Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1435ھ

ہ رسالہ

5 - 17
ہندوستان میں تدریس حدیث ۔۔۔ فنی اور تاریخی نقطہ نظر سے

محترم اختر امام عادل قاسمی
	
قدیم بہار کی علمی سربلندی
مجھے اس مناسبت سے اس قدیم ہندوستان کی علمی سربلندی کا تذکرہ کرنے کا جی چاہتا ہے جس میں بہار ایک مرکز علم کی حیثیت سے معروف تھا اور پورے ہندوستان کے لیے سرمایہٴ افتخار تھا ،مولانا گیلانی نے مولانا غلام علی آزاد بلگرامی  کی مآثرالکرام اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی اخبار الاخیار کے حوالوں سے لکھا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کے دودمان عالی کے مشہور بزرگ شیخ عبدالعزیز شکربار کے دادا شیخ طاہر نے تحصیل علم کے لیے ملتان سے بہار کا سفر کیا اور شیخ بدھ(یابودھن) حقانی  کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ (اخبار الاخیار ص 195،مآثرالکرام ص 43)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں بہار علم کا بڑا مرکز تھا، اور دوردراز سے لوگ تحصیل علم کے لیے یہاں آتے تھے اور خاص بات یہ تھی کہ ابتدا سے لے کر انتہائی درجات تک کی مکمل تعلیم کا یہاں معقول انتظام تھا ،اسی لیے یہاں کے طلبہ کو تحصیل علم کے لیے بہار سے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ،ملاموہن بہاری ،جو بعد میں شہزادہ اورنگ زیب کے استاذ ہوئے آزاد #بلگرامی کے بقول ان کی اول سے آخر تک تعلیم بہار ہی میں ہوئی اور یہاں ان کے علم کی شہرت ہی سے متأثر ہوکر بادشاہ شاہجہاں کی توجہ ان کی جانب ہوئی ۔(دیکھئے مآثر الکرام ص43)

ملااحمد سعید مفتی عساکر شاہجہانی کے بارے میں معروف ہے کہ وہ بہار کے تھے اور ان کی پوری تعلیم بہار ہی میں ہوئی تھی ،اپنے والد ملا سعد سے تعلیم حاصل کی۔(بادشاہ نامہ ج 2 )بہار کی اس علمی خود مختاری کا اعتراف حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی کیا ہے ،لکھا ہے کہ :
بہار مجمع علماء بود ۔(نظام تعلیم وتربیت ص 48)
ترجمہ : بہار سربرآوردہ علماء کا مرکز تھا ۔

اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں زیادہ تر علماء ومحدثین ہندوستان کے اسی قدیم نصاب تعلیم کے پڑھے ہوئے تھے، جس میں حدیث کے نام پروہی تین کتابیں(جن کا ذکر اوپر ہوا) پڑھائی جاتی تھیں ،اس کے بعد طلبہ میں اتنی صلاحیت پیدا ہوجاتی تھی کہ وہ اپنا علمی سفر جاری رکھ سکیں اور فضل وکمال کی بلندیوں تک پہنچیں ،اکثر اہل کمال محض ان درسی کتابوں پر قناعت نہیں کرتے تھے …۔

