صحت مند اور ٹھیک رہتے ہیں۔
جواب…1..واضح رہے کہ جمہور علماء کرام اور اہل حق کا مسلک یہی ہے کہ جاندار اشیاء خواہ انسان ہو یا جانور اور اموال وغیرہ میں نظر کی تاثیر یعنی نظر سے نقصان پہنچنا ثابت ہے اور یہبہت ساری احادیث سے بھی ثابت ہے، حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”نظر حق“ ہے یعنی نظر کی تاثیر اور اس سے نقصان پہنچنا ثابت ہے، اور بھی متعدد روایات ایسی ہیں جن میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے نظر لگنے او راس سے بچنے کے لیے عرب میں جو طریقہ رائج تھا کہ جس شخص کی نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ، پاؤں، ٹخنے، کہنیاں وغیرہ دھلوا کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگی ہوتی تھی اور اس کو وہ لوگ شفاء کا ذریعہ سمجھتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی اور نظر سے بچنے کے لیے تعویذ اور دم کرنے کا بھی حکم دیا ہے، چناں چہ نظر کی تاثیر اورسببیت اس بناء پر ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ نے اس میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ نقصان یا ہلاکت کا باعث بنے ،لہٰذا یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ نظر حق ہے۔
3,2.. صورت مسئولہ میں ذکرکردہ طریقے سے اگر نظر اترتی ہے تو یہ طریقہ درست ہے، اصل میں نظر کو دور کرنے کے بہت سے طریقے مختلف علاقوں میں رائج ہیں جیسے کہ بعض لوگ لو بان اور نیرہ ( خاص پودا) کے دھویں سے دھونی دیتے ہیں ، بعض لوگ پھٹکری سے نظر کا علاج کرتے ہیں او راہل عرب میں وہ طریقہ رائج تھا کہ نظر لگانے والے کے اعضاء کا پانی جس کو نظر لگتی تھی اس پر ڈال دیتے تھے،الغرض یہ سب طریقہائے علاج ہیں نظر کو دور کرنے کے لیے جو کہ تجربات او رمشاہدات سے ثابت ہیں، عقل اور سمجھ کی رسائی سے بالاتر ہیں، لیکن یہ بات یاد رہے کہ موثر حقیقی صرف اور صرف الله جل شانہ کی ذات ہے ، اس لیے یہطریقے بھی الله تعالیٰ کے حکم سے نظر بد کو دفع کرتے ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ نظر کا لگنا اچھا لگنے یا خوب صورتی کی وجہ سے ہوتا ہے یہ ضروری نہیں ہے، بلکہ نظر لگانے والے کی نظر میں اگر حسد یا دشمنی ہو تو تب بھی نظر لگتی ہے ، علماء کرام نے لکھا ہے کہ بعض لوگ جن کی نظر لگتی ہے ان کا بیان ہے کہ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں سے حرارت نکلتی ہے، علامہ ابن جوزی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ نظر اس وقت لگتی ہے جب کسی کو اچھی نظر سے دیکھا جائے اور اس میں حسد کا شائبہ ہو اور نظر لگانے والا گندی فطرت والا ہوتا ہے، جیسے زہریلے سانپ ہوتے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر معشوق کو عاشق کی نظر لگ جاتی ، لہٰذا یہ نظر کا لگنا حسد ، بغض ، کینہ اور دشمنی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے اور کفار کو بھی نظر لگتی ہو گی جس کا وہ کوئی علاج کرتے ہوں گے، اس لیے کہ یہ کوئی شرعی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا علاج تجربات اور مشاہدات سے ہوتا ہے ۔
جانوروں کی مصنوعی نسل کَشی کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بچھڑے کی مطلوبہ نسل کے حصول کے لیے گائے میں بیج ڈالا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیں۔
