Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1435ھ

ہ رسالہ

2 - 17
دعا کی اہمیت اور احکام

مفتی ثناء الله خان ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

انسان ہر حال میں الله سے دعا مانگے نہ یہ کہ صرف پریشانی میں الله کو پکارے.انسان ہر حال میں الله تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط رکھے اور ہر حال میں الله تبارک وتعالیٰ کو پکارے۔

 حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں ایک عقل مند آدمی تھا اس نے حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت جانچنے کے لیے حضرت موسی علیہ السلام سے سوال کیا، کہ اگر آسمان کمان بن جائے اور یہ شجر حجر تیربن جائیں اور الله تعالیٰ تیر چلانے والے ہوں اور انسان اس کے نشانے پر ہوں تو انسان کے بچنے کی کیا راہ ہے ؟ تو حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان کے بچنے کی صورت یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے پاس جا کر کھڑا ہو جائے۔

ایک دفعہ سلطان محمود غزنوی رحمہ الله تعالیٰ بہت خوش تھے اور اس خوشی کی حالت میں اپنے وزراء میں اعلان کیا کہ آج تم میں سے جو شخص جو مانگے، اسے عطا کیا جائے گا، چناں چہ وزراء من پسند چیزیں مانگنے لگے، کسی نے زر مانگا تو کسی نے زمین ، کسی نے غلام مانگے تو کسی نے کنیزیں، غرض ہر ایک نے موقع غنیمت جانتے ہوئے جو اس کے ذہن میں آیا وہ مانگ لیا، جب سب نے مانگ لیا اور سلطان محمود رحمہ الله تعالیٰ کے پہلو میں آپ کا خادم خاص ایاز خاموش کھڑا رہا، سلطان ان سے مخاطب ہوا ، ایاز! سب دربار والوں نے مانگ لیا، تم نے کچھ نہیں مانگا تو ایاز نہایت ادب سے گویا ہوا کہ حضور جو مانگوں گا، وہ عطا کیا جائے گا؟ بادشاہ نے کہا کیوں نہیں؟! درباری بہت حیران تھے کہ آخر یہ کیا مانگنے والے ہیں ، جو اتنا اہتمام کر رہے ہیں ؟ تو ایاز نے سلطان محمود رحمہ الله تعالیٰ کے جواب میں اپنا ہاتھ سلطان محمود کے اوپر رکھ دیا، سب درباری ایاز کی ذہانت اور سلیقے پر دنگ رہ گئے، ایاز نے کہا کہ حضور! جب آپ میرے ہو گئے، تو پوری سلطنت میری ہو گئی۔

ان واقعات کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں الله تبارک وتعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہیے اور الله تبارک وتعالیٰ کو اپنانا چاہیے اور ہر حال میں اس ذات کو پکارنا چاہیے نہ یہ کہ جب خوشی کے دن ہوں تب تو خوب غفلت اور معصیت میں گزر رہے ہوں، نہ الله کا پتہ، نہ دین کے احکام کا لحاظ ، لیکن جب کوئی مصیبت آتی ہے تو پھر دوڑے دوڑے پھرتے ہیں اور الله کے سامنے گڑ گڑا رہے ہوتے ہیں او رپھر جیسے ہی مصیبت دور ہوئی ، تو وہی معصیت بھری زندگی ، یہ طرز عمل تو الله تعالیٰ نے کفار کا بتلایا ہے ۔ چناں چہ قرآن کریم کی آیت ہے:﴿وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّہُم مُّنِیْبِیْنَ إِلَیْْہِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَہُم مِّنْہُ رَحْمَةً إِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُم بِرَبِّہِمْ یُشْرِکُونَ ﴾․ (سورة الروم:33)

اور جب پہنچے لوگوں کو کچھ سختی ، تو پکاریں اپنے رب کو اس کی طرف رجوع ہو کر ، پھر جہاں چکھائی ان کو اپنی طرف سے کچھ مہربانی، اسی وقت ایک جماعت ان میں اپنے رب کا شریک بنانے لگی۔