محدث کی شرائط
اگر چہ کہ تاریخی علوم کی کتابوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض کوتاہ نظرعلماء اس دور میں بھی ایسے تھے ،صرف ہندوستان میں نہیں، بلکہ ہندوستان سے ترکستان تک ایسے کچھ لوگ ضرور موجود تھے ،جن کے نزدیک مشارق الانوار للصغانی  اور مصابیح السنة للبغوی  علم حدیث کی معراج سمجھی جاتی تھی، اور اگر کسی کی رسائی جامع الاصول لابن اثیر،  علوم الحدیث لابن الصلاح  اور التقریب للنووی تک ہوگئی تو اس کو محدث المحدثین اور بخاری العصر جیسے خطابات کا مستحق سمجھا جاتا تھا ،جب کہ اہل حقیقت کے یہاں اتنے سے علم سے کسی کو پورا محدث نہیں مانا جاسکتا تھا ،یہ طالب علمی کا درجہٴ نہائی تھا ،نہ کہ علم حدیث کا ،اہل نظرکے نزدیک ابتدائی درجے کے محدث کے لیے شرط یہ تھی کہ اس کی نگاہ مسانید وعلل ،اسمائے رجال ،سند عالی ونازل پر ہو، اس کے علاوہ بے شمار متون حدیث اس کے حافظہ میں ہو ں،صحاح ستہ ،مسند امام احمد بن حنبل ،سنن بیہقی  ، معجم طبرانی اوراجزائے حدیث میں سے ایک ہزاراجزا کی اس نے سماعت کی ہو ،نیز کتب طبقات کا اس نے مطالعہ کیا ہو ،مشائخ حدیث پر اس کی نظر ہو، ان کے حالات اور سنین وفات سے واقف ہو ، …یہ محدثیت کی پہلی منزل ہوتی تھی ،ابھی علم کے آسماں اور بھی ہیں ،…یہ تھا ہندوستان کے عہد قدیم کا تصور علم حدیث اوراس کے ثمرات ،ان باتوں کا تذکرہ علامہ تاج الدین السبکی  کے حوالہ سے متعدد مصنفین نے کیا ہے ۔(دیکھیے کشف الظنون لمصطفیٰ بن عبداللہ کاتب چلپی القسطنطینی (م 1067ھ)ج ۱ص 635ط بیروت،ابجد العلوم الوشی المرقوم فی بیان احوال العلوم ،محمد صدیق حسن خان القنوجی  (م 1307ھ)ج 2 ص 227ط دارالکتب العلمیة بیروت 1978ء ،فہرس الفہارس والاثبات ومعجم المعاجم والمشیخات والمسلسلات ،لمحمد عبدالحی بن عبدالکبیر الکتانی (م 1382ھ)ج ۱ ص ۷۵ ط دارالغرب الاسلامی بیروت، 1982ء)

ایک وضاحت
اس تفصیل سے اس عام تصورپر بھی زد پڑتی ہے جس میں کہاجاتا ہے کہ مشارق الانواراور مصابیح السنة پر حدیثی انحصار کے تصور کو سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی  نے توڑا ،جب کہ مذکورہ حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فکر بہت قدیم ہے اور اس کی تغلیط بھی بہت قدیم سے ہورہی ہے ،حضرت شاہ صاحب  کا کام یہ ہے کہ انہوں نے ان معلومات کو عام کیا اور حدیث کے مطلوبہ معیار کے لیے ہندوستان میں مفید کوششیں کیں،جو دراصل حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی  کے مساعی جمیلہ کا ایک تسلسل تھا ۔

مشارق الانوار -کتاب اور صاحب کتاب
اس موقعہ پر مشارق الانوار کامختصر تعارف بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ،اس لیے کہ یہ وہ کتاب ہے جو ایک طویل عرصے تک ہندوستان کے واحدسرمایہٴ حدیث کی حیثیت سے نصاب تعلیم کا حصہ رہی اور قدیم وجدید تمام تذکروں میں اس کتاب کا نام آتا ہے ،لیکن آج بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے اس کتاب کی زیارت کی ہو یاکتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں ضروری معلومات رکھتے ہوں ،جب کہ اہل علم کو خصوصاً تدریس حدیث سے وابستہ علماء کو اپنے اس قدیم سرمایہٴ حدیث کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

اس کتاب کا پورا نام ”مشارق الانوار النبویةمن صحاح الاخبار المصطفویة “ہے اورمصنف ہیں امام رضی الدین حسن بن محمدبن حسن بن حیدر العدوی الصغانی الحنفی(م 650ھ)یہ صحیح احادیث کا مجموعہ ہے ،احادیث کی تعداد شارح مشارق سعید بن محمدبن مسعودالکازرونی (م 758ھ) کے مطابق دوہزار دوسو چھیالیس(2246) ہے ،کازرونی کی شرح کا نام ”المطالع المصطفویة “ ہے ،ہر باب یا نوع کے آخر میں احادیث کی تعداد بھی ظاہر کردی ہے ،مصنف کے بقول اس کتاب کی تالیف میں خلیفہ المستنصربن الظاہر بن الناصربن المستضی کا مالی تعاون شامل رہا ہے ،کتاب کا آغازاس خطبہ سے ہوتا ہے : الحمد للہ محی الرمم ومجری القلم …الخ