جواب… الله تعالیٰ نے جانوروں کو انسان کے نفع کے لیے پیدا فرمایا ہے، لہٰذا بچھڑے کی مطلوبہ نسل کے حصول کے لیے گائے میں بیج ڈالنا درست ہے، لیکن خلاف فطرت عمل کرنے کی بنا پر کراہت تنزیہی لازم آئے گی۔
مذکورہ حکم تو تب ہے جب کہ گائے میں ڈالا جانے والا بیج بیل یا کسی دوسرے حلال جانور کا ہو ، لیکن اگر اس بیج میں انسان یا خنزیر کے جین شامل کیے گئے ہوں، تب مطلوبہ نسل کے حصول کے لیے طریقہٴ مذکورہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔
بچی کا نان ونفقہ مدت گزرنے کے بعد ساقط ہو جائے گا یا نہیں؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
میں نے اپنی اہلیہ کو تقریباً آٹھ سال پہلے طلاق دے دی تھی اور اس وقت میری ڈیڑھ مہینے کی ایک بچی بھی تھی ، جو اپنی والدہ کے پاس رہی اور میری اہلیہ کی چار سال پہلے دوسری جگہ شادی ہو گئی ، جس کے بعد وہ بچی اپنے نانا کے پاس رہی۔
اب جب بندہ نے اپنی بچی کا مطالبہ کیا، تو بچی کے نانا نے کہا کہ ہم نے جو بچی پر خرچ کیا ہے وہ خرچہ دو اور اس میں وہ ہر دن کے خرچے کا حساب کرکے تقریباً اسی، چراسی ہزار روپے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا بچی کے ناناکو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بچی پر کیے ہوئے خرچے کا مجھ سے مطالبہ کریں؟ اگر ہے تو کس اعتبار سے مجھے خرچ دینا پڑے گا؟
جواب…واضح رہے کہ جب تک بچے کمانے کے قابل نہ ہو جائیں ، اس وقت تک ان کا خرچ باپ کے ذمے واجب ہے ( چاہے اس عرصے میں وہ باپ کے پاس ہوں یا علیحدہ، بہر دو صورت یہی حکم ہے)
سابقہ مدت کے دوران آپ نے چوں کہ بچی کا خرچ ادا نہیں کیا جس کی بنا پر ترکِ واجب کا گناہ ہوا، لہٰذا اب فوری طور پر توبہ واستغفار کرکے آئندہ کے لیے بچی کا خرچ ادا کرنے کی فکر کریں ، ( جب تک رشتہ ازدواج سے منسلک نہ ہو جائے)۔
رہی یہ بات کہ سابقہ مدت کے دوران جو خرچ آپ نے ادا نہیں کیا اب اس کی ادائیگی آپ کے ذمے باقی ہے یا نہیں ؟ تو اس بارے میں شریعت مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ اس خرچ کی ادائیگی اب آپ کے ذمے باقی نہیں رہی ، مدت گزر جانے کے بعد یہ خرچ ساقط ہو چکا ہے، شریعت مطہرہ کی رو سے اب آپ سے اس خرچ کے مطالبے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے، نہ بچی کے نانا کو او رنہ ہی کسی او رکو، باقی بچی کا جو خرچہ نانا یا کسی اور نے برداشت کیا ہے، اس کا اجر وثواب ان کو ملے گا۔
قطروں کے مریض بوڑھے شخص کے لیے نمازوں اور روزوں کی قضاء کا طریقہ اور حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں :
1...ایک آدمی کو پیشاب آنے کی بیماری لاحق ہوئی ہے بول کے قطرے دن رات جاری رہتے ہیں بند نہیں ہوتے، اس آدمی سے ایک مہینے کی نمازیں قضاء ہو گئی ہیں ،اب اس آدمی پر قضا شدہ نمازوں کا اعادہ لازمی اور فرض ہے یا نہیں؟ اگر فرض ہے توکیا صورت ہو گی جب کہ قطرے مسلسل آرہے ہیں ،نیز یہ آدمی ان قضاء شدہ نمازوں کی بدلے میں فدیہ دے سکتا ہے یا نہیں؟ اورحال یہ ہے کہ آدمی 70 سال کا ہے، اگر فدیہ دینے کی گنجائش ہے تو کیا صورت ہے ؟
2... اسی طرح اس آدمی سے رمضان کی روزے بھی رہ گئے ہیں، روزوں کی قضاء کی کیا صورت ہے؟ نیز روزوں کا فدیہ دے سکتا ہے یا نہیں؟ مسئلے کا مدلل انداز میں جواب پیش کرکے ممنون فرمائیں۔
جواب… صورتِ مسئولہ میں اگر اس شخص پر ایک نماز کا کامل وقت اس حال میں گذر جائے کہ وہ پاکی حاصل کرکے نماز نہ پڑھ سکے تو یہ شخص شرعاً معذور ہے اس کا حکم یہ ہے کہ یہ شخص ہر نماز کے وقت تازہ وضو کر لے اور پھر اس وضو سے وہ تمام نمازیں چاہے فرائض ہوں یا نوافل ،اداہوں یا قضاء، پڑھ سکتا ہے۔