ہمارا یہ طرز عمل نہ ہو، بلکہ خوشی میں، غمی میں ، دکھ میں، سکھ میں، امیری میں ،غریبی میں، ہر حال میں اس ذات کو پکارنے والے ہوں۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من سرہ ان یستجیب الله لہ عند الشدائد والکرب فلیکثر الدعاء فی الرجاء“․

جس کو یہ بات اچھی لگے کہ الله تعالیٰ سختیوں اور بے چینیوں میں اس کی دعا قبول فرمائیں تو اس کو چاہیے کہ خوش حالی میں بکثرت دعا کرے ۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب ماجاء ان دعوة المسلم مستجابة، رقم الحدیث:3382)

اور واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ صرف پریشانی میں الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں او راسی وقت ان کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں ان کا رابطہ الله تعالیٰ کے ساتھ بہت ضعیف ہوتا ہے، اس کے برعکس جو بندے ہر حال میں الله تعالیٰ سے مانگنے کے عادی ہوتے ہیں، الله تعالیٰ کے ساتھ انکا ربط قوی ہوتا ہے ، پس جو چاہے کہ پریشانیوں اور تنگیوں میں الله تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائیں، وہ عافیت اور خوش حالی کے دنوں میں الله تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ دعا کرے ، ان شاء الله تنگی کے دنوں میں اس کی دعا خاص طور پر قبول ہو گی۔

عجلت پسندی قبولیت دعا کے استحقاق کو کھو دیتی ہے
دعا بندے کی طرف سے الله تعالیٰ کے حضور میں ایک التجا ہے اور الله تعالیٰ مختار ہیں وہ بندے کی مانگ جلدی بھی پوری کر سکتے ہیں او راس میں کسی مصلحت سے دیر بھی ہو سکتی ہے اس لیے وہ کبھی تنگ دل ہو کر مانگنا چھوڑ دیتا ہے، یہ اس کی غلطی ہے جلد بازی سے قبولیت دعا کا استحقاق ختم ہو جاتا ہے، پس بندے کو چاہیے کہ اس در کا فقیر بنا رہے اور برابر مانگتا رہے ، رحمت خداوندی دیر سویر ضرور متوجہ ہو گی اور یقین رکھے کہ قبولیت کی تاخیر میں کوئی مصلحت ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”یستجاب لاحدکم مالم یجعل یقول: دعوت، فلم یستجب لی“․

یعنی تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلدی نہ مچائے ( اور جلدی مچانا یہ ہے کہ) کہے کہ میں نے دعا کی، مگر وہ قبول نہ ہوئی۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب یستجاب للعبد مالم یعجل، رقم الحدیث:6340)

اور مسلم شریف کی روایت میں اس طرح ہے کہ وہ کہے کہ میں نے دعا کی ، یعنی بار بار کی ، پھر میں نے دیکھا کہ میری دعا قبول نہیں ہو رہی۔ چناں چہ اس نے تھک کر دعا کرنی چھوڑ دی۔ (الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب بیان أنہ یستجاب للداعی مالم یعجل،352/2، قدیمی)

دعا حمد وصلوٰة سے شروع کرنی چاہیے
جب انسان دعا مانگے تو دعا کی ابتداء میں پہلے حمدیعنی الله کی تعریف کرے ، جیسے الحمدلله وغیرہ ، پھرآپ صلی الله پر درود بھیجے اور اس کے بعد جو دعا مانگنا چاہیے، مانگے۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایک دفعہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک آدمی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی اور پھر دعا مانگتے ہوئے کہنے لگا:” اللھم اغفرلی وارحمنی“ اے الله! میری مغفرت فرما اور مجھ پرحم فرما۔

تو آپ صلی الله نے فرمایا:”عجلت ایھا المصلی، اذا صلیت فقعدت فاحمدالله بما ھو اہلہ، وصلِّ علی ثم ادعہ“․

اے نمازی! تونے جلدی کی ، جب تو نماز پڑھے، پھر تو نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے تو الله تعالیٰ کی ایسی تعریف کر، جس کے وہ حق دار ہیں اور مجھ پر درود بھیج، پھر الله سے مانگ۔ ( سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب فی ایجاب الدعاء بتقدیم الحمد والثناء، رقم الحدیث:3476)