ترجمہ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنے والا اور قلم کوچلنے کی قوت بخشنے والا ہے، اس کتاب میں بارہ ابواب ہیں اور ہر باب میں کئی فصلیں ہیں،آخری باب ”جوامع الادعیة“ کے بارے میں ہے ،اس کتاب کی بے شمار شروح وحواشی اور شروحات کی شروحات بڑے بڑے اہل علم اور فاضل مصنفین کے قلم سے لکھی گئیں،یہ دنیا کی چند ان کتابوں میں ہے جن کو سمجھنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں اور جن کو ایک طویل عرصہ تک دنیا ئے اسلام کے تعلیمی اداروں میں نصابی حیثیت حاصل رہی ،چند مشہور شروحات کے نام یہ ہیں
٭... تحفة الابرار فی شرح مشارق الانوار -علامہ اکمل الدین بابرتی  (م786ھ)،
٭...شوارق الاسرار العلیة فی شرح مشارق الانوار النبویة - محمد بن یعقوب الفیروزآبادی الشیرازی (م 871ھ)۔
٭...المطالع المصطفویة-سعید بن محمدبن مسعودالکازرونی (م 785ھ)۔
٭...دقائق الآثار فی مختصر مشارق الانوار -محمد بن محمد الأسدی القدسی (م808ھ)۔
٭...حاشیة علی المشارق -شیخ قاسم بن قطلوبغا الحنفی  (م 879ھ) وغیرہ (کشف الظنون ج 1 ص 635)۔

مصنف کتا ب شیخ رضی الدین الصغانی کا تعلق ماوراء النہر کے شہر ”صغان “سے ہے ،آپ کی پیدائش 577ھ میں لاہور میں ہوئی ،نسباً فاروقی ہیں ،اپنے والد ماجد سے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد بغداد کا سفر کیااور تا حیات وہیں قیام رہا،ایک زمانے تک مکہ میں بھی قیام کیا ،مکہ معظمہ ،عدن اور ہندوستان کے بے شمار مشائخ حدیث سے سماعت حدیث کی ،بڑے محدث، فقیہ اور ادیب تھے ،کئی اہم کتابیں لکھیں ،مثلاً کتاب الشوارد فی اللغات،کتاب الافتعال ،مصباح الدجیٰ،الشمس المنیرة ،شرح البخاری اور لغت کی ایک کتاب العباب وغیرہ ،650ھ میں بغداد میں انتقال کیا، حسب وصیت نعش مبارک مکہ معظمہ لے جائی گئی ،اس طرح ان کی وہ آرزو پوری ہوئی جو انہوں نے مشارق الانوار کے آغاز میں مکہ معظمہ میں دفن ہونے کے تعلق سے تحریر کی ہے ،اللہ پاک نے ان کی دعا سن لی اور حرم الٰہی کا جوار نصیب ہوا فرحمہ اللہ ۔(ابجد العلوم للقنوجی  ج3 ص 216)

٭...”مشارق الانوار “ہی کے نام سے ایک کتاب اور بھی ہے ،جو بازار میں چھپی ہوئی ملتی ہے، مگر اس کا پورانام ”مشارق الانوار علیٰ صحاح الآثار “ ہے ،اس کے مصنف قاضی ابو الفضل عیاض بن موسیٰ الیحصبی المالکی (م 544ھ)ہیں ،یہ علامہ صغانی سے متقدم ہیں ،زبان خالص ادب عالیہ کی استعمال کی ہے ،اس کتاب کا موضوع ہے مؤطا امام مالک ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم  کے اجنبی اور مشکل الفاظ کی تشریح وتحقیق ، …اپنے موضوع کے لحاظ سے کتاب بہت مفید ہے ،المکتبة العتیقة ودارالتراث سے دو جلدوں میں چھپ گئی ہے ۔(دیکھیے کتاب کاسرورق )

حیرت ہے کہ” مکتبہ الشاملہ “والوں نے اس کتاب کو اپنی فہرست میں شامل کیاہے ،مگر علامہ صغانی  کی ”مشارق الانوار “کو جگہ نہیں دی ہے۔

