Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1435ھ

ہ رسالہ

8 - 17
ملت کے نوجوانوں سے!

مولانا اعجاز احمد اعظمی (انڈیا)
	
مسلمان نوجوانو! ایک شخص جو نوجوانی اور جوانی کے مرحلوں کو گزار کر بڑھاپے کی حد میں داخل ہوچکا ، کاغذ کے ان صفحات پر تم سے کچھ خطاب کرنا چاہتا ہے ، اس کا بوڑھا دل بے قرار ہے ، کمزور ہڈیاں درد سے بے تاب ہیں ، وقت کی گردش نے تجربات کی بھٹی میں خوب پکایا ہے ، اس کا جی چاہتا ہے کہ تم سے کچھ باتیں ! جن کا تعلق اس کے نفع ،نقصان سے نہیں ، خود تمہارے نفع اور نقصان سے ہے اور وہ بات اس کی نہ ہوگی ، اس کی کیا حیثیت کہ وہ ملت کے قیمتی سرمایہ میں تصرف کرے ؟ وہ باتیں تمہارے اور ساری کائنات کے خالق ومالک کی ہوں گی ، جو ان کے برگزیدہ پیغمبر ، جوہمارے ، تمہارے سب سے بڑے مرکز اطاعت ومحبت ہیں، بلکہ مرکز ایمان ہیں اور جن کے تعلق سے بڑھ کر ہمارے پاس کوئی سرمایہ نہیں ، ان کے لیے ہر سرمایہ ،ہر عزت ومرتبہ ، ہر دولت وحکومت قربان! خاندان بھی ، خویش واقارب بھی ، بلکہ دل وجان بھی! سب ان کی بارگاہ میں نذر! جن کی صداقت وحقانیت میں نہ کسی دوست نے شبہ کیا اور نہ کسی دشمن نے ! دنیا ادھر سے ادھر ہوسکتی ہے، مگر ان کے قول وعمل کی سچائی پر آنچ نہیں آسکتی ، ہرزمانے میں ملت اسلامیہ کو جو سربلندی حاصل ہوئی ہے ، انھیں کی نسبت کی برکت سے ہوئی ہے اور جو انحطاط وزوال آیا ، اسی تعلق ونسبت کے ضعف واضمحلال سے آیا ہے ، یہ بات بالکل حق ہے ، اسی طرح حق ہے ، جیسے تمہارا نوجوان ہونا حق ہے ، بلکہ اس سے بڑھ کر!

حق کی باتیں ، دنیا بھر کے انھیں سب سے سچے برگزیدہ پیغمبر نے دنیا کو سنائی ، تم الله کو بھی مانتے ہو ، ان کے سچے رسول کو بھی مانتے ہو ، دونوں پر پختہ ایمان رکھتے ہو ، تو کیا ایسا نہ ہوگا کہ ان کی باتیں تمہارے قلب کی گہرائیوں میں اتر کر تمہارے دماغ ، تمہارے کردار واعمال کو مسخر کرلیں ! بے شک ایسا ہی ہوگا۔

پھر تم سے کہتا ہوں کہ ایک لمحہ ٹھہر کر اپنے دل ودماغ ، اپنے فکر وخیال کا جائزہ لو ، اپنے مقاصد ، اپنی خواہشوں اور اپنے میلانات کو دیکھو ، پھر اپنے سب سے بڑے مرکز محبت واطاعت کی باتیں سنو! اور دونوں کا موازنہ کرو کہ ان کے ارشاد اور ان کے احکام سے کوئی مناسبت پاتے ہو، اگر پاتے ہوتو اس عظیم نعمت پر الله کا بہت شکر ادا کرو اور اگر نہ پاوٴتو ذرا فکر کرواور سنجیدگی سے غور کرو ۔ بس اس ایک بات کو اپنے دل میں اچھی طرح جماوٴ، اگر معتبر ہے تو انھیں کی بات! اگر قابل یقین ہے تو انھیں کا کلام ! اگر مستحق اطاعت ہے تو انھیں کا فرمان! ان سے الگ نہ کسی کی بات معتبر ، نہ کسی کا کلام لائق یقین اور نہ کسی کا حکم قابل اطاعت!