اور الترغیب والترہیب میں ہے :ادع تجب یعنی ( جب تو حمد اور مجھ پر درود بھیج دے) تواب دعا کر، قبول کی جائے گی ۔ (الترغیب والترہیب ، کتاب الذکر والدعاء، باب کثرة الدعاء،487/2 ،دار احیاء التراث العربی)

اور مستحب یہ ہے کہ دعا کے درمیان اور آخر میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ ( حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلوٰة، باب صفة الصلوٰة:383/1، رشیدیہ)

دعا یقین اور حضور دل سے مانگنی چاہیے
دعا الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر او ران کی شان کریمی پر اعتماد کرتے ہوئے، قبولیت کے یقین کے ساتھ مانگی جائے تو الله تعالیٰ ضرور قبول فرماتے ہیں، بے یقینی کی دعا بے جان اور بے روح ہوتی ہے، نیز اس میں استغنا کا شائبہ بھی پایا جاتا ہے، جو مقام عبدیت کے منافی ہے۔

اور دوسرا یہ کہ حضور قلب کے ساتھ دعا کی جائے، دعا دراصل وہی ہے، جو دل کی گہرائی سے اور حضور قلب کے ساتھ مانگی جائے، غافل اور بے پروا دل کی دعا بس ضابطہ کی خانہ پری ہوتی ہے، وہ حقیقت میں دعا نہیں ہوتی، اس لیے وہ قبولیت کا شرف حاصل نہیں کرتی۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ادعوا الله وانتم موقنون بالاجابة، واعلموا ان الله لا یستجیب دعا من قلب غافل لاہٍ“․

تم الله تعالیٰ سے دعا کرو، درآں حالیکہ تمہیں قبولیت دعا کا پورا یقین ہو اور جان لو کہ الله تعالیٰ غافل بے پروا دل کی دعا قبول نہیں فرماتے ۔ (سنن الترمذی أبواب الدعوات، باب، رقم الحدیث:3479)

اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لا یقولن احدکم اللھم اغفرلی ان شئت، اللھم ارحمنی ان شئت، لیعزم المسألة، فإن لا مستکرہ لہ “․

جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے ، تو یہ نہ کہے کہ الہی! اگر آپ چاہیں تو مجھے بخش دیں، الہی! اگر آپ چاہیں تو مجھ پر مہربانی فرمائیں، بلکہ چاہیے کہ پختہ ارادے سے مانگے، کیوں کہ الله تعالیٰ پر کوئی زور ڈالنے والا نہیں۔ ( الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب لیعزم المسألة، فإنہ لا مکرہ لہ، رقم الحدیث:6339)

دوسرے مسلمانوں کے لیے دعا کرنی چاہیے
عام حالات میں بھی انسان دوسرے مسلمانوں کے لیے دعا کرے، لیکن اگر دفع مصیبت یا اپنی کوئی حاجت ہے تو اپنے لیے بھی دعا کرے اور اسی چیز کی دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی دعا کرے، اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس کے لیے پھر فرشتہ دعا کرے گا۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایک مسلمان دوسرے غائب مسلمان کے لیے کوئی دعا کرتا ہے تو وہ دعا قبول کی جاتی ہے، اور ایک فرشتہ دعا کرنے والے کے لیے دعا کرتا ہے کہ جو دعا تونے اپنے مسلمان بھائی کے لیے مانگی ہے، الله تعالیٰ تجھے بھی عطا کرے۔(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب الأذکار والدعوات، ابواب الدعاء، باب تاکد حضور القلب فی الدعاء273/14، دارالحدیث)

وہ دعائیں جن کے ذریعے اگر دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے
لا إلہ إلا أنت سبحانک… سے دعا کرنا:آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ذوالنون ( یونس علیہ السلام) کی دعاء جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے:﴿لا إلہٰ إلا انت سبحانک انی کنت من الظالمین﴾․ جو مسلمان بھی اس کے ذریعے الله تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو قبول فرما لیتے ہیں۔ (الفتح الربانی لترتیب مسند الإمام احمد بن حنبل، کتاب الأذکار والدعوات، باب دعوات یستجاب بہا الدعاء،278/14 دارالحدیث)

یا ذاالجلال والاکرام سے دعا کرنا
آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی آیا جو کہہ رہا تھا یا ذالجلال والإکرام․

تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اب الله تعالیٰ سے مانگو! تمہاری دعا قبول کی جائے گی۔(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب الأذکار والدعوات، باب دعوات یستجاب بہا الدعاء، 278/14، دارالحدیث)

یا ارحم الراحمین سے دعا کرنا
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے، جو اس بات پر مقرر ہے کہ جو شخص” ارحم الراحمین تین مرتبہ کہے، تو وہ فرشتہ کہتا ہے کہ بیشک ارحم الراحمین ذات تمہاری طرف متوجہ ہو گئی، پس مانگ (جو مانگنا ہے) ۔( الترغیب والترہیب، کتاب الذکر والدعاء، باب کثرة الدعاء وماجاء فی فضلہ،486/2، دار احیاء التراث العربی)

یا رب، یارب، یارب سے دعا کرنا
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ کہتا ہے یا رب ، یارب، یارب، تو الله تعالیٰ فرماتے ہیں : لبیک عبدی مانگ! تجھے عطا کیا جائے گا۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الذکر والدعاء، باب کثرة الدعاء وماجاء فی فضلہ488/2)

سجدے کی حالت میں دعا
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ سب سے زیادہ نزدیک الله کے ہاں اس وقت ہوتا ہے ، جب وہ سجدے کی حالت میں ہو ، لہٰذا اس وقت کثرت سے دعا کرو۔(الترغیب والترہیب، کتاب الذکر والدعاء، باب کثرة الدعاء وما جاء فی فضلہ،488/2، داراحیاءء التراث العربی)

مسئلہ: بعض لوگ نماز کے بعد سجدے میں چلے جاتے ہیں اور دعا کرتے رہتے ہیں، فقہائے کرام نے نماز کے بعد اس طرح سجدہ کرنے کو مکروہ تحریمی لکھا ہے۔ ( الدر مع الرد، کتاب الصلوٰة، باب الوتر والنوافل، مطلب فی سجدة الشکر،577/1، رشیدیہ)

اور حدیث میں صرف سجدہ، بغیر نماز کے مراد نہیں بلکہ نماز کے اندر سجدے میں ہو۔ یہ مراد ہے۔ (شرح النووی علی الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الصلوٰة، باب مایقال فی الرکوع والسجود:191/1، قدیمی)

اور آپ صلی الله علیہ وسلم جب سجدے میں ہوتے تو یہ دعا فرماتے تھے:”اللھم اغفرلی ذنبی کلہ، دقہ وجلہ، واوّلہ وآخرہ وعلانیتہ وسرہ“․(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الصلوٰة، باب مایقال فی الرکوع والسجود:191/1 ، قدیمی)

مسئلہ: البتہ دوسرے حالات میں، یعنی فرض نماز کے بعد نہیں،بلکہ کوئی اور وقت ہے، تو اس وقت دعا کے لیے صرف سجدہ بھی جائز ہے، مگر اس کا التزام کرنا بدعت ہے۔ (احسن الفتاوی، باب صفة الصلوٰة ومایتعلق بہا،27/3،ایچ، ایم، سعید)

وہ اوقات جن میں دعا قبول ہوتی ہے
سحری کے وقت اور فرض نمازوں کے بعد دعا قبول ہوتی ہے:
آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کہ اے الله کے رسول !” ای الدعاء اسمع؟ قال جوف اللیل الآخر، ودبر الصلوات المکتوبات“․

یعنی کون سے دعا زیادہ سنی جاتی ہے ؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: رات کے آخر کا درمیان اور فرض نمازوں کے بعد۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب، رقم الحدیث:3499)

چناں چہ الله تبارک وتعالیٰ رات کے آخری تہائی حصے میں آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں : ہے کوئی جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟ ہے کوئی جو مجھ سے سوال کرے اور میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اس کی مغفرت کردوں؟ یہاں تک کہ طلوع فجر ہو جاتی ہے۔(الفتح الربانی، کتاب الأذکار والدعوات، باب ماجاء فی اوقات یستجاب فیھا الدعاء277/14، دارالحدیث)