چناں چہ مذکورہ شخص اگر کسی بھی طریقے سے ( بیٹھ کر ، لیٹ کر یا اشارے سے) نماز پڑھنے پر قادر ہو، تو نماز پڑھنا اس کے ذمے لازم ہے، لہٰذا یہ شخص مذکورہ بالا طریقے کے مطابق تمام اداء وقضاء نمازیں پڑھے گا او راگر نمازیں نہیں پڑھیں تو مرنے سے پہلے فدیہ کی وصیت کرنا لازم ہے ، چناں چہ اس کے مرنے کے بعد ہر نماز کے بدلے ایک فدیہ دیا جائے گا ، زندگی میں نماز کا فدیہ دینا جائز نہیں۔
2...اس صورت میں بھی اگر یہ شخص روزہ رکھنے پر قادر نہیں اور آئندہ بھی اس کی امید نہیں کہ وہ روزہ رکھ سکے گا تو اس شخص پر ہر روزے کے بدلے ایک فدیہ دینا لازم ہے۔
ایک نماز اور روزے کا فدیہ صدقة الفطر کے برابر ہے ، یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت، اور یہ ایک مسکین کو بھی دیا جاسکتا ہے او رمتفرق طور پر کئی مسکینوں کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
عورتوں کے قبرستان جانے کا حکم
سوال…کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: عورتوں کا قبرستان میں جانا کیسا ہے ؟ جبکہ بعض لوگ اپنی عورتوں کو قبرستان میں بالکل نہیں جانے دیتے اور وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ مُردے عورتوں کو برہنہ دیکھتے ہیں( عورتیں ان کو برہنہ نظر آتی ہیں)، چناں چہ اگر کوئی عورت اپنے کسی عزیز کی قبر کو دیکھنے کے لیے بے قرار ہو جائے تو اس کو اس قبر والے ، والی کی قبر کی مٹی چٹائی جاتی ہے جس سے ان کی بے قراری کو قرار آجاتا ہے۔
نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قبر پر چلی جائے تو پھر رات کو وہ عورت خواب میں ڈر جاتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ ان کا فقط عام قبرستان کے ساتھ ہے ورنہ کسی مزار پر جانے سے نہیں روکا جاتا او راس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ مزاروں میں عورتوں کی جگہ قبر سے ہٹ کر ہوتی ہے بالکل قریب عورتوں کو نہیں جانے دیا جاتا ،جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ بسا اوقات اس خاص جگہ تک پہنچنے کے لیے بھی آس پاس کی قبروں کو عبور کرنا پڑتا ہے جس کویہ لوگ بُرا نہیں سمجھتے یا شاید مجبوری کی وجہ سے گنجائش سمجھتے ہوں، لہٰذا شریعتِ مطہرہ کی رو سے راہ نمائی فرمائیں۔
جواب… واضح رہے کہ قبرستان جانا اگر مردوں کو ایصالِ ثواب کرنے اور اپنے اندر آخرت اور موت کی فکر پیدا کرنے کے لیے ہو تو یہ ایک اچھا عمل ہے، چوں کہ عورتیں عموماً اس امر کا لحاظ نہیں رکھ پاتیں، او راپنے اعزہ واقارب کی قبروں کو دیکھ کر رونا پیٹنا، چیخنا چلانا اور اس جیسی دیگر حرکات شروع کر دیتی ہیں، جس سے قبرستان جانے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، او رقبروں کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے شریعت مطہرہ نے اس بارے میں یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ نوجوان عورت کا قبرستان جانا تو درست نہیں، البتہ بوڑھی عورت جاسکتی ہے بشرطیکہ بالکل باپردہ ہو کے جائے اور ناجائز امور میں سے کسی امر کا ارتکاب نہ کرے۔
خلاصہ یہ کہ عورتوں کے قبرستان جانے سے ممانعت کی وجہ فتنے کا خوف اور ان مفاسد کا ارتکاب ہے ، باقی عوام الناس میں اس کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں وہ سب من گھڑت اور بے بنیاد ہیں، ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