اب سنو! انھیں سب سے سچے برگزیدہ پیغمبر ،ا لله کے آخری نمائندے سیّدنا حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کاایک فرمان سناتاہوں ، اسے آپ سے براہ راست سننے والے اور ہم سے بیان کرنے والے مشہور برگزیدہ صحابی حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ ہیں ، امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب میں اسے کم ازکم چار جگہ درج کیا ہے ، میں اس حدیث کو تمہیں سناتا ہوں:

عن ابی ھریرہ رضی الله عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: سبعة یظلھم الله فی ظلہ یوم لاظل الا ظلہ، الامام العادل، وشاب نشأ فی عبادة ربہ ورجل قلبہ معلق بالمساجد، ورجلان تحابافی الله اجتمعا علیٰ ذٰلک، وتفرقاعلیہ، ورجل طلبتہ امرأة، ذات منصب وجمال، فقال: انی اخاف الله، ورجل تصدق اخفی حتی لایعلم شمالہ ماتنفق یمینہ، ورجل ذکر الله خالیاً، ففاضت عیناہ․ (حدیث: 660، 1423، 6479، 6801)

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سات آدمیوں کو الله تعالیٰ اپنے خاص سائے میں پناہ دیں گے ، اس روز جب کہ الله کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔1. انصاف ور حاکم  2.. وہ جوان جس کی نشوونما اس کے رب کی عبادت میں ہوئی ہو 3..  وہ آدمی جس کا دل مسجدوں میں اٹکاہواہو  4..  وہ دو آدمی جنھیں آپس میں محض الله کے لیے محبت ہو ، اسی محبت کے ساتھ دونوں ملیں اور اسی پر دونوں الگ ہوں 5..  وہ آدمی جسے کوئی خوب صورت اور صاحب منصب عورت نے چاہا ، مگر وہ یہ کہہ کر ہٹ جائے کہ مجھے الله کا خوف ہے 6..  وہ آدمی جس نے اس پوشیدہ طور پر صدقہ کیا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوسکی کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے 7.. وہ آدمی جس نے تنہائی میں الله کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

ملت اسلامیہ کے نوجوانو! رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فدائیو! دین اسلام کے شیدائیو! ذرا اس فرمان کو غور سے پڑھو اور دیکھو کہ اس میں تمہارا کتنا حصہ ہے؟

عرشِ الٰہی کے سایہ میں جگہ پانے والوں میں ایک نام تو خاص اس گروہ کا ہے جس سے تمہارا تعلق ہے ، یعنی شاب نشأ فی عبادة ربہ، وہ جوان جس کی نشوونما ہی اس کے رب کی عبادت وبندگی کی مشغولیت میں ہوئی ۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے ، خواہشوں کا طوفان اس میں اٹھتا رہتا ہے ہر لذت پر نوجوانی ٹوٹ کر گرتی ہے ، پوری دنیا رنگین دکھائی دیتی ہے ، رگوں میں گرم گرم خون دوڑتا ہے ، تو آدمی کو آوارگی کی راہیں ہر طرف کھلی دکھائی دیتی ہیں ،اور کھیل کود کی طرف طبیعت لپکتی ہے ، ہر بظاہر خوب صورت چیز پر دل مچلتا ہے ، لہوولعب میں رات آنکھوں میں کٹ جاتی ہے اور پتہ نہیں چلتا ، نفس کی ہر لذت پر ایسی دیوانگی ہوتی ہے کہ ماضی و مستقبل سب سے آدمی کٹ کر رہ جاتا ہے ، طاقت کا نشہ چھاتا ہے تو ظلم وستم کا ہر کام اپنی ضرورت بن جاتا ہے ، دولت ہاتھ آتی ہے تو نہ جانے کتنے لوگوں کے حقوق پامال ہوجاتے ہیں ، واقعی نظر بظاہر جوانی دیوانی ہوتی ہے۔