فرض نمازوں کے بعد لمبی دعاؤں اور اوراد وغیرہ پڑھنے کا حکم
فرض نمازوں کے بعد دعائیں قبول ہوتی ہیں، لیکن اس میں ایک بات کا خیال رہے کہ وہ نمازیں جن کے بعد سنت مؤکدہ نہیں، جیسے فجر، عصر ان نمازوں کے بعد کافی دیر تک دعائیں اور اوارد پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

لیکن وہ نمازیں جن کے بعد سنت مؤکدہ ہیں، جیسے ظہر، مغرب اور عشاء توان نمازوں کے بعد سنتیں متصل پڑھنا مسنون ہے، ان نمازوں کے بعد سنت پڑھنے سے پہلے ،زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے کو فقہائے کرام نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔(بدائع الصنائع، کتاب الصلوٰة، فصل فیما یستحب للامام أن یفعلہ،680/1، دارالکتب،حاشیہ ابن عابدین، کتاب الصلوٰة، باب صفة الصلوٰة531/1، سعید،الحلبی الکبیر، کتاب الصلوٰة، وأما بیان صفة الصلوٰة،341، سہیل اکیڈیمی)

صاحب فتح القدیر رحمہ الله تعالیٰ نے اس مسئلے کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، چناں چہ فرماتے ہیں :” الحاصل انہ لم یثبت عن النبي صلی الله علیہ وسلم الفصل بالاذکار التی یواظب علیہا فی المساجد فی عصرنا من قراء ة آیة الکرسی والتسبیحات وأخواتھا ثلاثاً وثلاثین وغیرہ“․ (فتح القدیر، کتاب الصلوٰة، باب النوافل،457/1، رشیدیہ)

حاصل یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے ان اذکار کے ساتھ فرض اور سنتوں کے درمیان فصل ثابت نہیں، جو ہمارے زمانے میں لوگ کرتے ہیں ، آیة الکرسی اور تسبیحات فاطمی وغیرہ۔

آپ صلی الله علیہ وسلم فرض نمازوں کے بعد کتنی دیر بیٹھتے تھے؟
آپ صلی الله علیہ وسلم فرض نمازوں کے بعد کتنی دیر بیٹھتے تھے؟ اس بارے میں صریح روایت موجود ہے۔

چناں چہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی الله عنہما کی صریح روایت موجود ہے ، فرماتی ہیں:”کان النبی صلی الله علیہ وسلم إذا سلم لم یقعد الا مقدار مایقول: اللھم انت السلام، ومنک السلام، تبارکت یا ذالجلال والاکرام“․(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلوٰة،218/1، قدیمی)

یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم:”اللھم أنت السلام…“ اس دعا، یا اس دعا کے بقدر کوئی اور دعا پڑھنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اتنی مقدار سلام پھیرنے کے بعد بیٹھتے تھے۔

باقی اس مقدار سے زیادہ جو اوراد دعائیں وغیرہ منقول ہیں فرض نمازوں کے بعد، تو اس بارے میں صاحب فتح القدیر رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:” فاما مایکون زیادة غیر مقاربة مثل العدد السابق من التسبیحات والتحمیدات والتکبیرات فینبغی استنان تاخیرہ من السنة البتة“․ (فتح القدیر، کتاب الصلوٰة باب النوافل:457/1، رشیدیہ)

یعنی وہ سب اورادوغیرہ سنتوں سے مؤخر کیے جائیں گے۔ اور جو دعاؤں کی قبولیت کی فضیلت فرض نمازوں کے بعد آئی ہے وہی فضیلت سنتوں کے بعد برقرار رہے گی او رایسے شمار ہو گا،جیسے فرض کے بعد دعا مانگ رہا ہے۔ (فتح القدیر456/1)

البتہ علامہ حلوانی رحمہ الله تعالیٰ کا قول یہ ہے ، فرماتے ہیں :”لا باس بان یقرا بین الفریضة والسنة الأوارد“․ (فتح القدیر:457/1)

یعنی فرض اور سنتوں کے مابین اوراد پڑھنے میں کوئی حرج نہیں
اس پر صاحب فتح القدیر فرماتے ہیں کہ کلمة لابأس خلاف أولی کے لیے استعمال ہوتا ہے او راس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اولی یہ ہے کہ سنت سے پہلے اورادنہ پڑھے جائیں۔ (فتح القدیر:457/1)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ الله تعالیٰ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں جس فرض نماز کے بعد سنت نماز بھی ہے، جیسے ظہر ، مغرب، عشاء، اس کے بعد مختصر دعا کرکے سنت میں مشغول ہو جائے۔ (فتاوی محمودیہ،683/5)