کتب حدیث کی اقسام-عہد بہ عہد
٭...یہاں ایک بحث پر اپنی گفتگو کوختم کروں گاکہ کتابت حدیث کا عمل یوں تو معلوم تاریخ کے مطابق عہد نبوی ہی سے جاری ہے ،لیکن باقاعدہ تدوین حدیث کا عمل حضرت عمر بن عبدالعزیز  کے زمانے سے شروع ہوا اور اس میں باضابطگی تیسری صدی ہجری میں آئی ،اس کے بعد سے علم الحدیث پرمختلف جہتوں سے کام ہوئے ،اور ہر صدی میں کوئی نہ کوئی نئی جہت سامنے آتی رہی،اس کے لیے ہم احادیث کے تحریری ذخیرہ کا جائزہ لیں اور کتابوں کے صرف اقسام پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ہر دور کے مجتہدین فی الحدیث نے کام کی کن کن جہتوں کی دریافت کی تھی اور کتنے زاویوں سے انہوں نے احادیث رسول کی خدمت انجام دی تھی،مثلاً :
٭...عہد تابعین میں ایک صحیفہٴ ہمام ابن منبہ کا ذکر آتاہے ،جو اب مطبوعہ صورت میں ہمارے پاس موجود ہے ،یہ حضرت ابوہریرہ کی روایات کا مجموعہ ہے ۔
٭...پھرعہد تابعین ہی میں موضوعاتی مجموعے تیار ہونے شروع ہوگئے،ان میں سنن ابن جریج ، ابن اسحاق کی کتاب السنن اور کتاب المغازی ، امام ابوحنیفہ کی کتاب الآثار،امام مالک کی المؤطا ،سفیان الثوری کی کتاب التفسیر ،عبداللہ ابن مبارک کی کتاب الزہد والرقائق اور الاربعین فی الجہاد اور معمر ابن راشد کا ضخیم مجموعہٴ حدیث کتاب المغازی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
٭...تبع تابعین کے دور میں کتابوں کی اور بھی نئی قسمیں وجود میں آئیں ،مثلاً مسانید ،یعنی ہر صحابی کی روایات الگ الگ جمع کی جائیں ،یہ قسم اگر چہ کہ پہلے سے موجود تھی اور حضرت امام ابوحنیفہ  (جو کہ بلا شبہ تابعی تھے) کی مسانید الامام الاعظم  وجود میں آچکی تھی ،مگر یہ عام نہیں تھی ،اس ضمن میں مسند مسدِّد ابن مسَرہَد،مسند اسحاق ابن راہویہ ،مسند ابن ابی شیبہ  ،مسند ابی یعلیٰ الموصلی اور مسند امام احمد ابن حنبل  کو خصوصی شہرت حاصل ہوئی۔
٭...دوسری قسم مصنفات کی تھی ،یعنی اس میں احادیث مرفوعہ اور آثار صحابہ وتابعین دونوں جمع کردیے جائیں ،اس ضمن میں مصنف عبدالرزاق ابن ہمام الصنعانی  اور مصنف ابن ابی شیبہ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔
٭...سنن وصحاح کا سلسلہ بھی جاری رہااور بعد کے ادوار میں صحاح ستہ اور دیگر کتب سنن وجود میں آئیں ۔
٭...اسی دور میں اجزائے حدیثیہ اور فوائد کا سلسلہ شروع ہوا،یعنی ایسے رسائل جن میں کسی ایک معین موضوع کی روایات جمع کردی جائیں ،اس طرح کے بے شمار مجموعے وجود میں آئے ،مثلاً بقی بن مخلد القرطبی  کی جزء الحوض والکوثر ،ابواسحاق الحربی کی جزء اکرام الضیف ،ابن ذاذان  کی جزء تقبیل الید ،یہ موضوعاتی مجموعے ہیں ، ایک راوی یا ایک سند کی روایات کے اجزا بھی تیار ہوئے ،مثلاًجزء نسخة وکیع  عن الاعمش ،اور جزء اللیث بن سعد  وغیرہ ۔
٭...قرن رابع میں معاجم کا سلسلہ شروع ہوا اور طبرانی کی تینوں معاجم کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی:
1..معجم کبیر ،اس میں صحابہ کی مسندات جمع کی گئی ہیں ۔
2..معجم اوسط : اس میں اپنے شیوخ کی روایات کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے ۔
3..معجم صغیر :اس میں اپنے تمام مشائخ حدیث کی صرف ایک ایک روایت ذکر کی گئی ہے