لیکن وہ جوان کتنا مبارک ہے ، الله کی نگاہ میں کتنا پیارا ہے، رسول الله( صلی الله علیہ وسلم) کی آنکھوں کا کیسا تارا ہے ؟ جس کی جوانی کی قوت کام آتی ہے ، تو اس کے پروردگار کی بندگی میں ! وہ بھی لذت کا جویا ہے ، مگر اپنے مالک کی رضاجوئی میں ! اس کے سامنے بھی عمل کی ہر راہ کھلی ہوتی ہے ، مگر وہ اس راہ پر دوڑتا ہے جس کی لذتیں اور راحتیں ابدی اور لافانی ہیں ، اس کی رگوں میں بھی گرم خون دوڑتا ہے اور اس کی راتیں آنکھوں میں کٹ جاتی ہیں ، مگر لہوولعب میں نہیں ، بلکہ عبادت وبندگی میں ، تضرع وزاری میں ، جذبہٴ محبت واطاعت میں! اسے جب دولت حاصل ہوتی ہے ، تو اس کی نظر غریبوں ، کمزوروں اور پریشان حالو ں پر پڑتی ہے ، وہ روتے ہووٴں کے آنسو پونچھتا ہے ، وہ غریبوں کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتا ہے ، وہ کمزوروں کی مدد کرتا ہے ،تو وہ ذات جو تمام دولت وطاقت کاسرچشمہ ہے ، اسے اپنی خاص مہربانی سے ، ہر غم سے سبک دوش ، ہر مصیبت سے آزاد اور اس کے ہر درد کا مداوا کرتی ہے اور اس کا آخری نقطہٴ عروج یہ ہوتا ہے کہ جس دن تمام کائنات اپنے اپنے نامہٴ اعمال میں بدحال ہوگی اور ایسی دھوپ ہوگی جس میں کہیں سایہ نہ ہوگا ، صرف ایک سایہ ہوگا ٹھنڈا اور راحت بخش اور وہ عرش الٰہی کا سایہ ہوگا ، اس میں جوانی کا یہ صاحب کردار اعزاز واکرام اور خوشی وآرام کی لذت میں ہر غم سے بے نیاز ہوگا۔

تم دیکھو اور بتاوٴ کہ جوانی کو کس راہ پر ڈال رہے ہو اور اس کی طاقت اور اس کے جوش کو کس کام میں لارہے ہو ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہاری یہ طاقت اور تمہارا یہ جوش محض فضول اور جھوٹی لذتوں میں برباد ہورہا ہے ؟ تمہاری راتیں کہیں صرف لہوولعب میں تاریک سے تاریک تر تو نہیں ہورہی ہیں ؟ تمہاری آنکھیں محض عارضی اور چنددنوں میں ختم ہوجانے والے یا پردوں پر تھرکتے ناچتے بے جان حسن وجمال کے نظارے میں تباہ تو نہیں ہورہی ہیں؟ ذرا اپنے کانوں کا خیال کرو ، ان میں کس طرح کی آوازیں گھس رہی ہیں ، کہیں ایسا تو نہیں کہ صرف گانے بجانے کی حرام اور نجس آوازیں کان کو گندہ کررہی ہیں؟ اپنی زبان پر توجہ دو، الله کی عظیم نعمت ، جس نے تمہیں جانوروں کی صف سے نکال کر انسانوں کے زمرے میں پہنچایاہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کا استعمال صرف شیطانی الفاظ وکلمات کے لیے ہورہا ہے ، گالیاں ، فحش کلامیاں ، جھوٹ اور دوسری آفات اور بلاوٴں میں تو مبتلا نہیں ؟ جوانی یہ سب راستہ دکھاتی ہے ، کہیں تمہاری جماعت اس پر تو نہیں دوڑ رہی ہے ، یاد رکھو! یہ راستہ جہنم کو جاتا ہے ، اگر اس پر دوڑوگے تویہ دوڑ تم کو وہاں پہنچا دے گی جس سے تم کو بچانے کے لیے پیغمبر ں نے اپنی ساری طاقت اور تمام تر صلاحیت صرف کی تھی ، کیاان کی محبت ، ان کی دل سوزی ، ان کی راتوں کی آہ وزاری کا تم یہی حق ادا کررہے ہو؟!!

Flag Counter