اور سنتوں میں اصل یہ ہے کہ گھر میں پڑھی جائیں اور مسجد سے گھر جانا یہ فرض اور سنتوں کے درمیان فصل شمار نہ ہو گا، البتہ گھر جاتے ہوئے کسی اور کام یا کسی سے باتوں میں مشغول نہ ہو۔ (فتح القدیر456/1)

جمعہ کے دن بھی دعا قبول ہوتی ہے
جمعہ کے دن بھی ایک مقبول ساعت ہوتی ہے، جس میں دعا قبول ہوتی ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جس میں مسلمان کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور بھلائی کی دعا کرے تو ضرور قبول ہوتی ہے ۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء فی الساعة التی فی یوم الجمعہ، رقم الحدیث:6400)

یہ کون سی ساعت ہے اس بارے میں 42 اقوال ہیں، لیکن ان میں سب سے اصح دو قول ہیں۔

ایک قول یہ ہے کہ جب امام خطبہ دینے کے لیے منبر پر بیٹھے، اس وقت سے نماز ختم ہونے تک کا وقت۔

لیکن اس وقت میں زبان سے دعا نہ کرے، بلکہ دل میں دعا کرے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ساعت جمعہ کے دن کا آخری حصہ ہے۔ (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الصلوٰة، باب الجمعة609/1، رشیدیہ)

حالت سفر میں بھی دعا قبول ہوتی ہے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمیوں کی دعائیں قبول کی ہوئی ہیں، ان میں سے ایک مسافر کی دعا ہے۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب ماذکر فی دعوة المسافر، رقم الحدیث:3448)

افطار کے وقت بھی دعا قبول ہوتی ہے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن کی دعا رد نہیں کی جاتی ، ان میں ایک روزہ دار کی دعا جس وقت وہ روزہ افطار کرے۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3618)

شب قدر میں بھی دعا قبول ہوتی ہے
شب قدر کی رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یہ بھی بہت فضیلت کی رات ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من صام رمضان ایماناً واحتساباً غفرلہ ماتقدم من ذنبہ، ومن قام لیلة القدر إیماناً واحتساباً غفرلہ ماتقدم من ذنبہ“․

جس نے ایمان کے ساتھ، ثواب کی نیت سے، رمضان کے روزے رکھے ،اس کے اگلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور جو شب قدر میں ایمان کے ساتھ، ثواب کی نیت سے، عبادت کے لیے کھڑا ہو، تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الصوم، باب فضل لیلة القدر، رقم الحدیث:2014)

اذان واقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی
اذان ہونے کے بعد جماعت کھڑی ہونے تک کا جو وقت ہوتا ہے، یہ وقت بھی قبولیت کا وقت ہوتا ہے اور اس وقت میں بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”الدعاء لایرد بین الاذان والإقامة فادعوا“․

یعنی اذان واقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی ، پس (اس وقت) دعا مانگو۔ (مسند أبی یعلی الموصلی، برید بن أبی مریم عن أنس، رقم الحدیث:3667)

دعا کی قبولیت کے لیے حرام مال سے اجتناب
دعا کی قبولیت کے لیے حرام مال سے اجتناب بہت ضروری ہے، آج مسلمانوں کا وہ طبقہ جو دین دار ہے بے دینوں کی بات نہیں، وہ تو ہیں ہی دین سے آزاد، لیکن جو دین دار ہیں، ان کا سارا ذوق وشوق نماز، روزے، اذکار میں نظر آتا ہے، لیکن جہاں مال کا معاملہ ہوتا ہے تو آنکھیں بند ہو جاتی ہیں، وہاں پر (نعوذ بالله) ہمیں دین کی راہ نمائی کی ضرورت نہیں ، کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم جو خرید وفروخت یا کسی قسم کی لین دین کا معاملہ کر رہے ہیں وہ شریعت کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں؟ (جاری)

Flag Counter