٭...ان کے علاوہ معجم ابن قانع  اور معجم البغوی کو بھی شہرت حاصل ہوئی ۔
٭...حافظ ابو نُعیم کی کتاب ”حلیة الاولیاء“ اور دلائل النبوة قرن رابع کی مشہور تصانیف میں ہیں ،اسی طرح سنن دارقطنی اور صحیح ابن حبان بھی اسی دورکا کارنامہ ہے ۔
٭...قرن خامس میں امام حاکم نیشاپوری  نے مستدرک لکھی ،یعنی بخاری ومسلم کا ان کی شرائط کی روشنی میں از سرنو جائزہ لینا ،قطع نظر اس سے کہ ان کے استدراکات کارتبہ کیا ہے؟ حاکم کی مستدرک کو شہرت دوام حاصل ہوئی ،بعد میں علامہ ذہبی  نے اس کی تلخیص لکھی ۔
٭...اسی دور میں امام حاکم  کے شاگرد امام بیہقی کی السنن الکبریٰ، اور ”دلائل النبوة“ وجود میں آئی، یہ تسلسل بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا، علامہ ظہیر احسن شوق نیموی کی کتاب آثار السنن ،حضرت مولانا ظفر احمد تھانوی کی اعلاء السنن اور حضرت مولانا بدرعالم میرٹھی  کی ترجمان السنة اور حضرت مولانا منظور احمد نعمانی  کا اردو مجموعہ معارف الحدیث وغیرہ اسی خوب صورت تسلسل کی آخری کڑیاں ہیں ،میرے مربی ومحترم حضرت مولانا عتیق احمدقاسمی چندرسین پوری نے آثار السنن میں کتاب الزکوٰة کا اضافہ کیا،، (جو ابھی غیر مطبوعہ ہے) عمر نے وفا نہیں کی، ورنہ وہ پوری ہی کتاب کا تکملہ لکھنا چاہتے تھے…۔

آمدم برسرمطلب
اس پوری تفصیل کا مقصد آج کے دور میں اپنے طریقہٴ درس حدیث کا جائزہ لینا ہے،کیا اس میں ان نکات کا لحاظ کیا جاتا ہے ؟ کیا درجات کے فرق سے ہمارے مباحث کے درجہٴ حرارت میں بھی فرق آتا ہے ؟اور ہمارے یہاں اس کے لحاظ سے تیاریاں ہوتی ہیں ؟

لیکن میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ آج حدیث کے معاملے میں ہرطرف سناٹا سا محسوس ہوتا ہے ،فقہ کے بارے میں تھوڑی سی چہل پہل ابھی موجودہے، اس لیے کہ زندگی میں اس کی ضرورت پڑتی ہے ،لیکن تدریس حدیث میں وہ زندگی باقی نہیں رہی، جو چند دہائیاں قبل ہمارا امتیاز سمجھی جاتی تھی، آج ہمارے طریقہٴ تدریس میں کمی ہے یا نظام تعلیم میں؟ کہ اب وہ پہلوں والی بات ختم ہوتی جارہی ہے ،یہ ایک سوالیہ نشان ہے، جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے، اپنے آقا صلی الله علیہ وسلم سے ہمارا رشتہ کمزور ہورہا ہے ،یا علم الحدیث پر اب کسی نئے کام کی ضرورت باقی نہیں رہی ؟!کتابی سرمایے کے ماسوا رجال حدیث کا بھی قحط ہے ،ہماری متمول درس گاہیں اب ایسے رجال کارپیدا کرنے سے قاصر ہیں جو پچھلی درس گاہیں بے سروسامانی کے عالم میں پیدا کرتی تھیں ،ہمیں اپنے اندر کا بھی احتساب کرنا ہوگا،ترتیب بھی کچھ بدلنی ہوگی ،پچھلے مآخذ کی طرف رجوع کرنا ہوگااور ایک بار پھر علم حدیث کو ایک زندہ موضوع کی طرح ہمیں برتنا ہوگا ،اللہ پاک ہمارا معین ومددگار ہو۔ آمین!

Flag Counter